گمنام نجانے کتنے ہیں

یہ ۲۵جنوری ۱۹۹۳ء کی سردصبح تھی،سات بجکرسات منٹ پر ورجینیا میں مکلین کی ۱۲۳ نمبر سڑک کے ایک سگنل پرایک گاڑی رکی،اس میں سے ایک درمیانے قد کاخوبصورت نوجوان نکلا،اس کے ہاتھ میں چینی ساخت کی اے کے ۴۷ کلاشنکوف تھی،نوجوان نے اترتے ہی فائر کھول دیا،اس کاہدف سی آئی اے کے پانچ اہلکارتھے۔تین اہلکاربچ گئے لیکن۶۶سالہ ڈاکٹرلاسنگ پینٹ اورانجینئرڈارمنگ مارے گئے۔نوجوان فائرنگ کے بعد بڑے اطمینان کے ساتھ فرار ہو گیا۔یہ نوجوان ایمل کانسی تھا۔ ایمل کانسی ۳۱مارچ ۱۹۹۰ء کو امریکا گیا،سیاسی پناہ لی،سی آئی اے کے ایک اعلیٰ آفیسر کے بیٹے کرس مارسنی کی کوریئر کمپنی''اکسل''میں ملازم ہوا۔یہ کمپنی سی آئی اے کے ہیڈ کوارٹرمیں حساس دستاویزات پہنچاتی تھی۔ایمل یہ حساس دستاویزات اکثر سی آئی اے کے ہیڈ کوارٹر پہنچانے جایا کرتا تھا۔اسی آمدورفت کے دوران اس نے سی آئی اے پر حملے کا منصوبہ بنایا۔وہ بنیادی طور پر سی آئی اے کے ایک موجودہ اور سابق ڈائریکٹر کو نشانہ بنانا چاہتا تھا۔اس کا خیال تھا کہ ان دونوں نے مسلمانوں کو بہت نقصان پہنچایا ہے۔

ایمل کانسی کے اس حملے میں دونوں بچ گئے لیکن لاسنگ پینٹ اورفرینک ڈارمن مارے گئے۔ایمل اگلے روز پی آئی اے کی فلائٹ سے پاکستان آ گیا۔ امریکی پولیس نے اس کے فلیٹ پرچھاپہ مارا،اور اس کے دوست زاہدمیرسے کلاشنکوف برآمد کر لی۔کلاشنکوف پر ایمل کانسی کے فنگر پرنٹس موجود تھے،مزید ڈی این اے ٹیسٹ نے ایمل کانسی کومجرم ثابت کردیا۔امریکاایمل کانسی کوتلاش کرنے کیلئے پاکستان پہنچ گیا،اس آپریشن کیلئے ایف بی آئی اور سی آئی اے کی مشترکہ ٹیم تشکیل دے دی گئی جس کا سربراہ اسلام آباد میں سی آئی اے کا اسٹیشن چیف گیری شیرون تھااورآپریشن کی منصوبہ بندی ایف بی آئی کے براڈگیرٹ نے کی تھی جوکئی دیگرایجنٹوں کے ساتھ امریکا سے پاکستان آیاتھا۔کوئٹہ میں اس کے گھرکی نگرانی شروع ہوگئی،اس کے خاندان کے ٹیلیفون ٹیپ ہونے لگے،اس کے دوست احباب کاتعاقب شروع ہوگیا،اس کی تصویریں پوری دنیامیں چھپوادی گئیں، اطلاع دینے والے کیلئے بھاری انعام کالالچ بھی مقررکردیاگیا۔امریکی جاسوس انتہائی جدیدآلات کے ساتھ ایمل کانسی کی تلاش میں پاکستان آ گئے،ایمل کی تلاش کیلئے سیٹلائٹ کی مددمخصوص کردی گئی،یوں ایمل آگے آگے تھااور امریکی جاسوس ادارے اس کی بوسونگھتے ہوئے اس کے تعاقب میں ہرکونہ کھدراچھان رہے تھے۔

اسے پکڑنے کیلئے امریکی سی آئی اے کے انتہائی تجربہ کار لوگوں نے پاکستان میں تقریباً تیرہ آپریشن کئے َاس کے گھرکومسلسل دن رات کوئی لمحہ ضائع کئے بغیر سخت نگرانی میں رکھاگیا۔ اس نے نواب اکبربگٹی کے پاس پناہ لی توآصف علی زرداری اورنصیراللہ بابرکے ذریعے ایمل کی گرفتاری کیلئے نواب اکبر بگٹی پرشدیددباؤڈالاگیا،چمن اورسبی میں امریکن کمانڈوزنے اپنی ایجنٹ کی مخبری پردھاوابول دیا،افغان بارڈرپرایک سردارکے ڈیرے کو گھیرے میں لے لیا گیالیکن ایمل کانسی پھربھی ان کے قابونہ آسکا۔
سینئر امریکی انٹیلی جنس افسران سے حاصل ہونے والی معلومات کے مطابق ایمل کانسی کو ۳۵لاکھ ڈالر انعام حاصل کرنے کیلئے انہی لوگوں نے دھوکا دیااورغداری کی جنہوں نے اس کو۴برس تک پناہ دی تھی۔ یہ مئی۱۹۹۷ء کی بات ہے کہ ایک مخبر نے کراچی میں امریکی قونصل خانے سے رابطہ کیا اور کہا کہ وہ ایمل کانسی کی گرفتاری میں ایف بی آئی کی مددکرسکتاہے۔ ثبوت کے طور پر اس نے ایمل کانسی کی ڈرائیونگ لائسنس کیلئے درخواست دکھائی جس پراس کانام جعلی مگرتصویراصلی تھی۔مخبرنے امریکی حکام کوبتایاکہ جوکانسی کی پناہ گاہ سے واقف ہیں اورقبل ازیں اس کو پناہ دینے والے تھے،وہ اس کوگرفتار کراکرلاکھوں ڈالرز کی انعامی رقم حاصل کرناچاہتے ہیں۔ ایمل کانسی اس وقت پاک افغان قبائلی پٹی پررہائش پذیرتھا،اطلاع دہندگان کوامریکی ایجنٹوں نے کہا کہ اس کوپاکستان لانے کی کوشش کریں جہاں اس کوآسانی کے ساتھ پکڑا جا سکے۔اس وقت کے امریکی صدربل کلنٹن اوروزیرخارجہ میڈلین البرائٹ نے ذاتی طورپراس وقت کے صدرپاکستان فاروق لغاری سے رابطہ کرکے۱۵جون۱۹۹۷ء کوایمل کانسی کی گرفتاری کے آپریشن کی منظوری حاصل کی تھی۔ اس وقت نواز شریف وزیراعظم تھے۔

ایک پشتون دوست نے ایمل کانسی کوپرکشش کاروباری پیشکش کی کہ وہ افغانستان کے راستہ روسی الیکٹرانک اشیاء پاکستان اسمگل کرکے بھاری رقم حاصل کرسکتا ہے۔ یہ پیشکش اس کوڈیرہ غازی خان لے آئی جہاں اس کوپکڑلیا گیا۔ زہریلے انجکشن سے موت سے قبل اپنے ایک خط میں،جواس کی موت کے بعدسامنے آیا،کانسی نے کہاتھاکہ امریکامیں سی آئی اے ایجنٹوں پرحملہ اس کا اپنامنصوبہ تھااورپاکستان میں کوئی بھی شخص اس سے واقف نہیں تھا،اس نے مزیدلکھاکہ جن لوگوں نے مجھے پھنسایاوہ پشتون تھے،وہ ڈیرہ غازی خان لغاری اورکھوسہ قبائل کے علاقے میں زمینوں کے مالک ہیں مگرمیں ان کے نام نہیں بتائوں گالیکن وزیراعلیٰ پنجاب کے سابق سینئرمشیرسردارذوالفقارکھوسہ نے وضاحت کرتے ہوئے انکشاف کیاہے کہ اس بات کے ثبوت موجود ہیں کہ ایمل کانسی نے گرفتاری سے پہلے چوٹی میں سردار فاروق لغاری کے صاحبزادے سے ملاقات کی پھرانہیں ڈیرہ غازی خان کے ایک ہوٹل میں لایا گیا۔
۱۵جون۱۹۹۷ءکوجب وہ ڈیرہ غازی خان کے شالیمارہوٹل کے کمرہ نمبر۳۱۲میں سیف اللہ کے نام سے ٹھہراہواتھاتو صبح چاربجے اسے پاکستانی کمانڈونے انتہائی مہارت اورچابک دستی سے گرفتارکرلیا۔اتفاق سے مجھے اس کمانڈو ٹیم کے آپریشن کمانڈرنے بتایاکہ اگرگرفتاری کے وقت چند سیکنڈ کی تاخیرہو جاتی تو ایک بہت بڑی تباہی سے ہمیں دوچارہوناپڑتاکیونکہ ایمل کانسی ہروقت ایک خطرناک قسم کے بارودسے بھراہوابریف کیس اپنے ساتھ رکھتاتھا اور زندہ گرفتار ہونے کی بجائے وہ مرناکہیں زیادہ پسندکرتاتھا۔یہی وجہ ہے کہ جب ایمل کانسی کوگرفتارکرکے سیل میں بندکیاگیاتوایمل کانسی نے اپنی جیب سے ایک چھوٹاسا خوبصورت حمائل شریف نکال کراس کمانڈرکوخود دے دیاکہ اسے تم اپنے پاس رکھ لوکیونکہ مجھے پتہ ہے کہ تم مجھے اب امریکیوں کے حوالے کر دو گے اور مجھے یہ کسی طور گوارہ نہیں کہ اس حمائل شریف کی توہین ہو!

پاکستانی حکومت نے جب امریکیوں کو ایمل کانسی کی گرفتاری کی اطلاع دی تو امریکا کے کئی اداروں میں ہلچل مچ گئی۔سی آئی اے کی ہدائت پرایک خصوصی طیارہ ایمل کولینے کیلئے اسلام آبادائیر پورٹ پہنچ گیااوردونوں ملکوں میں بغیر کسی ایسے تحویلِ مجرمان کے معاہدے کے ایک پاکستانی شہری ایمل کانسی کو امریکہ کے سپردکردیاگیا۔ایمل کانسی کے مخبرکو۳۵لاکھ ڈالراورامریکامیں اسے خصوصی مستقل پناہ بھی دے دی گئی۔ایمل کانسی کو ورجینیاپہنچادیاگیاجہاں فیئر فیکس کی عدالت میں اس کے خلاف مقدمہ چلایاگیا۔اسی مشہوراوررسوائے زمانہ مقدمہ میں امریکی اٹارنی جنرل نے عدالت کو بڑی تحقیراورتوہین آمیزاندازمیں کہا تھاکہ پاکستانی دس ہزارڈالرکے عوض اپنی ماں کوبھی فروخت کردیتے ہیں۔بعدازاں ایمل کانسی کوسزائے موت سنادی گئی یوں بروزجمعرات۹رمضان المبارک ۱۴۲۳ھ(۱۴نومبر۲۰۰۲ء)کو امریکی وقت کے مطابق رات نو بجے ایمل کانسی کوزہرکا انجکشن لگادیا گیااوروہ اپنے
خالقِ حقیقی سے جاملا۔اناللہ واناالیہ راجعون۔

یہ ہے ایمل کانسی کی کہانی۔اس کہانی سے تین چیزیں سامنے آتی ہیں کہ اوّل امریکانے اپنے دوشہریوں کی موت کابدلہ لینے کیلئے زمین آسمان ایک کر دیا، کروڑوں ڈالرخرچ کرڈالے،مسلسل ساڑھے چارسال تک ایمل کانسی کاپیچھا کیا، اپناساراسفارتی،عسکری اورمعاشی دباؤاستعمال کیااوربالآخرقانونی اورغیر قانونی طریقے سے ایمل کانسی کواٹھاکرلے گئے۔ دوم امریکاکی نظرمیں بحیثیت ایک آزاد ملک پاکستان کی اس وقت بھی کوئی اہمیت،کوئی حیثیت نہیں تھی اب تو صورتحال بالکل ہی بدل چکی ہے۔اس وقت بھی پاکستان کے حکمران اپنے آپ کو قانون اورآئین سے بالاترسمجھتے تھے۔جب امریکاکوایمل کانسی کی شالیمارہوٹل ڈیرہ غازی خان میں موجودگی کی اطلاع ملی تومیڈلین البرائٹ نے نوازشریف کو فون کیاجواس وقت ترکی کے دورے پرتھے۔نوازشریف نے پاکستان میں اپنے ایک خاص معتمدوزیرکوامریکی کمانڈوزسے خصوصی تعاون کاحکم دیا اور لمحہ بہ لمحہ اس سے باخبررہنے کاحکم بھی دیا۔حکم کی تعمیل ہوئی اورایمل کانسی کوقانونی تقاضے پورے کئے بغیرعجلت میں امریکیوں کے حوالے کردیا گیااورسوم یہ بات بھی کھل کرآشکارہ ہوئی کہ عالمِ اسلام ایک شدید بے حسی کا شکارہے۔کسی کوایک بھی لفظ کہنے کی نہ توتوفیق ہوئی اورنہ ہی جرأت!

امریکا نے ایمل کانسی کوعین رمضان المبارک میں سزائے موت دی،اس وقت دنیامیں۶۱/ اسلامی ممالک تھے،امریکاکے اندراس وقت۸۰لاکھ مسلمان آباد تھے ، امریکامیں مسلمانوں کی۴۲۶رجسٹرڈ تنظیمیں،۱۶۵/ مدرسے،۸۴۳ /اسلامی مراکز اور ۸۹/ اشاعتی ادارے کام کر رہے تھے لیکن کسی اسلامی ادارے نے امریکاکے اندراحتجاج کیااورنہ کسی مسلم ملک نے امریکاسے باہر،اس کے برعکس امریکا کی۴۲تنظیموں نے ایمل کانسی کی سزائے موت رکوانے کی اپیلیں بھی کیں اور بھرپوراحتجاج بھی۔ان میں ایمنسٹی انٹرنیشنل،دی نیشن ڈاٹ کام،رچمنڈمرکز برائے تعلیم وامن اورقومی اتحادجیسے ادارے زیادہ نمایاں تھے۔جب ایمل کانسی کوزہرکاانجکشن لگایاجارہاتھاتواس وقت بھی۸۵/ امریکی شہری جیل کے باہر احتجاج کررہے تھے،ان لوگوں نے ہاتھوں میں موم بتیاں اورپھول اٹھارکھے تھے۔دلچسپ بات ملاحظہ کیجئے،پاکستان سمیت۶۱/اسلامی ممالک میں سے کسی ملک کواتنی توفیق نہیں ہوئی کہ وہ کم ازکم رمضان المبارک کے مقدس مہینے میں ہی یہ سزامؤخرکرنے کی درخواست کردے' یہ ''سعادت'' بھی امریکاکی تین عیسائی تنظیموں ہی کو حاصل ہوئی۔

یہ درست ہے مجرم،مجرم ہوتاہے،مجرموں کوسزابھی ہونی چاہئے لیکن کیامجرم ثابت ہونے کے بعدشہریت ختم ہوجاتی ہے،مجرم کامذہب تبدیل ہوجاتاہے، نہیں ہوتا !دنیابھرکے سفارتکارغیرملکی جیلوں میں بنداپنے ملک کے شہریوں سے ملاقات کرتے ہیں،تہوار کے مطابق ان ممالک سے ان مجرموں کیلئے رعائت بھی لیتے ہیں لیکن ہمارے اندرتو اتنی بھی اخلاقی جرأت نہ اس وقت تھی اورنہ اب ہے۔مجھے ان دنوں بڑے باوثوق ذرائع نے بتایاتھا اورمجھے یقین بھی تھاکہ اگر پاکستان یااوآئی سی امریکاسے یہ سزا ۲۵ دن تک مؤخر کرنے کی درخواست کرتی توایمل کانسی کوماہِ رمضان کے تیس روزے رکھنے کی سعادت مل سکتی تھی لیکن ایسانہ ہوا؟میرے ایک امریکی دوست کاکہنا تھا کہ امریکانے جان بوجھ کررمضان المبارک میں ایمل کانسی کوسزائے موت دی۔ وہ اس نعش کے ذریعے عالمِ اسلام کواس کی اوقات سمجھاناچاہتاتھا،وہ ان۶۱/اسلامی ممالک کوبتاناچاہتاتھا ،تم میں تواتنی بھی جرأت نہیں کہ تم اپنے مقدس مہینے کاتقدس ہی بچاسکو۔ان ایک ارب۴۵کروڑمسلمانوں سے تووہ بھیڑیں اچھی ہیں جوقصائی کواپنی بہن کی گردن پرچھری پھیرتے دیکھ کر''باں باں'' تو کرتی ہیں،ہم سے توایسابھی نہ ہو سکا !ذراسوچئے!کیاہم اس بے حسی اوراخلاقی جرأت کے اس معیارکے ساتھ دنیا میں مسلمانوں کی حفاظت کرسکتے ہیں؟ نشاطِ ثانیہ کاخواب دیکھ سکتے ہیں؟جی ہاں! یہ اسی صورت میں ممکن ہے جب اس ملک میں قرآن کومن وعن نافذکردیاجائے۔
جن لوگوں نے خوں دیکراس پھول کورنگت بخشی ہے
دوچار سے دنیا واقف ہے گمنام نجانے کتنے ہیں

Sami Ullah Malik
About the Author: Sami Ullah Malik Read More Articles by Sami Ullah Malik: 491 Articles with 355580 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.