پاکستانی قوم کیلئے فرشتہ،جس نے بلامتیاز مذہب و سماج خدمات کی

 پاکستانی قوم کا ہر فرد جرمنی کی اس عظیم میسحاڈاکٹر کیتھرائناروتھ فاؤکو جو میری ایڈیلیڈ سو سائٹی آف پاکستان کی بانی اور سربراہ تھیں کو سلیوٹ پیش کرتی ہے۔ان کے لئے یہ شعر صریحاََ صادق آٹا ہے۔ ’’مت سہل ہمیں جانو!پھرتا ہے فلک برسوں تب خاک کے پردے سے انسان نکلتا ہے‘‘ جرمنی کی یہ عظیم خاتون وہ ہیں جنہوں نے خدا کی خوشنودی کے لئے اور اپنے پیشے کی عظمت کا لوہا منواتے ہوئے اپنی زندگی کا ہر سرمایہ ہر خوشی اور ہر قسم کا زندگی کا عیش و آرام تج دیا تھا۔اس حوالے سے پاکستانی قوم جرمنی قوم کو بھی سلیوٹ پیش کرتی ہے جس کی بیٹی نے اس پسماندہ ملک کو انسانی خدمت کے لئے چنا! اور اُس وقت چنا جب لوگ کوڑھ (جذام) جیسے مرض کو انتہائی خطر ناک چھوت کی بیماری تصور کرتے تھے۔ کوڑھ کے مریضوں کو آبادی سے دور فاصلوں پر بے یارو مدد گار چھوڑ دیا جاتا تھا،اور ان کے انتہائی قریبی عزیز و اقارب تک انہیں تنہا ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مر جانے کیلئے چھوڑ کر آجاتے تھے اور ان سے تعلق رکھنا اپنے اور اپنے خاندان کے لئے زبردست خطرہ سمجھتے تھے۔ ڈاکٹر کیتھرائنا رُوتھ فاؤ کا کردار ہندوستان میں کام کرنے والی نرسنگ کے پیشے سے منسلک خاتوں مدر ٹریسا سے بھی کئی ہاتھ آگے تھا۔ان کو یہ اعزاز بھیحاصل ہے کہ ان کی کوششوں سے پاکستن سے جذامکے مرض کا ہمیشہ کے لئے خاتمہ ہو گیا۔
ڈاکٹر کیتھرینا روتھ فاؤ ،9ستمبر 1929کو جرمنی کے علاقے لائپزگ میں پید اہوئیں۔ جنگِ عظیم دوم کے دوران ان کا گھر تباہ ہو گیا تھا اورروسیوں نے مشرقی جرمنی پر قبضہ کر لیا۔ تو ڈاکٹر روتھ فاؤ اپنے خاندان کے ساتھ مغربی جرمنی آگئیں۔جہاں انہوں نے 1950 میں یونیور سٹی آف مائنز سے میڈیسن میں ڈاکٹر کی ڈگری حاصل کی۔ ڈاکٹر بن جانے کے بعد ان کے اندر انسانیت کی خدمت کے جذبے نے جنم لیا تو انہوں نے 31 سال کی جوانی کی عمر میں یہ فیصلہ کر لیا تھا کہ وہ اپنی ساری زندگی انسانی خدمت میں گذار دیں گی ۔لہٰذا اس مقصد کے حصول کے لئے انہوں نے برِ صغیر کا رخ کیا۔پاکستان کے کئی شہروں کے دیکھنے کے بعد وہ افغانستان بھی گئیں تاکہ ان لوگوں کی دیکھ بھال کریں جن کے خاندانوں نے انہیں (کوڑھ کے عارضے میں مبتلا ہونے کی وجہ سے )بے یار و مدد گار انسانی بستیوں سے دور لیجا کر پھینک دیاہے۔سب سے پہلے انہوں نے کوڑھیوں کی کالونی جو اُس وقت آئی آئی چندریگر روڈ پرسٹی ریلوے اسٹیشن کے ساتھ واقع تھی کا دورہ کیا۔اس نوحی بستی میں انہوں ادویات سے ایک جھونپڑی میں کوڑھ کے مریضوں کا علاج معالجہ شروع کر دیا۔جس کو بعد میں میری ایڈیلیڈ لیپروسی سینٹر کا نام دیدیا گیا۔ یہاں پر افغانستان سے بھی کوڑھ کے مریض علاج کی غرض سے آتے تھے۔

1979 میں حکومتِ پاکستان نے ڈاکٹر فاؤ کو محکمہِ صحت اور سماجی بہبود میں پاکستان میں کوڑھ کے مرض کی ایڈوائزر مقرر کر دیا۔ 23 مارچ 1989کو ڈاکٹر روتھ فاؤ کو حکومتِ پاکستان کیجانب سے ان کی خدمات کے صلے میں ہلالِ پاکستان سے نوازا گیا۔14،اگست 2010کو ڈاکٹر فاؤ کو نشانِ پاکستان سے نوازا گیا۔ان کے علاوہ بھی ان کی خدمات کے صلے میں ڈاکٹرروتھ فاؤ کوبہت سارے اعزازات سے بھی نوازا گیاڈاکٹر فاؤ کا کہنا تھا کہ ’’ہم جنگ کی تباہ کاریوں پر بند نہیں باندھ سکتے ہیں۔مگر ہم میں سے بہت سے لوگ تکالیف میں مبتلا لوگوں کی جسمانی اور روحانی مدد تو کر سکتے ہیں‘‘۔ 60 کی دہائی میں پاکستان میں جذام کے مریضوں کی کی تعداد ہزاروں میں تھی اس وقت ایکجانب جزام کے مریضوں کو لا علاج سمجھا جاتا تھا۔علاج معالجے کی سہولتیں بہت ہی کم تھیں ڈاکٹر روتھ واحد خاتون تھیں جنہوں نے پاکستان میں کوڑھ کے مکمل خاتمے میں نہایت ہی اہم کردار ادا کیا

ڈاکٹر روتھ فاؤ86 سال کی عمر میں کراچی کے ایک نجی ہسپتال میں سانس اور عارضہِ قلب کی تکلیف میں طویل علالت میں مبتلا رہنے کے بعد اپنے خالق حقیقی 10،اگست 2017 کوجا ملی۔ بدھ اور جمعرات کی درمیانی شب رات تقریباََ ساڑھے بارا بجے وہ اپنے خالقِ حقیقی کے دربار میں نیکیوں کا خزانہ لے کرپہنچ گئیں میرا رب ان کی مغفرت فرمائے۔ اس فرشتہ صفت ڈاکٹر روتھ فاؤ کی آخری رسومات ان کے مذہب کے مطابق سینٹ پیٹرکس چرچ شہر کراچی کے علاقہ صدر میں 19،اگست (2017) کوپورے قومی اعزاز کے ساتھ ادا کی جائے گی۔وزیر اعظم پاکستان شاہد خاقان عباسی کے حکم پر انہیں سر کاری اعزاز کے ساتھ کراچی کے گورا قبرستان میں سپردِ خاک کر دیا جائے گا۔

ڈاکٹر فاؤ نے 57 سال تک پاکستان کے کوڑھ کے مریضوں کی دن رات خدمت کی آج ہر پاکستانی اس عظیم خاتوں کی موت کے صدمے سے دو چار ہے۔پاکستانکے عوام اور پاکستان کی تمام ہی اہم شخصیات نے ان کی موت پر دکھ کا اظہار کیا ہے۔قوموں کی تاریخ میں ایسے محسن کم ہی نمودار ہوتے ہیں جو ساری قوم کو اپنی موت کے صدمے میں مبتلا کر کے دنیا سے رحصت ہوئی ہیں۔جو پاکستانی قوم کیلئے فرشتہ تھیں جنہوں نے بلامتیاز مذہب و سماج پاکستان کے لوگوں کی خدمات کی۔
 

Disclaimer: All material on this website is provided for your information only and may not be construed as medical advice or instruction. No action or inaction should be taken based solely on the contents of this information; instead, readers should consult appropriate health professionals on any matter relating to their health and well-being. The data information and opinions expressed here are believed to be accurate, which is gathered from different sources but might have some errors. Hamariweb.com is not responsible for errors or omissions. Doctors and Hospital officials are not necessarily required to respond or go through this page.

Prof Dr Shabbir Ahmed Khursheed
About the Author: Prof Dr Shabbir Ahmed Khursheed Read More Articles by Prof Dr Shabbir Ahmed Khursheed: 285 Articles with 213122 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.