آزاد جموں وکشمیر کے وزیراعظم فاروق حیدر اپنے قائد میاں
نواز شریف کو وفاقی دارالحکومت اسلام آباد سے لاہور ان کے گھر تک پہنچا کر
واپس اپنے دارالحکومت مظفر آباد پہنچ گئے ہیں ۔ وہ بڑے دم خم کے ساتھ اپنے
قائد کے شانہ بشانہ سارے سفر میں رہے ‘ بڑے سفر اور جیل کے ہمرائی ایک
دوسرے کے بہت قریب آ جاتے ہیں ‘ میاں نواز شریف اور فاروق حیدر بھی ایک
دوسرے کے بہت قریب آ چکے ہیں ‘ جس کا اظہار میاں نواز شریف نے اپنے آخری
خطاب کے آخری حصے میں ان کا خاص کر نام لیتے ہوئے جوش و خروش سے کیا ایک
وزیراعظم کو فارغ کیا مگر مسلم لیگ (ن) کا دوسرا وزیراعظم فاروق حیدر ہے جس
کے ساتھ پاکستان کی قوم کھڑی ہے ‘ ان کی ریلی ‘ استقبال ‘ عوامی جلسوں کی
کامیابی ‘ ناکامی کے حوالے سے پورے ملک کی طرح آزادکشمیر میں بھی تبصرے اور
بحث جاری ہے ‘ مرکز ‘ پنجاب ‘ بلوچستان ‘ آزادکشمیر ‘ گلگت بلتستان کی پانچ
حکومتوں والی مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں محمد نواز شریف کی ریلی اور جلسوں
پر تبصرے جس کے سنے وہی صحیح نظر آتے ہیں ‘ لہٰذا جب کسی کی بھی حکومت نہیں
ہو گی تو معلوم ہو گا کون کتنے پانی میں ہے ‘ اور عوام اپنے ووٹ سے اپنا
فیصلہ سنائیں گے تو دودھ کا دودھ پانی کا پانی ہو جائے گا ‘ تاہم راجہ
فاروق حیدر نے اپنے محسن کے ساتھ کاندھے سے کاندھا ملاتے ہوئے چل کر وفا
شعاری کا حق ادا کیا ‘ ایک حق ماں باپ کا ہوتا ہے ‘ جنہوں نے اولاد کےلئے
جنم دینے سے پرورش تک ناقابل بیان تکلیف اُٹھائی ہوتی ہے ‘ تو دوسرا حق اُس
محسن کا جس نے آپ کو جب کچھ بھی نہ تھے تو نکھار کر اونچی منزل کا راستہ
ہموار کر کے دیا ‘ فاروق حیدر کو بھی دیوار کے ساتھ لگا کر ان کا سیاسی
مستقبل تاریک بنا دیا گیا تھا مگر نواز شریف نے نہ صرف ان کے کہنے پر ن لیگ
بنائی ‘ بلکہ اس کا صدر بنایا ‘ انتخابات میں کامیابی کے راستے بنائے ‘ اور
وزیراعظم بھی بنا دیا ‘ اس اعتبار سے اپنے محسن خاص کے ساتھ فاروق حیدر نے
صحیح معنوں میں اپنا فریضہ نبھایا ‘ مگر ان کے بعد کے محسنوں ‘ کارکن سے
لیکر ووٹر تک کا حق جو بنتا ہے کیا وہ ادا کر دیا ہے ‘ یا ادا کر دیں گے ‘
یہ سوالات ان کی حکومت کا ایک سال مکمل ہونے پر ان سب کے جائز حق بنتے ہیں
‘ آپ قائد کے ساتھ تھے آپ کے سپیکر شاہ غلام قادر ‘ وزیر اطلاعات مشتاق
منہاس ‘ وزیر خوراک شوکت شاہ ‘ وزیر صنعت نورین عارف ‘ وزیر مال فاروق
سکندر ‘ دیگر چیدہ چیدہ لوگ بھی جو جس کی بساط تھی وہاں تک شامل رہا ‘ مگر
باقی کابینہ مشینری کہاں تھی دارالحکومت تھی نہ ریلی میں تھی تو پھر کہاں
غائب ہو گئی تھی ‘ سارے ہفتے عشرے نیو سیکرٹریٹ سنسنان رہا ‘ اور پھر آ پ
کے ساتھ یہاں کی ساری بجلی بھی چلی گئی تھی ‘ لوگ شہر شہر ‘ گاﺅں گاﺅں
بدترین لوڈشیڈنگ کا شکار رہے ‘ شاید گرمی کی شدت اتنی شدید ترین نہ ہوتی تو
کہرام برپا نہ ہوتا کیا جب تک وزیراعظم نوٹس نہ لے ‘ ہدایت نہ کرے اس وقت
تک جو مرضی ہے ہوتا رہے ‘ اس کا ذمہ دار کون ہے ‘ ایک بجلی نہیں بلکہ فلیگ
ہولڈر سے لیکر نیچے تک سبہی جگہ وی آئی پی کلچر ‘ اوپر سب کچھ ٹھیک نیچے
لوگوں سے رابطہ کو درکنار ان کے ڈھونڈنے پر بھی میسر نہ آنا اور مل جانے پر
دیوانی مقدمات والی تاریخیں دینے کا طرز عمل کیا غمازی کرتا ہے ‘ اپوزیشن
قائدین چوہدری لطیف اکبر ‘ چوہدری یاسین ‘ بیرسٹر سلطان محمود چوہدری ‘ حتی
کہ سردار یعقوب ‘ سردار خالد ابراہیم جو بہت کم بولتے ہیں ان کو بھی بولنا
پڑ گیا ہے ‘ آپ کے سامنے سب متحرک اور نظر سے ہٹتے ہی جیسے کوئی ہے ہی نہیں
ہے والی کیفیت کیوں پیدا ہو جاتی ہے ‘ اس کے اسباب وجوہات کا علاج نہ کیا
گیا تو میٹرو ‘ ٹنلز ‘ پلوں ‘ سڑکوں جیسے نظر آنے والے کاموں نے لوگوں کو
متاثر تو کیا مگر خود میسر نہ آنے کے باعث ن لیگ پاکستان اور لوگوں کے
درمیان عام انتخابات کے موقع پر جو قربتیں تھیں وہ لاہور تک کے سفر میں
جوبن کے ساتھ میسر نہ آ سکیں ‘ تو وہ سب کام جو ہوئے ہیں مگر ان کے اثرات
سامنے آنا باقی ہیں ‘ اور ہونے ہیں جس کے بعد اُن کے ثمرات ملیں گے اس پر
کوئی بحث نہیں فاروق حیدر حکومت نے ایک سال میں اجتماعی حوالے سے جو
اقدامات کرنے کی کوشش کی اور کرنے ہیں اس کی جاری کردہ کارکردگی ‘ رپورٹ
بڑی محنت اور مہارت سے تیار کی گئی ہے ‘ مگر اس پر بھی یہ نہ جانے کس کونے
کھدرے سے اچانک کوئی غیر سرکاری تنظیم نمودار ہوئی جس کی طرف سے جاری کردہ
سروے رپورٹ پہلی رپورٹ کو بھی مشکوک بنانے کے مترادف ہے سچ اور حقیقت کی
اپنی اہمیت ہے اس کو غیر حقیقت پسندانہ بھساکیوں کی ضرورت نہیں ہوتی ایسا
کرنا سچ کو جھوٹ کا لباس اوڑ ھ دینے جیسا ہے ۔ایسی سروے رپورٹس آمر
حکمرانوں اور خود نواز حکومت نے بے شمار بار جاری کرائیں مگر ان کے جماعتی
عہدیداران ‘ کارکنان تو درکنا خود پارلیمانی پارٹی ‘ کابینہ کے ارکان نے
بھی توجہ نہ دی ‘ تو سپورٹرز ووٹرز جن سے براہ راست تعلق ہی ختم کر دیا گیا
ہو وہ کیسے دلچسپی لیتے ‘ اعتماد ‘ اعتبار مدتوں میں قائم ہوتے ہیں اور ختم
لمحوں کی خطاﺅں سے ہو جاتے ہیں ؟؟؟؟۔ |