اللہ رب العزت نے جن بیش بہا نعمتوں سے انسان کو نوازہ ان
میں پانی کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اس کے بارے میں فرمایا ’’وہ جس نے پانی سے
انسان کو پیدا کیا‘‘۔خالقِ کائنات اپنی کتاب میں دعوتِ فکر و تدبر اس طرح
دیتا ہے کہ ’’اور وہی ہے جس نے یہ زمین پھیلا رکھی ہے، اس میں پہاڑوں کے
کھو نٹے گاڑ رکھے ہیں اور دریا بہا دئیے ہیں اُسی نے ہر طرح کے پھلوں کے
جوڑے پیدا کیے ہیں، اور وہی دن پر رات طاری کرتا ہے ان ساری چیزوں میں بڑی
نشانیاں ہیں اُن لوگوں کے لیے جو غور و فکر سے کام لیتے ہیں‘‘۔ دنیا کی دس
سب سے طویل دریاوں میں گنگا کا شمار نہیں ہوتا بلکہ مصر کی نیل پہلے نمبرپر
ہے اور ایشیا میں بھی چین کی یانگزی پہلے مقام پر ہے لیکن دنیا کی سب سے
آلودہ دریاوں کی فہرست میں گنگا کادوسرا اور جمنا کا پانچواں نمبرہے۔ فی
زمانہ جو حال ہندوستان کی گنگا جمنی تہذیب کا ہے وہی در گت ان نام نہاد
مقدس ندیوں کی بھی ہے۔ ان کی حالت زار دیکھ کر یہ عقدہ بھی کھل جاتا ہے کہ
ان کی تیسری بہن زمین کی تہہ میں کیوں چلی گئی ؟ اس طرح آلودہ ہونے پر اس
پڑھی لکھی ندی نے چلو بھر زمین میں ڈوب کرمرنا گوارہ کرلیا۔
گنگا جمنا کا اصل مسئلہ ان کےساتھ وابستہ غیر ضروری تقدس ہے۔ اس کا اعتراف
معروف رام بھکتن اور آبی وسائل کی وزیر سادھوی اوما بھارتی نے ازخودکیا۔
انہوں نے ایوان پارلیمان کو بتایا کہ یہ کوئی ٹھیمس یا رائن جیسی ندیوں کا
معاملہ نہیں ہے کہ جن میں لوگ غوطہ نہیں لگاتے بلکہ گنگا میں ہر روز ۲۰
لاکھ اور ہرسال ۶۰ کروڈ لوگ ڈبکی لگاتے ہیں ۔ گنگا میں اتنے سارے لوگ اپنا
پاپ دھونے کے لیے نہاتے ہیں اس لیے اس کے آلودہ میں کسی شک و شبہ کی
گنجائش نہیں ہے حالانکہ کسی ندی میں نہا لینے سے کیا کسی کا گناہ معاف
ہوسکتا ہے؟ اس سوال پر غور کرنے کی توفیق کسی اندھے بھکت کو نہیں ہوتی ۔
سادھوی اوما بھارتی کا خیال ہے کہ گنگا صرف پاپیوں کے پاپ دھوتے دھوتے میلی
ہوگئی لیکن یہ بات غلط ہے ۔ شاید وہ نہیں جانتیں کہ جن لوگوں کے پاس اپنے
اعزہ و اقارب کی لاشوں کا انتم سنسکار کرنے کے لیے روپیہ کوڑی نہیں ہوتا۔
جو بیچارے سیکڑوں روپیوں کی لکڑی کا پربندھ نہیں کرپاتے وہ مجبوراً ان بے
کس و لاچار لاشوں کو گنگا میں بہا دیتے ہیں ۔ اس طرح سال بھر میں نہ جانے
کتنی لاشیں اس پوتر ندی کی نذر کردی جاتی ہیں ۔یعنی زندہ اور مردہ دونوں اس
ندی کوآلودہ کرتے ہیں۔ نہ جانے کیا سوچ کر غالب نے یہ خواہش ظاہر کی تھی ؎
ہوئے ہم جو مرمے رسوا ، ہوئے کیوں نہ غرقِ دریا
نہ کہیں جنازہ اٹھتا ، نہ کوئی مزار ہوتا
گنگا کی آلودگی میں گٹر کے گندے پانی کا بھی بڑا حصہ ہے۔ ایک تحقیق کے
مطابق ہرروز سو کروڈ لیٹر گٹر کا پانی پوترگنگا میں بہا دیا جاتا ہے ۔ اسی
لیے ۱۹۸۵ سے گنگا کی صفائی کے لیے کی جانے والی ساری کوششیں ناکام ہوچکی
ہیں۔ ایک طرف صفائی کی جارہی ہے دوسری طرف گندگی پھیلائی جارہی ہے۔ جب تک
اس آلودہ پانی کو صاف کرنے کا مسئلہ حل نہیں ہوجاتا ہے گنگا کو پاک کرنے
کی مہم کامیاب نہیں ہوسکتی لیکن ایسا لگتا ہے کہ حکومت نے مولانا وحیدالدین
خاں صاحب کے مشورے پر عمل کرنے کی ٹھان لی ہے ۔ مولانا نے الرسالہ کے اگست
شمارے میں سرِ ورق پر اپنی یہ ہدایت فرمادی کہ ’’ عقلمند وہ ہے جو مسائل کو
بھلا کر اپنی ساری طاقت مواقع کو استعمال کرنے میں لگائے ‘‘۔ حکومت وقت نے
آلودہ پانی کے گنگا میں شامل ہونے کے سنگین مسئلہ کو پوری طرح سے بھلا دیا
ہے اور اپنی ساری توجہ گنگا کی صفائی پر رقم خرچ کرنے اور اس سے حاصل ہونے
والے بدعنوانی کے مواقع پر لگا دی ہے۔ مودی سرکار نے جون ۲۰۰۴ میں گنگا کی
صفائی کے لیے ۲۰۰۰۰ہزار کروڈ روپئے مختص کئے تھے لیکن کون جانے اس میں سے
کتنے گنگا پر خرچ ہوئے اور کتنے بدعنوانی کے گندے نالے میں بہہ گئے ؟
سماجوادی رکن پارلیماننریش اگروال کے مطابق گزشتہ ۳سالوں میں کوئی کام نہیں
ہوا ۔
اوما بھارتی نے اپنی مشکلات کا ذکر کرتے ہوئے یہ بھی بتایا کہ گنگا ایکٹ
بنانے میں یا کوئی بھی بڑا فیصلہ کرنے سے قبلانہیں عدالت سے اجازت لینی
پڑتی ہے۔ اس کے علاوہ اور بھی مسا ئل ہیں مثلاً عوام تو عوام خواص تک کے
عادات و اطوار اور ضبط نفس کا معاملہ ۔ پچھلے دنوں یوپی میں گنگا کی صفائی
کے وزیردھرم پال کے سامنے بی جے پی کی رکن پارلیمان پرینکا راوت نے پانی کی
بوتل کھلے عام گنگا میں اچھال دی اور صحافیوں کے استفسار پر صاف مکر گئیں
حالانکہ ان کی تصویر کیمرے میں قید ہوچکی تھی۔ ایسے میں بیچاری گنگا پوتر
ہوگی بھی تو کیسے ؟ گنگا کی صاف کرنے کے لیے اس کا تقدس قائم کرنے کے بجائے
بیجا تقدس کو ختم کرکے اس کی اصل حیثیت کو تسلیم کرنے کی ضرورت ہے ۔ ارشادِ
ربانی ہے ’’اور وہ کون ہے جس نے زمین کو جائے قرار بنایا اور اس کے اندر
دریا رواں کیے‘‘۔ جس خالق کائنات نے اس عظیم نعمت سے حضرت انسان کو نوازہ
ہے جب تک کہ اس مالک حقیقی کے آگے جوابدہی کا احساس نہیں پیدا ہوگا یہ
مسئلہ دن بہ دن سنگین ہوتا چلا جائیگا۔
فرمانِ خداوندی ہے ’’کیا تم نہیں دیکھتے کہ اللہ نے آسمان سے پانی برسایا،
پھر اس کو سوتوں اور چشموں اور دریاؤں کی شکل میں زمین کے اندر جاری کیا،
پھر اس پانی کے ذریعہ سے وہ طرح طرح کی کھیتیاں نکالتا ہے جن کی قسمیں
مختلف ہیں، پھر وہ کھیتیاں پک کر سوکھ جاتی ہیں، پھر تم دیکھتے ہو کہ وہ
زرد پڑ گئیں، پھر آخرکار اللہ اُن کو بھس بنا دیتا ہے در حقیقت اِس میں ایک
سبق ہے عقل رکھنے والوں کے لیے‘‘۔ سبق یہ ہے کہ انسان اس حقیقت کو نہ بھولے
کہ اسے ان میں سے ایک ایک نعمت کا حساب دینا ہے اس لئے کہ خالق کائنات
فرماتا ہے’’پھر تم سے ضرور بالضرور پوچھ ہونی ہے اس دن ان نعمتوں کے بارے
میں‘‘۔نبی کریم ؐ نے ایک مثال کے ذریعہ اس آیت کی گویا تفسیر بیان
فرمادی’’عبداللہ بن عمرو بن العاص ؓسے روایت ہے کہ ایک مرتبہ سرکار دو عالم
ؐ کا گزر حضرت سعد ؓ پر ہوا جب کہ وہ وضو کر رہے تھے (اور وضومیں اسراف کر
رہے تھے) آپ ؐ نے (یہ دیکھ کر) فرمایا " اے سعد! یہ کیا اسراف (زیادتی ہے)؟
" حضرت سعد ؓ نے عرض کیا کہ کیا وضو میں بھی اسراف ہے؟ آپ ؐ نے فرمایا "
ہاں! اگرچہ تم نہر جاری ہی پر (کیوں نہ وضو کر رہے) ہو" ۔ جو دینِ حنیف
بہتے چشمے کا پانی وضوتک کے لیے ضائع کرنے کی اجازت نہیں دیتا اس لیے کہ اس
پر آگے والوں کا حق ہےوہ بھلا دریاکو آلودہ کرنے کی اجازت کیسے دے سکتا
ہے؟ اس قانون فطرت کو اپنائے بغیر لاکھ قانون بنالو اور کروڈہا کروڈ خرچ
کردو گنگا میلی کی میلی ہی رہے گی ۔
|