شاہ جی کا لنگڑا گھوڑا

حرص و طمع کی صفت انسان کی ذلیل و خوار کرتی ہے اس کی تازہ مثال امیت شاہ اور اس کے آقا نریندر مودی ہیں۔ گجرات کے اندر ایوان بالا کا انتخاب بہت سہل تھا ۔ بی جے پی ارکان اسمبلی کی تعداد چونکہ کانگریس سے تقریباً دو گنا ہیں اس لیے بی جے پی کے ۲ اور ایک کانگریسی امیدوار منتخب ہوجاتا۔ اس طرح احمد پٹیل کے ساتھ نہایت خوشگوار سیاسی ماحول سمرتی ایرانی اور امیت شاہ راجیہ سبھا کے ارکان بن جاتے لیکن اگر یہی سب ہوتا تو امیت شاہ کے حصے میں ذلت کیسے آتی؟ اس کے لیے شاہ جی نے کافی جدوجہد کی اور بالآخر رسوائی کا طوق اپنے گلے میں ڈال کر بیٹھ گئے ۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ سارے ہندوستان میں اپنی چانکیہ نیتی کا ڈنکا بجانے والے امیت شاہ کو خوداپنے ہی صوبے میں منہ کی کھانی پڑی اور وہ ان کے چہرے پر ایسا طمانچہ پڑا کہ مودی جی کے گال بھی سرخ ہوگئے۔ اس طرح لیلیٰ مجنوں کی یاد تازہ ہوگئی۔

امیت شاہ نے اپنے مکروفریب کے جال میں سب سے پہلے شنکر سنگھ واگھیلا کو پھنسایا جنہوں نے اقتدار کی ہوس میں بی جے پی کی پیٹھ میں چھرا گھونپ دیا تھا ۔ واگھیلا کے گھرپر؁۲۰۱۵ میں این ٹی سی گھوٹالے کو لےکر سی بی آئی کے چھاپے پڑ نے شروع ہوئے ہیں ۔ واگھیلا نے پہلے تو انتقام کا الزام لگایا مگر بعد میں ڈر کر گھٹنے ٹیک دیئے ۔ اب وہ رام ہوچکے ہیں۔ اپنے۶ وفاداروں کے ساتھ بی جے پی کی جھولی میں جاگرے ہیں اس لیے ان کے بیٹے کو انعام و اکرام سے نواز کر وزیر بنادیا جائیگا۔ امیت شاہ کا دوسرا شکار این سی پی کا ایک رکن اسمبلی کاندھل جڈیجہ تھاجو دس سنگین قسم کے مقدمات میں ماخوذ ہے۔ کانگریس نے جب دیکھا کہ اب یہ گھر کے بھیدی لنکا ڈھا دیں گے تو اپنے باقیماندہ ارکان اسمبلی کو یرغمال بناکر بنگلورو لے گئی۔ بی جے پی نے سی بی آئی کے ذریعہ کرناٹک میں اس رکن اسمبلی کے گھر اور دفتر چھاپے ڈلواے جو میزبان تھے ۔ اس کے بعد جب راہل گاندھی نے گجرات کا دورہ کیا تو ان کی گاڑی پر حملہ کروادیا ۔ اس پس منظر میں راجیہ سبھا کا انتخاب ہوا جس کے اندر بی جے پی نے ایک کانگریس کے باغی امیدوار بلونت سنگھ راجپوت کو اپنا تیسراامیدوار بنادیا ۔ یہ بات قابل غور ہے کہ واگھیلا اور بلونت سنگھ سمیت ان میں سے بیشتر راجپوت ہیں اور جڈیجہ کا تعلق بھی اسی برادری سے ہے۔ اس کا مطلب صاف ہے کہ بی جے پی پٹیلوں کی کمی کو راجپوتوں سے پوری کرنا چاہتی ہے اور ان منہ بھرائی کررہی ہے۔
 
انتخاب کے دوران کانگریس کے دوارکان راگھو جی پٹیل اور بھولا گوہل نے اپنے امیدوار کے خلاف بی جے پی کو ووٹ دیا مگر ان لوگوں نے اپنی وفاداری ثابت کرنے کے لیے اسے امیت شاہ اور سمرتی ایرانی کو دکھا دیا۔ ایک سال قبل اسی الزام میں ہریانہ کے اندر کانگریسی رکن اسمبلی رندیپ سورجیوال کا ووٹ کالعدم قرارپایا تھا اور اس کا فائدہ اٹھا کر بی جے پی کاامیدوار کامیاب ہوگیا تھا ۔ رندیپ نے اپنا ووٹ کسی غیر کو نہیں بلکہ اپنی ہی پارٹی کے کرن چودھری کو دکھا دیا تھا جبکہ صرف ہری پرساد کو ووٹ دیکھنے کا اختیار تھا ۔ اس کے باوجود سورجیوال کا ووٹ مسترد کردیا گیا۔ امیت شاہ کو چاہیے تھا کہ وہ باغیوں کاووٹ دیکھنے کی حماقت نہیں کرتےلیکن اتنی عقل ہوتی تو مودی ان کو پارٹی کا صدر کیوں کر بناتے؟ یہاں تو احمقوں کو نوازہ جاتا ہے۔ کانگریس نے جب اسی بنیاد پر ان دونوں غداروں کے ووٹ کالعدم قرار دینے کا مطالبہ کیا تو بی جے پی کی دلیل تھی کہ پہلےاعتراض کیوں نہیں کیا گیا؟ اب سب ہوچکا ہے۔ کانگریس شکست کے خوف سے چھٹپٹا رہی ہے وغیرہ وغیرہ ۔

اقتدار کے گھمنڈ میں امیت شاہ نے اپنے ساتھ ساتھ ملک کے وزیر خزانہ اور وزیردفاع ارون جیٹلی نیز وزیر قانون روی شنکر پرشاد کو بھی رسوا کروادیا ۔ الیکشن کمیشن نے ان تمام وزراء کے دلائل کو ان کے منہ پر دے مارا اس طرح امیت کا خزانہ اس کا دفاع نہیں کرسکا اور کمیشن کی دولتیّ کھاکر ان سب کے ہوش ٹھکانے آگئے۔ کاش کے مودی جی بھی پڑھے لکھے ہوتے اور اس وفد میں شامل کیے جاتے جس نے بے عزت ہونے کے لیےالیکشن کمیشن کے دروازے پر دستک دی تھی۔ وزیراعظم کی جہالت نے انہیں ذلالت سے بچا لیا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ گجرات میں پٹیل برادی کے ایک بی جے پی رہنما نیتن کوٹاڈیہ نے بھی بی جےپی امیدوار کو اپنا ووٹ نہیں دیا۔ اسی کے ساتھ جے ڈی یو جو ابھی ابھی این ڈی اے میں شامل ہوئی ہے اس کے رکن اسمبلی چھوٹو واسوا نے بھی بی جے پی کے خلاف کانگریس کو ووٹ دیا نیزاین سی پی کے دوسر ے رکن جینت پٹیل کو توڑنے میں شاہ جی ناکام رہے۔ ان تین میں سے دو کا تعلق پٹیل برادری سے ہے اور تیسرا ادیباسی ہے۔

گجرات کے پٹیل اور دلت بی جے پی سے نالاں ہیں ۔آنندی بین پٹیل اور وجئےروپانی ان کا اعتماد حاصل کرنے میں ناکام رہے ہیں ایسے میں اگر آئندہ سال ہونے والے انتخابات میں بی جے پی ۱۲۰ کے بجائے ۱۱۹ مقامات پر کامیابی حاصل کی تو اس کو شاہ اور مودی دونوں کی زبردست شکست شمار کی جائیگی۔ شاہ جی خود کہہ چکے ہیں کہ ۱۵۰ سے کم نشستیں ناکامی سمجھی جائیں گی۔اسی شکست سے بچنے کے لیے شاہ جی ہاتھ پیر مار رہے ہیں اور ان کا پہلا جوتا تو انہیں کے سر پر پڑا ہے۔اس سیاسی منجدھارکے اندر سے باہر نکلنے کے لیے انہوں نے شنکر سنگھ واگھیلا کا سہارا لیا ہے لیکن واگھیلا کو ابھی تک گجرات میں ایک بھی کامیابی ہاتھ نہیں لگی۔ انہوں نے جب کانگریس کی حمایت کی تو کانگریس ہار گئی اور جب وہ کانگریس میں شامل ہوئے تب بھی کانگریس کو شکست سے دوچار ہونا پڑا۔ حالیہ انتخاب کے دن واگھیلا نے کہا چونکہ احمد پٹیل کی ہار یقینی ہے اس لیے میں نے انہیں ووٹ نہیں دیا۔ انتخاب کا نتیجہ تو واگھیلا کے دعویٰ کے خلاف نکلا اب آئندہ صوبائی انتخاب میں امیت شاہ اس لنگڑے گھوڑے پر کتنا اعتماد کرتے ہیں اوروہ نریندر مودی کا کیا حشر کرتاہے یہ تو وقت ہی بتائے گا۔ ویسے ریس کا ضابطہ یہ ہے کہ جوگھوڑا گر جائے اسے گولی ماردی جاتی ہے اور اس ضابطے پر شاہ جی سے زیادہ کون عمل کرتا ہے؟مودی جی کی دل بستگی کے لیے یہی کہا جاسکتا ہے کہ ’’گرتے ہیں (امیت ) شاہ سوار ہی میدانِ جنگ میں ‘‘۔
 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2124 Articles with 1449722 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.