یوں معلوم ہوتا ہے کہ بھارتی زیر بد انتظام مقبوضہ کشمیر
میں1988ء سے شروع ہونے والی بھارت سے آزادی کی مسلح جدوجہد آزادی کو مکمل
طور پر ختم کرنے کا مرحلہ شروع ہو چکا ہے۔یوں تو مشرقی پاکستان کے بنگلہ
دیش بننے کے بعدبھی مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے کئی جانے والی بھارت مخالف
سیاسی سرگرمیاں جاری رہیں لیکن1980کے بعد مقبوضہ کشمیر میں سیاسی جدوجہد
تیز سے تیز ہوتی گئی اور 1986ء میں مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں کی غالب ترین
اکثریت بھارت سے آزادی اور مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے ایک پلیٹ فارم پر متحد
ہو چکی تھی۔بھارت سے آزادی کے خواہاں کئی سیاسی جماعتوں کے اتحاد مسلم
متحدہ محاذ، جس میں پیپلز لیگ اور جماعت اسلامی نمایاں تھیں،نے اس اعلان کے
ساتھ الیکشن میں حصہ لیا کہ مسلم متحدہ محاذ اسمبلی میں اکثریت حاصل کرکے
بھارت سے نام نہاد الحاق کے خلاف قرار داد منظور کی جائے گی۔الیکشن مہم کے
دوران ہی بھرپور عوامی حمایت سے صاف نظر آ رہا تھا کہ مسلم متحدہ محاذ کے
امیدوارغالب ترین اکثریت سے کامیابی حاصل کریں گے لیکن بھارتی انتظامیہ نے
مقبوضہ کشمیر کے بھرپور عوامی اتحاد کوشکست یافتہ قرار دے دیا۔مقبوضہ کشمیر
میں بھارت کے خلاف عوامی مزاحمت تیز ہوتی گئی۔اس وقت مقبوضہ کشمیر میں
ہزاروں ایسے نوجوان تھے جو بھارت سے آزادی کے لئے ہر قسم کی جدوجہد کرنے
میں پرعزم تھے۔افغانستان میں روس کے خلاف افغان جہاد اور دیوار برلن کی
انہدام ،مشرقی و مغربی جرمنی کے اتحاد کے اہم عالمی واقعات سے کشمیریوں کو
ایک مثبت پیغام ملا۔جنرل ضیاء الحق کے دور حکومت میںمقبوضہ کشمیر کے بہت کم
نوجوانوں کو عسکری تربیت دی گئی اور مقبوضہ کشمیر میں طویل المدتی حکمت
عملی کو اپنائے جانے کا تاثر دیا گیا۔
1988ء میں جنرل ضیاء الحق کے بعد بینظیر بھٹو کی حکومت کے آثار نمایاں ہونے
لگے تو مقبوضہ کشمیر سے ہزاروں نوجوان اس خدشے سے کہ کہیں پاکستان کی کشمیر
پالیسی تبدیل نہ ہو جائے،کشمیر کو تقسیم کرنے والی سیز فائر لائین ( لائین
آف کنٹرول)عبور کر کے عسکری تربیت حاصل کرنے آزاد کشمیر آ گئے۔یہاں ان کی
عسکری تربیت تو کیا ،ان کی رہائش و طعام کا بھی کوئی انتظام نہ تھا۔ان
نوجوانوں کو سکولوں میں ٹہرایا گیا اور ہنگامی بنیادوں پر ان کے کھانے پینے
کا بندوبست کیا گیا۔پھر ان نوجوانوں میں مقبوضہ کشمیر کی تنظیمیں وجود میں
آ گئیں اور نوجوان تین چارتنظیموں کے نظم و ضبط میں آ گئے۔اس مرحلے میں
ایسی سنگین غلطیاں کی گئیں کہ جن کا خمیازہ کشمیریوں کوبعد میں بھگتنا
پڑا۔1992-93ء تک مقبوضہ کشمیر میں کشمیری فریڈم فائٹرز کا راج تھا۔یہی وہ
وقت تھا کہ جب عسکری ایکشن کرنے سے پہلے کشمیری حریت پسند فوجی کیپموں کو
گھیرے میں لئے رکھتے اور بھارتی فوجی کیمپوں سے باہر نہ آ سکتے۔اس وقت
مقبوضہ کشمیر کے شہروں،قصبوں،دیہاتوںمیں ریگولر بھارتی فوج کے ساتھ سرحدی
فورس بی ایس ایف متعین کی گئی تھی۔اسی دوران کشمیری تنظیموں کو تقسیم کے
عمل سے گزارا گیا ۔ ان تنظیموںکی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہونے لگا اور
فرقہ واریت کی بنیادوں پر بھی گروپ قائم ہو گئے۔پاکستانی نوجوان بھی جہاد
کرنے مقبوضہ کشمیر پہنچنے لگے۔کشمیریوں کے اتحاد کو کمزور کرنے اور مسلح
جدوجہد کے دیگر تقاضے پورے نہ ہونے کی وجہ سے بھارت فوج غالب آتی
گئی۔بھارتی فوج سے بڑی تعداد میں جھڑپوں میں ہزاروں کشمیری فریڈم فائٹرز
ہلاک ہوئے اور ان میں ان نوجوانوںکی غالب اکثریت تھی جنہوں نے مقبوضہ کشمیر
میں مسلح جدوجہد شروع کرنے میں بنیادی اور کلیدی کردار ادا کیا۔اس کے بعد
کشمیری تنظیموں کی آپس کی لڑائیوں کا سلسلہ شروع ہوا جس میں بڑی تعداد میں
کشمیری ہلاک کئے گئے۔ساتھ ہی بھارتی فوج نے منحرف کشمیریوں کے مسلح گروپ
بھی قائم کئے جنہوں نے کشمیریوں پر ظلم و ستم کی ہولناک داستانیں رقم
کیں۔آخر وہ وقت آ گیا کہ جب بھارت سے آزادی کی مسلح جدوجہد کرنے والے
نوجوانوں کی غالب ترین اکثریت ہلاک ہوگئی۔کئی ایک مسلح جدوجہد کے شعبے سے
تحریک کے سیاسی شعبے میں آگئے۔
مشرف دور حکومت میںکشمیر کو ظالمانہ طورپر تقسیم کرنے والی لائین پر بھارت
کی طرف سے خار دار تاروں کی باڑ نصب کرنے کی اجازت دیتے ہوئے اس تقسیم کو
مضبوط بنانے اور مقبوضہ کشمیر کی صورتحال کو بھارت کے حق میں بہتر کرنے کا
موقع فراہم کیا۔ساتھ ہی آزاد کشمیر میں کشمیری حریت پسندوںکے کیمپ بند کرتے
ہوئے کشمیریوں کی مسلح جدوجہد آزادی کو '' رول بیک '' کرنے کا عمل شروع کر
دیا۔اس کے بعد مقبوضہ کشمیر میں مسلح جدوجہد محض ایک علامت کے طور پر ہی
جاری رہی۔اس کے بعد چند سال کے وقفے سے مقبوضہ کشمیر میں دو ،تین بار ایسی
بھر پور عوامی مزاحمتی جدوجہد نے بھارت کو بوکھلا اور ہزیمت سے دوچار کیا۔
بی جے پی کی حکومت قائم ہونے کے بعد بھارت کی طرف سے مقبوضہ کشمیر کو بھارت
میںمدغم کرنے کے لئے کشمیری مسلمانوں کی اکثریت ختم کرنے سے متعلق اقدامات
کا اعلان کرتے ہوئے کشمیریوں کے مطالبہ آزادی اور کشمیری مسلمانوں کے خلاف
فیصلہ کن اقدامات بھی سامنے لائے۔بھارت کے خلاف کشمیری نوجوانوں کی قیادت
میں بھر پور عوامی مزاحمت میں ہزاروں کشمیری نوجوان بھارتی فورسز،پولیس
،انتظامیہ وغیرہ کے بدترین تشدد، ظلم و ستم کا نشانہ بنے۔اسی صورتحال میں
متعدد نوجوان ان کشمیری فریڈم فائٹرز کے ساتھ جا ملے جومقبوضہ کشمیر میں
مسلح جدوجہد کو محض ایک ٹوکن کے طور پر زندہ رکھے ہوئے ہیں۔خاص طور پر
جنوبی کشمیر کے نوجوانوں کی کافی تعداد میں آزادی کی مسلح جدوجہد کرنے
والوں کے ساتھ شامل ہوئے۔یوں مقبوضہ کشمیر میں گزشتہ تقرینا تین عشروں میں
کئی نمایاں تبدیلیاں واقع ہوئیں لیکن ایک بات جو1988ء سے اب تک اسی انداز
میں جاری ہے وہ جدوجہد آزادی کے لئے کشمیریوں کی بھرپور حمایت ہے۔اب آزادی
کی مسلح جدوجہد کرنے والے کشمیری کے جنازے میں اور بھی زیادہ لوگ شریک ہوتے
ہیں۔گزشتہ کچھ عرصے سے ایک تبدیلی یہ بھی دیکھنے میں آئی کہ جب بھی کہیں
کوئی کشمیری فریڈم فائٹر بھارتی فوج کے گھیرے میں آتا ہے تو گولیوں کی بارش
میں عام کشمیری شہری آپریشن میں مصروف بھارتی فوجیوں پر پتھرائو کرتے
ہیں۔1988ء میں کشمیری نوجوانوں نے مسئلہ کشمیر کے منصفانہ حل کے لئے جدوجہد
اور قربانیوں کے جس عزم کا اظہار کیا تھا،آج کا نوجوان ہی نہیں بلکہ مقبوضہ
کشمیر کا بچہ بچہ بھارتی ظالم فوج کے خوف سے آزاد ہے اور کشمیر کاز کے لئے
پرعزم ہے۔
دو دن قبل امریکہ نے مقبوضہ کشمیر میں بھارت سے آزادی کی مسلح جدوجہد کرنے
والی تنظیم حزب المجاہدین کو غیر ملکی دہشت گرد تنظیم قرار دے کر اس پر
پابندی عائدکی ہے۔ اسی سال جون میں بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے دورہ
امریکہ کے موقع پر امریکی حکومت نے حزب المجاہدین کے سربراہ سید صلاح الدین
کو عالمی دہشت گرد قرار دیا تھا۔امریکی محکمہ خارجہ کا کہنا ہے کہ حزب
المجاہدین کو غیر ملکی دہشت گرد تنظیم قرار دے کر امریکی عوام اور عالمی
برادری کو یہ بتانا ہے کہ یہ ایک دہشت گرد گروہ ہے۔ اس طرح کے دہشت گردوں
اور دہشت گرد گروہوں کے امریکی مالیاتی اداروں کے استعمال پر بھی پابندی
عائد ہے۔ اس کے علاوہ ان کے خلاف کارروائی کرنے میں امریکی سیکورٹی
ایجنسیوں اور دیگر حکومتوں کی بھی مدد کی جاتی ہے۔امریکہ کا کہنا ہے کہ اس
طرح حزب المجاہدین پر پابندی لگا کر اسے دہشت گرد حملے کرنے کے لیے فنڈز
اکٹھے سے بھی روکا جا سکے گا۔اس پابندی کے تحت امریکہ میں حزب المجاہدین کے
اثاثے ضبط کیے جائیں گے اور امریکی شہریوں کے اس تنظیم کے ساتھ کسی قسم کے
تعلقات پر بھی پابندی ہو گی۔'بی بی سی' کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ '' سید
صلاح الدین کی عسکریت پسند تنظیم حزب المجاہدین کئی دہائیوں نے کشمیر میں
انڈیا کے خلاف آزادی کی جنگ لڑنے کا دعوی کرتی ہے''۔' بی بی سی' کا یہ بھی
کہنا ہے کہ ''گذشتہ سال کشمیر میں حزب المجاہدین کے کمانڈر برہان وانی کے
مارے جانے کے بعد پاکستان حکومت نے برہان وانی کو شہید قرار دیا تھا''۔
حیرت اور تعجب کی بات ہے کہ امریکہ کی طرف سے کشمیریوں کی مسلح جدوجہد کی
سب سے بڑی تنظیم حزب المجاہدین پر پابندی سے چند ہی روز قبل ایک برطانوی
این جی او کے زیر اہتمام دبئی کانفرنس میں مقبوضہ کشمیر اور آزاد کشمیر کے
علاوہ پاکستان اور بھارت کے نمائندوں سے بھی اس بات پر اتفاق کرایا گیا کہ
مقبوضہ کشمیر میں مسلح جدو جہد کرنے والوں کا خاتمہ کیا جائے۔برطانوی این
جی او کے طرف سے بتایا گیا کہ ''انہوں نے سفارش کی کہ ہر طرف سے جنگجوئوں
کا خاتمہ یقینی بنایا جا سکتا ہے،2003میں فائر بندی کے سمجھوتے کا احترام
کیا جائے،اعتماد کی تعمیر کے اقدامات کو مضبوط بنایا جا سکتا ہے،سیز فائر
لائین سے تجارت اور سفر کے نئے راستے کھولے جائیں،جموں و کشمیر کے دونوں
حصوں کے درمیان نوجوانوں کے وفود کے تبادلے کئے جائیں''۔ کانفرنس کی
سفارشات پاکستان اور بھارت کی حکومتوں کوبھی بھیجنے کا اعلان بھی کیا گیا
۔اس کانفرنس میں مقبوضہ کشمیر سے تین بھارت نواز سیاسی جماعتوں ،آزاد کشمیر
سے چار بڑی سیاسی جماعتوں کے نمائندوں کی طرف سے یہ اتفاق ظاہر کیا گیا ہے
کہ کشمیریوں کی عسکری جددجہد ختم کی جائے۔افسوس کہ کشمیر کاز کے خلاف اس
اہم پیش رفت کی سنگینی اور کشمیریوں کی طویل جدوجہد اور بے مثال قربانیوں
کا احساس و ادراک نہیں کیا جا رہا۔برطانیہ کی ایک اہم این جی او کی طرف سے
آزاد کشمیر اور مقبوضہ کشمیر کے منتخب نمائندوں کی اتفاق کردہ سفارشات
پاکستان اور بھارت کے علاوہ اہم ملکوں اور عالمی اداروں کو بھیجنے سے دنیا
کو مسئلہ کشمیر کے حوالے سے کیا پیغام دیا جا رہا ہے؟مقبوضہ کشمیر کے بھارت
نواز سیاستدانوں نے تو کانفرنس کی سفارشات میں بھارت کے مفاد کا تحفظ کیا
ہے لیکن آزاد کشمیر کی سیاسی جماعتوں مسلم لیگ(ن) پیپلز پارٹی،مسلم کانفرنس
اور جماعت اسلامی کی طرف سے مقبو ضہ کشمیر میں بھارت سے خلاف مسلح جدوجہد
کو ختم کرنے کی حمایت کرنا مسئلہ کشمیر پر سابق جنرل مشرف کے ''یو ٹرن ''
سے بھی بڑا انحراف ہے۔
موجودہ صورتحال سے یہ بھی ظاہر ہو رہا ہے کہ پاکستان کی انتظامیہ کی طرف سے
مقبوضہ کشمیر کے مظلوم عوام کے لئے اپنی مدد و حمایت کو '' ایک گناہ'' کی
طرف انجام دیا جانا ،آج اپنے بدترین نتائج دکھا رہا ہے۔ سید صلاح الدین کو
امریکہ کی طرف سے دہشت گرد قرار دینے کے دو ماہ بعد کشمیری مسلح جدوجہد کی
تنظیم حزب المجاہدین پر بھی پابندی عائید کی گئی ہے۔یہ دو ماہ سرگرم سفارتی
کاری کے بجائے پاکستان کے ارباب اختیار کی توجہ ملک میں اختیارات و حاکمیت
کی کشمکش پر مرکوز رہی ۔یہ پاکستان کی کمزور سفارت کاری کا ایک شاہکار
ہے۔معلوم نہیں کہ ابھی ایسے ہی مزید کتنے سنگین نتائج سامنے آئیں گے؟ |