بسم اﷲ الرحمن الرحیم
کشمیرکی آزادی کاقرض ہنوزواجب الاداہے۔1947سے تادم تحریرکشمیرکے مسلمان
حالت تحریک ہیں اوران کی گزشتہ نسلوں سے آج کے نوجوانوں تک قربانیوں کی ایک
طویل داستان لیے پوری دنیاکے سامنے سراپا سوال احتجاج ہیں کہ آزادی کی منزل
کب ان کے روبروہوگی۔عالمی طاقتوں سے عالمی اداروں تک نے دوردرازافریقہ کے
جزائرمیں بھی آزادی کی جنگ لڑنے والوں کو نویدآزادی سنائی لیکن کشمیری
مسلمان قربانیوں پر قربانیان دیتے چلے آرہے ہیں لیکن ان کی شنوائی دنیابھر
میں کسی جگہ بھی نہیں ہوپاتی۔غیرتوغیررہے اپنوں نے بھی گونگے بہرے اور
اندھوں کاکرداراداکررکھاہے۔پاس پڑوس ہویادوردرازکے ممالک اوراقوام ،گھروں
اورگلیوں میں پھرنے والے پالتوجانوروں سے لے کر چڑیاگھرکے جانوروں تک کابے
پناہ خیال رکھتے ہیں،ان جانوروں اور پرندوں کے حقوق کے لیے تنظیمیں بناتے
ہیں،ان کی بقائے نسل کے لیے خطیررقومات جمع کرتے ہیں اور خرچ بھی کرتے
ہیں،ان کے حقوق کی آگہی کے لیے دن مناتے ہیں اورکتنا ہی لٹریچرشائع
کیاجاتاہے جس میں جانورپرندے اور کیڑوں مکوڑوں تک کے شکارکوممنوع قراردینے
کی تلقین و نصائح کیے جاتے ہیں لیکن افسوس صد افسوس کشمیر میں انسانوں کی
بے پناہ قتل وغارت گری اور جانوروں سے بھی بدترسلوک اور خون انسانی کی
ارزانی سے ان لوگوں کو کوئی سروکارنہیں ،کتنی بڑی دوعملی اور کتنے ظالم
پیمانے ہیں ان لوگوں کے۔
بھارت کی حکومت 15اگست کو یوم آزادی مناتی ہے۔تاریخی حقائق اس کے بالکلیہ
مختلف ہیں۔کانگریس کی قیادت نے تو تقسیم ہند کی سرتوڑ مخالفت کی تھی
اورانہیں منہ کی کھانی پڑی۔حقیقت میں تو اس دن بھارتی حکومت کو یوم شکست
مناناچاہیے کہ قائداعظم ؒکی قیادت میں مسلمانان ہندکی تحریک آزادی نے ان کی
تمام مساعی خبیثہ پر پانی پھیر دیا۔دوقومی نظریہ بالآخر کامیاب ہوا اور
مذہبی بنیادوں پر ہندوستان کو تقسیم کردیاگیاکہ قومیں مذہب سے بنتی ہیں
تہذیب و ثقافت سے نہیں بنتیں۔کانگریسی قیادت اور بھارتی حکومت کاخیال تھاکہ
پاکستان بمشکل چند ماہ تک ہی قائم رہ سکے گااورپھر اس نوزائدہ اسلامی ریاست
کو بھی بزورزبرستی و دھاندلی بھارت کاحصہ بنالیں گے۔اس طرح کے خیالات آج
بھی تاریخی دستاویزات کاحصہ ہیں۔پاکستان سے ہجرت کرنے والے ہندؤں
کوکانگریسی قیادت نے یہی یقین دلاکر بلایاتھا کہ حالات سنبھلتے ہی انہیں ان
کی متروکہ جائدادیں واپس مل جائییں گی کیونکہ پاکستان کی عمر چند ماہ سے
زائد نہیں ہوگی۔بھارتی حکومت نے متعدد بار عسکری و سیاسی و تہذیبی یلغارسے
پاکستان کامقدس وجود مٹانے کی کوشش بھی کی لیکن پاکستان ان کے لیے لوہے
کاچناثابت ہوا۔پندرہ اگست اصل میں بھارت کے لیے یوم شکست کادرجہ رکھتاہے
اور ان کے لیے ناکامیوں کی داستان لیے ہوئے ہرسال انہیں منہ چڑاتاہے ۔
بھارت کی جگہ پندرہ اگست کو کشمیری عوام یوم سیاہ مناتے ہیں،کیونکہ پندرہ
اگست کانگریس کی ناکامیوں کانقطہ آغازہے۔اس دن کشمیری پوری دنیامیں بھارتی
حکومت کواس کااصل چہرہ دکھاتے ہیں۔دنیابھرکے کشمیری جہاں جہاں بھی ہوتے ہیں
اپنی سرزمین اور خطے کی آزادی کے لیے چلنے والی تحریک آزادی کااخلاقی ساتھ
نبھانے کی خاطر اپنی اپنی جگہ پر مظاہرے کرتے ہیں۔ساری دنیاکا میڈیااورپریس
اگلے دن عالمی خبروں میں ملک ملک میں کشمیریوں کے مظاہروں کورپورٹ
کرتاہے۔خود وادی کے اندر زبردست عوامی ردعمل سامنے آتاہے،بازاربندہوتے
ہیں،عوام سڑکوں پر ہوتے ہیں خوفزدہ بھارتی حکومت نے کشمیری قیادت کو نظر
بندکیاہوتاہے اور مواصلات کے تمام ذرائع مسدود کردیے جاتے ہیں۔اس موقع پر
گزشتہ کئی سالوں سے کشمیری خواتین پاکستانی پرچم اٹھائے وطن عزیز اسلامی
جمہوریہ پاکستان سے اظہار یکجہتی کررہی ہوتی ہیں۔گزشتہ سال بھارتی یوم
آزادی کے موقع پر کشمیری یوم سیاہ مناتے ہوئے خاتون راہنماآسیہ اندرابی نے
پاکستانی پرچم لہرایااوراپنے خطاب میں کہاکہ پاکستان کی بقانظریہ پاکستان
میں ہی ہے۔یہ عوامی ردعمل اتنا شدیدہوتاہے کہ فوج ،پولیس اور دیگر عسکری و
نیم عسکری ادارے بھی حالات پرقابو نہیں پاسکتے اور وادی میں بدترین
کرفیونافذکردیاجاتاہے۔اس سب کہ باوجود کہ بھارتی حکومت اپنے کوششوں کی
انتہاتک کے اقدامات کربیٹھتی ہے لیکن ان کاکوئی نتیجہ بھی برآمدنہیں
ہوتااور کشمیری عوام کا جم غفیرایک سمند کی طرح مردوزن سمیت وادی کے تمام
شہروں میں شدیدترین احتجاج کررہاہوتاہے۔آزادی کی تحریک تو فرعون بھی نہ روک
پایاتھا۔بعض روایات کے مطابق چھ لاکھ بنی اسرائیل کے لیے فرعون نے سولہ
لاکھ فوج تیارکررکھی تھی۔اﷲتعالی نے چاہاتو کشمیری مسلمانوں سمیت کل بھارتی
مسلمان اﷲتعالی کے بنائے خصوصی راستے سے پاکستان کاحصہ بنیں گے اور بھارت
اپنی کل افواج سمیت اس طرح غرقاب ہوگا کہ تاریخ میں بھارت کے نام پر عبرت
ایک نشان ہی باقی رہ جائے گا،انشاء اﷲتعالی۔
بھارتی حکومت نے گزشتہ کئی سالوں سے لاکھوں کی تعدادمیں فوج کوکشمیری
شہریوں پر مسلط کررکھاہے۔اس بھارتی فوج نے انتہائی غیرانسانی رویے کامظاہرہ
کرتے ہوئے کشمیری عوام پر ان کی اپنی سرزمین تنگ کردی ہے۔نوجوانوں
کوااٹھالینا،خواتین پر سرعام تشددکرنا،شہریوں کوقتل کرکے لاشیں پھینک
دیناتومعمولی باتیں ہیں اب تو سڑک پر چلتے سکول کی معصوم بچیوں کو فوجی
ٹرکوں کاکچل دینابھی معمول کی کاروائی بن گئی ہے۔مختلف بستیوں کامحاصرہ
کرلینا،ان میں چن چن کر نوجوانوں کو اپنے فوجی ٹھکانوں پر لے جانا،ان کے
ساتھ بدترین غیرانسانی سلوک روارکھنااور ان میں سے جسے چاہا پولیس کے حوالے
کردیااور جسے چاہا گولی مارکر قتل کردیا۔پولیس ان نوجوانوں کو ملک کے دیگر
حصوں میں منتقل کردیتی ہے اور لواحقین کو مہینوں تک معلوم ہی نہیں ہوپاتاکہ
ان کالخت جگر کس شہر کی جیل سڑ رہاہے۔بے پناہ وسائل خرچ کرکے جب کوئی کھوج
ملتاہے تو پتہ چلتاہے سرراہ دھرلیے جانے والے نوجوانوں پر بھارتی قانون کی
بدترین دفعات لگ چکی ہیں اور ضمانت اور رہائی کاتوسوال ہی پیدانہیں
ہوتا۔جیل کے اندرہی مقدمات چلتے ہیں اور بعض اوقات جیل کے اندر ہی پھانسیاں
دے دی جاتی ہیں۔اور ظلم کی انتہاتویہ ہے کہ شہیدکاجسد خاکی بھی ورثاکے
حوالے نہیں کیاجاتااور جیل میں ہی دفنادیاجاتاہے۔وجہ یہ بتائی جاتی ہے لاش
حوالے کرنے حالات مزید خراب ہوسکتے ہیں۔سوال یہ ہے کہ کیا ان تمام بالائے
قانون اورخلاف قانون اقدامات سے حالات بہتری کی جانب بڑھ رہے ہیں؟؟؟کشمیری
مسلمانوں کایہ متفقہ اور تاریخی فیصلہ ہے کہ الحاق پاکستان سے کم پر وہ کسی
قیمت راضی ہونے والے نہیں ہیں۔کشمیرمیں تمام مظاہروں اور جلسوں کے دوران
ایک نعرہ بڑامقبول اورمعروف ہے کہ پاکستان سے رشتہ کیا:لاالہ الاﷲ۔
حقیقت یہی ہے کہ پندرہ اگست کل بھارتی عوام کے لیے عام طورپر اور کشمیری
عوام کے لیے خاص طورپر یوم سیاہ ہے۔1947ء کے بعد سے پاکستان میں رہنے والے
مسلمان اور تمام غیرمسلم انتہائی امن و اطمنان سے زندگی گزاررہے ہیں۔اس کے
مقابلے میں بھارت میں بسنے والے کل غیرہندوملل خاص طورپر اورغیربرہمن
ہندوعام طورپر زندگی کے بدترین دن گزاررہے ہیں۔صرف برہمن کاایک طبقہ ہے جس
نے بھارت کی کل انسانی عوام کو بدترین یرغمال بنارکھاہے۔کل بھارت میں ازشرق
تاغرب آزادی کی تحریکیں برپاہیں۔کچھ تحریکیں تواب عسکری جنگوں میں بدلتتی
چلی جارہیء ہیں۔کشمیری اس لحاظ سے خوش قسمت ہیں کہ ایمانی رشتے کے باعث
انہیں کل عالم کے مسلمانوں کی دعائیں اور پاکستانی مسلمانوں کی اخلاقی مدد
میسرہے اور ان کامقدمہ عالمی اداروں میں لڑاجاتاہاہے اور اس کی گونج
دنیابھرکے اخبارات اور دوسرے ذرائع ابلاغ میں سنائی دیتی ہے۔اس کے برعکس
بھارت کے دوردراز علاقوں میں آزادی کی جنگیں لڑنے والے قبائل اور قوموں کی
حالت زار سے تو دنیا بالکلیہ غیرواقف ہے۔ کبھی کبھی کوئی سیاح وہاں سے کوئی
اطلاع لے کر باہر پہنچے تودنیاکو کچھ اندازہ ہوتاہے۔بصورت دیگرتو بھارت کے
برہمن راج نے کسی طرح کے اخباری نمائندوں،عالمی انسانی حقوق کی تنظیموں کے
نمائندوں اور کسی طرح کے اداروں کو ان علاقوں میں جانے سے زبردستی روک
رکھاہے۔یہ بھارتی حکومتی دانستہ بددیانتی ہے جس پر عالمی ساہوکار بھی اپنے
منافع کی بندش کے خوف سے چپ سادھے ہیں۔
گزشتہ کئی دہائیوں سے جاری اس کھیل میں صرف بھارت نہیں ،کل عالمی بدمعاش
برابر کے شریک ہیں۔انسانی حقوق،امن عالم اور جمہوری روایات کے بلندبانگ
دعوے کرنے والے اوردہشت گردی کوجڑسے اکھاڑنے کی کی تسبیح پھیرنے والوں کی
آنکھوں پر کشمیرمیں پٹی کیوں بندھ جاتی ہے۔وہ امت مسلمہ کے حکمران ہوں
یاقیادت اغیارہو،حقیقت یہ ہے کہ اس حمام میں سب کاایک ہی کردارہے۔کشمیریوں
کایوم سیاہ ،پوری دنیاکویہ پیغام ہے کہ ظلم کی رات کتنی ہی طویل کیوں نہ
ہوآخرکو ختم ہونی ہے،لیکن دنیاکے پروہت و پنڈت آج کشمیریوں کے لیے جو
گڑھاکھود رہے ہیں یہ قانون فطرت ہے کہ کل وہ خود اس میں گریں گے۔USSRپاش
پاش ہواتوUSAبھی باقی نہیں بچے گا،ثبات ایک تغیرکوہے زمانے میں،لیکن
کشمیریوں کا مستقبل انشاء اﷲتعالی روشن ہے۔ وطن عزیز کی اعلی سطح سے
بددیانت،ملک دشمن،سیکولراورلبرل لوگوں کے تابوت میں پہلی کیل ٹھونکی جاچکی
ہے،جس دن پاکستان میں دینداراوررصالح قیادت آئی وہ دن کشمیریوں کی غلامی
کاآخری دن ہوگااوریہ آسمان دیکھے گاکہ سری نگرسے خوشبودارمیٹھے سیب
پاکستانیوں کی جھولی میں گریں گے اور پاکستان کے چونسہ آم بغیرکسی رکاوٹ کے
کشمیریوں کا منہ میٹھاکررہے ہوں گے،انشااﷲتعالی۔
|