وطن کی مٹی گواہ رہنا

اس بات پر فخر ہے کہ میں نے اس مٹی میں جنم لیا اور میرے وطن کی مٹی نے مجھے اپنی آغوش میں لیا۔ صرف مجھے ہی نہیں ہر اس شخص کو فخر ہو گا جسکی سانسوں میں اس مٹی کی خوشبو مہک رہی ہے کیونکہ گزرے ہوئے کئی زمانے اس مٹی کی عظمت کے گواہ ہیں۔
اب اس عظیم مٹی کو عظیم تر ہم نے بنانا ہے اس مٹی کے ایک ایک ذرے کو دھمکانا ہے اس کے ایک ایک گوشے کو چمکانا ہے اس میں گڑھے ہوئے پرچم کو بلند سے بلند تر کرنا ہے اور یہ سب ہمیں خود کرنا ہے ہمیں کسی غیر سے مدد نہیں لینی۔ ہمیں اپنے بازوؤں میں طاقت پیدا کرنا ہوں گی۔
مہرتاباں سے جاکے کہ دو کہ اپنی کرنیں سنبھال رکھے
میں اپنے صحرا کے ذرے ذرے کو خود دھمکنا سکھا رہا ہوں
’’وطن کو مٹی گواہ رہنا‘‘ کہ ہمارا پور پور تمھاری محبت سے سرشار ہے ہماری نس نس میں تمھارا پیار ہے ہمارے ذہنوں میں تمھاری فکر ہے ہماری سوچوں میں تمھارا خوبصورت ’’ماضی‘‘ پریشان کن ’’ حال‘‘ اور بہترین ’’مستقبل‘‘ ہے کیونکہ
وطن کی مٹی عظیم ہے تو
عظیم تر ہم بنا رہے ہیں
مجھے ان لوگوں کی سوچ پر حد درجہ افسوس ہے جنھیں اس بات پر افسوس ہے کہ انھوں نے اس مٹی میں جنم کیوں لیا۔ اس عظیم مٹی کی قسم انھیں اس مٹی میں جینے کا حق نہیں۔ یہ لوگ اس مٹی کے احسانوں تلے دبے ہوئے ہیں۔ اور اس کا کتنا ہیفرض رکھتے ہیں انھیں اپنی جانوں پر!
خدا جانے کیسے لوگ ہیں جو اپنے فرائض سے اس قدر نا آشنا بنے بیٹھے ہیں کہ اپنے قول و افعال کو دیکھے بغیر اسی متی کو دوش دیے جا رہے ہیں۔ یہ وطن کے پاسبان نہیں ہیں ۔ وطن کے پاسبان تو وہ ہیں جو وطن کی مٹی کی حرمت کیلئے اپنی جان کی بازی لگا دیتے ہیں اور عیدیں‘شب برات‘ شب معراج‘ کوئی تہوار گھر والوں کے ساتھ نہیں منا سکتے بلکہ وطن کی خاطر یہ خوشیوں کے موقعے گھر کے بجائے جنگی میدانوں میں گزار دیتے ہیں نئے خوبصورت کپڑوں کی بجائے یونیفارم پہنتے ہیں۔ اللہ تعالی ان کی قربانیوں کے صدقے وطن کو عزت بخشے (آمین)
اس وطن سے محبت کرنے والا ہر فرد یہ کہتا ہے کہ
وطن کی مٹی عظیم ہے تو
عظیم تر ہم بنا رہے ہیں
وطن کی محبت رکھنے والے ہر شخص کو اپنے وطن کی حرمت بے حد عزیز اور اسکی مٹی سے دل وابستگی ہوتی ہے اگرچہ اب سر زمین پاکستان پر کھٹن حالات نے ڈیرہ ڈال لیا ہے لیکن اس وطن کی محبت ہمارے دلوں میں لوگوں میں سرایت کر چکی ہے اب اس کی خاطر اگر جان بھی چلی جائے تو پروا نہیں۔
اس کی مکمل مثال ہمارے فوجی وردی میں ملبوس نوجوان ہیں جو خود کو سر تا پا (پیر) وطن کیلئے پیش کر دیتے ہیں۔ کبھی مورچوں پہ کھڑے ہو کر مقابلہ کرتے ہیں تو کبھی قطار در قطار دشمن کی طرف ایسے بڑھتے ہیں جیسے انھیں کہ رہے ہوں کہ
ہم نے روندا ہے بیابانوں کو صحراؤں کو
ہم جو بڑھتے ہیں تو بڑھتے ہی چلے جاتے ہیں۔
ان کی اس طرح وطن سے محبت ‘ہمت‘ جرائت کو سلام
انکو دیکھ کر واقعتاً وطن کی خاطر مر مٹنے کو جی چاہتا ہے ۔ خدا کرے میرے خون کا ایک ایک قطرہ اس مٹی کی حرمت کی خاطر بہہ جائے۔ خدا کرے کہ ہم سب اپنا اپنا قرض چکا سکیں ۔ ورنہ کل محشر میں اپنا قرض ادا کرنے کیلئے ہمارے کشکول میں کچھ نہ ہو گا۔
آج ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم سب مل کر اس وطن کی سلامتی و بقا کیلئے اپنی تمام تر کوششیں بروئے کار لائیں۔اللہ تعالی ملک پاکستان کواپنی حفظ وایمان میں رکھے (آمین)
 

Samreen Nasarullah
About the Author: Samreen Nasarullah Read More Articles by Samreen Nasarullah: 18 Articles with 33509 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.