افسوس اس بات پر کہ ملک کی سیاست پر قابض وہ طبقہ جسے سب
سے پڑھا لکھا ہونا چائیے۔ وہ لوگ جن کو علمیت میں، دانش میں اور سمجھ بوجھ
میں بہترین ہونا چاہیے۔ جنہیں اس بات کا شعور ہونا چاہیے کہ وہ لیڈر ہیں
اور لیڈر ان کا کہا ہوا ہر لفظ لوگوں کے ذہنوں اور دلوں پر ایک نقش چھوڑتا
ہے اس لئے بات کرنے سے پہلے وہ اس بات کے اثرات پر غور کرنا جانتے ہوں۔ مگر
کیا کہا جائے کہ ایسا بالکل بھی نہیں ہے۔سیاسی لیڈران میں سے زیادہ تر لوگ
عقل سے عاری اور اس معیار سے بہت دور ہیں جن کا تقاضا ان کا منصب کرتا ہے۔
یہ کسی ایک سیاسی پارٹی کا مسئلہ نہیں، خالص قومی مسئلہ ہے۔ شاید اہل علم
سیاسی پارٹیوں کو راس ہی نہیں۔شایدعلم اور عقل کا سیاست سے واسطہ ہی نہیں ۔
حال ہی میں ایک سیاسی لیڈر نے اپنے سیاسی گرو کو ’ مرحب‘ قرار دے کر جو
احمقانہ فعل ادا کیا ہے اسے خود بھی اس کا احساس نہیں۔خدارا! ایسا کہنے سے
پہلے کچھ تاریخ کا مطالعہ تو کر لو۔ مرحب کون ہے جان تو لو۔
رسول کریم ﷺکے عہد میں مدینہ سے نکالے گئے یہودیوں نے مدینہ سے کچھ فاصلے
پر خیبر کے نام سے اپنی اسرائیل نما بستی آباد کر لی۔ اس بستی میں چھ بڑے
قلعے ، بیس ہزار یہودی جنگجو اور بہت سا سامان حرب موجود تھا۔یہ لوگ اسلام
اور مسلمانوں کے خلاف مسلسل سازشوں میں مصروف تھے اور مسلمانوں پر دباؤ
ڈالنے کے لئے مسلمانوں کے مخالف دیگر عرب قبائل سے جوڑ توڑ میں مصروف
تھے۔ڈر تھا کہ وہ جلد مدینہ پر حملہ آور ہو جائیں گے۔رسول اکرم ﷺ جب ان کی
سرگرمیوں کی اطلاع ملی تو آپ اس فتنے کو کچلنے کے لئے فقط سولہ سو جاں نثار
صحابہ کے ساتھ مدینہ سے چلے اور خیبر کا محاصرہ کر لیا۔محاصرہ بیس دن جاری
رہا۔ اس دوران اﷲنے یہودیوں کے دلوں میں نفاق ڈال دیا۔ان کے متحد نہ ہونے
کے سبب مسلمانوں نے یکے بہ دیگرے پانچ قلعے فتح کر لئے۔چھٹا قلعہ قموص بہت
مستحکم تھا اور وہاں سے مزاحمت جاری تھی۔ مرحب اس قلعے کا سردار تھااور عرب
کے نامور بہادروں میں شمار ہوتا تھا۔حضرت ابوبکر اور حضرت عمر سمیت بڑے بڑے
صحابہ اس مرحلے پر ناکام نظر آ رہے تھے۔اس صورتحال میں ایک شام حضرت
رسالتماب ﷺ نے فرمایا،
ــ ’کل میں اس شخص کو جھنڈا دوں گاجسے اﷲ اور اس کے رسول ﷺسے محبت ہے اور
اﷲاور اس کے رسول ﷺ بھی اس سے محبت کرتے ہیں۔‘
لشکر کے لوگوں نے تمام رات بے قراری، تجسس اور اشتیاق میں گزاری ،کہ کون
ایسا خوش قسمت ہو گا۔صبح نمودار ہوئی تو رسول اکرمﷺنے حضرت علی کو طلب
کیا۔سارے صحابہ رشک سے دیکھ رہے تھے۔ اس وقت حضرت علی آشوب چشم میں مبتلا
تھے۔ حضرت رسول اکرم نے ان کی آنکھوں پر اپنا لعاب دہن لگایاتوآنکھوں کی
تکلیف فوراً جاتی رہی۔اس کے بعد آپ ﷺ نے اپنے دست مبارک سے حضرت علی کو
لشکر کا علم عطا کیا اور فرمایا،
’جاؤ۔ اﷲ تمھارا حامی و ناصر ہو۔ لڑائی سے پہلے قموص کے یہودیوں سے نرمی سے
پیش آ کر انہیں اسلام پیش کرنا۔اگران میں کوئی ایک شخص بھی تمھاری تبلیغ کے
نتیجے میں اسلام قبول کر لے تو سرخ اونٹوں سے بہتر ہے‘ (یاد رہے کہ سرخ
اونٹ عرب میں انتہائی قیمتی چیز شمار کیا جاتا ہے۔)
حضرت علی علم اٹھا کر آگے چلے۔لشکر ان کے پیچھے تھا۔ قلعہ کے سامنے پہنچ کر
انہوں نے بلند آواز میں یہودیوں کو پکارا اور کہا ،
’ فتنہ اور فساد سے باز آ جاؤ۔ بہتر ہے اسلام قبول کر لویا پھر امن اور صلح
سے رہنے کا معاہدہ کر لو‘
یہودیوں نے یہ پیشکش بڑی حقارت سے ٹھکرا دی۔مرحب اس قلعے کا سردار تھا ۔ وہ
ہزار سواروں کے برابر سمجھا جاتا تھا۔ وہ رجزیہ اشعار پڑھتے ، بڑے غرور کے
ساتھ، لوہے میں غرق باہر نکلا۔ حضرت علی بھی رجزیہ اشعار پڑھتے ہوئے آگے
بڑھے اور مرحب کو پہلے وار کا موقع فراہم کیا۔مرحب نے پوری طاقت، قوت اور
مہارت سے وار کیا۔ حضرت علی تیزی سے پیچھے ہٹے اور اس قدر تیزی اور قوت سے
تلوار کا وار کیا کہ تلوار خود اور سر کو کاٹتی ہوئی دانتوں تک اتر گئی۔
مرحب وہیں ڈھیر ہو گیا۔یہودی دہشت زدہ ہو گئے اور عام حملہ شروع ہو گیا۔بیس
مسلمان شہید ہوئے اور ترانوے یہودی مارے گئے۔مسلمان تھوڑی دیر میں یہ لڑائی
جیت چکے تھے ۔قموص پر قبضے سے پوری وادی پر مسلمانوں کا قبضہ ہو گیااور
یہودی اس کے بعد اس خطے میں کبھی بھی سر نہ اٹھا سکے۔
یہودیوں کے ایک سردار کو کسی عام مسلمان سے مماثلت دینا میرے نزدیک ایک
گناہ سے کم نہیں۔ یقیناً یہ کم علمی ہی کی بنا پر ہوا ہو گا۔اس شخص کو جسے
رب العزت نے اگر کچھ مرتبہ دے دیا ہے چاہے وہ حادثاتی ہی کیو ں نہ ہو، خود
کو اس کا اہل ثابت کرنے کے لئے بڑے رکھ رکھاؤ کی ضرورت ہوتی ہے۔ مجھے امید
ہے کہ اس طرح کی باتیں کرنے والے آئندہ احتیاط سے کام لیں گے۔
|