سابق نا اہل وزیرِاعظم سے کچھ سوالات ۔

یہ کیسا شہید ہے جو سابق نا اہل وزیرِاعظم کے اپنے ہی سکواڈ کی گاڑی سے ٹکرایا اور مر گیا اور اسے نااہل وزیرِاعظم جدوجہد کا پہلا شہید کہہ رہیں ہیں آخر شہادت کا آغاز عوام سے ہی کیوں ؟

اسلامی جھموریہ پاکستان جسکی عدلیہ نے نوازشریف کو ”نااہل“قرار دیا گزشتہ کئی روز سے ”آخر میرا قصور کیا تھا“ کا راگ گا کر پوری عوام کو پاگل بنا رہے ہیں اسلام آباد سے لاہور تک کا سفر زیادہ سے زیادہ بھی چھ گھنٹے میں پورا ہوجاتا ہے مگر ہمارے ملک کے سابق نااہل وزیرِ اعظم جو ریلی نکال کراس سفر کے زریعے عوام کی ہمدردی بٹورنا چاہتے تھے کہیں سکون نہیں کر رہے ایک حد تک تو انہوں نے اپنے دل کی تسکین پوری کر ہی لی ہے اپنی ناخواندہ عوام کا ساتھ پا کر ”شیر آیا شیرآیا“ کے نعارے لگواکر مگر افسوس کہ اسی شیر کے نعاروں نےانکے ہی ”سفر نامی ریلی“ میں 12سالہ بچے”حامد“کی جان لے لی جو کہ انکے ہی اسکواڈ کی گاڑی سے جانوروں کی طرح کچلا گیا اور موقع پر ہی جان بحق ہو گیا اسکے باپ کو اس کی موت پر دل کا دورہ پڑا ماں اور اہلِ خانہ صدمے سے نڈھال ہو گئے ۔
دیکھنے میں آیا کہ عوام کے روکنے پر وہ تیز رفتار گاڑیاں رکیں اور تب حامد کو وہ اٹھا پائے ۔
ورثاء نے حامد کے مرنے پر احتجاج کیا روڈ بلاک کر دیا ٹائر جلائے اور ”گو نواز گو نواز“ کے نعارے لگائے۔ صرف اتنا ہی نہیں اس ”خونی ریلی“ کی وجہ سے ایک 55سالہ ”خالد“ نامی شخص بھی موت کے گھاٹ اتر گیا۔
اس ریلی کی وجہ سے عوام شدید مشکلات کا شکار ہوئے ۔
مریض جو اسپتال جانا چاہتے تھے اس ریلی کی وجہ سے علاج سے محروم رہے۔
ایک بچہ جو ایمبولنس میں سسک سسک کر سانس لیتا رہا خود کو ”شیر “کہنے والوں کی ریلی میں بے یار و مدد گار کسی چاہنے والے کی گود میں سانس آسانی سے نہ نکلنے کے باعث جھٹکے کھاتا رہا لیکن اس رش سے بروقت نکل نہ سکا
روزی روٹی کی تلاش میں جو غریب ریڑھیاں لگاتے تھے انتظامیہ نے وہ الٹا دیں
دکانداروں کی دکانیں بند رہیں اسکولز سے بچوں کی چھٹی کروائی گئی
ایک سابق نااہل وزیرِاعظم کے لئے جی۔ٹی روڈ ہی بندرہا جس سے عوام کا آنا جانا بری طرح متاثر ہوا ۔
اور اس ”ریلی نما سفر“میں مزید چھ افراد حادثات کا شکار ہوئے ۔
میں بزاتِ پاکستانی اور جھموریت کا حق رکھتے ہوئے اس ملک کے سابق نااہل وزیرِ اعظم صاحب سے ایک سوال پوچھنا چاہتی ہوں کہ آخر یہ واویلا یہ شور شراباکس کے لئے ہے؟
اس وقت اب جب آپ کوئی اختیارات نہیں رکھتے۔۔۔۔۔ نہ رکھنے کے باوجود بھی دڑھلے سے آگے آگے ہیں سوائے عدلیہ کوبرا بھلا کہنے کے اب آپ کے پاس اور کچھ ہے؟ ۔

میں نے انکے جلسے میں سنا جہاں وہ یہ کہہ رہے تھے کہ ”ججوں نے اقتدار سے نکال دیا عوام کے دلوں سے نہیں نکال سکے کڑوڑوں لوگوں کے وزیرِاعظم کو پانچ ججوں نے نکال دیا ایک عدلیہ کا فیصلہ ہے ایک عوام کا فیصلہ ہے جو پلان میرا ہےکیا اب آپ اس میں میرا ساتھ دیں گے؟“
میں حیران ہوں کہ یہ کیسے دو مختلف بیانات ہیں کہ پہلے نا اہل سابق وزیرِ اعظم اور انکی پارٹی کہتی تھی کہ عدلیہ کا فیصلہ سر آنکھوں پر اور فیصلہ آنے کے بعد انہوں نے عدلیہ پر وار کرنا شروع کر دئیے اور پارٹی نیا وزیرِاعظم چننے کے باوجود آپکو ہی وزیرِاعظم کہہ رہی ہے بے حد افسوس۔۔۔!
اور جلسے میں بار بار آپکا سوال کہ ”کیا یہ فیصلہ آپ کو منظور ہے؟“ کچھ سمجھ نہیں آیا
ایک وزیرِاعظم جو اقتدار میں رہ چکا ہو کیا اسکا فرض عوام کو منتشر کرنا ہے ؟
اپنے ہی ملک میں اپنے ہی قوانین کے خلاف بغاوت پر اکسانا ہے؟
ایک وزیرِاعظم جو ملک کے آئین کا پاس رکھتا ہے جو قانون کی خلاف ورزی بڑی سزا سمجھتا ہے نا اہل ہونے کے باوجود وہ ہی جب عوام کو پیچھےلگائے گا تو ملک کا کیا ہوگا؟
میرے حساب سے اسطرح کا بیان تو عوام کا بٹوارہ ہے قانون کی دھچیاں اڑانا ہے عوام کو قانون کے سامنے لا کھڑا کرنا ہے اس کے علاوہ اور کچھ نہیں۔
سابق نا اہل وزیرِ اعظم کا کہنا تھا کہ ”پاکستان ترقی کر رہا تھا یہ کچھ لوگوں کو ہضم نہیں ہوا اسی لئے مجھے نا اہل قرار دیا گیا “ لیکن افسوس کے ساتھ سابق نااہل وزیرِاعظم صاحب میرے وطن کے سرکاری ہسپتالوں میں مریضوں کے لئے ایکسٹرا بیٹ موجود نہیں جسکی وجہ سے وہ گھر سے چارپائیاں ہسپتال لانے پر مجبور ہو گئے ۔
سرکاری ہسپتالوں میں جدید آلات تو کیا شائدجان بچانے کو وینٹی لیٹر بھی دستیاب نہ ہو ۔
میرے ملک کے سرکاری سکولز کی حالت غیر ہے جہاں طلبہ کے لئے بیٹھنے کو بینچ یا کرسیاں نہیں ملتیں چلیں کرسیاں تو دور کی بات سر ڈھکنے کو وہاں چھتیں ہی نہیں لکھنے کو تختہ نہیں استاتزہ کا اتہ پتہ نہیں ۔
جگہ جگہ وطن کی گلیوں میں کوڑے کے ڈھیر لگے ہوئے ہیں گندے بدبودار آلو نالے موجود ہیں پینے کو صاف پانی موجود نہیں کھانے کو اشیاء نہیں ملتیں لوگ بے تحاشہ بیماریوں کا شکار ہو رہے ہیں طرح طرح کی وبائیں پھوٹ رہی ہیں جسکا علاج ایک غریب کے بس کی بات نہیں اور اسی کی وجہ سے آپکی عوام مر رہی ہے۔
میرے وطن میں مہنگائی کا دور دورہ ہے جب ”بھوک“غریب کو ستاتی ہے تو وہ چوری کرتا ہے ڈاکا ڈالتا ہے حرام کماتا ہے اور کچھ بھوک کی وجہ سے خود کو آگ لگاتے ہیں اور جل کر مر جاتے ہیں اور کچھ تو ”بچے برائے فروخت “کا تختہ لگا کر سڑک پر بیٹھے رہتے ہیں ۔
میرے وطنِ عزیز میں لوگوں کو انصاف نہیں مل رہا لوگ انصاف کے چکر میں احتجاج کرتے ہیں جسکی وجہ سے آپ جسکو اپنی عوام کہتے ہیں ان میں نفرت غصہ اور ایسی آگ لگتی جا رہی ہے جسے بجھانا آپکا کام تھا ۔
میرے وطن کے لوگوں کو بے راہروی مار چکی ہے
میرے وطن میں ہر وہ کام کیا جا رہا ہے جو اسلام کے خلاف ہے اسلام سے ہٹ کر ہے سب سے بڑی بات آپکی عوام جنکا آپ ”ساتھ“ مانگ رہے ہیں انہی کے بچوں کے ساتھ آپکی ہی عوام کا ایک طبقہ زیادتیاں کرتے ہوئے نازیبہ ویڈیوز بنا کر والدین کو بلیک میل کر رہے ہیں اور کچھ اسکے بعد انکو قتل کر کے انکی لاشیں گھروں میں پہنچا رہے ہیں ۔
اور ابھی یہ وطن ترقی کر رہا ہے ؟
افسوس ۔۔۔۔۔
میرے سابق نا اہل وزیرِاعظم صاحب ! اور کچھ نہیں تو جو بے حسی کا واقعہ ابھی کل ہی آپکی ریلی کی وجہ سے ”حامد“ کی موت کی شکل میں پیش آیا جو آپکے اپنے سکواڈ کی گاڑی سے کچل کر مر گیا اسکا کیا قصور تھا ؟
آپ تو اپنی جان بچانے کے لئے بختر بند ٹھنڈی گاڑی میں موجود تھے تو عوام کی بختر بند گاڑیاں کہاں ہیں ؟
کیا یہ سیکیورٹی بس حکمرانوں کے لئے ہے؟
وہ بھی جو ”نااہل“ہو گئے ہوں ؟
ایمبولینس جو ”ایمرجنسی امداد“ کی علامت ہےآپکی ریلی میں تو وہ تک نکل نہیں سکتیں تھیں تو پھر کس عوام سے خطاب تھا آپکا؟ کس عوام کا ساتھ آپ مانگ رہے تھے آئندہ آنے والے دنوں میں؟
وہ ایک غریب ماں باپ کا بچہ جب آپکے سکواڈ کی گاڑی سے کچل کر مرگیا اس ”قتل“ کو آپ نے ”شہید“ قرار دے دیا بقول آپکے ”آپکی جدوجہد کا یہ پہلا شہید ہے“ معزرت کے ساتھ سابق وزیرِاعظم صاحب آپ کوتو سیاست میں 30سال سے اوپر ہو چکے ہیں تب سے لے کر اب تک تو کوئی اور اس جدوجہد میں شہید نہیں ہوا پھر حامد ہی کیوں وہ پہلا شہید تھا جو شہید بھی آپکی ہی ریلی میں آپکے اپنے سکواڈ کی غلطی کے باعث ہوا ؟
یہ شہدا کا آغاز عوام سے کیوں ؟
اسکے والدین سے تو پوچھا ہوتا
کیا انہیں یہ شہادت قبول ہے ؟
آپ کا اعلان سنا جو اس کے گھر جا کر امداد کا تھا لیکن اب کیا فائدہ کیا ایسے حامد واپس آ جائے گا ؟
کیااسکی جگہ ان غریبوں کے گھر جانے سے پر ہو جائے گی؟
افسوس ۔۔۔۔۔۔
بے تحاشہ افسوس۔۔۔۔!

میرے حساب سے یہ تاریخ کی سب سے بد ترین ریلی تھی جس میں ایک ماں کا تڑپتا دل اور سسکتی آہیں لڑکھڑاتی زبان نوحہ کرتی ہوئی ذات آپکا نام لے کر آپکو ”بد دعائیں“ دیتی رہی بیٹے کی لاش دیکھ کر مرتی رہی کس منتوں سے مانگا ہو گا اس نے اپنا بیٹا ؟ جو آپکے سکواڈ کی ذرا سی غلطی کی وجہ سے ہمیشہ کے لئے منوں مٹی تلے دب گیا ۔۔۔۔ اب ہم کچھ بھی کر لیں اس ماں کا لختِ جگر واپس نہیں لوٹا سکتے اسکا درد کبھی نہیں بانٹ سکتے ۔
حکمران غریب کے کس کام کے ؟
مسلمان ہونے کے ناطے مجھے حضرت عمر ابنِ خطاب رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ کا دور یاد آگیا جنکا تخت بڑا گھر نہیں تھا جائیدادیں نہیں تھیں بلکہ مسجدِ نبویﷺ کی چٹائی ان کا تخت تھا جو سارا دن لوگوں کے مسائل سنتے اور رات میں بھیس بدل کے عوام کا پتہ لینے نکل جاتے آپ تو حامد کی موت پر گاڑی سے بھی نہ اتر پائے ۔
عمر ابنِ خطاب کہا کرتے تھے کہ دجلا کے کنارے ایک بکری کا بچہ بھی پیاسا مر گیا تو اسکا بھی سوال مجھ سے ہوگا اور آپکے وطن میں لوگ ”بھوک“ کی وجہ سے خودکشیاں کرتے ہیں کیا یہ سوال آپ سے نہ ہوگا؟
یہ وہ عمررضی اللّٰہ تعالٰی عنہ تھے جو تئیس لاکھ مربع میل کے حکمران تھے جو آدھی دنیا بنتی ہے اور ہمارے حکمرانوں کے حصے میں تو ایک ایک ملک نصیب سے آیا اور انہوں نے اس کے عوام بھی رلا دئیے ۔
میں نے جب سے ہوش سنبھالا ہے صرف ووٹ لینے کی غرض سے ان حکمرانوں کو عوام سے ہمدردی جتلاتے دیکھا ہے اس کے علاوہ مزید اورکچھ نہیں ۔
عوام کا کوئی مسیحا نہیں!

ویسے تو تاریخ میرے آئیڈئیل اسلامی حکمرانوں سے بھری پڑی ہے جو رسول ﷺ کے اصحابہ کرام رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ تھے جنکے پیروں کی ہم سب دھول بھی نہیں مگر ہمیں حکم ہے کہ انہیں فولو کریں رسول ﷺکی اطاعت اور اصحابہ کرام رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ کی باتیں اور اخلاق طور طریقہ یہ وہ چیزیں ہیں جنسے ہم کامیاب ہو سکتے ہیں
مجھے حضرت عمر بن خطاب رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ کے دور کا ایک واقعہ یاد آگیا جب حضرت عمر ابنِ خطاب رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ ایک اونٹھ اور غلام کے ساتھ یوروشلم کی طرف روانہ ہوئے آپ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ نے باریاں لگائیں ہوئیں تھیں کبھی آپ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ اونٹھ پر سوار ہوتے کبھی غلام سوار ہوتا جب یوروشلم کے قریب پہنچے تو نکیل پکڑنے کی باری آپ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ کی تھی اور غلام کی اونٹھ پر سوار ہونے کی تھی آپ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ کے غلام نے عرض کی کہ میرے آقا میں اپنی مرضی سے یہ باری چھوڑتا ہوں آگے ہم دشمنوں کے مفتوحہ علاقے میں جارہے ہیں نیا نیا علاقہ فتح ہوا ہے اسلام کی شان و شوکت ظاہر ہو
عمر ابنِ خطاب رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ فرمانے لگے کہ اسلام کی شان و شوکت ایسے ظاہر نہیں ہوتی اپنی باری پر تم بیٹھو گے اپنی باری پر میں بیٹھونگا
لوگ منتظر کھڑے تھے دور سے جب دیکھا تو کہا اسکی ہیبت سے ہم کانپتے تھے ؟
یہ تو کوئی حبشی لگتا ہے رنگ کالا ہے ہونٹ موٹے ہیں اس سے تو زیادہ حسین اسکا غلام ہے جو آگے آگے چل رہا ہے ان کے پاس موجود حضرت ابو عبیدہ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ فرمانے لگے دھوکہ کھا رہے ہو ہمارا آقا وہ نہیں جو اونٹھ پر سوار ہے ہمارا آقا وہ ہے جو آگے لگام تھامے چل رہا ہے
حضرت عبیدہ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ نے عمر رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ کا استقبال کیا حضرت عمر رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ نے آگے بڑھ کر عبیدہ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ کے کندھوں پر ہاتھ رکھا اور فرمانے لگے
”لا الٰہ الاللہ اے ابو عبیدہ !
ہم ایک ذلیل قوم تھے اور اللہ نے اسلام کی وجہ سے ہمیں عزت عطا کی ہے اور میں تمہیں ایک تاریخ ساز بات کہنے لگا ہوں اور وہ یہ ہے کہ جب تک ہم اس عزت والے اسلام کے دامن کو تھامیں رہیں گے ہماری عزت قائم رہے گی اور جب اسلام کے علاوہ کسی اور جگہ سے عزت ڈھونڈیں گے تو رسوا کر کے رکھ دئیے جائینگے“
یہ ہے وہ خلاصہ جو حضرت عمر رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ نے امتوں کے عروج و زوال کا بیان کیا ہے
آج جب اس ملک میں اسلام کا نام و نشان نہیں رہا جسکی سزائیں تک حکمران نافز نہیں کر پائے ۔
طاقت ور زور پکڑ رہا ہے اور غریب پتسا جا رہا ہے
انصاف جو اللہ نے چھوٹے بڑے کے لئے ایک سا رکھا مگر افسوس اس ملک میں سیاست کے نام پر اب وہ بھی کہیں کھو چکا ہے
اناللہ ونا الیہ راجعون
اور ابھی ملک ترقی کی راہ پر ہے ؟
بطورِ مسلمان میں جانتی ہوں کہ اسلام امن کا مذہب ہے جس میں ایک مسکراہٹ صدقہ جاریہ ہے اور ایک ناحق نکلنے والے آنسو کا بھی حساب ہوگا
قیامت کے روز جب آپ سے ایک ایک ظلم کا حساب مانگا جائے گا جب رب آپ سے ہمارا سوال کریں گے آپ جواب میں کیا کہیں گے ؟
اس ماں کا بچہ کہاں سے لا کر دیں گےجسے غلطی سے کچلا گیا اور شہید قرار دے دیا گیا ۔
آپ نے تو اسے شہید کہہ دیا لیکن سوال تو یہ بنتا تھا کہ کیا اسلامی رو سے وہ شہید کہلاتا ہے؟
سابق وزیرِاعظم صاحب اس ماں کو یہ ”خونی ریلی“ ہمیشہ یاد رہے گی جسے برسوں یقینً وہ بھلا نہ سکے گی اسکے ایک ایک آنسو کے جوبدہ آپ ہیں !
اور یہ نہ بھولیں کہ ایک مظلوم کی بد دعا عرش ہلا دیتی ہے اور جورب آپکا ہے رہی ہم سب کا ہے
اللہ آپکا اور میرا حامی و ناصر ہے
اور وہ انصاف کرتا ہے ۔

Amna yousaf
About the Author: Amna yousaf Read More Articles by Amna yousaf: 16 Articles with 18525 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.