قوم یوم آزادی ایسے حالات میں منا رہی ہے جب ہر لیڈر
پاکستان کو بچانے کا دعویدار ہے ۔پاکستان کی بڑی پارٹیاں ن لیگ ،پی پی،پی
ٹی آئی سر فہرست ہیں۔ن لیگ نے چار دن پر مشتمل جی ٹی روڈ پر ریلی نکالی جس
میں ہر تقریر میں عدلیہ،فوج سمیت اہم اداروں کو ہدف تنقید بنایا گیانواز
شریف نے بار بار کہا کہ مجھے کس جرم میں نکالا گیا ہے ؟جواب دیا جائے نواز
شریف کی خدمت میں مختصرا ً عرض کرنا چاہتے ہیں کہ آپ کو سپریم کورٹ نے صادق
وامین نہ ہونے،کرپٹ،خائن،اثاثے چھپانے،اپنے بچوں کے کاروبار کو تحفظ دینے
سمیت متعدد جرائم کا مسلسل ارتکاب کیا جس کی بناء پر پاکستان کی سب سے بڑی
عدلیہ سپریم کورٹ نے آپ کو نا اہل قرار دے کر گھر بھیج دیا ہے آپ اس فیصلے
کو اب کسی نجی عدالت میں چیلنج بھی نہیں کر سکتے صرف نظر ثانی کی اپیل بھی
سپریم کورٹ میں کر سکتے ہیں جس کا فائدہ اب آپ کو نہیں ہوگا ،میاں صاحب آپ
کے معصومانہ انداز سے نہ تو آپ اہل ہو سکتے ہیں اور نہ ہی سپریم کورٹ اپنا
فیصلہ واپس لے گی ۔ن لیگ کے حلقہ کے علاوہ سارے پاکستان نے سپریم کورٹ کا
فیصلہ تسلیم کر لیا ہے ،نوازشریف نے اپنے کارکنوں سے بار بار سوال کیا کہ
تمھیں یہ فیصلہ قبول ہے یا نہیں ۔اپنے آخری خطاب بھاٹی چوک لاہور میں میاں
نواز شریف نے آئین بدلنے کا عندیہ بھی دے دیا ہے ۔آئین بدلنے کیلئے دوتہائی
اکثریت کی ضرورت پہلا تقاضا ہے ۔جسے پاکستان کی کرپٹ قیادت اقتدار پر
براجمان رہنے کیلئے سر دھڑ کی باز ی لگا چکی ہے ۔نواز شریف کی نا اہلی کے
بعد تمام نااہلی کی زد میں آنے والوں نے اتحاد کر لیا ہے تاکہ ہم پر کوئی
قدغن ہی نہ لگائی جا سکے ۔آئین سے ہمارے کرپٹ قائدین صالح،صادق وامین ،نظریہ
پاکستان سے وفاداری ،اداروں کے احترام پرمبنی شقوں کو ختم کرنا چاہ رہے ہیں
۔آئینی ماہرین نے نواز شریف کے آئین بدلنے کے اعلان کو پاکستان کے اسلامی
تشخص پر ڈرون حملہ قراردیا ہے ۔ان کا کہنا ہے کہ پاکستان کی کرپٹ قیادت
عوام پر جھوٹے،فریب کار،کرپٹ،بدیانت،مادر پدر آزاد،سیکولر حکمران ہمیشہ
ہمیشہ کیلئے مسلط کرنا چاہتی ہے تاکہ پاکستان عملاً سیکولر ملک بن جائے ۔آئین
کو چھیڑنے سے بہت سے مسائل پیداہو جائیں گے جن کا سنبھالنا مشکل ہو جائے گا
۔سب سے بڑا مسٔلہ پاکستان کے اسلامی تشخص کا ہے ۔آرٹیکل 62,63 کرپٹ لوگوں
کیلئے ایک تلوار ہے (اس آرٹیکل کو ختم کرنے کے اقدام قوم کو کسی صورت قبول
نہیں اگر ایسا کیا گیا تو سخت ردعمل آئے گا جسے حکومت کو برداشت کرنا ممکن
نہیں رہے گا)۔ن لیگ کیلئے جی ٹی روڈ ریلی بہت سی مشکلات پیدا کر چکی ہے ،شائد
توہین عدالت کی کاروائی کے تحت نااہل سابق وزیراعظم نواز شریف کو جیل جانا
پڑ جائے ۔تجزیہ نگار حلقوں کا کہنا ہے کہ نواز شریف اور دیگر تمام جمہوریت
پسند سیاستدانوں کو عوام کی فلاح وبہبود ہرگز مقصود نہیں بلکہ انھیں ذاتی ،کاروباری
مفادات عزیز ہیں ۔ان کی تمام سیاست کے نام پر رنگ بازیاں اسی کے گرد کردش
کرتی نظر آتی ہیں ۔اگر یہ عوام کے حق میں ہوتے تو یہ جماعتیں لادینیت کے بت
کی اس طرح پوجا ہرگز نہ کرتے ۔
قارئین کرام!آئین میں تبدیلی کی بات کرنا احمقانہ خیال ہے۔ہمارے نزدیک اگر
آئین بدلنا ہے تو یہ قصہ ہمیشہ ہمیشہ کیلئے اس طرح ختم ہو سکتا ہے کہ قرآن
مجید کو آئین پاکستان قرار دے دیا جائے تو۔کیونکہ عام قانون ہے کہ ہر خالق
اپنی تخلیق کیلئے آئین تیار خود کرتا ہے ،چونکہ انسان کا خالق اﷲ تعالیٰ ہے
اس لئے اﷲ تعالیٰ کو ہی یہ حق حاصل ہے کہ وہ انسانوں کیلئے آئین بنائے اور
ہمارے پاس اﷲ تعالیٰ نے اپنا حتمی آئین قرآن کی صورت میں موجود ہے ۔آئین کے
حوالہ سے سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس تخلیق کا خالق ہی بدل سکتا ہے اب انسان
کا خالق اﷲ ہے قرآن حتمی آئین انسانیت ہے اسے بدلنے کا سوال ہی ختم ہو جائے
گا اس طرح اﷲ تعالیٰ کی تشریعی حاکمیت عملاً قائم ہو جائے گی ،مگر ایسا
ہوتا نظر نہیں آتا اس لئے کہ پاکستان کے عوام کواس بارے میں مکمل شعور دیا
ہی نہیں۔ لوگوں میں تذبذب ڈالنے والے سیکولر حلقے میدان میں اتر پڑیں گے
کیونکہ ان حلقوں کو کسی صورت کفر سے دشمنی،اس کی ناراضگی برداشت نہیں ۔قرآن
مجید کے آئین بن جانے سے ساری دنیا میں صف ماتم بچھ جائے گا۔اہم ترین بات
ہے کہ یہ عظیم کام اﷲ کا کوئی خاص بندہ ہی کر ے گا جس کے دل میں خوف الہٰی
بدرجہ اتم موجود ہو۔
ہمارے ملک کا ہمیشہ سے یہ المیہ رہا ہے کہ جس سیاسی جماعت کے خلاف بھی کسی
بھی ادارے نے فیصلہ دیا ہم لشکر لے کر بغاوت کر دیتے ہیں جی ٹی روڈ ریلی
جیسی بغاوتوں پر مبنی شرمناک واقعات سے ہماری ملکی تاریخ بھری پڑی ہے
۔پاکستان کی جمہوریت پسند مذہبی جماعتوں کا بھی یہ دعویٰ ہے کہ وہ پاکستان
کو بچائیں گی ۔مگر وہاں بھی صورت حال تشویش ناک ہے ۔مذہبی جماعتوں میں
اسلام نہیں فرقوں کی نمائندگی ہے ،جو مخصوص دائرے سے باہر نکلنے کیلئے تیار
ہی نہیں ہیں ۔ایک مذہبی جماعت دوسری مذہبی جماعت کو قبول کرنے کیلئے تیار
ہی نہیں ۔ان میں اتحاد ہوتا ہے تو صرف الیکشن کے دوران اپنی سیٹیں بڑھانے
کیلئے ۔۔۔ لیکن اب تو چند ایک مذہبی جماعتیں اور بھی معرض وجود میں آ گئی
ہیں جو انتہا پسندی میں اپنی مثال آپ ہیں یہ نئے نعروں کے ساتھ وارد ہوئی
ہیں۔ایک جماعت کے قائدین کے نزدیک تو دوسروں سے سلام لینا بھی شرعی طور پر
درست نہیں۔ایسی فرقہ پرستی ،انتہا پسندی کی صورت میں نو مولود مذہبی
جمہوریت پسند جماعتیں بھی پاکستان کو مسائل سے نہیں نکال سکتیں۔اگر یہ کہہ
دیا جائے تو بے جا نہیں ہوگا کہ پاکستان کی مفادات سے لبریز سیکولر اور
مذہبی جمہوریت پسند قوتیں موجودہ حالات کو کنٹرول کرنے کی صلاحیت ہی نہیں
رکھتیں تو بے جا نہ ہوگا ۔اگلا سوال یہ ہے کہ پھر پاکستان کو کونسی قوت
مسائل سے نجات دلائے گی؟ یہ سوال بہت ہی بنیادی ہے ۔ہماری تحریر پڑھنے
والوں کو ہم سے شدید اختلاف بھی ہو سکتا ہے اور بہت سے لوگ ہمارے نقطہ ٔ
نظر کے حامی بھی ہوسکتے ہیں۔یہ دونوں طبقات کی خدمت میں گذارش ہے کہ ہمارے
نزدیک پاکستان کو صالح قیادت کی ضرورت ہے ۔پاکستانی قوم کو چاہیے کہ وہ
نظریہ پاکستان سے وفا کرتے ہوئے صالح قیادت کو اقتدار سپرد کردے جو پاکستان
میں موجود ہونے کے ساتھ ساتھ پرامن مسنون طریقے سے درجہ بدرجہ کام کر رہی
ہے ۔اس صالح قیادت کی ایک نشانی سیرت رسول عربی ﷺ کی روشنی میں یہ ہے
،انسان ساختہ نظاموں سے الگ تھلگ کام کر رہی ہوگی ۔اس قیادت کی دوسری نشانی
یہ ہوگی کہ ان میں عہدہ،اقتدار حاصل کرنے کی حرص نہیں ہوگی بلکہ وہ اقتدار
کو بہت بڑی ذمہ داری سمجھ کر خود کو اقتدار کے قابل نہ سمجھتے ہوں گے
،تیسری نشانی یہ ہے کہ ان کے دل حقیقی معنوں میں انسانوں کی فلاح وبہبود
کیلئے دھڑکتے ہوں گے۔چوتھی نشانی یہ ہے کہ ان کا رہن سہن عام لوگوں جیسا
سادہ ہوگا ،پانچویں نشانی یہ ہے کہ وہ صادق وامین ہوں گے،چھٹی نشانی یہ ہے
کہ وہ انسانوں کو انسانوں کی غلامی سے نکال کر ایک اﷲ کی غلامی میں لانا
چاہتے ہوں گے ۔ایسی صفات کی حامل قیادت ہی پاکستان کو بچا کر اسے ترقی کی
شاہراہ پر گامزن کر سکتی ہے ۔ پاکستان کے اہم اداروں کو چاہیے کہ ایسے صالح
لوگوں کو جمع کرکے اقتدار ایسے لوگوں کو دینے کیلئے بالغ رائے دہندگی کی
بجائے ،اہل حل وعقد کی شوریٰ تشکیل دے کر(یعنی ووٹ کاسٹ کرنے والوں کیلئے
بھی آرٹیکل 62,63 جیسا معیاری اصول بنا کر لاگو کیا جائے) تحفظ پاکستان کے
سفر کا آغازکرنا ہوگا یہ کام چند ہفتوں میں ہو سکتا ۔قرآن،سنت رسولﷺ،خلفائے
راشدین ؓ کا انسانوں کو انسانوں کی غلامی سے نجات دلانے کا مسلسل عمل اس کا
ترجمان ہے ۔اگر اہم ادارے یہ کام نہیں کرتے تو پاکستان کی عوام کو یہ فریضہ
سرانجام دینا ہوگا ۔
|