گذشتہ کئی مہینوں سے کشمیر میں تحریک آزادی کے
مذہبی پہلو کو لے کر نہ رُکنے والی بحث کاآغاز بہت ہی زور و شور سے شروع
کیا جا چکا ہے اور تحریک سے وابستہ ہر بزرگ اور جوان اس بات کو لیکر بہت
پریشان ہے کہ آخر اٹھائیس برس بعد اس بحث کا آغاز کیوں کیا گیا اور جاری
قتلِ عام کے بیچ کنفیوژن پیدا کرنے کی وجہ کیا ہو سکتی ہے؟یہ بحث حزب
المجاہدین کے سابق کمانڈر ذاکر موسیٰ کے ایک آڈیو بیان کے سامنے آنے کے بعد
شروع ہوئی ہے ۔نوجوانوں کے اصرار پر میں نے ذاکر موسیٰ کا آڈیو پیغام سوشل
میڈیا پر سنا ۔جس میں موصوف نے تحریک کشمیر کے مذہبی پہلو پر بات کرتے ہو
ئے علماءِ کرام اور حریت لیڈران پر نہ صرف سخت تنقید کی ہے بلکہ علماء کو
ڈرپوک اور بزدل ہو نے کے طعنوں سے نوازنے کے ساتھ ساتھ حریت لیڈران کو لال
چوک میں لٹکانے کی بھی دھمکی دیدی ہے اور اس کی وجہ یہ بیان کی ہے کہ یہ
لوگ تحریک آزادی کشمیر کو سیاسی تحریک یا سیاسی اشو قرار دیتے ہیں مذہبی
نہیں ۔اس بیان کا اثر نہ صرف یہ کہ ابھی تک موجود ہے بلکہ نوجوان طبقہ نے
اس حوالے سے کئی جگہوں پر جلسوں اور جلوسوں میں اس کے حق میں نہ صرف نعرے
بلند کئے بلکہ ’’شہداء کی میتوں‘‘ پر پاکستانی پرچم ڈالنے کی رسم کو توڑتے
ہو ئے کالے پرچم (جو داعش کے جھنڈوں سے کافی مماثلت رکھتے ہیں)ڈالنے کا
آغاز کیا اور حال ہی میں سجاد گلکار کی تکفین کے موقع پر پاکستان نوازوں کے
صبر کے نتیجے میں معاملہ ناخواشگوار صورت اختیارکرنے سے رہ گیا ورنہ شاید
بات آگے بڑھ کر جنگ و جدال تک پہنچ جاتی ،یہی وجہ ہے کہ حریت کانفرنس کے
بزرگ لیڈر سید علی گیلانی نے 20جولائی2017ء کو اس صورتحال پر تفصیلی بیان
جاری کرتے ہو ئے کہا کہ’’کچھ شر پسند عناصر ”جہاد کے نام پر فساد“ والے اس
رحجان کو کشمیر بھی درآمد کرانا چاہتے ہیں، تاکہ اس کی آڑ میں” نظریہ
پاکستان اور آزادی پسند قیادت کے خلاف وہ اپنی بھڑاس کو نکال سکیں اور قوم
کو انتشار اور افتراق کے حوالے کرکے اپنی بیمار نفسیات کو تسکین فراہم
کرسکیں،سید گیلانی نے بعض مقامات پر چند گِنے چُنے لوگوں کی طرف سے چاند
تارے والے جھنڈے کی توہین کرنے اور مسلمہ آزادی پسند قیادت کے خلاف منفی
پروپیگنڈا کرنے کو ایک بڑی گہری سازش کا شاخسانہ قرار دیا اور کہا کہ یہ
مہم جوئی خون سے سینچی ہوئی تحریکِ آزادی کو کنفیوژن کے حوالے کرنے اور
کشمیریوں کی مظلومیت سے توجہ ہٹانے پر منتج ہوگی۔ اس سے بھارت کو بھی یہ
پروپیگنڈا کرنے میں بڑی مدد ملے گی کہ کشمیر عالمی دہشت گردی سے جُڑا ایک
معاملہ ہے اور اس کی افواج جموں کشمیر میں جنگی جرائم کا ارتکاب کرنے اور
جبروزیادتیاں ڈھانے میں حق بجانب ہیں۔انہوں نے کہا کہ یہ نیا رحجان پیدا
کرانے میں کچھ بیمار ذہنیت اور احساسِ محرومی کے شکار لوگ بھی کرارہے ہیں
اور گنتی کے چند نا فہم بچے بھی اس میں غیر شعوری طور پر استعمال ہورہے
ہیں۔‘‘(21جولائی 2017ء ۔روزنامہ بلند کشمیر سری نگر )
ہمارا تعلق ایک ایسی قوم ہے جو کئی طرح کے المیوں کے مجموعات میں جی رہی ہے
یہاں جو جس طرح چاہتا ہے مسائل پر بات کرتا ہے ۔کچھ سیکھے پڑھے بغیر ہی ہر
فرد کشمیر میں عالم ہے ۔سوشل میڈیا کی دریافت کے بعد یوٹیوب اور انٹرنیٹ سے
استفادہ کرتے ہو ئے مختلف مبلغوں اور واعظین کی تقاریرسن کر ایسی جماعت
وجود میں آچکی ہے جو اپنے سواء ہر فرد کو جاہل ،مشرک اور منافق قرار دیتی
ہے ۔اسی پر بس نہیں بلکہ جو ان کی فکر یا مسلک کا حامی نہیں ہے اس کے لئے
تمام تر عذاب و عتاب کی وعیدیں کتابوں سے تلاش کر کے سوشل میڈیا پر پھیلائی
جاتی ہیں اور جو ’’اپنے‘‘ہیں وہ موحد،اہل سنت ،اہل الحق اور مجاہدین فی
سبیل اﷲ کے اعزازت کے مستحق قرار پاتے ہیں ۔ اس ذہنیت میں نوجوانوں کی بڑی
پود مبتلا ہو چکی ہے ۔یہی نہیں بلکہ اس طبقے کا مزاج یہ بن چکا ہے کہ
دنیاوی مسائل میں اختصاص کو دل و دماغ سے قبول کرتے ہو ئے نہ صرف شعبہ صحت
میں اچھے اسپیشلسٹ ڈاکٹر کی تلاش رہتی ہے بلکہ والدین خود ’’پی ،ایچ،ڈی
‘‘اسکالر ہونے کے باوجود شعبہ تعلیم میں اپنے بچوں کے مستقبل کی فکر مندی
کو لیکر ایسے’’ ٹیوشن سینٹر‘‘کی تلاش رہتی ہے جہاں تمام تر مضامین پڑھانے
والے قابل ترین اساتذہ جمع ہوں ۔یہی مشاہدہ معیشت ،معاشرت اور سیاسیات کے
میدانوں میں ہو رہا ہے سوائے ایک دین کے جہاں مسلمان ہونا کافی ہے اور اگر
کوئی نوجوان ایسا ہو جس کا تعلق کسی بھی مذہبی جماعت سے ہے تو پھر الحفیظ
والامان۔وہ خود ہی نہ صرف عالم و فاضل ہے بلکہ مفتی ،مفسر اور محدث بھی
!اور تو اور بعض نوجوانوں کی باتیں سن کر بے ساختہ یہ شعر زبان پر آتا کہ
’’حیراں ہوں کہ دل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو میں،مقدور ہو تو ساتھ رکھوں
نوحہ گر کو میں‘‘کے مصداق مسائل اس قدر گمبھیر سطح تک پہنچ چکے ہیں کہ وہ
یہاں تک فرما جاتے ہیں کہ کیا ہم خود اجتہاد نہیں کر سکتے ہیں ہم نے تو
اتنی کتابیں پڑھی ہیں اور اتنا لٹریچر میرے گھر میں ہے ۔یہ میں ذاکر موسیٰ
نامی مجاہد نوجوان سے متعلق نہیں لکھ رہاہوں بلکہ نئی نسل کی نا پختہ ذہنیت
کوالفاظ کے روپ میں پیش کرتے ہوئے یہ بتانا چاہتا ہوں کہ’’گہرے دینی علوم
سے ناآشنا ‘‘ جس کشمیر میں ہم رہتے ہیں وہاں کے اسلام پسند نوجوانوں کی
علمی،فکری اور ذہنی حالت کس قدر پریشان کن ہے ۔
اس خام ذہن کا بعض مکاتب فکر نے خوب فائدہ اٹھا کر امت مسلمہ میں ایسی خلیج
پیدا کر دی کہ بظاہر اس کو پاٹنا ناممکنات میں نظر آتا ہے ۔کشمیر میں پہلی
بار تحریک آزادی کے مذہبی پسِ منظر پر سوالات نہیں اٹھائے گئے ہیں بلکہ
ڈاکٹرجاوید غامدی صاحب،مولانا وحید الدین خان صاحب جیسے تمام تر جہادی اور
مذہبی تحریکات پر شدید تنقید کرنے والے ہی نہیں بلکہ مفسر قرآن مولانا
عبدالکریم پاریکھ مرحوم،ڈاکٹر اسرار احمد مرحوم ،شیخ توصیف الرحمان
صاحب،ڈاکٹر طاہر القادری صاحب ،ڈاکٹر خالد حامدی صاحب جیسے سینکڑوں علماء
اور دانشوروں کو اس کے مذہبی پس منظر اور بعض مسائل پر اعتراضات ہیں ۔بعض
تو اس کو جہاد ہی نہیں مانتے ہیں اور جو مانتے ہیں وہ اس کے طریقہ کار سے
سخت نالاں ہیں ۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ خود سر زمین کشمیر کے علماء کی
رائے مسئلے پر کیا ہے؟کیا وہ جیل جانے سے خوفزدہ ہیں ؟کیا وہ طاغوت سے ڈر
کر خاموشی پر قانع ہیں ؟یا اس کے اسباب کچھ اور ہیں ۔وکی پیڈیا کے مطابق
نوجوان مجاہد ذاکر موسیٰ کی پیدائش عسکری تحریک شروع ہونے کے چار سال بعد
1994ء میں ہوئی ہے تو کیا جنہوں نے یہ جنگ شروع کی اور اس میں اپنی زندگیاں
نچھاور کیں انھوں نے اس کے شرعی پہلؤ کو معلوم کرنے کی زحمت گوارا نہیں کی
ہوگی ؟تحریک کشمیر 1990ء اور1947ء سے بھی پہلے اس وقت شروع ہوئی جب درانیوں
کے بعد سکھوں نے 1846ء میں ریاستِ کشمیر پر قبضہ کر کے جامع مسجد سرینگر کے
سوا ہر اسلامی علامت کو تاراج کردیا اس المناک تاریخ کی داستان کتابوں میں
تفصیل سے درج ہے۔نہ پڑھنے کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہوتا ہے کہ کتابیں نہیں ہیں
یا مصنفین اور مؤرخین نے کچھ چھپا رکھا ہے ۔ہاں اس بات میں شک نہیں کہ
1947ء سے بالعموم اور1990ء سے بالخصوص تحریکِ کشمیر کو نئی زندگی اور نئی
جہت ملی ہے اور میرے نزدیک یہ ستر سالہ مسئلہ نہیں بلکہ بہت پرانا معاملہ
ہے فرق بس اتنا ہے کہ قابضین کے نام اور چہرے بدلے حقیقت نہیں ۔میرے کہنے
کا حاصل یہ ہے کہ تحریک کشمیر سے متعلق فتویٰ کسی عالم یا مفتی کودینے کی
ضرورت آج یعنی 2017ء میں نہیں ہے بلکہ کئی سو سال پہلے علماءِ کشمیر نے
سکھوں کے حملے کے وقت اس سلسلہ میں فتویٰ ’’کتمانِ حق‘‘کے جرم میں ملوث ہو
ئے بغیر جاری کردیا ہے ۔اور 1990ء میں شاید ہی کوئی فردِ بشر کشمیر میں تھا
جس نے تحریک کے حق بجانب ہونے پر کسی عالم سے کوئی فتویٰ مانگا ہو صرف اس
لئے کہ فتویٰ اس وقت مانگا جاتا ہے جب کسی کو مسئلہ سے متعلق اشکال یا تردد
ہو ۔کشمیر پولیس سے لیکر استاد،وکیل،طالب علم ،مزدور،تاجر سیاستدان ،قلمکار
، صحافی غرض شعبہ ہائے حیات سے وابستہ فردفرد تحریک کا حصہ تھاحتیٰ کہ بین
الاقوامی سطحی کے مشہور علماء علامہ یوسف القرضاوی ،شیخ محمد قطب مرحوم،شیخ
محمد القطان اور شیخ ابن بازمرحوم نے کشمیر کی تحریک سے متعلق وقت وقت پر
اپنی آراء پیش کی ہیں اس لئے کہ یہ مسئلہ2017ء کی کہانی نہیں بلکہ کئی سو
سال پرانا المیہ ہے ۔ہاں اس بات میں ذرہ برابر شک نہیں ہے کہ اگر تحریک
کشمیر میں شمولیت سے مراد حریت والوں کے ساتھ شمولیت ہے تو تحقیقاََ عرض ہے
کہ کشمیری علماء کو کسی بھی مرحلے پر شمولیت کے لئے نہ ہی مدعو کیا گیا ہے
اور نا ہی ان کے عسکری یا سیاسی تنظیمات میں شمولیت کی کوئی مؤثر کوشش کی
گئی بلکہ الٹا بعض تنگ نظر جہلاء نے اپنی جھوٹی انا کی تسکین کے لئے ڈاکٹر
قاضی نثار احمد سے لیکر مفتی جمال الدین قاسمی تک نہ صرف انہیں’’مشکوک
حالات‘‘میں قتل کیا بلکہ پروفیسر عبدالغنی ازہری صاحب جیسے متبحر عالم دین
تک کو گولیوں سے نشانہ بنایاگیا تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایسے حالات میں
ایک زیر دست طبقہ کس طرح آگے بڑھنے کی کوشش کرتا؟باوجود اس سب کے علماءِ
کشمیر نے وطن ِ عزیز میں قیام کو ترجیح دیکر جہادی تحریک کے پسِ منظر میں
شہداء کے ہزاروں یتیم بچوں کو مفت دینی تعلیم کے زیور سے آراستہ کیا ۔البتہ
یہ بات بھی نوٹ کرنے کے لائق ہے کہ کشمیر میں لوگ غیروں سے زیادہ اپنوں سے
ہی ڈرا کرتے ہیں ۔
اس کے بعد مشترکہ حریت قیادت کے اس بیان پر دھمکی آمیز لہجے میں بات کی گئی
جس میں حریت لیڈران نے مسئلہ کشمیر کو سیاسی اشو قراردیا تھا۔یہ سوال بھی
کوئی پہلا سوال نہیں ہے بلکہ چند برس قبل عبدالغنی لون مرحوم نے بھی یہ اشو
بڑے زور و شور کے ساتھ اٹھایا تھا جس کا میں نے اپنے ایک طویل ترین مقالے
میں تفصیلی جائزہ لیکر جواب دیا تھا اور وہ مقالہ تقریباََ پانچ مہینے تک
’’ ہفت روزہ احتساب سری نگر‘‘ میں قسط وارشائع ہوا تھا لہذا ایسا نہیں ہے
کہ کشمیر کے علماء کفار یا طاغوت سے خوفزدہ ہو کر حق بات کہنے سے احتراز یا
بخل کرتے ہیں ۔سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا انسان کا ہر مسئلہ مذہبی ہوتا ہے
سیاسی یا غیر سیاسی نہیں ؟میں سمجھتا ہوں یہ مغالطہ ہے دراصل ہمارے
نوجوانوں کا مطالعہ سطحی ہونے کی بناء پر وہ بعض مسائل میں مطالعہ کے بعد
غور و فکر کو ترجیح دینے کے بجائے بعض شعراء یا مفکرین اسلام کے اقوال کو
صحیح پسِ منظر میں سمجھے بغیر ہر مسئلہ پر اس کا انطباق کر دیتے ہیں ۔ہروہ
مسئلہ جو کسی بھی انسانی سماج یا معاشرے کو پیش آتا ہے کی سب سے پہلے ہیت
اور وجہِ تخلیق دیکھنی ضروری ہوتی ہے ۔جو ہر مسئلے کی جداجدا اور منفرد
ہوتی ہے ۔ جہاں تک مسئلہ کشمیر کی تخلیق اور پیدائش کا تعلق ہے کشمیر پر
ڈوگرہ خاندان سے قبل سکھوں ،مغلوں اور درانیوں نے قبضہ کر کے کئی سو سال تک
کشمیریوں پر حکومت کی ،اس کے بعد درست تاریخ پر محققین کا اتفاق ہے کہ یہ
المیہ برطانوی سامراج کے ہندوستان سے نکلنے کے بعد ’’اختیار شدہ غلط سیاسی
فیصلے ‘‘ کے نتیجے میں اس وقت پیش آیا جب بانی پاکستان محمد علی جناح صاحب
نے مسلمانان برصغیر کے لئے الگ ریاست کا مطالبہ کیا ۔برطانیہ نے مطالبے کو
قبول کرتے ہو ئے برصغیر کو مذہبی بنیادوں پر دو حصوں میں تقسیم کرنے کا
فیصلہ کرتے ہوئے ہندوستان سے متصل آزاد اور خود مختار چھوٹی چھوٹی ریاستوں
سے متعلق بھی یہی فیصلہ کیا کہ وہ دو میں سے ایک کے ساتھ اپنا مستقبل
وابستہ کرے ۔مہاراجہ ہری سنگھ کوہندوستان کی کوکھ سے جنم لینے والی نئی
مسلمان ریاست پاکستان کے ساتھ شامل ہونے پر تردد تھااورہندوستان میں شمولیت
پر اس کوکشمیر کا مسلم اکثریتی کردار پریشان کر رہا تھا ۔ہندوستان ٹوٹ جانے
کے بعد اور برطانوی سامراج کے نکلنے کے ساتھ ہی قتل عام،لوٹ مار،افراتفری
اور جنگ و جدال کے بیچ اس نے کشمیر کو ہندوستان سے جوڑنے کا سیاسی فیصلہ لے
لیاجس کے نتیجے میں ایک نئے المیہ نے جنم لے لیا ۔اس فیصلے کو اگر سیاسی کے
برعکس ’’مہاراجہ کا مذہبی فیصلہ‘‘ مان لیا جائے تو پھر سوال پیدا ہوتا ہے
کہ ہم ہندوستان سے کون سی ماضی کی غلطی کی شکایت کریں گے ؟ان کے نزدیک تب
تو وہ ہیرو ہے اور اس نے اکھنڈ بھارت کی خدمت کی ہے ۔برعکس اس کے جب ہم اس
کے غلط اور عوامی خواہشات کے بالکل الٹ سیاسی فیصلے کی شکایت کرتے ہیں
توبھارت اور پاکستان کے ساتھ ساتھ پوری دنیا اس پر غور و فکر کی زحمت گوارا
کرتی ہے اور بعد کی اقوام متحدہ کی قراردادیں ہماری بات میں وزن پیدا کرتی
ہیں کہ مہاراجہ نے ایک متعصب ہندؤ کی حیثیت سے ایک سیاسی مسئلے پر غلط
سیاسی فیصلہ لیکر ایک قوم کی خواہشات کا خون کرتے ہو ئے انہیں بھارت میں
دھکیل کر برصغیر کے وجود میں ناسور پیدا کردیا۔
اس سچائی کے بعد غور طلب بات یہ ہے کہ مسئلہ کشمیر کو مذہبی مسئلہ کے برعکس
سیاسی مسئلہ قراردینے سے کیا ہمیں اسلام کہیں بھی یہ تعلیم دیتا ہے کہ آپ
اپنے حقوق سے اس لئے دستبردار ہو جاؤ کہ آپ کا سیاسی حق تلف کیا جا
چکاہے؟کیا اسلام جیسا عظیم دعوتی،سیاسی،سماجی،معاشرتی،معاشی،علمی اور
اصلاحی مذہب کی تعلیمات میں ایک آیت یا کوئی ایک آدھ حدیث بھی موجود ہے جس
میں کسی بھی طرح کے اجتماعی یا انفرادی سیاسی،سماجی اورمعاشی حقوق سے
دستبرداری کی تعلیم ملتی ہو۔مسئلہ کشمیر ایک غلط سیاسی فیصلے کے نتیجے میں
پیدا شدہ مسئلہ ہے اور اسلام ہمیں اپنے حق کے حصول کی نہ صرف تعلیم دیتا ہے
بلکہ اس پر ابھارتا بھی ہے ۔ایک موقع پر نبی کریم ﷺ حملہ آور ظالم سے دفاع
کے بارے میں حکم پوچھا گیا ،سیدنا ابوہریرہؓروایت کرتے ہیں کہ ایک آدمی
رسول اﷲ ﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا اور کہنے لگا: یارسول اﷲ! اگر کوئی
شخص میرا مال چھیننے کی کوشش کرے تو میں کیا کروں؟ فرمایا: اپنا مال اسے نہ
دو ،پوچھا:اگر وہ مجھ سے لڑنے لگے ؟آپؐ نے فرمایا ’’اس سے لڑو‘‘ پوچھا: اگر
وہ مجھے قتل کردے ؟آپؐ نے فرمایا کہ’تم شہید کہلاؤ گے ‘ پوچھا: اگر میں اسے
قتل کردوں؟فرمایا ’’وہ جہنمی ہوا‘‘(صحیح مسلم)جہاں تک قیامِ خلافت کی
جدوجہد کے پس منظر میں ’’شریعت یا شہادت‘‘کا تعلق ہے میں سمجھتا ہوں شاید
ہی کوئی مسلمان ہوگا جس کے دل میں خلافت علی منہاج النبوۃ کے قیام کی تمنا
نا ہومگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ سلوگن آج کی القائدہ یا داعش کی
ایجاد ہے ؟نہیں ایسابالکل نہیں ہے البتہ سمجھنے اور غور کرنے کی بات یہ ہے
کہ خلافت ہمارے ہاتھ سے چھوٹے ہو ئے ایک دو سال نہیں ہوئے ہیں بلکہ اس
سانحہ کو پیش آئے پانچ کم چودہ سو سال گذر چکے ہیں اور اس المیہ کی خبر نبی
کریمﷺ نے امت کوخود ہی دی تھی ۔یہ مسئلہ صرف کشمیر کے غلام مسلمانوں کا ہی
نہیں بلکہ پچاس مسلم آزاد ممالک کے مسلمانوں کودرپیش ہے ۔نیت کرنے اور
رکھنے میں حرج نہیں ہے مگر کیا کشمیر کے غلام مسلمان آزادی سے قبل خلافت کے
قیام کی جدوجہد کر سکتے ہیں ؟رہی بات آزادی کے بعد تو اس میں نہ کوئی قباحت
ہے اور نا ہی الجھن ۔ اور سچائی یہی ہے کہ مصروفِ جدوجہد اکثر کشمیری
مسلمان اسی نیت سے شامل جدوجہد ہیں البتہ کسی کو حقائق کا علم نا ہو تو اس
کا قصور اس کا اپنا ہوتا ہے کسی اور کا نہیں ۔کشمیری مسلمانوں کو اس وقت جو
پریشانی کھائی جا رہی ہے وہ ہے بھارت کی انتہاپسند ہندؤ حکومت کا عالمی سطح
پر قبولِ عام کے بعد کشمیر کی تحریک کے تئیں ’’عالمی خوارجی تحریکات ‘‘سے
جوڑنے کے پروپیگنڈے کے بعد مسلمانان کشمیر کی بلا خلل جاری نسل کشی !!اس
پسِ منظر میں اگر کوئی تحریک آزادی کشمیر کے لیڈران کی اپنائی گئی پالیسی
اور حکمتِ عملی کو بزدلی یا منافقت کہتا ہے تو سوائے افسوس کے اور کیا کیا
جا سکتا ہے ۔ہندوستانی ٹیلی ویژن چینلز پر بیٹھے کئی دانشور ببانگ دہل یہ
دعویٰ کرتے ہیں کہ یہ کوئی آزادی کی تحریک نہیں بلکہ خلافت کی جنگ ہے تو
پھر ہمارے لیڈروں کو باربار اعلان کرنے اور صفائی دینے کی ضرورت کیوں ہے کہ
وہ سیاسی مسئلہ کے لئے برسرِجدوجہد ہیں کہ مذہبی مسئلہ کے لئے ۔
رہی بات کشمیرمیں داعشی پرچموں کے پھیلاؤکی اور انھیں توحیدی جھنڈے قرار
دینے کی ؟میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوکہ داعش کے خلاف پورے عالم اسلام کے تمام
تر مکاتب فکر کے اجتماعی اور اجماعی’’ فتوائے خارجیت‘‘ کے بعد ان کی علامات
کو کشمیر کے مسلمان کیوں اور کیسے قبول کریں گے؟داعش خارجی افکار سے متاثر
فکر کا نام ہے جنہوں نے اپنی ہر حماقت اور پاگل پن کو جہاد اور اسلام سے
جوڑ کرخوفناک وحشیانہ اور ظالمانہ کاروائیوں سے ایک ایک فرد کو نہ صرف
متنفر کیا بلکہ ’’خدائے رحیم کے رحمۃ للعالمین پر نازل کردہ دینِ رحمت‘‘کی
صورت ہی مجروح کردی ۔اس کے ساتھ ہی ساتھ یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ اسلامی
شریعت میں ’’پرچم‘‘سے مراد کپڑے کا ٹکڑا نہیں ہے بلکہ اسے مراد جنگ کا مقصد
اور ہدف ہے اس کی دلیل وہ حدیث نبویؐ ہے جس میں آپؐنے فرمایا ’’جس نے اندھے
تعصب کے جھنڈے کے تحت لڑا‘‘(صحیح مسلم)الفاظ پر غور کیجیے تو معلوم ہوتا ہے
یہاں جھنڈے سے مراد کپڑا نہیں بلکہ وہ مقصد اور ہدف ہے جس کے تحت یا جس کے
لئے لڑنے والے نے لڑائی لڑی ۔گویا اگر مقصد واضح اور متعین ہونے کے ساتھ
ساتھ وہ مکمل شرعی دلائل پر مبنی ہوتو اس جماعت کا جھنڈا جو بھی ہوگا شرعی
ہوگا ۔جہاں تک مخصوص رنگ کے جھنڈے کا تعلق ہے تو نبی پاکﷺ سے کوئی مخصوص
رنگ ثابت ہو نے کے بجائے سفید،سیاہ اور زرد رنگ بھی ثابت ہے ۔امام ابن حجر
ؒفتح الباری جلد ششم صفحہ نمبر:126پر اس اختلاف کی وجہ مختلف حالات کا پیش
آنا بیان کرتے ہیں ۔مجھے اس بات پر بھی حیرت ہوتی ہے کہ داعش شیعہ حضرات سے
شدید نفرت کے باوجود کالے جھنڈے اور کالے لباس پر کیوں بضد ہے، کل تک اہل
سنت انہیں کالے جھنڈے اور کالے لباس پر طعنوں سے نوازتے تھے اور آج اپنی
سنیت پر فخر کرنے والے خوارج نے انہی کے رنگ کو اپنا رنگ بنا لیا ۔خراسان
کی سلطنت کالے رنگ سے وجود میں نہیں آئے گی بلکہ اس کے لئے جو بشارتیں
احادیث میں موجود ہیں ان کی عملی صورت میں ظہور ہونے سے پہلے اس کے لئے ایک
’’لیڈر اور امام‘‘کا ظہور ہوگا اور تائید یزدانی سے عالم اسلام ان کے سامنے
جھک جانے پر مجبور ہوگا ۔انھیں کسی مخصوص لباس اور جھنڈے کی حاجت نہیں ہوگی
اور نا ہی انہیں اپنی امامت پر قسمیں کھانے کی ضرورت ہوگی ۔ان کا ظہور سورج
کے مانند ہوگا جس کی روشنی سے عالمِ دنیا کا کونا کونا روشن ہوتا ہے جیسا
کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ مہدی کے عدل سے روئے زمین کے کونے بھر جائیں گے
،دولت کی فراوانی اس قدر ہوگی کہ کوئی لینے والا باقی نہیں بچے گاالخ۔ اب
جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے وہ بلاشبہ اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا ایسا
ملک ہے جہاں اسلام نافذ نہیں ہے مگر کیا جس سرزمین میں اسلام کا سورج طلوع
ہوا اس میں اقامتِ صلوٰۃ اورحدود و تعزیرات کے سوا خلافت اسلامیہ کی کوئی
چیز نظر آتی ہے تو پھر پاکستان پر ہی سوالات کھڑا کرکے اس کے وجود کو کفر و
طاغوت سے جوڑنے کی وجہ کیا ہو سکتی ہے؟ ہماری نئی نوجوان نسل کو یہ تک نہیں
معلوم ہے کہ اس سب کے باوجود فقہاءِ اسلام نے ان ممالک کودارالاسلام کے
دائرے میں شامل رکھا ہے اس لئے کہ حاکم کے فاجر اور فاسق ہونے سے کوئی
مسلمان ملک دارالکفر نہیں بن سکتا ہے اور فردیاافراد کے اعمال کتنے ہی قبیح
کیوں نا ہوں ان سے ملکوں کی تقسیم تب تک عمل میں نہیں آسکتی ہے جب تک نہ وہ
ملک اعلاناََ دین کا چولا نہیں پھینک دیتا ہے ۔
جہاں تک اقوام متحدہ اور اس کی کی قراردادوں کا تعلق ہے یہ ایک بین
الاقوامی ادارہ ہے۔ جہاں غیر مسلم ممالک کے ساتھ ساتھ مسلمان ممالک بھی بعض
قابل اعتراض دفعات کے باوجود ممبر ہیں ۔اس میں بھی دو رائے نہیں ہے کہ اس
ادارے پر غیر مسلموں کا غلبہ ہے اور یہ ادارہ عملاََ امریکہ
،روس،چین،برطانیہ اور فرانس کی لونڈی کا کردار ادا کرتا ہے ۔ایسے میں سوال
پیدا ہوتا ہے کہ اس ادارے کی پاس کردہ قراردادوں سے متعلق کشمیری قوم کا
کیا تعلق ہے ؟غلط فہمی یہ ہے کہ شاید کشمیری مسلمان اور ان کے دینی اور
سیاسی رہنما اﷲ کے برعکس اس ادارے سے حل کی امید لگائے بیٹھے ہیں نعوذ باﷲ
من غضب اﷲ ۔المیہ یہ ہے کہ بعض لوگوں کو اپنی عقل اور دینداری کا بخار
چڑھنے لگتا ہے اور خبطِ عظمت کے اس بھوت کا کوئی علاج دستیاب نہیں ہے ۔کوئی
بھی عقلمند اور باشعور مسلمان اس طرح کا عقیدہ نہیں رکھے گا کہ وہ اﷲ کے
برعکس بتوں سے امیدیں وابستہ کرے ۔مگر قابل غور مسئلہ یہ ہے کہ خود بھارت
یہ مسئلہ اقوام متحدہ میں یہ کہہ کر لے گیا کہ جوں ہی ریاست میں حالات ٹھیک
ہوں گے ہم عوام سے حق خود ارادیت کے تحت پوچھیں گے کہ وہ اپنا مستقبل کس کے
ساتھ وابستہ کرنا چاہتے ہیں ؟اب غیر مسلم قابض بھارت’’ تسلیم شدہ بین
الاقوامی غیر مسلم ادارے ‘‘میں جا کر دنیا کے لیڈران کو گواہ بنا کر کشمیری
مسلمانوں سے ان کے مستقبل کے متعلق ان کی رائے پوچھنے کا وعدہ کرتا ہے تو
اس سلسلے میں مسلمانان کشمیر سے کون سی ناقابل معافی غلطی سرزد ہوئی ہے کہ
انہیں گنہگار ، فاسق ، فاجر ،استمداد غیر اﷲ یا استعانت لغیر اﷲ کا مجرم
قرار دیا جائے ۔ایک غیر مسلم ادارہ اگر آپ کے مذہب کو چھیڑے بغیر کسی بھی
طرح کی مددکرنا چاہے تو اس میں اس کا یا مسلمانوں کا کیا قصور ہے ؟اور اگر
کسی کو اس میں کفر و شرک کی آمیزش نظر آتی ہے تو برائے کرم وہ ہمیں بھی با
خبر فرما کر احسان فرمائے ۔نہیں تو عام سا انسان بھی چیخ چیخ کر پوچھ سکتا
ہے کہ سات ارب کی آبادی میں ڈیڑھ ارب آبادی کی مسلم دنیا کو ایسے ہزاروں
مسائل درپیش ہیں جہاں اشتراکِ عمل کے سوا کوئی صورت نہیں ہے ۔کیا نبی پاک ﷺ
اور پھر صحابہؓ اور ان کے بعد تابعین اور تبع تابعین کے دور میں جب ایک حد
تک دنیا فتح ہوئی تو انھوں نے غیر مسلم ممالک میں آنے جانے کو حرام قرار
دیدیا؟ کیا اس کے بعد دعوت اور تجارت کے سلسلے میں حرام کا فتویٰ صادر ہوا
؟کیا نبی پاکﷺ نے خود مدینہ طیبہ میں آنے والے غیر مسلم وفود پر پابندی
لگائی ؟کیا ہجرت ثانی ایک کافر ملک کی طرف نہیں ہوئی ؟کیا صحابہؓ نے نبی
پاک ﷺ کی اجازت سے حبشہ میں قیام نہیں کیا؟ تو پھر ایک غیر مسلم طاقتور
ادارے کو اگر اس کا کیا ہوا وعدہ یاد دلایا جائے تو اس میں کفر و شرک کی
کون سی بات ہے ؟شرک یہ ہے کہ آپ کسی بھی چھوٹے بڑے مسئلہ میں اگر اﷲ کو
چھوڑ کر کسی بھی طرح کی امید وابستہ کریں جبکہ ہم سب کا یہ اعتقاد ہے کہ
مسئلہ کشمیر کا حل اﷲ کی مرضی کے بغیر ممکن نہیں ہے وہ جب چاہیے گا تبھی یہ
مسئلہ حل ہو جائے گااور اﷲ بغیر جدوجہد اور محنت کے کسی کے جھولی میں ڈالنے
کی طاقت کے باوجود کچھ بھی نہیں ڈالتا ہے ۔مسئلہ کشمیر کی جدوجہد میں اقوام
متحدہ کو کوئی نہ خدا سمجھتا ہے اور نا ہی حاکم بلکہ ایک دنیاوی ادارے میں
مسئلہ کشمیر سے متعلق پاس کی گئی قرارداد کی یاد دہانی کراتا ہے تو یہ شرک
و کفر کیوں اور کیسے ہے ؟
کشمیر کی نوجوان نسل کو داعش کے وجود میں آنے سے بہت پہلے ہم نے اپنی تحریر
و تقریر سے باخبر کیا تھا کہ مسلکی تشدد کی تیزی کے ساتھ پھیلتی آگ کشمیر
کی طرف بڑھ رہی ہے ۔یہاں بعض زرخرید ایجنٹ غیر ملکی ایجنڈے پر عمل کرتے
ہوئے صدیوں پرانے بھائی چارے کو فنا کرنا چاہتے ہیں ۔ہم نے بارہا یہ عرض
کیا ہے اہل اسلام کے بیچ اختلافات بالکل اسی طرح موجود ہیں جس طرح دوسرے
تحریف شدہ سماوی مذاہب کے پیروکاروں کے بیچ پائے جاتے ہیں ،اختلافات بری
چیز نہیں اگر اس کو اپنے حال پر چھوڑ کر مشترکات کو دیکھ کر ایک دوسرے کو
برداشت کرتے ہو ئے آگے بڑھنے کا حوصلہ پیدا کیا جائے ۔اختلافات تو درکنار
اتفاقات بھی لعنت بن جاتے ہیں جب انہیں غلط رنگ میں پیش کیا جاتا ہے ۔جیسا
کہ ارشاد الہٰی ہے ’’وہ اﷲ کا کلام سن کر اس میں جان بوجھ کر تحریف کرتے
تھے ‘‘(سورۃ بقرۃ:آیت۔75) علماءِ بنی اسرائیل اﷲ تعالیٰ کے کلام میں جان
بوجھ کر تحریف کرتے تھے یعنی اس کا معنی و مفہوم حسب منشا تبدیل کرتے تھے
آج کل بعض علماء کا حال بعینہ یہی ہے کہ وہ ایک دوسرے کی تحریرات اور
تقاریر کو غلط انداز میں پیش کرتے ہو ئے نوجوان نسل کو ایک دوسرے کے خلاف
بھڑکاتے ہیں ۔یہی نوجوان پھر کسی موقع پر حکومتوں کے خفیہ ایجنڈے کے لئے
دین کے نام پرایندھن بن کر اپنی زندگیاں ’’خود کش بمباروں کی صورت ‘‘میں
فنا کردیتے ہیں ۔شام و عراق اس کی سب سے افسوسناک اور خوفناک مثالیں
ہیں۔لہذ ا ابھی بھی وقت ہے کہ ہم سوادِ اعظم کے ساتھ جڑتے ہوئے جمہورکے
تصور اورعقائد کی رسی کو مضبوطی سے تھام لیں جو ثابت شدہ حق ہے۔ہمارے اسلاف
نہ کم علم تھے نا ہی گمراہ ،انھوں نے ایک ایک چیز کو باریکی کے ساتھ جانچا
اور پرکھا اورانھوں نے صحابہ کبارؓ کے چھوڑے ہوئے نقوش کو براہ راست یابیچ
کے ایک ہی واسطے کے بعد دیکھا ،انہی اسلاف کی قیادت و سیادت جن بزرگوں نے
کی وہی جمہور کہلائے ۔وہ قرآن و حدیث میں علم کے پہاڑ وں کے مانند اور عمل
و تقویٰ میں آفتاب کی طرح تھے ۔ان سے بے نیاز ہو کر یاالگ رہ کر خطرہ اس
بات کا ہے کہ ہم کم علمی اور کوتاہ نظری کے سبب جہلا کے ہتھے چڑھ کر حسین
نعروں پر قربان ہوکر اپنی دنیا بھی تباہ کردیں گے اور آخرت بھی ۔ابھی بھی
وقت ہے کہ ہم خود بھی سنبھلیں اور اﷲ سے ڈر کر نئی نسلوں کو اپنے حقیر
مقاصد پر قربان کرنے کے بجائے انہیں اپنے بھائی یا بیٹے سمجھ کر’’دین کے
نام پر ‘‘ تباہ کن اور اسلاف و جمہور بیزار راستے سے بچاکر جدید خارجیت کے
ہتھے چڑھنے سے بچائیں ۔
|