کالوکے ابا کوئی معمولی شخصیت نہیں‘‘،،،یہ اردو ادب کا وہ
کردارہے جس سے حسنِ ادب قدرے داغ دار تو ‘‘،،،
ہوا ہے‘‘،،،اس قدر میلا ہوں میں‘‘،،،ڈیٹرجنٹ پاؤڈرسےبھی نہیں دھل پاتا ہوں
میں‘‘،،،سکہر دوپہر میں بھی‘‘
کالی گھٹا سانظر آتا ہوں میں‘‘،،،یہ تو وہ چند اشعار ہیں جو بلا وجہ ہی کسی
فضول قسم کے شاعر نے ‘‘،،
کالو کے ابا کی شان میں عرض کئے ہیں‘‘،،،کالو کے ابا کی شخصیت کسی بھی
تعارف کی محتاج نہیں ہے‘‘،،،
ہاں !یہ الگ بات ہے کہ وہ بذاتِ خود کئی دفعہ کالو کی اماں کے ہاتھوں محتاج
ہوتے ہوتے بچے ہیں‘‘،،،
مجھ سے پوچھیے‘‘،،،تو کالو کے ابا اور کالی بلی میں اثرات کے حساب سے ذیادہ
فرق نہیں ہے‘‘،،،اک دفعہ‘‘،،
ہم بانکے سجیلے بنے اپنی سائیکل پر گنگناتے ہوئے جارہے تھے‘‘،،،لال
ڈوپٹہ‘‘،،اڑ گیا رے بیری‘‘،،،ہوا کےجھونکے‘‘
سے‘‘،،،مجھ کو ساجن نے دیکھ لیا ہائے رے‘‘،،،بس یہاں پر ہم نے فضامیں اک
بتیسی سی دیکھی‘‘،،،پھر‘‘،،
بقیہ کالو کے ابا سامنے آئے‘‘،،،اپنی گائے کی بد ہاضمی والے آواز میں
بولے‘‘،،،خان صاحب‘‘،،،ڈوپٹے کا بہت‘‘،
شوق ہو رہا ہے‘‘،،،وہ بھی لال‘‘،،،کل کو بولو گے‘‘،،،اب ہاتھ بھی کوئی پیلے
کردے آپ کے‘‘،،،
ہمیں بہت ہی غصہ آیا‘‘،،،کیونکہ ایک تو کالو کے ابا نے کالی بلی کی طرح
ہمارا راستہ کاٹا‘‘،،اوپر سے سالوں بعد‘‘،
ہمیں سر لگتا ہے‘‘،،،سب کا سب کالو کے ابا جی نے چوپٹ کر کےرکھ دیا‘‘،،،
خیرہم نے جو دعا آتی تھی پڑھی اور خود پر پھونک مار لی‘‘،،،پھونک کی آواز
ایسے نکلی جسے سائیکل کی ٹیوب‘‘،،
پھٹ گئی ہو‘‘،،،جب غور کیا تو پتا چلا سائیکل پنکچر‘‘،،،
یہ پہلی آفت تھی جو کالو کے ابا نے صبح صبح یعنی ہماری صبح گیارہ بجے
‘‘،،ہم پر نازل کی‘‘،،،
کچھ دیر پہلے سائیکل ہمارے نیچے تھی‘‘،،،اور ہم سائیکل پرسوار‘‘،،،اب ہم پر
سائیکل سوار تھی‘‘،،،
ہانکتے کانپتے سائیکل کی دکان پر پہنچے‘‘،،،پتا چلا دوکان کھولی ہوئی تھی
مگرپنکچر والے کی ساس کو‘‘،،
ہارٹ اٹیک ہوا تھا‘‘،،،وہ وہاں چلا گیا ہے‘‘،،،ہم سوچنے لگے کالو کے ابا کے
سیاپے کہاں تک سفر کرتے ہیں‘‘،،،
مذہبی سوچ نے کہا‘‘،،صدقہ دیا جائے‘‘،،،اب گلی میں کوئی کالی مرغی
ملے‘‘،،،تو ہم چرا کے صدقہ دیں‘‘،،
کم بخت آج کل کی مرغیاں بھی اک نمبر کی ‘‘،،،،وہ‘‘،،،،سب نے فیئر اینڈ لولی
لگانا شروع کردی ہے‘‘،،،
اب کوئی کالی مرغی ہی نہ مل کے دے‘‘،،،بڑی مشکل سے اک بلیک اینڈ وائٹ مرغی
ملی‘‘،،،اسے ہم نے‘‘،،
بڑی جانفشانی کے بعد پکڑ تو لیا‘‘،،،مگر پتا چلا اس کی اک ہی ٹانگ
تھی‘‘،،،ہم نے سوچا صدقہ ہی تو کرنا ہے‘‘،
ہم نے کونسا اس سے ڈانس کروانا ہے‘‘،،،(جاری ہے)
|