وطن عزیز اپنا 70واں یوم آزادی منا رہا ہے۔ 69سال پہلے……
ہم نے طویل جہاد ا و رسیاسی جدوجہد سے انگریز کی غلامی کا حصار توڑ کر
آزادی کی منزل پائی تھی۔ انگریز کی آمد سے پہلے لگ بھگ 1ہزار سال مسلمان اس
خطے کے حکمران رہے۔ مسلمانوں نے تعداد و آبادی میں انتہائی کم ہونے کے
باوجود اتنا لمبا عرصہ یہاں اس لئے حکومت کی کہ انہوں نے ہمیشہ عدل و انصاف
سے کام لیا۔ انہوں نے عوام کے تمام طبقات کا برابرخیال رکھا، وگرنہ تاریخ
عالم میں ایسی مثال نہیں ملتی ۔ مسلمانوں کی یہاں آمد بھی ایک ظالمانہ
واقعہ کا نتیجہ تھی، جو انتہائی مشہور و معروف ہے کہ سری لنکا سے عرب
مسلمانوں کابحری قافلہ اپنے وطن کی طرف سفر کر رہا تھا جسے کراچی کے قریب
یہاں کے حکمران راجہ داہر کے لوگوں نے سمندر سے پکڑ کر قیدی بنا لیا تھا
اور پھر اس قافلے میں شامل ایک خاتون نے مسلمان حکمران حجاج بن یوسف کوخط
کے ذریعے مظلومیت کی داستان پہنچائی اور مدد کی دہائی دی تھی۔ یوں حجاج بن
یوسف نے اپنے 17سالہ بھتیجے محمد بن قاسم کو 711ء میں 12ہزار فوج دے کر
مظلوم قیدیوں کو چھڑانے اور مجرموں کو سزا دینے کے لئے روانہ کیا تھا۔ ملک
اور علاقہ اجنبی تھا اور محمد بن قاسم کے پاس فوج و وسائل جہاں محدود تھے
وہیں کمک کا ملنا بھی ناممکن تھا، لیکن انہوں نے اﷲ تعالیٰ کی مدد کے آسرے
پر معرکہ حق و باطل سجایا اور راجہ داہر کو عبرتناک شکست دے کر جہاں مظلوم
مسلمانوں کو آزادی دلوائی، وہیں یہاں کے باسیوں کو بھی انصاف مہیا کر کے
دکھایا۔ یہاں کے لوگوں نے اس سے پہلے اس طرح کے منصف مزاج اور انسانوں سے
برابربرتاؤ کرنے والے لوگ دیکھے نہیں تھے، سو انہوں نے جہاں بڑے پیمانے پر
اسلام قبول کیا، وہیں محمد بن قاسم کو اپنے دلوں کا بادشاہ تسلیم کر لیا۔
جن ہندو لوگوں نے اسلام قبول نہیں کیا تھا، انہوں نے بھی ابن قاسم کی
مورتیاں بنا کر اسے پوجنا تک شروع کر دیا تھا۔ محمد بن قاسم کی واپسی ہوئی
تویہاں کے ظالم برہمن راجوں نے دیکھا کہ ان کی بدمعاشی ختم ہو چکی ہے اور
وہ حکومت کرنے اور کمزور قوموں کو غلام بنا کر رکھنے کے بجائے عام رعایا
میں شامل ہو چکے ہیں تو انہوں نے پھر سے ساز باز کر کے مسلمانوں کو مارنا
شروع کیا۔یوں مسلمانوں کو افغانستان سے کبھی سلطان محمود غزنوی، کبھی سلطان
شہاب الدین غوری تو کبھی مغلوں اور کبھی ابدالیوں کی شکل میں یہاں آنا پڑتا
رہا۔ ان لوگوں نے صدیوں افغانستان کو پایہ تخت بنایا اور ہمیشہ ظالم
برہمنوں کی سرکوبی اور مظلوم و کمزور مسلمانوں اور دیگر اقوام کی مدد کر کے
واپسی کی راہ لیتے۔ اگر یہ گروہ یہاں ہی قیام کرتے تو انہیں بار بار آنے کی
تکلیف برداشت نہ کرنا پڑتی ۔جب یہ سلسلہ حد سے بڑھا تب کہیں مسلمانوں نے
لاہور اور دہلی کو اپنا پایہ تخت بنایا پھر بھی انہوں نے کسی معاملے میں
کبھی غیر مساویانہ سلوک نہ کیا۔ پھر انگریزوں کی سازشیں شروع ہوئیں تو وہی
برہمن جو صدیوں سے دلوں میں بغض پالے بیٹھے تھے کہ مسلمانوں نے ان سے حکومت
چھین رکھی ہے، انگریزوں سے ملتے چلے گئے تو انگریز خطے پر قابض ہوتے چلے
گئے۔ انگریز حکومت قائم سے ان ہندوؤں پر عنایات کی بارش ہوئی۔ انہیں
حکومتوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ دیا گیا تو مسلمانوں کو وقت اور ہر جگہ ظلم و
ستم کا نشانہ بنایا جاتا رہا۔ انگریز جانتے تھے کہ ان کی حکومت کو اگر کسی
سے خطرہ ہے تو وہ صرف مسلمان ہیں۔ اس لئے انہوں نے لاکھوں مسلمانوں کو قتل،
لاکھوں کو قید کیا۔ مسلمانوں کو اس قدر پسماندہ رکھا گیا کہ ان کی حیثیت
کیڑے مکوڑوں جیسی ہو گئی۔ انگریز کے اندھے ظلم و تعدی کے خلاف مسلمانوں نے
ہی ہمیشہ علم جہادبلند کیا اور 1947ء تک کسی نہ کسی شکل میں انگریزسے
ٹکراتے رہے۔ جب تقسیم ہند کا فیصلہ ہوا تو مسلمانوں نے صرف مذہب کی بنیاد
پر علیحدہ وطن کے حصول کی جدوجہد شروع، کیونکہ وہ جانتے تھے کہ اس خطے میں
ہندوؤں کی بھاری اکثریت ہونے کی وجہ سے انہیں کبھی عزت کے ساتھ رہنے یا
جینے کا موقع مل نہیں سکتا۔ زمینی صورتحال ان کے سامنے تھی، برصغیر کے وہ
علاقے جہاں مسلمان بھاری اکثریت میں تھے ،وہاں بھی سارا زمام کار و اختیار
سو فیصد ہندوؤں کے پاس تھا اور ان کے اوپر انگریز کا دست شفقت تھا۔ اس لئے
مسلمان کسی علاقے اور کسی خطے میں اونچا سانس لینے کی جرأت نہیں رکھتے تھے۔
حد تو یہ تھی کہ مسلمان اپنے بھاری اکثریت کے علاقوں میں بھی گائے تک کی
قربانی نہیں کر سکتے تھے۔ جب تقسیم کا مرحلہ پیش آیا تو انگریزاور ہندوؤں
کی پھر سے ساز باز شروع ہوئی۔انگریزوں کی کوشش تھی کہ حکومت ہندوؤں کے
حوالے کی جائے لیکن مسلمانوں کا اتحاد اور طویل جدوجہد ان کے ناپاک عزائم
کی راہ میں رکاوٹ بن گئے اور پھر انگریزوں کو ہر صورت مسلمانوں کیلئے الگ
وطن کا فیصلہ کرنا ہی پڑا،لیکن انہوں نے تقسیم کے وقت ایسی ناپاک سازشیں
رچائیں کہ پاکستان تھوڑے ہی عرصہ میں تحلیل ہو کر بھارت کا حصہ بن جائے۔
پنجاب سے متصل مسلم اکثریتی اضلاع اور دریاؤں کے ہیڈ ورکس بھارت کو دیئے
گئے تاکہ وہ جہاں کشمیر پر قابض ہوں وہیں پاکستان کے دریاؤں کا کلی اختیار
بھی بھارت کے ہاتھ آ جائے۔ انگریز نے جاتے ہوئے سارا خزانہ، سارا اسلحہ و
ایمونیشن وغیرہ بھی بھارت کے حوالے کر دیا تھا اور پاکستان کے حصے میں
کمزور سرحدیں اور لاکھوں لٹے پٹے مہاجرین کا بوجھ آیا۔ انگریزکی چالاکی اور
اسلام دشمنی دیکھئے کہ انہوں نے دنیا بھر میں مسلمانوں کے جتنے علاقے اور
خطے چھوڑے، اس نے انہیں چھوٹے چھوٹے ملکوں اور ٹکڑوں میں تقسیم کیا، لیکن
بھارت کے اس وقت کے 40کروڑ ہندوؤں کے اتنے بڑے ملک کو بالکل نہ چھیڑا اور
اسے یکجان رکھا۔ وجہ صرف اسلام دشمنی تھی اور پھر اس سازش کے تحت بھارت کو
کشمیر پر قبضے کی راہداری فراہم کی گئی۔ کشمیر پر قبضے کا مطلب پاکستان کو
ہمیشہ کیلئے بھارت کا غلام رکھنا تھا کیونکہ پاکستان کے سارے دریا وہیں سے
آتے ہیں۔ اسی لئے تو اعلانِ آزادی کے ساتھ ہی بھارت نے دریائے راوی اور
دریائے ستلج کو بند کر دیا تھا اور پاکستان پانی کے قطرے قطرے کو ترسنے پر
مجبور تھا۔ یوں پاکستان کبھی بھارت سے پانی خریدتا، کبھی دنیا کے ذریعے
مذاکرات کی کوششیں کرتا اور آخرکار سندھ طاس معاہدہ جیسا طوق پہن کر اپنے
دریا بیچنے پر مجبور ہو گیا۔ اﷲ کا پھر بھی اتنا کرم ہوا کہ وہ ملک جسے اس
کے دشمن ایک دن دنیا کے نقشے پر قائم نہیں دیکھنا چاہتے تھے،70سال کا سفر
طے کر چکا ہے۔ وہ ایٹمی قوت ہے، اس کی عسکری قوت کا لوہا ساری دنیا مانتی
ہے۔ وہ مسلم دنیا کا رہبر ہے۔ یہ سب اسلام دشمنوں کے دل میں کانٹے کی طرح
کھٹکتا ہے ۔اس سب کے باوجود یہ ملک کشمیر کے اپنے وجود کے ساتھ نہ مل پانے
کی وجہ سے نامکمل و غیر محفوظ ہے۔ بھارت نے ہمیشہ سے کشمیر کو ہی پاکستان
پر یلغار کا راستہ بنا رکھا ہے۔ایسے وقت میں جب کشمیری پاکستان سے محبت و
وفا کی ہر روایت پوری کر چکے،ہر امتحان پاس کر چکے، ہماری کمزوریوں کے باعث
ہم سے الحاق کا خواب پورانہیں کر پائے۔ گزشتہ30سال اور حالیہ 13ماہ میں تو
انہوں نے پاکستان کیلئے سب کچھ قربان کر کے دکھا دیا ہے۔ضرورت اس بات کی ہے
کہ ہم بھی ان کے ساتھ ویسے ہی کھڑے ہوں جیسے وہ میدان میں ہیں۔
آزادی کا70واں سال مناتے ہوئے ہم اسے صرف کشمیر کے نام کریں، کشمیر کا
مسئلہ دنیا کے تمام ضوابط اور اصولوں کے تحت سب سے مضبوط و مقدم ہے جسے صرف
ایک اچھے وکیل کی ضرورت ہے اور کشمیرہی ہماری اول تا آخر ضرورت ہے۔ کہاں وہ
محمد بن قاسم جیسے مسلمان تھے جنہوں نے ایک بہن کی پکار پر راجہ داہر کی
فوجوں کو روند دیا تھا اور ایک ہمارے جیسے کروڑوں مسلمان جنہیں روزانہ
لاکھوں بہنیں دہائیاں دیتی ہیں لیکن ہم لوگ جیسے بہرے ہو چکے اور ایک قدم
اٹھانے کو تیار نہیں۔اگر ہم نے کشمیریوں کی آج بھی مدد نہ کی تو آنے والا
کل شاید ہمیں معاف نہ کرے اور پھر ایسی آسمانی پکڑ کے بھی شکار ہوں کہ ہم
پھر شاید بچ ہی نہ پائیں۔
|