واپسی کا سفر!

 واپسی کے سفر کا آغاز ہو چکا ہے، راستہ طویل نہیں،اَن دیکھا بھی نہیں، دشوار گزار بھی نہیں، نامانوس اور خطرناک بھی نہیں۔ راستے میں بے شمار رکاوٹیں البتہ موجود ہیں، وہ جانثار کارکنوں کی صورت میں ہیں، والہانہ جو اپنے قائد کے استقبال کے لئے نکلے ہیں، وہ اپنے قائد کی جھلکی دیکھنا چاہتے ہیں، ان کی گاڑی کو چھونے کے خواہشمند ہیں، گاڑی کی قربت پا کر سیلفی کا کلک بھی ہوجائے تو کیا بات ہے۔ مگر تھوڑی سی رکاوٹ یہاں بھی ہے، سیلفی مشکل ہو جائے گی، کیونکہ میاں نواز شریف اپنی حکومت کے خاتمے اور نااہلی کے بھاری پتھر کے بوجھ تلے واپس لاہور آرہے ہیں تو ان کے لئے کنٹینر کا اہتمام کیا گیا ہے، چند گھنٹوں کا سفر بیسیوں گھنٹوں میں طے کرنا ہے، گاڑی کی ایک ہی سیٹ پر بیٹھنا آسان نہیں، سہولت کے لئے کنٹینر کا بندوبست کرلیا گیا۔ ممکن ہے کسی اپنے نے مخالفت بھی کی ہو، کہ ہم لوگو ں نے عمران خان اور طاہر القادری کے کنٹینروں کو ایک طعنہ بنا لیا تھا، ایک طنز کی صورت تھی، اب ہم بھی کنٹینر میں سوار ہوں گے تو مخالف کیا کہیں گے؟ خیر مخالفین کا کیا ہے، اپنا الّو سیدھا رکھنا چاہیے، اب وقت کی ضرورت تھی، سو کنٹینر پر سفر کا آغاز ہوگیا۔ وہاں اے سی بھی ہے، کھڑکیاں بھی ہیں، اور سفری ضرورت کی تمام سہولتیں موجود ہیں۔

چند روز پہلے تک جن کے لئے روٹ لگتے تھے، ہزاروں پولیس اہلکار جن کے راستوں کی حفاظت کے لئے کھڑے ہوتے تھے، گزر گاہ کو خالی کروایا جاتا تھا، اطراف کی سڑکوں کو ٹریفک کے لئے بند کردیا جاتا تھا، گھنٹوں ٹریفک بلا ک رہتی تھی، عوام کو صاحب سے بہت دور رکھا جاتا تھا، اور جب وہ کسی دوسرے شہر تشریف لے جاتے تو ان کے لئے خصوصی طیاروں اور ہیلی کاپٹروں کا اہتمام ہوتا تھا، جہاں انہوں نے قیام کرنا ہوتا تھا، یا کسی تقریب سے خطاب مطلوب ہوتا تھا، وہاں آنے والوں کی سخت تلاشی ہوتی تھی، اگر تقریب محدود ہوتی تو بہت ہی چھان بین کے ساتھ فہرستیں مرتب ہوتی تھیں، جس خود ساختہ مقامی قائد کا نام فہرست میں شامل نہ ہوتا وہ عمارت کے صدر دروازے پر سکیورٹی پر متعین پولیس سے الجھتا، سر پیٹتا ، محتاجی سے منت سماجت کرتا ، اکثر ناکام واپس لوٹ جاتا۔ عام پارٹی کارکنوں کی بات تو بہت دور کی ہے، پارٹی کے بہت سے لیڈر بھی ملاقات کو ترس جاتے۔ حتیٰ کہ پارٹی کے بہت سے تنظیمی عہدے بھی سالہاسال تک خالی رہتے۔ کسی کی مجال نہ تھی کہ قیادت کے سامنے کوئی شکایت بھی کرسکے۔ اس سب کچھ کے باوجود عوامی مقبولیت انتہا کی تھی(اور ہے)۔ اب وقت آیا ہے کہ روٹ بھی لگا ہے، سکیورٹی بھی موجود ہے، مگر قائد دستیاب ہیں، انہیں قریب سے دیکھا جاسکتا ہے، ان کے ساتھ سیلفی بنائی جاسکتی ہے، ان کی گاڑی (اب کنٹینر) کو چُھوا بلکہ چوما بھی جاسکتا ہے، وہ باہر نکلیں تو موقع پا کر اور کوشش کرکے انہیں ہاتھ بھی لگایا جاسکتا ہے۔

پارٹی کے بہت سے لیڈر اور سوشل میڈیا پر یہ بات بہت نمایاں ہو کر سامنے آرہی ہے کہ ’’روک سکو تو روک لو‘‘، یعنی اب میاں صاحب نکل پڑے ہیں، کوئی روکنے والا ہے تو سامنے آئے۔ ظاہر ہے کون روک سکتا ہے؟ ریلی کی ناکامی کا کیا تصور ؟ حکومت اپنی، ممبران اسمبلی اپنے، سرکاری وسائل اپنے، مقبولیت بے حد، نااہلی کا زخم تازہ، غم وغصہ موجود۔ ریلی کی کامیابی کسی سوال سے بالا تر ہے۔ مگر طاقت کا اظہار اس وقت ہوتا ہے جب مخالف کو دبانا مقصود ہو، مگر یہاں تو اوپر نیچے اپنی حکومت ہے، یہاں تو کوئی مسئلہ ہی نہیں، پنڈی سے لاہور ہے بھی پنجاب کا علاقہ، کہ یہاں مقبولیت کے جھنڈے پہلے سے ہی گڑے ہوئے ہیں۔ کس نے روکنا ہے؟ کون روک سکتا ہے۔ مگر صدمے والی بات تو یہ ہے کہ راستہ تو روکا گیا، دس ماہ تو کیا آنے والی حکومت بھی اِنہی کی ہو سکتی ہے، تمام لوازمات ہوں گے ،سب کچھ ہوگا، مگر اجلاس کی صدارتی سیٹ پر بڑے میاں صاحب نہیں ہوں گے، سرکاری پروٹوکول اُس طرح دستیاب نہیں ہوگا، وزارتِ عظمیٰ کی کرسی نہیں ہوگی، وزیراعظم ہاؤس نہیں ہوگا، جگہ جگہ افتتاحی تختیاں نہیں ہوں گی، اورکرّ وفر کے ساتھ بیرون ملک سرکاری دورے نہیں ہوں گے۔ سب کچھ ہو گا مگر ہم نہیں ہونگے۔ ہاں عدالتِ عظمیٰ کے فیصلے کو متنازع بنانے کے لئے، اگلے الیکشن کی تیاری کے لئے اور اپنے کارکنوں کو متحرک کرنے کے لئے یہ ریلی ضروری ہے، سفر بخیر۔
 

muhammad anwar graywal
About the Author: muhammad anwar graywal Read More Articles by muhammad anwar graywal: 623 Articles with 428489 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.