رائٹرز ویلفئیر فاؤنڈیشن اینڈ ہیومن رائٹس پاکستان کے
زیراہتمام پہلا پاکستان نوبل ایوارڈ2017کا انعقاد
ایسے حالات میں جب معاشرے میں سیاسی لوگوں کا ہجوم اکٹھا کرنے اور کسی نہ
کسی تحریک کو چلانے کیلئے تنظیموں کے قیام کا سلسلہ سرگرم عمل ہو تواِس
دعوی کوآج دم توڑتے دیکھا ہے کہ ’’شخصیات کی فطری ذہانت، قابلیت و کمالات
کو دیکھا تو جا رہا ہے مگر کسی سطح پر اعتراف نہیں کیا جا رہا‘‘۔۔چند ہفتے
قبل قائم ہونے والی رائٹرز ویلفےئر فاؤنڈیشن اینڈ ہیومن رائٹس پاکستان نے
جس سرعت انگیزی سے حلقہ علم و ادب میں اپنی شناخت حاصل کی ہے اہل علم و
دانش بھی ششدر ہیں۔قیام کے فوراً بعد تنظیم کے روح رواں آفاق احمد خان نے
مختلف شعبہ جات میں نمایاں خدمات پیش کرنے والوں کیلئے پاکستان نوبل ایوارڈ
کا اعلان کیا۔منتخب ناموں کی فہرست منظرعام پر آئی تو ،مختلف حلقوں میں کڑی
تنقید کا سامنا رہا ،سوشل میڈیا پر حوصلہ شکنی کیلئے نت نئے انداز اپنائے
گئے مگر آفاق احمد خان اور اُنکے معاونین بالخصوص شہزاد اسلم راجہ نے ہمت
نہ ہاری بلکہ ہر تنقید کے بعد اپنے عزم کو پہلے سے بھی کہیں زیادہ پختہ
پایا،اور پھردنیا نے دیکھا کہ عصرحاضر میں بھی فطری ذہانت ،قابلیت ،فن و
کمالات کو دیکھا بھی گیا، معیار کے پیمانے پر پرکھا بھی گیا اور ’’ پاک
نوبل ایوارڈ2017 ‘‘کی منعقدہ تقریب میں سراہا بھی گیا۔ اِس غیرمتزلزل سفر
کوشہزاد اسلم راجہ نے کسی شاعر کی زبانی تقریب میں کچھ یوں پیش کیاکہ۔
سب اپنے نظریے پاس رکھو
ہم اپنا نظریہ رکھتے ہیں
یاد رہے کہ کوئی وجہ ہے
پاس اپنے جو اپنی جگہ ہے
جان سے زیادہ خرچہ آیا
گھر اپنے تب نام لگا ہے
رستے پہ دل جب آیا ہو
منزل تک بھاگنا ہوتا ہے
گر جاگنا ہو اُس سے پہلے
اِک حوصلہ جاگنا ہوتا ہے
اِک سوچ پہ پے مینار بنا
وہ سوچ سنبھال بھی سکتے ہو
سب اپنے نظریے پاس رکھو
ہم اپنا نظریہ رکھتے ہیں
اپر پنجاب (لاہور‘ قصور‘ شیخوپوہ‘ گوجرانوالہ‘ سیالکوٹ‘ ننکانہ صاحب‘
پتوکی‘ اوکاڑہ او ر فیصل آباد) سے تعلق رکھنے والے احباب کی مختلف شعبہ جات
میں خدمات کے اعترا ف کیلئے ، جس منظم انداز میں’’ پاک نوبل ایوارڈ2017
‘‘کا ادبی بیٹھک الحمراہال میں انعقاد کیاگیا،قابل دیدبھی تھا اور قابل
تعریف بھی بلکہ قابل تقلید بھی۔
مسند صدارت پر معروف علمی،ادبی و سماجی شخصیت زاہد شمسی صاحب جلوہ افروز
ہوئے جبکہ اِن کے ہمراہ مہمانانِ خصوصی،حاجی محمد لطیف کھوکھر‘اعجاز
مہاروی،یاسمین ریاض شاہ اور مہمانِ اعزازی رقیہ غزل بھی سٹیج کی رونق بڑھا
رہے تھے۔ دیگر مہمانان میں ڈاکٹر محمد عبداللہ تبسم اور میاں عبدالوحید
عمرانہ بھی شامل تھے۔ تقریب کاتقریباً اپنے مقررہ وقت پر آغاز ہوا۔عثمان
معاویہ نے تلاوتِ قرآن پاک کی سعادت حاصل کی اور دلوں کو خوب منور کیا۔
تقریب کی نظامت کے فرائض جس اندازوبیان میں شہزاداسلم راجہ نے سرانجام دیئے
سبھی اِن کے خوب مداح ہوئے ،سینئرز کی تکریم کا خوب خیال رکھا گیا،شرکاء کی
آمد پر فرداً فرداًاستقبالیہ کلمات پیش کرتے رہے،الفاظ کے چناؤ ،اُسکے
برتاؤ،پُراثر دلفریب جملوں و منتخب اشعار کے پیچ وخم میں محفل اور حاضرین
محفل کو تقریب کے اختتام تک دلجمعی کے ساتھ گرفتار رکھا ۔ اُنہوں نے
پاکستان کی سب سے بڑی علمی ادبی و فلاحی تنظیم رائٹرز ویلفےئر فاؤنڈیشن
اینڈ ہیومن رائٹس پاکستان کے اغراض و مقاصد پر بھی روشنی ڈالی اُنکا کہنا
تھا کہ پہلے پہل تنقید کا سامنا رہا مگر اللہ کے کرم سے ہم نے سنبھل کر
،کھڑا ہو کر اور حلقوں میں اپنا مقام بھی حاصل کر کے دیکھایا اور اِس حوالے
سے ایک نظم بھی پیش کی جسے پہلے ہی قارئین کی نذر کی جا چکی ہے۔ تقریب دو
حصوں پر مشتمل تھی حصہ اول میں مقررین نے مختلف موضوعات پر اپنے خیالات کا
اظہار کیا جبکہ حصہ دوم میں ایوارڈ ز کی تقسیم کو عمل میں لایا گیا۔
حصہ اول میں راقم الحروف کو صدرِمحفل زائدشمسی کے حوالے سے اظہارخیال
کاموقع ملا توآفاق خان اور شہزاد اسلم راجہ کو تہہ دل سے مبارکباد پیش کرتے
ہوئے اظہار تشکر بھی کیا کہ انہوں نے ادبی اور صحافتی کہکشاؤں سے سجی دھجی
اِس محفل میں اِس ناچیزکو بھی عزت بخشی۔بات کاسلسلہ آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ
محترم زاہدشمسی صاحب سے شناسائی سے بات شروع کروں تو۔
22فروری 2015کی بات ہے ، کہ شہزاد اسلم راجہ کے کتاب ’’آوارگی‘‘ کے تقریب
رونمائی تھی، جسکی صدارت شمسی صاحب کر رہے تھے اور اِن کے ساتھ سٹیج پر
بیٹھ کر میری بھی کچھ ایسی ہی کیفیت تھی ،جس حوالے سے امیر المومنین حضرت
علی علیہ السلام کا فرمان ہے کہ بڑاآدمی وہ ہے کہ جس کی محفل میں بیٹھ کر
کوئی اپنے آپ کو چھوٹا محسوس نہ کرے،اور میں وہاں بیٹھ کر اپنے آپ کو چھوٹا
محسوس نہیں کررہا تھا جو انکے بڑے پن کا ثبوت ہے۔ شہزاد اسلم راجہ کی فن و
شخصیت کے حوالے سے مختلف پہلوؤں پر شمسی صاحب اپنے تاثرات میں سیر حاصل
،ہیروں سے مزین گفتگو حاضرین و سامعین کے دل و دماغ پر نقش کر رہے تھے،تو
اُس وقت میں بیٹھا یہ سارے مناظر دیکھ کر دل ہی دل میں ان کے بلند پایہ
اخلاق و کردار کی منزلیں گننے میں محورہا، مجھے انکی کمال ذہانت اور عاجزی
پر رشک آ رہا تھا، ان سے ہونے والی ہر ملاقات میں ان کی حکمت و دانائی،
ذہانت، فتانت، بلند پایہ اخلاقی کرداراور علم و دانش کو بہت قریب سے پرکھنے
کا موقع ملا جو میرے لئے کسی اثاثے سے کم نہیں ۔
راقم الحروف نے شمسی صاحب کی قلمی ہنرمندیوں پر بھی سرسری سی روشنی ڈالی
اور اِنکی سماجی خدمات کو بھی قابل تحسین قرار دیا،شاعری کے حوالے سے کہا
کہ زبان میں فصاحت، سادگی، خلوص اور کلام میں سچائی، ضبط ، ٹھہراؤ بھی غالب
ہے۔ فطری شاعر ہیں گویا شاعری کا وصفِ لطیف انہیں مالک حقیقی کی جانب سے
عطا کیا گیا ہے،غزل،نظم،حمد ونعت کے علاوہ نثرنگاری ،گویا ہر صنف میںآپ نے
اپنے آپ کو منوایا ہے۔میں انکے لئے مزید کامرانیوں اور کامیابیوں کیلئے
دعاگوہ ہوں۔ اور دعاگوہ رہوں گا
زاہد حسن نے اپنے تاثرات میں اِس تقریب کو ایک منفرد اور یادگار تقریب
قراردیا اُنکا کہنا تھا ایسی تقریبات شازونادر ہی دیکھنے کو ملتیں ہیں مگر
اِس تقریب کی جو انفرادیت تھی اُس کاموازنہ کرنا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن
بھی ہے ۔ یقیناًمنتظمین خراج تحسین کے مستحق ہیںَ ،ایوارڈ وصول کرنے والوں
کو بھی دلی مبارکباد پیش کی۔
عبدالصمد (پھول بھائی) نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ منظم
طریقہ کار کے تحت پورے پاکستان سے چناؤ کر کے جس انداز میں اہل علم، اہل
قلم، اہل ادب شخصیات کی پذیرائی کی گئی یقیناًقابل تحسین ہے، اُمید ہے کہ
سلسلہ اب چلتا رہے گا ۔
رقیہ غزل نے اپنے تاثرات میں کہا کہ منتظمین کو مبارکباد پیش کی اور
پاکستان کے موجودہ سیاسی حالات کے تناظر میں اپنا نقطہ نظر بھی پیش کیا
اُنکا کہنا تھا کہ مایوسی کے بادل ہٹ چکے ہیں اور ہمیں ایک اُبھرتا ہوا
علامہ اقبال اور قائداعظم کا اصل پاکستان نظر آرہا ہے ہمارا مستقبل بہت
تابناک ہے ۔ ہمیں اپنی ذمہ داریوں کو احساس کرتے ہوئے اپنا اپنا کردار ادا
کرنا ہوگا۔
اعجاز مہاروی کا کہنا تھا کہ ایسی ادبی محافل کا انعقاد کم ہوچکا ہے،
اعدادوشمار پرکھے جائیں تو شرمندگی کے سواکچھ نہیں ملے گا ،کتاب سے دوستی
تو دور کتاب سے سے تعلق بھی ختم ہوچکا ہے اور ایسے صورتحال میں ادب لوگوں
سے احترام کا اظہار کرنا بہت اہم ہے،جسطرح رائٹر ویلفیئر آرگنائزیشن اور
ہیومن رائٹس پاکستان نے اہم علم ودانش کی قلمی وادبی خدمات کا اعتراف کیا
،قابل رشک ہے۔ یورپ میں دیئے جانے والے نوبل ایوارڈ کے قواعد و ضوابط پر تو
تعصب کی چھاپ نمایاں ہے مگر یہاں میرٹ کو ترجیح دی گئی جسے سراہنا چاہیے۔
یاسمین ریاض شاہد صاحبہ نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ مجھے ادب اور فروغ
ادب کیلئے اپنی خدمات پیش کرنا وراثت میں ملا ۔مگر جس بھرپور خلوص کے ساتھ
ادب کی یہاں حوصلہ افزائی کی گئی ہے ،وہ میرے لئے ایک خوشگوار تحفے سے کم
نہیں،مجھے یقین ہے کہ آنے والی نسلیں آپکے اِس کام سے ضرور فیض حاصل کریں
گی۔اِس ایوارڈ پروگرام نے میری یادوں میں وہ لمحات پھر سے تازہ کر دیئے جب
میرے بیٹے سیداحمدجمال بخاری کو امریکہ میں ایوارڈ سے نوازا گیا تھا اور یہ
ہمارے کیلئے باعث اعزاز ہے کہ اب اُسی امریکن یونیورسٹی میں اُس ایوارڈ کو
ایک پاکستانی سیداحمد جمال بخاری کے نام سے منسوب کر دیا گیا ہے ۔ میں آفا
ق احمد اور شہزاداسلم راجہ کو کامیاب تقریب کے انعقاد پر مبارکباد پیش کرتی
ہوں۔
تقریب کے حصہ دوم میں ایوارڈ کی تقسیم کا سلسلہ شروع ہوا تو شعبہ ادب و
شاعری کا پاکستان نوبل ایوارڈ زمحترم زاہد شمسی، محترمہ یاسمین ریاض شاہ
اور ایڈوکیٹ سعدیہ ہما شیخ کوپیش کئے گئے ،شعبہ ادب اور نثرنگاری/کالم کے
پاکستان نوبل ایوارڈ زحاجی لطیف کھوکھر، ندیم عباس میوانی، شہزاد اسلم
راجہ، مرزا یسین بیگ کے نذر کئے گئے جبکہ پاکستان نوبل ایوارڈ برائے شعبہ
صحافت کیلئے رقیہ غزل،حسیب اعجازعاشرّ،رشید احمدنعیم، عمرجوئیہ، محمد امین
بھٹی کے نام سامنے آئے،نوبل ایوارڈز برائے شعبہ ادب اطفال کیلئے عبدالصمد
مظفر پر قسمت مہربان ہوئی۔پاکستان نوبل ایوارڈ کیلئے شعبہ صحت کو بھی
نظرانداز نہیں کیا گیا تھا جس کے لئے ڈاکٹر چوہدری تنویر سرور کی خدمات کا
اعتراف کیا گیا۔اعجازمہاروی، سید حفیظ سبزواری اور عبدالللہ تبسم کو شعبہ
سماجی خدمات میں نمایاں خدمات کیلئے چنا گیا،محمدعرفان رامے اور ملک شہباز
کے نام پاکستان ایوارڈ کیلئے منتخب کئے گئے تھے۔رائٹرز ایوارڈ کیلئے حافظ
محمد زاہد، نوید مرزا،ریاض پرنس، ماجد امجد، شہباز اکبر الفت،اسامہ منور،
اسلم جاوید ہاشمی، اسامہ سلیم،ندیم نذر کو منتخب کیا گیا تھا ،آئی ٹی
فیلڈمیں اپنا ہنر منوانے کیلئے صلا ح الدین بھٹی کو ایوارڈ پیش کیاگیا اس
کے علاوہ محمدفہیم،انصرعلی،محمدعرفان، رانا محمد وجاہت، عماراحمد، محمد
حیدرمجید اور ذیشان کو علمی میدان میں نمایاں پوزیشن حاصل کرنے پر
ایجوکیشنل ایوارڈزسے نوازا گیا۔
شانِ محفل محترم زاہد شمسی صدارتی کلمات پیش کرنے کیلئے ڈائس پر آئے تو،
تالیوں کی گونج میں پُرتپاک خوش آمدید کہا گیا۔اُنہوں نے فکرانگیز گفتگو
کرتے ہوئے کہا کہ ہمارا مذہب درس دیتا ہے کہ خوبصورت سماج تشکیل دیا جائے
جو بہترین معاشرتی رویوں کو شامل کئے بغیر ناممکن ہے۔ضروری ہے کہ منصافانہ
اور عادلانہ نظام کی ترویج ہو ،قیامت تک کیلئے حیات طیبہﷺ اِس کی نمایاں
مثال ہے۔شمسی صاحب نے زور دیتے ہوئے کہا کہ ایک دوسرے کا احساس کرنے کی اشد
ضرورت ہے تاکہ آپس کے دُکھ درد بانٹیں جا سکیں۔
اُنہوں نے اِس موقع پر اعلان کیا کہ سماجی رویوں کی تبدیلی کیلئے تک ودو کا
آغاز کرنے والی اِس تنظیم’’رائٹرز ویلفیئر اینڈ ہیومین رائیٹس پاکستان ‘‘کے
ساتھ میں ہرحال میں کھڑا ہوں۔ یہ بات قابل دادوتحسین ہے کہ قابل طلباء و
اساتذہ اورنمایاں شخصیات کو ایوارڈ دینے کیلئے ماہِ اگست کا انتخاب کیا
گیا۔اُنہوں نے کہا کہ ہمیں چودہ اگست کی قربانیوں اور اُس دن اِس پاک
سرزمین پر سجدہ ریز ہونے والیں پیشانیوں کوفراموش نہیں کر دینا چاہیے۔
عاجزانہ انداز میں راقم الحروف کے اِ ن کے اعزاز میں کہے چند الفاظ کو خوب
پذیرائی بخشتے ہوئے کہا کہ جوں جوں میرے متعلق تحسینی کلمات پیش ہو رہے تھے
یقین جانیئے میں شرم سے زمین میں دھستا جارہا تھا،میں اپنے آپکو اِن
خوبصورت ترین الفاظ کے قابل نہیں سمجھتا تھا۔اِس موقع پر اپنا ایک شعر بھی
پیش کیا جس پر حاضرین نے دل کھول کر داد لُٹائی ۔۔۔۔۔
فقیر شخص کا کیا ہے کہیں پہ بیٹھ گیا
زمین نے حکم دیا اور زمیں پہ بیٹھ گیا
اپنی گفتگوکو سمیٹتے ہوئے کہا کہ سب رشتوں کو بالاطاق رکھتے ہوئے آئیے آج
ہم اپنے درمیان ایک مشترکہ رشتے پرہم زبان،یک جان ہو جائیں وہ یہ کہ ہم سب
کا مالک اللہ ہے۔۔۔میں رائٹرز ویلفیئر فاؤنڈیشن اور ہیومن رائٹس پاکستان کی
اِس دل کی سچائیوں اور جذبوں کے ساتھ پیش کی گئی عظیم محنت کوسلام پیش کرتا
ہوں، انہوں نے اپنا ایک قطعہ بھی پیش کر کے سماعتوں میں خوب رس گھولا۔
ملاحظہ فرمائیے
اس بات پے ہے ایمان بہت
یہ مٹی ہے ذیشان بہت
میں پاکستان کا بیٹا ہوں
بس یہ میری پہچان بہت
شہزاد اسلم راجہ کے صرار پر اپنی ایک مشہور غزل بھی پیش کی اور سماں باندھ
دیا،چند منتخب اشعار قارئین کی نذر
میں ایک اسم کو اپنا حصار کرتا ہوں
سنائی دیتی ہے جب بھی بلا کی سرگوشی
گزشتہ رات مصلے نے میرے ساتھ سُنی
مرے جھکے ہوئے دل سے خدا کی سرگوشی
زمانے بھر کی صداؤں کے شور پرزاہدؔ
محیط کر دی گئی ہے حرا کی سرگوشی
یوں ایک شاندار تقریب کے ڈھیروں خوشگوار یادگار لمحات حاضرین اپنی یادوں کے
دامن میں سمٹتے ہوئے گھروں کو لوٹ گئے، میں کہہ سکتا ہوں کہ اس تنظیم نے
جیسے ادبی اور علمی سرگرمیوں کو فروغ دینے میں اپنا عملی مظاہرہ بڑے بے
مثال انداز میں کیا ہے ،قوی اُمید ہے کہ نسل نو میں ادب کا خاص رحجان پیدا
کرنے میں کارگرثابت ہوگا۔ |