1965ء کی پاک بھارت جنگ

1965ء کی پاک بھارت جنگ جب شروع ہوئی تو میں اس وقت بمشکل دس سال کا تھا‘ گلبرگ ہائی سکول میں چھٹی جماعت کا طالب علم تھا۔ اتنی چھوٹی سی عمر میں ماں باپ کی لڑائی کے علاوہ کوئی اور بڑی لڑائی نہیں دیکھی تھی۔
6ستمبر کی صبح ہم حسب معمول ریلوے کوارٹروں کے کھلے میدان میں سو رہے تھے کہ بڑے باؤ (یارڈفورمین) کی آواز نے سوئے ہوئے لوگوں کو نیند سے بیدار کر دیا کہ ’’اُٹھو بھارت نے پاکستان پر حملہ کر دیا ہے‘‘ وہ بار بار یہی فقرہ دھرائے جا رہے تھے جس چھوٹے بڑے کے کان میں یہ آواز پڑتی۔ وہ چھلانگ لگا کر بستر سے اُٹھ کھڑا ہوتا۔ جب میں بیدار ہوا تو مجھے مشرق کے اُفق اور فضا میں زبردست دھماکوں اور توپوں کے چلنے کی آوازیں سنائی دیں۔ میرے لئے یہ سب کچھ حیرت انگیز اور خوف کی علامت تھا۔ دھماکوں کی آوازوں سے کوارٹروں کے در و دیوار لرز رہے تھے۔ یہ صورت حال سب کے لئے پریشان کن تھی۔ پھر جونہی اُجالا ہوا تو لاہورئیے ٹرکوں اور بسوں میں فلک شگاف نعرے لگاتے ہوئے بارڈر کی طرف رواں دواں تھے۔ کسی کے ہاتھ میں ہاکی‘ کسی کے ہاتھ میں کلہاڑی اور کسی کے ہاتھ میں ڈانگ تھی لیکن ہر شخص بھارتی فوج کو مزا چکھانا چاہتا تھا۔ پھر جب یہ لوگ بی آر بی کے قریب پہنچے تو ان کو یہ کہہ کر واپس کر دیا گیا کہ جب تک پاک فوج کا ایک جوان بھی زندہ ہے اس وقت تک عوام کو سرحدوں پر آنے کی ضرورت نہیں۔ اس کے باوجود لاہور سے فوجی بھائیوں کے لئے صبح کا ناشتہ حلوہ پوری‘ دوپہر اور شام کا کھانا ٹرکوں میں بھر کر لوگ لے کر جاتے رہے۔ ہمارے کوارٹروں کے بالکل سامنے محکمہ ریلوے نے ڈبلیو (W)شکل کے تین چار فٹ گہرے مورچے کھود دیئے تھے۔ خطرے کے وقت ہم ان میں پناہ لیتے تھے۔
یہاں یہ بات ملحوظ خاطر رہے کہ بھارتی حملے سے پاکستانی انٹیلی جنس بالکل بے خبر تھی۔ رپورٹ کے مطابق 5ستمبر کو بھارتی فوج جالندھر کے قریب نقل و حرکت کر رہی تھی۔ اس کو لاہور کے محاذ تک پہنچنے میں کم ازکم 48گھنٹے درکار تھے‘ حملے کی پوزیشن میں آنے کے لئے مزید اتنا ہی وقت درکار تھا۔ دراصل پاکستانی حکمران چھمب جوڑیاں اور کشمیر کے محاذ پر پے در پے حاصل ہونے کامیابیوں پر شاداں تھے اور وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو نے امریکہ کے حوالے سے صدر پاکستان جنرل محمد ایوب خاں کو یہ یقین دہانی کرائی تھی کہ بھارت بین الاقوامی سرحد عبور نہیں کرے گا۔ یہی وجہ تھی کہ پاکستان کی زیادہ تر فوج کشمیر میں ہی مصروف جنگ تھی اور لاہور سمیت ساری بین الاقوامی سرحد خالی تھی۔ میجر شفقت بلوچ (جن کو 1965ء کی پاک جنگ کا ہیرو قرار دیا جاتا ہے۔ ایک مرتبہ اس حوالے سے مجھے اُن سے انٹرویو لینے کا اتفاق ہوا) کے مطابق 5ستمبر کی شام ڈھلے جب وہ فٹ بال میچ سے فارغ ہو کر اپنی یونٹ میں واپس آئے تو انہیں پیغام ملا کہ یونٹ کے 110جوانوں سمیت وہ رات کے دس بجے لاہور سے سرحد کی طرف روانہ ہوں گے اور بی آر بی پہنچ کر سرحد کی جانب باقی سفر پیدل طے کریں گے۔ دراصل میجر بلوچ اور ان کی یونٹ کے جوانوں کو ہڈیارہ ڈرین کے کنارے پہنچنے کے لئے کہا گیا تھا۔ ان کے لئے یہ پیغام تھا کہ دوسرے دن بریگیڈئیر صاحب موقع کا معائنہ کر کے مورچے کھودنے کے بارے میں سمت اور ترتیب کی حکمت عملی وضع کریں گے۔ اس لئے میجر بلوچ کی قیادت میں ہڈیارہ ڈرین پر جانے والے جوان جنگ کے لئے ساز و سامان لے کر نہیں گئے تھے۔ 5 اور 6ستمبر کی درمیانی رات میجر بلوچ اور ان کے ساتھیوں نے رات کے دو بجے ہڈیارہ ڈرین کے کنارے پڑاؤ ڈالا۔ وہاں پہنچ کر وہ حملے سے بے خبر سو گئے۔ اذان فجر کے قریب جب سرحد کی جانب سے گولے چلنے آواز آئی تو جوانوں نے میجر شفقت بلوچ کو بیدار کیا۔ آنکھیں ملتے ہوئے انہوں نے وجہ پوچھی تو (جوان گرمی کی وجہ سے نیکر اور بنیانیں پہنے ہوئے تھے) انہوں نے بتایا کہ جناب سرحد کی طرف سے گولے چلنے کی آوازیں آ رہی ہیں۔ میجر بلوچ نے کہا شائد سمگلروں اور رینجر کے درمیان فائرنگ کا تبادلہ ہو رہا ہو گا۔ ان کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ انڈین آرمی رات کے اندھیرے میں چوروں کی طرح اس طرف سے یلغار کرے گی جہاں ہمارے صرف ایک سو دس سرفروش موجود تھے۔ جن کے پاس جنگ کے لیے ساز و سامان بھی نہیں تھا ۔اگر بھارتی فوج کسی اور طرف سے یلغار کرتی تو شائد آج لاہور کی یہ صورت نہ ہوتی۔
بہرکیف میجر بلوچ نے اپنے کمانڈنگ آفیسر کو جگا کر وائرلیس پر انڈین حملے کی خبر دی تو کرنل اصغر قریشی‘ میجر بلوچ کی اس بات کو ماننے کے لئے تیار نہ تھے۔ ان کا حکم تھا کہ یہ سب کچھ غلط ہے‘ صحیح صورت حال کا پتہ چلانے کے لئے تم خود سرحد کی جانب جاؤ۔
میجر شفقت بلوچ کے بقول جب وہ جیپ میں سوار ہو کر سرحد کی جانب گئے تو ہڈیارہ گاؤں سے کچھ آگے کھیتوں سے نیکر اور بنیانیں پہنے ہوئے چند جوان جیپ کے سامنے آکھڑے ہوئے۔ میجر بلوچ نے انہیں شناخت کروانے کے لئے کہا تو انہوں نے بتایا کہ وہ رینجر کے جوان ہیں اور انڈین آرمی سرحد عبور کرکے تیزی سے ادھر ہی آ رہی ہے۔ بھارتی فوج کا ایک بریگیڈ ٹینکوں‘ توپوں اور ہر قسم کے جدید اسلحے سے لیس مست ہاتھی کی طرح لاہور کی طرف بڑھتا آ رہا ہے۔ میجر بلوچ کے لئے یہ خبر یقینا حیرت انگیز تھی۔ انہوں نے آگے جانے کی بجائے وائرلیس پر کرنل قریشی کو صورت حال کے بارے میں بتایا۔ پھر جب یہ خبر آرمی چیف جنرل موسیٰ خان اور صدر ایوب تک پہنچی تو تاریخ کی بعض کتابوں میں اس واقعہ کا ذکر اس طرح آیا ہے کہ یہ دونوں افراد ہاتھوں سے سر پکڑ کر بیٹھ گئے بلکہ صدر ایوب کی زبان سے یہ الفاظ نکلے کہ ’’بھٹو تم نے مروا دیا ہے۔‘‘ امریکہ کی جانب سے بھٹو نے ایوب خان کو جو یقین دہانی کرائی تھی یہ اس کا ردعمل تھا۔ اب اس کے سوا کوئی چارہ نہ تھا کہ جیسے بھی ممکن ہو بھارتی یلغار سے لاہور کو بچانے کی حکمت عملی وضع کی جائے۔ جنرل موسیٰ خاں نے بحیثیت آرمی چیف کرنل قریشی کے ذریعے میجر بلوچ تک یہ پیغام پہنچایا کہ وہ دو گھنٹے تک بھارتی فوج کو روک سکیں تو ساری پاکستانی قوم پر ان کا بڑا احسان ہو گا۔ جب یہ پیغام میجر بلوچ تک پہنچا تو انہوں نے کہا کہ جنرل موسیٰ خاں تک میرا یہ پیغام پہنچا دیں کہ جب تک میجر بلوچ اور اس کے ساتھیوں میں سے ایک بھی سرفروش زندہ ہے‘ بھارتی فوج ہڈیارہ ڈرین عبور کر کے لاہورمیں داخل نہیں ہو سکتی۔ ہم خون کے آخری قطرے تک لڑیں گے۔ پھر میجر بلوچ نے اپنے ایک سو دس جوانوں کے ساتھ بھارتی فوج کو دو گھنٹے کی بجائے دس گھنٹے تک روک کر دنیا کے عسکری ماہرین کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا اورمحاذ جنگ سے اس وقت پسپا ہوئے جب میجر عزیز بھٹی اور میجر حبیب کی یونٹوں نے بی آ ربی پر اپنا دفاعی نظام قائم کر لیا۔ حیرت کی بات تو یہ ہے کہ اس معرکہ آراء جنگ میں صرف دو جوان شہید ہوئے۔ وہ بھی اپنی ہی بچھائی ہوی بارودی سُرنگوں سے۔ میجر بلوچ کی قیادت میں ایک سو دس جوانوں نے اپنی جرات اور بہادری سے لاہور جم خانہ میں نوبجے شراب کے جام ٹکرانے کے انڈین جنرلوں کے پروگرام کو حرف غلط کی طرح مٹا کے رکھ دیا جس پر تاقیامت ساری قوم ان کی احسان مند ہے۔
بہرکیف یہ تو محاذ جنگ کی بات تھی لیکن 6ستمبر کو دن کے گیارہ بجے صدر پاکستان جنرل محمد ایوب خان نے ریڈیو پر قوم سے پرجوش خطاب کیا۔ میں نے یہ خطاب ریلوے لائنوں کے قریب کھڑے ہوئے ایک ہجوم میں سنا۔ انہوں نے اپنی مختصر تقریر میں ایسے الفاظ استعمال کیے کہ ہر پاکستانی کے تن بدن میں بجلیاں دوڑنے لگیں۔ ہر پاکستانی سرحد پر جا کر بھارتی فوج سے دوبدو جنگ کرنے کی آرزو رکھتا تھا لیکن سویلین کو آگے جانے کی اجازت نہیں تھی۔ ریلوے لائنوں کے دونوں جانب ہزاروں کی تعداد میں لوگ سرحد کی جانب جانے والی فوجی ٹرینوں میں پاک فوج کے جوانوں کے حق میں نعرے بازی کر رہے تھے۔ ٹرین کے ڈبوں میں اتنے گھبر و جوان سینہ تانے دفاع وطن کی خاطر موت کی آغوش میں ہنسی خوشی جا رہے تھے کہ ان کے چمکتے دمکتے چہرے دیکھ کر ایمان تازہ ہو رہا تھا۔ لاہور میں ناکامی کے بعد چونکہ انڈیا نے قصور کے قریب گنڈا سنگھ بارڈر پر بھی یلغار کر دی تھی اس لئے پاک فوج کے جوان دشمن کے ناپاک قدم روکنے کے لئے ٹرینوں کے ذریعے وہاں بھیجے جا رہے تھے۔
چند دن لاہور میں خوب ہلہ گلہ رہا۔ پاک فضائیہ کے شاہینوں نے حملے میں پہل کرتے ہوئے بھارت کے پانچ قابل ذکر ہوائی اڈے جن میں (ہلواڑہ‘ پٹھان کوٹ‘ امرتسر‘ جالندھر شامل ہیں) بمباری کر کے تباہ و برباد کر دیئے۔ اس پہلے فضائی قافلے میں جانے والے پاک فضائیہ کے دو سرفروش سرفراز رفیقی‘ یونس حسن شہید ہو گئے جبکہ مسیحی برادری سے تعلق رکھنے والے شاہین‘ سیسل چودھری صرف زندہ بچ کر وطن واپس پہنچے۔ بھارتی فضاؤں میں اس کامیاب یلغار نے بھارتی فضائیہ کی کمر توڑ کر رکھ دی۔ پاکستان پر حملے کے لئے تیار کھڑے جہازوں سمیت رن وے تباہ کر دیئے گئے۔ اب بھارت کو زیادہ دور سے حملے کے لئے جہاز لانے پڑتے۔ اس کا ایک فائدہ یہ ہوا کہ ساری جنگ کے دوران فضاؤں میں پاک فضائیہ کی برتری برقرار رہی۔ بھارتی اور پاکستانی جہازوں میں جنگ کا نظارہ کرنے کے لئے لاہوریئے اپنے مکانوں کی چھتوں پر چڑھ جاتے حالانکہ خطرے کے سائرن بجائے جاتے لیکن زندہ دلان لاہور جان کی پرواہ نہ کرتے ہوئے اپنے شاہینوں کی جنگی مہارت کا مظاہرہ دیکھ کر باقاعدہ تالیاں بجا کر داد دیتے۔
جنگ کے بعد ایک پاکستانی پائلٹ نے انٹرویو میں بتایا کہ جب ہم لاہور کی فضاؤں میں بھارتی ہوابازوں سے جنگ میں مصروف ہوتے تو ہمیں نہ صرف بھارتی ہوا باز سے یہ جنگ جیتنی ہوتی بلکہ نیچے چھتوں پر کھڑے لاہوریوں کے تحفظ کا بھی خیال رکھنا پڑتا تھا۔
جنگ کے دوران عموماً بھارتی ہوا باز اپنی جان چھڑانے کے لئے عوام پر بم پھینکنے سے گریز نہیں کرتے تھے لیکن اپنی عوام کے بڑھے ہوئے حوصلوں نے پاکستان ہوابازوں کو بے پناہ ہمت اور طاقت عطا کر رکھی تھی۔ اس جنگ کے دوران کچھ ایسے واقعات بھی رونما ہوئے جن کا ذکر اس جنگ میں حصہ لینے والے بھارتی پائلٹوں نے اپنی کتابوں میں کیا ہے۔ ان کے بقول لاہور شہر پر وہ جب بھی بمباری کرتے تو ان کو ایک سبز لباس والا بزرگ دکھائی دیتا جو ان کے گولے زمین پر گرنے سے پہلے ہی گیند کی مانند کیچ کر کے اپنی بغل میں لٹکے ہوئے تھیلے میں ڈال لیتا۔ ان کے بقول یہ بات ان کی سمجھ سے بالاتر تھی کہ یہ بابا کون ہے اور اﷲ تعالیٰ نے ان کو یہ قوت کیسے بخشی ہے کہ وہ وقت اور ہوا کی رفتار سے تیز حرکت کر کے ہر اس جگہ پہنچ جاتا ہے جہاں بھارتی پائلٹ بمباری کرنے کے لئے پہنچتے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں اس بات کا ثبوت یہ ہے کہ دوران جنگ ساری بھارتی فضائیہ دریائے راوی کے اکلوتے پل کو اپنی تمام تر کوشش کے باوجود تباہ نہیں کر سکی۔ اگر خدانخواستہ یہ پل تباہ ہو جاتا تو پاکستان دو حصوں میں تقسیم ہو جاتا اور تمام فوجی نقل و حرکت رک جاتی جس کا تمام تر فائدہ بھارتی فوج کو پہنچتا۔ یہاں میں یہ بھی بتاتا چلوں کہ سبز لباس والا بابا حضرت داتا گنج بخشؒ ہی تھے جن کے نام کی مناسبت سے اس شہر کو داتا کی نگری کہا جاتا ہے۔ وہ اﷲ کے انتہائی مقرب بندے ہیں۔ کیا وہ چاہیں گے کہ ان کے نام سے منسوب شہر کو بھارتی ہواباز برباد کر دیں۔
اسی حوالے سے ایک اور واقعے کا ذکر یہاں ضروری سمجھتا ہوں جو ایک خط کے ذریعے مجھ تک پہنچا۔ یہ خط اب بھی میجر شفقت بلوچ کے پاس محفوظ ہے۔ خط لکھنے والا شخص 5ستمبر کی رات مسجد نبوی میں نوافل ادا کر کے درود پاک پڑھنے میں مشغول تھا کہ اسے اونگ آ گئی۔ اونگ کی حالت میں اس نے دیکھا کہ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم صحابہ کرام کے ہمراہ جلدی میں کہیں جا رہے ہیں۔ اس حالت میں جب مسجد نبوی میں سوئے شخص نے حضور صلی اﷲ علیہ وسلم سے دریافت کیا تو آپ ﷺنے فرمایا۔ تمہیں علم نہیں کہ پاکستان پر حملہ ہونے والا ہے‘ ہم وہیں جا رہے ہیں۔ اس شخص کے بقول جب اگلی صبح اس نے ریڈیو پر پاکستان پر بھارتی حملے کی خبر سنی تو اسے بات سمجھ آئی۔
اسی حوالے سے ایک اور واقعے کا ذکر گنج کرم حضرت سید اسمٰعیل شاہ کے بارے میں لکھی جانے والی کتاب میں بھی موجود ہے۔ یکم ستمبر 1965ء کی بات ہے کہ کرماں والی سرکار کو پیشاب کا عارضہ لاحق تھا۔ ان کا آپریشن ہوا تھا اور زخم ابھی تازہ تھے کہ 2ستمبر کی صبح آپ نے سفر کے لیے گاڑی تیار کرنے کا حکم دیا۔ مریدوں نے پوچھا کہ اب اس حالت میں جبکہ ڈاکٹروں نے آپ کو آپریشن کی وجہ سفر سے منع فرمایا ہے آپ آرام کریں لیکن آپ کچھ بتائے بغیر ہی گاڑی پر واہگہ بارڈر کی جانب روانہ ہو گئے۔ وہاں پہنچ کر ایک چارپائی پر بیٹھ کر کچھ دیر اپنے دائیں ہاتھ کی مٹھی مٹی سے بھر کے پھینکی اور کچھ دیر قرآنی آیات پڑھتے رہے پھر بھارت کی طرف نعرے لگاتے رہے۔ اگلی صبح آپ ہڈیارہ گاؤں کی طرف روانہ ہوئے اور وہاں پہنچ کر بھی آپ نے یہی عمل دھرایا۔ بعدازاں گنڈا سنگھ بارڈر قصور روانہ ہوئے اور وہاں پر کچھ دیر ٹھہر کر جب آپ واپس لاہور پہنچے تو آپ نے سجدہ شکر ادا کیا کہ جو فریضہ ان کے سپرد نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی طرف عائد کیا گیا تھا ‘وہ پورا ہوگیا۔ اس سے اگلی ہی صبح بھارت نے انہی تین مقامات پر یلغار کی اور عبرت ناک شکست کھائی۔ یہ واقعات ظاہر کرتے ہیں کہ یہ جنگ صرف پاک فوج یا پاکستانی قوم نے نہیں لڑی بلکہ اس جنگ میں پروردگار کی تائید و حمایت‘ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی دعاؤں اور صحابہ کرام کا بھی بڑا عمل دخل ہے۔
چند دن گھمسان کی جنگ جاری رہی تو بھارتی فوج بی آر بی کے مشرقی کنارے تک آپہنچی اور لاہور شہر میں بھارتی فوج کے چھاتہ بردار اُتر نے کی افواہیں گرم رہیں۔ اگلی صبح والد صاحب نے بڑھتے ہوئے خطرے کو بھانپتے ہوئے ہم سب بہن بھائیوں کو والدہ سمیت عارف والا جانے والی ٹرین پر بٹھا دیا۔ ان کا خیال تھا کہ عارف والا ایک دور دراز علاقہ ہے۔ اس لئے وہاں لاہور جتنا خطرہ نہیں ہو گا۔ چونکہ ریلوے سمیت تمام سرکاری اداروں میں ایمرجنسی نافذ ہو چکی تھی۔ اس لئے انہیں مجبوراً لاہور میں ہی رکنا پڑا۔
جب ہماری ٹرین پاکپتن سے آگے نکلی تو دو انڈین جنگی جہازوں نے ٹرین پر حملہ کے لئے نیچی پرواز شروع کر دی۔ ان کا ابتدائی چکر گاڑی کا سروے تھا لیکن جونہی گاڑی کے انتہائی نزدیک سے ہوائی جہازوں کا گزر ہوا تو گاڑی میں سوار تمام مسافر خوف و ہراس کا شکار ہو گئے۔ ہمیں بھی اپنی موت بالکل قریب دکھائی دینے لگی۔ میری والدہ نے ہمیں گاڑی کی سیٹوں کے نیچے لیٹا دیا اور خود درود پاک اور آیت الکرسی پڑھ کر جہازوں کی طرف پھونکیں مارنے لگیں۔ بھارتی جہازوں کی یلغار کو ابھی چند لمحے ہی گزرے ہوں گے کہ پاک فضائیہ کا ایک شاہین طیارہ ہمارے لئے رحمت کا فرشتہ بن کر سرگودھا سے آ پہنچا ۔جس کو دیکھ کر بھارتی ہوا بازوں کو اپنی جان کے لالے پڑ گئے وہ ہمارے شاہین سے بچنے کے لئے بار بار ٹرین کے اُوپر اُڑنے لگے۔ اب اگر پاک فضائیہ کا شاہین بھارتی طیاروں کو تباہ کرنے کے لئے ان پر فائر کرتا تو نیچے چلتی ہوئی ہماری ٹرین بھی تباہ جاتی۔ جس میں ہمارے سمیت ہزاروں معصوم شہری سوار تھے۔ اس لئے پاکستانی ہوا باز بھارتی جنگی طیاروں پر فائر کرنے سے اجتناب کر رہا تھا۔
ہمارے شاہین آنے کا یہ فائدہ ضرور ہوا کہ بھارتی ہوا باز حملے کی پوزیشن میں آنے کے باوجود حملہ نہ کر سکے۔ اب وہ بار بار بھارت کی جانب فرار ہونے کی کوشش کر رہے تھے لیکن ان کی ہر کوشش کو اکیلے پاکستانی ہوا باز نے ناکام بنائے رکھا۔ اپنے جنگی جہاز کو بھارتی طیاروں سے جنگ کرتے ہوئے دیکھ کر گاڑی میں سوار مسافروں کے حوصلے بھی بلند ہو گئے۔ وہ بھی سیٹوں کے نیچے سے نکل کر کھڑکیوں اور دروازوں میں کھڑے ہو کر اپنے شاہین کے جارحانہ حملوں کا نظارہ کرنے لگے اسی کشمکش میں عارف والا آ گیا۔ والدہ سمیت ہم خیر و عافیت سے ٹرین سے اُتر گئے لیکن اس کے چند لمحوں بعد ہی جب بھارتی طیارے ایک بار پھر ٹرین پر حملہ آور ہونے کی جستجو کر رہے تھے۔ پاکستانی ہوا باز نے ان کو ٹرین سے ہٹا کر فائر کھول دیا جس سے ایک بھارتی طیارہ دو ٹکڑوں میں تقسیم ہو کر عارف والا سے اگلے ریلوے اسٹیشن ’’محمدنگر‘‘ کے یارڈ میں کھڑے ہوئے خالی ڈبے پر گر کر تباہ ہو گیا۔ ایک بھارتی طیارہ تباہ کرنے کے بعد پاکستانی ہوا باز نے دوسرے بھارتی طیارے کا تعاقب شروع کر دیا اور اسے بھی پاکستانی سرحد کے اندر ہی گرا لیا۔ ان دونوں جنگی جہازوں کے پائلٹ چھاتہ کے ذریعے نیچے اُتر گئے جن کو مقامی لوگوں نے پکڑ کر عارف والا پولیس کے حوالے کر دیا۔
یہاں ایک لطیفہ مشہور ہوا کہ بہاولنگر کی صحرائی سرحد پر باقاعدہ پاکستانی فوج تعینات نہ تھی بلکہ ایوب خان نے قبائلیوں کو لا کر سرحد پر تعینات کر دیا تھا جو جنگ کی بجائے رات کو ہندوؤں کے گاؤں میں چلے جاتے اور ان کی عورتوں کو اٹھا کر عارف والا لے آتے۔ دوران جنگ عارف والا میں ہندو عورتوں کی باقاعدہ منڈی لگتی جن لوگوں کی کسی وجہ سے ابھی شادی نہیں ہوئی تھی۔ وہ اونے پونے ان ہندو عورتوں کو خرید لیتے اور مسلمان کر کے اپنے گھر آباد کر لیتے۔ اگر کسی ہوٹل میں کھانا کھانے کے بعد قبائلیوں سے پیسے مانگے جاتے تو وہ ایک ہی بات کہتے کہ پیسے بابا ایوب خان دے گا۔ چونکہ قبائلی وطن عزیز کے دفاع کے لئے آئے تھے۔ اس لئے لوگ ہنسی خوشی انہیں مفت کھانا کھلا دیتے اور ضرورت کی چیزیں بھی تحفتاً دے دیتے۔
جب ہم عارف والا نانی کے گھر پہنچے تو ہماری خوب آؤ بھگت کی گئی اور عارف والا آنے کے فیصلے کو سراہا گیا لیکن حالات یہاں بھی زیادہ اچھے نہ تھے ہر روز بھارتی طیارے یہاں بھی چکر لگاتے۔ جب پاکستان طیارے ان کا تعاقب کرتے تو وہ بمباری کیے بغیر ہی واپس بھاگ جاتے۔
میری نانی کے گھر باورچی خانے کے نیچے پرانے وقتوں سے ہی ایک خفیہ تہہ خانہ چلا آ رہا تھا جہاں پہلے جلانے والی لکڑیاں اور اناج وغیرہ کا سٹاک کر لیا جاتا تھا۔ جنگ کے دوران باورچی خانے کے نیچے بنے ہوئے کمرے کو خالی کر کے اس سے مورچے کا کام لیا جانے لگا اور جب بھی خطرے کا سائرن بجتا تو گھر کے سبھی افراد اس میں پناہ لے لیتے۔ نانی کے گھر ایک بکری بھی تھی جب گھر کے سارے افراد پناہ گاہ میں چلے جاتے توبکری شور کر کے آسمان سر پر اُٹھا لیتی۔ بکری کی اس حرکت پر نانی بہت خفا ہوتی اور کہتی کہ بکری ہمیں مروائے گی۔ پھر ایسا بھی ہوا کہ بکری بھی ہمارے ساتھ پناہ گاہ میں لے جائی جانے لگی۔ عارف والا میں نانی کے گھر کے سامنے ایک چھوٹے قد کا شخص رہتا تھا جس کو لوگ بونا کہہ کر پکارتے تھے۔ بونا سول ڈیفنس کا رضاکار تھا۔ جب بھی بھارتی طیارے حملے کے لئے شہر پر پرواز کرتے وہ اپنی لاٹھی لے کر گھر سے باہر نکل آتا اور جہاز کو مارنے کے انداز میں لاٹھی ہوا میں گھماتا رہتا۔ جہاز چونکہ بونے کی لاٹھی کی رینج سے دور ہوتے۔ اس لئے بونے کی لاٹھی تمام تر کوشش کے باوجود پوری جنگ کے دوران ایک بھی جہاز نہ گرا سکی لیکن یہ اس کا اپنی سرزمین سے اظہار محبت کا ایک ثبوت ضرور تھا جس کا مظاہرہ وہ ہر ہوائی حملے میں کرتا تھا۔
عارف والا آئے ہوئے ابھی ہمیں چند دن ہی گزرے تھے کہ میرا سب سے چھوٹا بھائی ارشد جو ابھی گود میں ہی تھا۔ سخت بیمار ہو گیا حتیٰ کہ اس کے زندہ رہنے کے امکانات بہت کم تھے۔ میں اور بھائی اکرم اسے لے کر گلی نمبر3غریب محلہ میں پیر صاحب کے پاس دم کروانے کے لئے گئے۔ ابھی ہم وہاں دم کروا ہی رہے تھے کہ سیاہ رنگ کے دو بھارتی جنگی طیاروں کی نیچی پرواز نے سارے شہر کو پریشان کر دیا۔ مٹی کے بنے ہوئے کمرے سے نکل کر ہم نے بھی ان بھارتی طیاروں کو دیکھا ۔ نانی کا گھر تو دور تھا۔ اس لئے پھر جان بچانے کے لئے ہم دونوں بھائی کچے کمرے کی ایک نکر میں کھڑے ہو کر کلمے کا ورد کرنے لگے اس نازک لمحے میں ارشد مسلسل روئے جا رہا تھا۔ اس کا رونا بھی یہاں موجود سب لوگوں کو برا لگ رہا تھا۔ اسی اثناء میں دو زبردست دھماکے ہوئے اور آگ کے شعلے آسمان سے باتیں کرنے لگے۔ بھارتی طیاروں نے یہ بم تیل کے بڑے ڈپوؤں پر گرائے تھے چونکہ یہ ڈپو تیل سے بھرے ہوئے تھے۔ اس لئے آگ کے شعلوں نے سارے شہر کو اپنی لپیٹ میں لینا شروع کر دیا۔ اسی اثناء میں پاک فضائیہ کا ایک طیارہ فضا میں نمودار ہوا۔ اس نے آناً فاناً بھارتی طیاروں کا تعاقب شروع کر دیا۔ بھارتی طیارے حملہ کرنے کے بعد فرار کا راستہ اختیار کرنا چاہتے تھے لیکن پاکستانی ہوا باز نے فرار کے تمام راستے بند کر کے ان دنوں بھارتی طیاروں کو پاکستانی سرحد کے اندر ہی گرا لیا۔ ان بھارتی طیاروں کو اُڑانے والے دو سکھ ہوا باز تھے۔ جب انہیں گرفتار کر کے عارف والا لایا گیا تو انہوں نے بتایا کہ پاکستان بننے سے پہلے ان کا تعلق عارف والا شہر سے تھا جو ایک صوفی بزرگ کے نام سے منسوب ہے۔ بم گرا کر جب وہ اپنے شہر کو حسرت سے دیکھنے لگے تو پاکستانی ہوا باز نے انہیں آ گھیرا۔
بہرکیف جب شہر میں آگ کے شعلے آسمان سے باتیں کرنے لگے تو عارف والا شہر سیمغرب میں واقع چک 64کی طرف ہم سب نے کوچ کا فیصلہ کر لیا۔ جہاں میری نانی کے دو بھائی محمد فتح خان اور محمد عطا خان اپنے اہل خانہ کے ساتھ رہائش پذیر تھے۔ بڑے سے احاطے میں دو پختہ کمرے بنے ہوئے تھے جن میں ہم بھی باقی لوگوں کی طرح کسی نہ کسی طرح سما گئے۔ اس گھر میں چونکہ افراد کی تعداد خاصی بڑھ گئی تھی اس لئے دوپہر شام کے اوقات میں روٹیاں تنور پر ہی لگانی پڑتیں۔ رات کو تو ہم بڑے سے احاطے میں کھلی فضا میں سو جاتے لیکن گرمیوں کی دوپہر ہمیں جوہڑ کے کنارے (جہاں دن کو ہر وقت بھینسیں غسل فرماتی تھیں) پیپل کے بڑے درخت کے نیچے گزارنی پڑتی۔ فارغ اوقات میں ہم جوہڑ کے پانی میں پتھر پھینک کر اس سے پیدا ہونے والی لہروں کو گنتے رہتے۔ یہ قصبہ بھارتی جنگی جہازوں کی دسترس سے تھوڑا محفوظ تھا۔ عارف والا شہر کا کچھ علاقہ توبہت زرخیر تھا لیکن اس کے جنوب میں ریت کے بڑے بڑے ٹیلے میلوں تک پھیلے ہوئے تھے۔ کئی لوگ بھارتی ہوا بازوں کو بلیک آؤٹ کے دوران دھوکا دینے کے لئے ریت کے ان ٹیلوں پر چراغ جلا کر رکھ آتے۔ کئی بار بھارتی ہوا بازوں نے ان چراغوں کو شہر سمجھ کر بم گرائے جو پھٹنے کی بجائے ریت کے ٹیلوں میں ہی دھنس گئے۔ بہرکیف 17دنوں تک یہ جنگ جاری رہی۔ ہم چک 64میں ہی موجود رہے جبکہ والد صاحب لاہور کینٹ کے کھلے میدان میں موت کے خوف سے آزاد خراٹے مارتے سوتے رہے۔ کئی افراد نے والد صاحب کو سمجھایا کہ جنگی جہازوں کی آمد پر جب سب لوگ مورچوں میں پناہ لیتے ہیں تو آپ بلند آواز میں خراٹے مارتے ہوئے سوئے رہتے ہیں۔ اس پر والد صاحب کہتے کہ موت کا ایک دن مقرر ہے جب موت نے آنا ہے تو انسان مورچے میں بھی ہو تو بچ نہیں سکتا۔ اس لئے جب موت نے ایک نہ ایک دن آنا ہی ہے تو کیوں نہ اس کا خندہ پیشانی سے استقبال کیا جائے۔ میرے والد واقعی بڑے سخت دل انسان تھے یہ بات میں اس لئے کہتا ہوں کہ قلعہ ستار شاہ جہاں قدم قدم پر سانپوں کا بسیرا تھا۔ والد صاحب کبھی ان سانپوں سے نہیں گھبرائے اور رات کو گھٹاٹوپ اندھیروں‘ چمکتی بجلیوں اور زور دار بارشوں میں بھی وہ اسٹیشن سے دور اپنے سرکاری فرائض انجام دینے بلاخوف و خطر جاتے رہے۔ واں رادھا رام کا اوٹر سگنل جو اسٹیشن سے دو اڑھائی کلومیٹر کے فاصلے پر تھا اکثر رات کو تیز ہوا کی وجہ سے بجھ جاتا جسے جلانے کے لئے والد صاحب کو جنگل بیابان میں تنہا جانا پڑتا۔ ڈاکوؤں‘ چوروں کا خوف تو اپنی جگہ ’’سور‘‘ اس علاقے میں بڑی مقدار میں پائے جاتے تھے۔ رات کو ان کا اکثر والد صاحب سے آمنا سامنا ہو جاتا لیکن اﷲ تعالیٰ نے ہر مرتبہ والد صاحب کو اس موذی جانور کے شر سے محفوظ رکھا۔
1965ء کی جنگ اختتام کو پہنچ گئی تو ہم بھی واپس لاہور آ گئے اور پھر شہر کی رونقیں لوٹ آئیں اور جو لوگ جانیں بچانے کے لئے لاہور چھوڑ گئے تھے وہ سب واپس آ گئے۔
بے شک عوام کے بھرپور تعاون سے پاک فوج نے دشمن کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بن کر یہ جنگ جیت لی تھی۔ عوام میں اس جیت کا واضح تاثر موجود تھا۔ اس جنگ میں ریاض بٹالوی نے ایک پیسہ ایک ٹینک کا تصور پیش کیا اور عوام الناس سے عطیات وصول کرنے کے لئے ہر گلی اور ہر چوراہے میں صندوق رکھ دیئے تھے۔ جس میں غریب سے غریب لوگوں نے بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا حتیٰ کہ بہت سی عورتوں نے اپنے زیورات بھی ملک و قوم کی سلامتی کے لئے یہ سمجھ کر ان صندوقوں میں ڈال دیئے کہ یہ وطن ہے تو ہم ہیں خدانخواستہ اگر وطن کو کچھ ہو گیا تو ہمارا جینا بھی بیکار ہے۔
پھر 1971ء کی پاک بھارت جنگ سے ایک سال پہلے جب میں گلبرگ ہائی سکول سے پڑھ کر ریلوے اسٹیشن لاہور کینٹ کے پلیٹ فارم سے گزر کر گھر کی طرف واپس آ رہا تھا کہ زبردست دھماکے نے نہ صرف لوگوں کو پریشان کر دیا بلکہ کئی لوگ کئی فٹ زمین سے اُچھل کر زمین پر گرے۔ بدحواسی کے عالم میں ہر کوئی یہی سمجھ رہا تھا کہ دھماکہ اس سے کچھ ہی فاصلے پر ہوا ہے۔ کچھ لوگ اس دھماکے کو بھارتی حملے سے تشبیہ دے رہے تھے۔ میں بھی سخت گھبرایا ہوا تھا۔ والدین بچوں کے لئے اور بچے والدین سے ملنے کے لئے بے تاب تھے۔ جب میں دوڑتا ہوا گھر پہنچا تو یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ لکڑی کے دروازے‘ کھڑکیوں اور دیواروں میں دراڑیں پڑ چکی تھیں۔ بڑے دھماکے کے بعد مسلسل بموں کے چلنے کی آوازیں آنے لگیں اس صورت حال میں ہر شخص اضطراب اور پریشانی کا شکار تھا۔ کچھ دیر بعد معلوم ہوا کہ ہربنس پورہ میں فوج کے اسلحہ گودام میں آگ لگ گئی ہے۔ کچھ دنوں تک گولہ بارود چلنے کی آوازیں سنائی دیتی رہیں۔ پھر اس نے خاموشی کی چادر اوڑھ لی۔ اسی طرح 1985ء میں راولپنڈی میں اوجڑی کیمپ کے مقام پر اسلحے کے بڑے ڈپو میں آگ لگ گئی۔ افغان مجاہدین کو فراہم کیے جانے والے اسلحے میں شامل جتنے میزائل تھے وہ فضا میں بلند ہو کر چلتی ہوئی گاڑی‘ موٹر سائیکل اور بسوں پر گرنے لگے۔ ان گھروں کے لوگ بھی میزائلوں کی یلغار سے محفوظ نہ رہ سکے جن کے گھر میں ٹیلی ویژن دیکھے جا رہے تھے۔ کشش ثقل کی بدولت میزائل اسی طرف کا رخ کرتے جہاں انہیں کشش ملتی۔ اس سانحے میں بھی بہت سے فوجیوں کے علاوہ اسلام آباد‘ راولپنڈی کے درجنوں لوگ شہید ہو گئے۔ بہت عرصے تک اوجڑی کیمپ میں اِکا دُکا دھماکوں کا سلسلہ جاری رہا جس سے موقع پر موجود صحافیوں‘ فوجی افسروں اور دیگر اسلحہ کے ماہرین کو بھی جانی قربانی دینی پڑی۔ مجھے اتنا یاد ہے کہ اوجڑی کیمپ جانے والا ہر شخص باوضو ہوتا تھا اور کلمے کا ورد اس کی زبان پر جاری ہوتا۔ نہ معلوم کب اسے موت کا سامنا کرنا پڑے۔ دوسرے لفظوں میں اوجڑی کیمپ جانے کا سفر موت کا سفر کہلانے لگا۔ بہرکیف یہ چند ایک واقعات دفاعی اعتبار سے میری زندگی میں پیش آئے جو میں نے نہایت ایمانداری سے پیش کر دیئے۔
( یادرہے یہ مضمون میری شہرہ آفاق سوانح عمری "لمحوں کا سفر" سے اخذ کیاگیا ہے ۔)
**************************
1965ء کی پاک بھارت میں جہاں پاک فوج کے بہادر افسروں اور جوانوں کا کردار بہت نمایاں تھا وہاں اولیاء اﷲ اور نبی کریم ﷺ اور صحابہ کرام کی شرکت کے اعتبار سے بھی یہ جنگ ہمیشہ یاد رکھی جائے گی ۔ اس جنگ کے دوران آسمان پر بھی ایک تلوار نمودار ہوئی جس کی ہتھی پاکستان کی جانب اور تلوار کی نوک بھارت کے جانب سے تھی ۔ بزرگان دین کے نزدیک تلوار کا اس انداز سے آسمان پر نمودار ہونا تائید خداوندی کا ثبوت تھا۔ پاکستان نبی کریم ﷺ کی دعا اور اولیاء اﷲ کی کراماتوں کی بدولت دنیا کے نقشے پر نمودار ہوا تھا اور آج تک اﷲ تعالی ٗ نبی کریم ﷺ اور اولیاء اﷲ کی نظر عنایت کی بدولت ہی قائم و دائم ہے ۔اس ملک کو توڑنے اور ختم کرنے والے خود صفحہ ہستی سے مٹ گئے لیکن کلمہ طیبہ کے نام سے بننے والا یہ ملک آج بھی دنیا کی ساتویں ایٹمی طاقت کی شکل میں بھارت اور امریکہ کے سامنے سینہ تان کر کھڑا ہوا۔ یہاں میں عرض کرتاچلوں کہ کامیاب ایٹمی دھماکے بظاہر تو ہمارے ذہین اور باصلاحیت سائنس دانوں نے کیے لیکن ایٹمی دھماکوں کے دوران جو حیرت انگیز اور انسانی عقل کو دنگ کر دینے والے واقعات رونما ہوئے اس کا ذکر چھ کامیاب ایٹمی دھماکے کرنے والے پاکستان کے عظیم سائنس دان ڈاکٹر ثمر مبارک مند اپنے انٹرویوز میں کتنی بار کر چکے ہیں ۔ان کے بقول جب امریکی اواکس طیارے پاکستان کے چپے چپے کی سکینگ کررہے تھے اور اس جستجو میں تھے کہ پتہ چلایاجائے کہ پاکستان کہاں دھماکے کرنے کی منصوبہ بندی کررہاہے لیکن امریکہ کے جدید ترین اواکس طیارے جو زمین کی گہرائیوں میں بھی جھانکنے کی صلاحیت رکھتے ہیں وہ بلوچستان کی سرزمین پر ہونے والے ایٹمی دھماکوں کی جگہ اور مقام کو تلاش کرنے میں اس لیے ناکام رہے کہ نبی کریم ﷺ ٗ صحابہ کرام ٗ فرشتے اور اولیا اﷲء نے پوری کائنات کو اپنی گرفت میں محفوظ کررکھا تھا ۔ اس لیے یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ پاکستان اﷲ تعالی کی عطا کردہ نعمت اور نبی کریم ﷺ کی دعاؤں کا نتیجہ ہے جس کی حفاظت اولیاء اﷲ ہر لمحے کررہے ہیں۔
 

Aslam Lodhi
About the Author: Aslam Lodhi Read More Articles by Aslam Lodhi: 781 Articles with 659911 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.