آج کل پاکستان کے سیاسی منظر نامے پر خواتین کے
انکشافات اور صدائے احتجاج و فریاد پُوری طرح چھائی ہوئی ہیں۔ سیاست دانوں
کے اندرونِ خانہ معاملات سے ایک نیا پنڈورا باکس کھُل گیا ہے جن پر اگر
تحقیقات کی گئیں تو یقینا ان کی اخلاقی گراوٹ کے حوالے سے بہت ہوش رُبا
انکشافات سامنے آئیں گے اور ہو سکتا ہے کہ ان کا نتیجہ آدھ درجن سے زائد
سیاست دانوں کی نااہلی کی صورت میں ظاہر ہو۔اس سلسلے کی شروعات تحریک انصاف
سے تعلق رکھنے والی عائشہ گلالئی کی ہنگامہ خیز پریس کانفرنس سے ہوئی جس
میں انہوں نے پارٹی کے سربراہ عمران خان پر اخلاق سے گِرے میسجز کرنے اور
خواتین کا احترام نہ کرنے کا الزام عائد کیا۔ خدا جانے ان الزامات میں کتنی
حقیقت ہے، مگر اس کے بعد عائشہ گلالئی کی سکوائش کی پلیئر بہن کی ذات اور
لباس پر رکیک حملے شروع ہو گئے۔ ایسی ایسی شرمناک باتیں کی گئیں کہ بھلے
مانسوں کے سر شرم سے جھُک جائیں۔ اس بارے میں تو کوئی دو رائے نہیں کہ
عمران خان جوانی میں بہت سے سکینڈلز کی زد میں رہے۔ سیتا وائٹ بھی اپنی
بیٹی ٹیریان کے حق کے لیے انصاف مانگتی رہی۔ اس کے علاوہ ان کے سیاسی
کیریئر کے دوران بھی دبے دبے انداز میں کچھ نہ کچھ کہا جاتا رہا۔ اگر عائشہ
گلالئی کے الزامات میں صداقت ہو تو عمران خان کا احتساب ضرور ہونا چاہیے۔
لیکن آج اُن کے بارے میں بات ہو گی، جنہوں نے خود پر دائیں بازو کی سیاست
کے علمبرداری اور اسلام پسندی کا لبادہ اوڑھ رکھا ہے مگر ان کی پُوری زندگی
جنسی کج روی اور ہنستے بستے گھروں کو اُجاڑنے میں گزری۔
بڑے میاں نواز شریف اپنی جوانی کے دور میں بہت رنگین مزاج واقع ہوئے تھے۔
طاہرہ سید کے ساتھ اُن کا معاشقہ بھی زبان زدِ عام رہا۔ طاہرہ سید اور اُن
کے خاوند کے ازدواجی تعلقات میں دراڑ کی وجہ بھی نواز شریف ہی تھا، جو کہ
بالآخر طلاق پر منتج ہوئی۔ اس کے علاوہ نواز شریف ماضی کی ایک حسین اداکارہ
پر بھی عاشق تھا، مگر اس کا جی دار خاوند جو خود بھی فلم انڈسٹری کا
انتہائی نامور ستارہ تھا، اُسے گھر آنے نہیں دیتا تھا۔ اُس کی وفات کے بعد
ہی نواز شریف کو ہمت ہو سکی کہ وہ اس کے گھر پُورے پروٹوکول کے ساتھ آن
دھمکتا۔دِلشاد بیگم کے ساتھ بھی نواز شریف کے تعلقات کے خوب چرچے رہے۔
چھوٹے میاں، جناب شہباز شریف کی تو وجہ شہرت ہی شادیاں اور مریضانہ حد تک
بڑھی ہوئی حُسن پرستی ہے۔ سوشل میڈیا پر اکثر ان کی تصویر کے ساتھ ایک
دلچسپ فقرہ پڑھنے کو ملتا ہے۔ ’’اپنے تو دو ہی شوق ہیں، سڑک اور ٹھرک۔‘‘
کالج کی طالبات میں انعام یا لیپ ٹاپ بانٹنے کی تقریب ہو، کوئی سیمینار ہو،
کوئی انتظامی میٹنگ ہو یا ثقافتی، سماجی و سیاسی تقریب، موصوف کی حُسن پرست
نگاہیں اپنی طبیعت کی تسکین کے لیے کہیں نہ کہیں پر ٹھہر ہی جاتی ہیں، اور
اس منظر کو کوئی نہ کوئی منچلا کیمرہ مین تصویر کی صورت میں محفوظ کر لیتا
ہے۔ درحقیقت اس شخص کی ذاتی زندگی کے گھناؤنے پہلو کے بارے میں لوگ بہت کم
بہت جانتے ہیں۔ ویسے ہی جیسے لوگ کلثوم حئی کے بارے میں بہت کم واقف ہیں۔
یہ بی بی شہباز شریف کے پروٹوکول میں شامل ایک ایس پی ایڈن کی حسین و جمیل
بیوی تھی جو خود بھی مجسٹریٹ کے عہدے پر فائز تھی۔ بس شہباز شریف کی اس پر
نظر پڑ گئی ، تحریص و ترغیب سے اسے اپنے ساتھ شادی کے لیے منا لیا اور بے
چینی اتنی کہ اُس کی اپنے خاوند سے طلاق لینے کی نوبت بھی نہ آن پائی۔
خاوند اپنی جان بچانے کے لیے مُلک سے باہر مقیم ہو گیا۔ اگر اس مُلک میں
کوئی شرعی حد نافذ ہوتی تو نکاح پر نکاح کرنے والا رنگین مزاج شہباز شریف
سنگسار کر دیا گیا ہوتا، یا جیل کی سلاخوں کے پیچھے سڑ رہا ہوتا۔شرعی تو
کیا اگر کوئی حقیقی جمہوری نظام ہوتا تو پھر جیسا کہ کلنٹن کو اپنی سٹاف
ممبر مونیکا لیونسکی کے ساتھ ناجائز تعلقات بنانے کے لیے صدارتی عہدے کا
استعمال کرنے پر مواخذے کی تحریک کا سامنا کرنا پڑا، شہباز شریف کو بھی اسی
نوعیت کی صورتِ حال سے دوچار ہونا پڑتا۔ مگر کیا کریں اس جعلی جمہوریت والے
مُلک میں دولت کی افراط امیروں کے عیب چھُپا لیتی ہے۔ اپنی فطرت کے مطابق
اُس سے جی بھر کر حظ اُٹھانے کے بعدچھوٹے میاں نے اُسے طلاق کا کاغذ تھما
دِیا۔ مگر واقفانِ حال کہتے ہیں کہ اس وقت سیاسی مطلع پر جو گرد چھائی ہے
اُسے اور گرد آلود بنانے کے لیے کلثوم حئی بھی انکشافات کے انبار کے ساتھ
منظرِ عام پر آنے لگی ہے۔ اس کی فریاد چند دِنوں میں ضرور میڈیا کی زینت
بنے گی جس سے شہباز شریف کی ذاتی زندگی کے بہت سے پہلو طشت از بام ہوں گے۔
’مائی فیوڈل لارڈ‘ کی مصنفہ تہمینہ درانی جو سابقہ مسز کھر بھی رہ چکی ہے۔
اس وقت وہ شہباز شریف کی واحد بیوی ہے۔ باقی سب کو طلاق ہو چکی ہے ۔ اُس نے
تو اپنی کتاب میں ایک شخصیت کو موضوع بنایا تھا مگر وہ اندر سے اتنی بھری
بیٹھی ہے کہ صرف شہباز شریف نہیں، بلکہ تمام آلِ شریف کے کارہائے سیاہ پر
ہزاروں صفحات بھر دے گی۔ جتنا مواد اس کے پاس موجود ہے، شاید ہی اور کسی کے
پاس ہو۔ بس ایک بار دِلوں سے شہباز شریف کی دہشت نکل گئی تو پھر سابقہ
اہلیہ عالیہ ہنی بھی بولے گی اور درجنوں نامعلوم خواتین بھی سامنے آجائیں
گی۔
عائشہ گلالئی کی پریس کانفرنس کے بعد عائشہ احد ملک نے ایک بار پھر اپنے
حقوق کی بازیابی کے لیے آواز بلند کی۔ جیسا کہ کچھ سال پہلے ہوا تھا اس بی
بی نے میڈیا پر خاصا واویلا مچایا تھا کہ وہ حمزہ شہباز کی منکوحہ ہے مگر
حمزہ اُسے اس کا مقام دینے سے راہِ فرار اپنا رہا ہے۔اس وقت اس بی بی کو
گرفتار کر کے تھانہ ریس کورس میں بند کیا گیا۔ اور شاید اس بی بی کو بھی
پتا نہ ہو کہ حراست کے دوران اس سے ٹیلی فون پر تفتیش کرنے والا کوئی پولیس
افسر نہیں، بلکہ خود شہباز شریف ہوتا تھا۔ عائشہ کے دوبارہ میڈیا کی خبروں
کی زینت بننے کی ٹائمنگ بڑی معنی خیز ہے۔ تحریک انصاف والوں نے گِلہ کیا کہ
عائشہ گلالئی کی بہتان طرازی کے پیچھے نواز لیگ کا ہاتھ اور شہ ہے، اسی طرح
نواز لیگ والوں کا موقف ہے کہ عائشہ احد ملک کا معاملہ تحریک انصاف نے
جوابی کارروائی کے طور پر اُبھارا ہے۔ ان دِنوں پولیس عائشہ احد ملک کو
گرفتار کرنے کے لیے دِن رات چھاپے مار رہی ہے۔ اصل مسئلہ اُسے گرفتار کرنا
نہیں بلکہ اُس سے اُن ویڈیو کا ریکارڈ ختم کروانا ہے جن میں سے کسی میں
حمزہ اُس کے پاؤں داب رہا ہے اور کسی میں اُس کی منتیں ترلے کرتا دکھائی
دیتا ہے۔اس خاتون پر پہلے پہل شہباز شریف کی نظر تھی، مگر حمزہ کے ہتھے چڑھ
گئی۔ اگر یہ بی بی اثر رسوخ اور تگڑے بیک گراؤنڈ والی نہ ہوتی، اور اس کے
گھر کے باہر اس کے باڈی گارڈز پہرہ نہ دے رہے ہوتے تو شہباز شریف کی غنڈہ
گرد پولیس اسے کسی جعلی پولیس مقابلے میں بہت عرصہ پہلے صفحۂ ہستی سے مٹا
چکی ہوتی۔ اس وقت بھی اس عورت کو راستے سے ہٹانے کے لیے حمزہ شہباز نے
علامہ اقبال ٹاؤن کے دو اُجرتی قاتلوں کی خدمات حاصل کر رکھی ہیں، مگر
انہیں موقع نہیں مِل رہا۔ جس کے باعث دونوں باپ بیٹا کی فرسٹریشن میں اضافہ
ہو رہا ہے۔لاہور کا ایک چھوٹا سا سیاسی کارکن کس طرح ایم این اے بن کر
اسمبلی میں پہنچا، یہ بھی ایک کہانی ہے۔ اس شخص کے جج بھائی کی عدالت میں
عائشہ احد کے حمزہ سے نکاح نامے کا کیس زیرِ سماعت آیا تو اس نے پُورے
عدالتی نظام کی تقدیس کو پامال کرتے ہوئے عائشہ احد کے نکاح نامے کو جعلی
قرار دِیا۔ بدلے میں اس سیاسی کارکن کو ٹکٹ سے نوازا گیا۔ حالانکہ اگر نکاح
نامہ جعلی قرار پایا تو پھر حمزہ شہباز اور عائشہ احد ملک دونوں پر رنگ
رلیاں منانے کے جُرم میں حد نافذ ہو جاتی ہے۔ کیونکہ عائشہ احد کے پاس اس
حوالے سے ناقابلِ تردید ثبوت موجود ہیں۔ شریفوں کے اپنی برادری کے لوگ ان
کی دست بردی سے محفوظ نہیں۔ اس کی مثال ڈاکٹر رابعہ ہے جس کو پانے کی چاہت
میں حمزہ شہباز امریکا جا پہنچا۔جب دھونس دھمکی سے بات نہ بنی تو اُس کے
عزیز رشتہ داروں پر پر پاکستان میں جھوٹے مقدمات بنائے گئے۔ یہاں تک کہ اُس
بیچاری کو ان کی مطلق العنانیت کے آگے ہتھیار ڈال کر نکاح پر مجبور ہونا
پڑا۔ سہیل شوکت بٹ کو بیکری کیس میں شہباز شریف کی بیٹی رابعہ اور بیکری
والوں کے درمیان مصالحت کروائی اور پھر اسے اس کی اس ’گراں قدر خدمت‘ کے
صلے میں ایم این اے بنایا گیا۔ ستم بالائے ستم یہ کہ ان کی زیادہ تر شادیاں
اور افیئرز برسراقتدار ہونے کے دوران رونما ہوتے ہیں اور بیگمات وغیرہ کے
تمام تر نان و نفقہ، حق مہر اور چونچلوں کے خرچے سرکاری خزانے پر ڈاکا مار
کر پُورے کیے جاتے ہیں۔ خود ان کے کردار کی بلندی یہ ہے مگر اپنی ہی پارٹی
کے مخلص کارکنوں جیسے کہ دوست محمد کھوسہ کی مثال ہے، کو سبق سکھانے کے لیے
اُن کے خلاف جھوٹی پراپیگنڈہ مہم شروع کی جاتی ہے۔ دوست محمد کھوسہ کی
اداکارہ سپنا کے ساتھ شادی ہوئی اور پھر طلاق واقع ہوئی۔ تمام معاملہ شرعی
انداز سے طے ہوا۔ ایسے میں دوست محمد کھوسہ کو اپنی مطلقہ بیوی کو قتل کرنے
کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔ مگر شریفوں نے اپنی کینہ پروری میں کھوسہ خاندان
پر قتل کی ایف آئی آر درج کروائی۔ تمام انتظامیہ کو ذوالفقار علی کھوسہ اور
دوست محمد کھوسہ کی کردار کشی پر لگا دیا۔یہاں تک کہ اس کے لیے DGPR کی
جانب سے میڈیا کو ہدایت بھی جاری کی جاتی رہیں۔
اس حقیقت میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کی سیاست میں بہنوں بیٹیوں کی عزت
اُچھالنے کی ابتداء نواز شریف نے پاکستان کی مایہ ناز لیڈر بے نظیر بھٹو کے
کردار پر رکیک حملے کر کے کی تھی۔ 90ء کی دہائی کے دوران بی بی کی ذاتی
زندگی پر بعید از حقیقت ننگے فقرے کسے گئے۔ بی بی ایک جینوئن لیڈر تھی۔
بدقسمتی سے زرداری کی اندھی کرپشن نے بی بی کی نیک نامی اور سیاسی قابلیت
بہت نقصان پہنچایا۔ مکافاتِ عمل ہے کہ دُختر اولِ مریم نواز اپنی سیاسی
فلائٹ کی اُڑان بھرنے سے پہلے ہی سکینڈلز کی زد میں آ گئی۔ اس کی ازدواجی
زندگی کو بھی بہت زیادہ اُجاگر کیا جاتا ہے۔ اور اب جو بات نکلی ہے تو دُور
تلک جائے گی۔ کوئی بعید نہیں کہ لبنان کے سعد حریری کا کردار بھی سوشل
میڈیا کے بے رحم کھوجیوں کے پوسٹوں کی زینت بن جائے۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ
سیاسی پارٹیوں کے سربراہ اپنی مطلق العنانیت اور طاقت کے نشے میں بدمست ہو
کر خواتین کے جنسی استحصال کو اپنا طرّہ امتیاز سمجھتے ہیں۔ اور یوں سیاست
جیسا مقدس پیشہ بدنامی سے دوچار ہو رہا ہے۔ بعضوں کا کہنا یہ ہے کہ
اسمبلیوں میں خواتین کی نشستیں بڑھانے کے پیچھے یہی نیت ہے کہ جاذبِ نظر
خواتین کو ان نشستوں پر براجمان کرنے کی ان سے بھرپور ’قیمت‘ وصولی جائے۔
اس ملک کے تمام سیاست دانوں کے اثاثوں کی طرح اُن کا ڈوپ ٹیسٹ اور ڈی این
اے ٹیسٹ بھی ہونا چاہیے۔ کیونکہ ہو سکتا ہے ان کی کوئی خفیہ شادی ایسی عورت
سے ہوئی ہو جو دُشمن ممالک کے ایجنڈے پر کارفرما ہو اور مُلک کے اہم رازوں
کو پاکستان دُشمنوں تک منتقل کر رہی ہوں۔ اگر اس طریق پر مزید تحقیقات
ہوئیں تو اس کے بہت سے غیر ملکی لِنکس بھی سامنے آئیں گے۔ آلِ شریف ہوں یاں
عمران خان نیازی، ہر کسی کی ذاتی زندگی کے پہلوؤں کو بے نقاب ہونا چاہیے۔
کیونکہ سیاست دان کی کوئی پرائیویٹ زندگی نہیں ہوتی۔ بلکہ وہ عوام کی
پراپرٹی ہوتے ہیں۔ اطلاعات گرم ہیں کہ ریحام خان نے عمران خان کے ساتھ گزرے
اپنے تلخ لمحات اور واقعات کو کتاب کی صورت میں قلمبند کرنے جا رہی ہے۔
دیکھیں اس سے کیا سامنے آتا ہے۔اس وقت مُلک 90ء کی بدبو داراور رکیک سیاست
سے بھی کہیں زیادہ تاریک دور سے گزر رہا ہے۔ پتا نہیں لگ رہا کہ اس وقت
پاکستانی سیاست بالا خانے میں جا پہنچی ہے یا خود بالا خانوں کے منتظمین
سیاست دان بن چکے ہیں۔ |