بی جے پی کا مسئلہ یہ ہے ان لوگوں کو کام کرنا نہیں آتا
اس لیے نت نئے شوشے چھوڑ کر اس پر گزارہ کرتے ہیں ۔ گزشتہ تین سالوں سے
یوگا کا شور تھا ۔ پہلے سال مودی جی نے دہلی کے انڈیا گیٹ پر یوگا کیا ۔
سرکاری اعدادوشمار کے مطابق ان کے ساتھ ۸ لاکھ سے کچھ زیادہ لوگ تھے ۔ اس
کے بعد والے سال یوگا دیوس کے موقع پر وہ چندی گڑھ پہنچے تو ان کے ساتھ
یوگا سادکھوں کی تعداد ۱۰ لاکھ سے تجاوز کرگئی ۔ تیسرے سال انہوں نے
اترپردیش کا انتخاب جیتا تھامگر لکھنو میں یوگی کی کرپا سےیہ تعداد گھٹ کر
۵۰ ہزار پر آگئی۔ رضا کارانہ طور پر جب لوگوں نے آنا بند کردیا تو یوگا
کو اسکولوں میں زبردستی لازمی کرنے کی مذموم کوشش کی گئی اور اس میں سوریہ
نمسکار کا اضافہ کردیا گیا۔ سرکار کے اس فیصلے کو عدالت میں چیلنج کیا گیا
اور سپریم کورٹ نے اسے حکومت کے منہ پر دے مارا۔ اب اپنے گالوں کو سہلاتے
ہوئے ان لوگوں نے وندے ماترم کا نغمہ چھیڑ دیا گیا۔
بی جے پی یکساں سول کوڈ کی حامی رہی ہے یعنی سب کے لیے ایک قانون اگر ایسا
ہے تو یوگی جی کا اور مدھیہ پردیش بورڈ کا یہ سرکیولر سارے اسکولوں اور
پاٹھ شالاوں کے لیے کیوں نہیں ہے؟ صرف مدرسوں کے لیے کیوں ہے؟ یہ تو سراسر
تفریق و امتیاز کا معاملہ ہے۔ مسلمانوں کو اس کی بجاآوری سے نہ صرف انکار
کرنا چاہیے بلکہ اس کے خلاف عدالت میں جانا چاہیے تاکہ حکمنامہ کو بھی یوگا
کی طرح سنگھ کے سر پر ماردیا جائے۔اول تو یہ قومی ترانہ نہیں ہے اور اگر ہو
بھی تومسلمان نہیں گائے گا۔ اگست ۱۹۸۶ میں سپریم کورٹ کے جج چناّپا ریڈی
نے اپنے رتاریخی فیصلے یوہوا مسلک کے عیسائیوں قومی ترانہ جن گن من کے گانے
سے بھی مستثنیٰ کرتے ہوئے کہا تھا دستور کی کوئی دفعہ ہر کسی پر قومی ترانہ
پڑھنا لازمی نہیں قرار دیتی ۔ اس کا کہنا ہے کہ اظہار رائے کی آزادی میں
خاموش رہنے کی آزادی بھی شامل ہے۔ لوگوں خاموش کھڑا رہنا ادب و احترام کے
اظہار کے لیے کافی ہے۔اگر قومی ترانہ جن گن من کے تعلق سے عدالت کا یہ رخ
ہے تو عوام کو وندے ماترم کا پابند کیسے بنایا جاسکتا ہے جس کی سرے سے کوئی
دستوری حیثیت ہی نہ ہے۔سپریم کورٹ کے فیصلے میں یہ بھی درج ہے کہ وہ لوگ
ایماندارانہ عقیدے کے سبب ترانہ نہیں گاتے کہ ان کا یقین ہے کہ مذہب خدا کے
علاوہ کسی اور کے ساتھ ان رسوم کی اجازت نہیں دیتا۔
مسلمان یہی بات وندے ماترم کے بارے میں کہتے ہیں ۔درگا دیوی کی تعریف میں
لکھے گئے اس ترانے کا ایک لفظ توحید سے ٹکراتا ہے اگر یقین نہ آتا ہو
ترجمہ دیکھ لیں ۔’’تیری عبادت کرتا ہوں اے میرے اچھے پانی، اچھے پھل، بھینی
بھینی خشک جنوبی ہواوں اور شاداب کھیتوں والی میری ماں ، حسین چاندنی سے
روشن رات والی، شگفتہ پھولوں والی، گنجان درختوں والی ، میٹھی ہنسی، میٹھی
زبان والی، خوشی دینے والی، برکت دینے والی ماں، میں تیری عبادت کرتا ہوں
اے میری ماں ۔ تیس کروڑ لوگوں کی پرجوش آوازیں، ساٹھ کروڑ بازو میں سمیٹنے
والی تلواریں ، کیا اتنی طاقت کے بعد بھی تو کمزور ہے اے میری ماں ۔ تو ہی
میرے بازو کی قوت ہے، میں تیرے قدم چومتا ہوں اے میری ماں ۔ تو ہی میرا علم
ہے، تو ہی میرا مذہب ہے، تو ہی میرا باطن ہے، تو ہی میرا مقصد ہے ، تو ہی
جسم کی روح ہے، تو ہی بازو کی طاقت ہے، تو ہی دلوں کی حقیقت ہے ، تیری ہی
محبوب مورتی مندر میں ہے ، تو ہی درگا، دس مسلح ہاتھوں والی، تو ہی کملاہے،
تو ہی کنول کے پھولوں کی بہار ہے ، تو ہی پانی ہے، تو ہی علم دینے والی ہے
، میں تیرا غلام ہوں، غلام کا غلام ہوں ، غلام کے غلام کا غلام ہوں ، اچھے
پھل والی میری ماں۔ میں تیرا بندہ ہوں، لہلہاتے کھیتوں والی مقدس موہنی،
آراستہ پیراستہ، بڑی قدرت والی قائم و دائم ماں ، میں تیرا بندہ ہوں ۔اے
میری ماں میں تیرا غلام ہوں‘‘۔اس لیے مسلمان اس کو نہیں پڑھتے ۔سپریم کورٹ
کا فیصلہ اس بات پر زور دیتا ہے کہ ’’ ہماری روایات رواداری سکھاتا ہے،
ہمارا فلسفہ رواداری کی تعلیم دیتا ہے، ہمارادستور رواداری کی پاسداری کرتا
ہے۔ اسے کمزور نہ کیا جائے‘‘۔
سنگھ کے پاکھنڈ کا پول اس وقت کھل کر سامنے آگیا جب یوگی سرکارمیں اقلیتی
فلاح بہبود کے وزیربلدیو سنگھ اولکھ کو ٹی وی پر وندے ماترم کی چار سطر
سنانے کی درخواست کی گئی اور وزیر موصوف کےپسینے چھوٹ گئے ۔ وہ بیچارے ایک
سطر بھی نہیں سناسکے۔بلدیو سنگھ اولکھ کا کہنا تھا کہ ہمیں دیش بھکتی ثابت
کرنے کے لیے مسلمانوں کے سرٹیفکیٹ کی ضرورت نہیں۔ اسی منطق سے مسلمانوں کو
بھی اپنی حب الوطنی سنگھ کے ثبوت میں سنگھ پریوار کاسرٹیفکیٹ نہیں چاہیے اس
لیے ان کے کہنے پر مسلمان یہ شرکیہ نظم کیوں پڑھیں؟ بلدیو سنگھ اولکھ کو
مسلمانوں کی دشمنی میں یوگی جی نےوزیر اقلیتی امور کا وزیر بناکر خود سنگھ
پریوار کے پریوار کے نظریہ پر کلہاڑی چلادی ہے۔ سنگھ برسوں سے سکھوں کو
ورغلا رہا ہے کہ وہ بھی ہندو ہونے کے سبب اکثریتی طبقے کا حصہ ہیں بلکہ
ہندووں کی تلوار ہیں ۔ اب یوگی جی نے ان کو بتایا کہ تم اقلیتی فرقہ سے
تعلق رکھتے ہو اس لیے ہم نے تمہیں اس عہدے سے نوازہ ہے۔ بنی اسرائیل کی ایک
حکایت مشہور ہے کہ حضرت موسیٰؑ سے ایک یہودی ہمیشہ کہتا تھا کہ میرے لیے
کوہِ طور پر دعا فرمائیں ۔ ایک روز موسیٰ ؑ نے اس سے کہا تمہاری ایک دعا
قبول ہوگی لیکن شرط یہ ہے جو تم مانگو گے اس کا نصف تمہارے پڑوسی کو ملے
گا۔ اس یہودی نے بہت سوچ کر کہا میرے پڑوسی کی ایک آنکھ پھوٹ جائے۔ اس کی
دعا مستجاب ہوئی اور وہ دونوں آنکھیں گنوا بیٹھا۔
ہندوتواوادیوں کی تاریخ شاہد ہے کہ ان لوگوں نے انگریزوں کے خلاف آزادی کی
جنگ میں حصہ نہیں لیا۔ونایک ساورکر کوجب انگریزوں نے کالاپانی کی سزا دی تو
انہوں نے تاعمر توبہ کرکے معافی نامہ لکھ دیا۔ اٹل جی پر مجاہدین آزادی کی
مخبری کا الزام ہے ۔ بالاصاحب دیورس نے ایمرجنسی کے دوران اندراگاندھی سے
معافی تلافی کی کوشش کی۔ وزیراعظم مودی خود ایمرجنسی کے خلاف سینہ سپر ہونے
کے بجائے روپوش ہوگئے۔ اس نظریہ کے حامل رہنماوں نے نے ملک و قوم تو کجا
اپنے نظرئیے کے لیے بھی کوئی بڑی قربانی پیش نہیں کی ۔ اب یہ نئے نئے دیش
بھکت مسلمانوں کو حب الوطنی سکھانے نکلے ہیں جنہوں نے اپنی جان کا نذرانہ
پیش کرکے آزادی کی شمع روشن کی تھی۔ وہ سنگھ جو برسوں تک اپنے مرکز پر
ترنگا کے بجائے بھگوا لہراتا رہا ہے مسلمانوں سے قومی پرچم لہرانے کی دہائی
دے رہا ہے اس سے بڑی منافقت اور کیا ہوسکتی ہے؟
ہمارے ایک دوست جو سنگھ پریوار سے بہت نالاں ہیں پوچھنے لگے آخر یہ لوگ
ایسا کیوں کرتے ہیں۔ مجھے ایک حکایت یاد آگئی۔ ایک صاحب نے کسی سے پوچھا
یہ کوا صابن کیوں اٹھا کر لے جاتا ہے؟ تو انہوں نے نے جواب دیا کوے سے پوچھ
لو۔ سائل نے کہا آپ جیسا مہان یوگی ہی کوے سے بات کرسکتا ہے ورنہ ہم جیسے
عام رائے دہندگان کو کوا کب منہ لگاتا ہے آپ پوچھ کربتائیں۔ کوے سے پوچھا
گیا تو اس نے مودی جی کی مانند مسکرا کر کہا یہ میری عادت ہے۔ اس جواب میں
بڑی حکمتیں پوشیدہ ہیں۔ صابن چرا کروہ نہا نہیں سکتا ۔ اگر نہائے بھی تو
اجلا نہیں ہوسکتا لیکن پھر بھی وہ یہ حرکت کرتا ہے اس لیے کہ اس طرح کی
شرارت کرنا اس کی عادت ہے ۔کوا اپنے آپ کو اس سے بازنہیں رکھ سکتا۔ ایسا
ہی معاملہ یوگی جی کے ساتھ بھی ہے کہ اس طرح کی حماقتیں ان کی عادت ثانیہ
ہیں اور ان پر یہ شعر صادق آتا ہے کہ ؎
کروں گا کیا جو شرارت میں ہوگیا ناکام
مجھے تو اور کوئی کام بھی نہیں آتا
|