پروفیسر عنائیت علی خان کمال کے شاعر ہیں ہیں تو یہ مزاح
سے متعلق مگر ان کی سنجیدہ شاعری سننے لائق ہے۔جدہ ایک ایسا سٹیشن ہے جہاں
آپ ہر کس و ناکس سے مل سکتے ہیں مجھے بھی اﷲ نے عمر کا ایک حصہ وہاں صرف
کرنے کا موقع دیا۔شعراء سیاست دان فوجی دنیا کے ہر شعبے کے افراد سے ملنے
کا موقع ملا اور ہم وہ دشت غزالاں تھے جنہیں شہروں میں اسیر کر کے لایا گیا
تھا پہاڑوں سے پنجاب کے میدانوں اور پھر وہاں سے صحراؤں میں نکل گئے اسی
جدہ جسے عروس البلاد احمر کہا جاتا ہے یہاں ہمیں ان بزرگوں سے ملنے کا بھی
موقع ملا۔ان کا ایک کمال کا شعر سن لیجئے بلکہ ہو سکا تو ایک سے زیادہ
سناؤں گا۔جنرل ضیاء الحق کے دور کو ذہن میں رکھئے۔ٹی وی پر پابندی ہے کہ وہ
رقص نہیں دکھائے گا۔اور بہت کچھ انہوں نے کہا
اس کے رخسار پے تل ہے اور تیرے ہونٹ پے تل تلملانے کی اجازت نہیں دی جائے
گی
اور ایک رقاصہ نے گا گا کے سنائی ہے خبر ناچ گانے کی اجازت نہیں دی جائے گی
آج سچ پوچھیں مجھے وہ شعر یاد آیا جو حسب حال ہے۔میرے عزیزیہ جدہ والے گھر
میں انہوں نے بتایا کہ یہ شعر میں نے سقوط ڈھاکہ کے بعد کہا تھا جب قوم کی
بے حسی اور پرانی روش دیکھی تو شعر ہوا۔
حادثے سے بڑا سانحہ یہ ہوا لوگ ٹھہرے نہیں حادثہ دیکھ کر
اور اس کے ابتداء میں تحریک پاکستان کے حوالے سے یہ شعر اسی غزل کا ہے
حوصلے پست تھے فاصلہ دیکھ کر فاصلے مٹ گئے حوصلہ دیکھ کر
ان کا تعلق حیدر آباد سے ہے پٹھان گورے چٹے لمبے تڑنگے تحریک اسلامی سے
تعلق انہوں نے جدہ میں فردوس ہوٹل میں یادیں تازہ کیں ایم کیو ایم کی
خونریزی کا دور تھا مہاجر پٹھان کی لڑائی تھی
کہا
خود ہی خنجر بکف لہولہان ہوں میں میری مشکل عجیب مشکل ہے مہاجر بھی ہوں اور
پٹھان بھی ہوں
آج وہ بے سبب نہیں کسی وجہ سے یاد آئے۔جی ٹی روڈ پر جاتی ریلی کے نیچے ایک
بچہ کچلا گیا۔ایک عینی شاہد نے بتایا کہ پہلے اس بچے کا پاؤں نیچے آیا پھر
اس کے سر کو کچلتی ہوئی بے رحم موٹر گزر گئی۔یہی وہ دکھڑا تھا جو کسی نے اس
شعر کی صورت میں لکھ دیا۔آج وہ بزرگ شاعریاد آئے اﷲ تعالی انہیں عمر خضر
دے۔ان کا کہنا تھا کہ قوم سقوط ڈھاکہ کے بعد نہیں رکی اور وہی کام کئے جا
رہی ہے اور دوسری جانب اس سانحہ کی بات کرتے ہوئے بھی انہی کا شعر یاد آتا
ہے۔سچ پوچھئے ہم خود ہی ایک بت بناتے ہیں اور پھر اس کی پرستش کرتے ہیں۔یہی
کچھ یہاں بھی ہوا۔لوگ اپنے لیڈروں کو خدا مانتے ہیں۔جمہوریت کے چیمپیئن خود
تو کسی کو مار کر رکتے بھی نہیں اور کسی دوسرے بڑے شہر میں جا کر اعلان کیا
جاتا ہے کہ میں اظہار تعزیت کے لئے جاؤں گا۔میں جانتا ہوں موصوف اپنے
ساتھیوں کے ساتھ کیسے پیش آتے ہیں۔قاری شکیل کے ساتھ ان کا برتاؤ یاد ہے۔وہ
مسلم لیگ سعودی عرب کے صدر تھے دنیا سے رخصت ہوئے تو جدہ میں موجود ہوتے
ہوئے شریف خاندان کا کوئی فرد ان کے جنازے میں نہیں آیا وہ تو شیخ رشید جب
عمرے کے لئے گئے تو انہیں مجبورا جانا پڑا ۔
دوستو!لیڈروں کو لیڈر رہنے دیں انہیں خدا نہ بنائیں۔کاش کوئی اس گاڑی کے
چلانے والے اور اس میں بیٹھنے والے کو بتاتا کہ یہ بھی کسی کا جنید اور
بلاول تھا۔بس یہی دکھڑے ہیں غربت کی ماری اس قوم کے کہ غریب کے منہ کا
نوالہ اور ان کے بچے کچلنے کے باوجود یہی لوگ ان کے لئے ماتم کرتے ہیں اصل
سانحہ یہ ہے۔کہ ہم ہر آنے والے کو زندہ باد کہتے ہیں مجرموں کو زندہ باد
کہنے کا یہ الگ سے ایک رواج گجرانوالہ کے لوگوں نے نکالا ہے۔میں اس
گجرانوالہ کو دیکھتا ہوں جسے میں چھوڑ کر پنڈی آیا تھا جس نے قاضی حمیداﷲ
کو ۲۰۰۲ میں اسمبلی میں بھیجا تھا جو سائیکل پر اپنی مہم چلاتے تھے اور اب
اس شہر کو دیکھتا ہوں جو ایک مجرم کے استقبال کے لئے امڈ آیا ہے۔
حادثے سے بڑا سانحہ یہ ہوا لوگ ٹھہرے نہیں حادثہ دیکھ کر
|