ہماری ریاست ان بد قسمت ریاستوں میں سے ایک ہے ۔جہاں کچھ
مسائل زرا الگ قسم کے ہیں۔ آمریت بھی یہاں ایسا ہی ایک اضافی مسئلہ بنا
ہواہے۔یہ مسئلہ جمہوری قیادت کی کوتاہیوں سے شروع ہوا۔مگر بد قسمتی ہے کہ
قیادت اپنی غلطیاں تسلیم کرنے پر کبھی آمادہ نہیں ہوئی۔اس ضمن میں پی پی
قیادت کی طرف سے سب سے زیادہ غیر ذمہ دارانہ رویہ اپنایا گیا۔اس جماعت کا
ایک مسئلہ یہ ہے کہ وہ جب بھی بھٹو کی بات کریں گے۔تاریخ کے ایک لمبے چوڑ ے
دور میں سے دو تین صفحات کھول لیتے ہیں۔ان کے سواساری کتاب بند کیے رہتے
ہیں۔وہ بھٹو کی ان پھرتیوں اور تیزیوں کو تو ضرور بیان کرتے ہیں۔جو پینسٹھ
کی جنگ کے فورا بعد کی گئی۔جب بھٹو نے گھاس کھالیں گے۔مگر ایٹم بم بنائیں
گے۔کہاتھا۔یا کشمیر کے لیے بھارت سے ہزار سال جنگ لڑنے کی بات کی تھی۔مگر
یہ لوگ بھٹو کے ان چند برسوں کو بھول جاتے ہیں جو ڈیڈی کی مدح سرائی میں
کاٹے۔بھٹو کے چاہنے والوں کا اگلا پڑاؤانیس سو تہتر پر ہوتاہے۔بیچ کے کئی
برس وہ نہ دیکھنا چاہتے ہیں۔نہ کسی کو دکھانے کا حوصلہ رکھتاہے۔نئے آئین
اور اس کے بعد کیے جانے والے بھٹو حکومت کے کارناموں سے پی پی کی تمام
کتابیں بھری پڑی ہیں۔مگر بھٹو کے یحیی کے گٹھ جوڑ کا باب ہمیشہ کھرچ دیا
جاتاہے۔ستر سے بہتر تک کا عرصہ ہذف کرنے کی تمنا رہی ہے۔سقوط ڈھاکہ کا
تاریک باب پی پی کے کسی کتابچے میں نہیں ملے گا۔اگر بھٹو صاحب سقوط ڈھاکہ
کے بعد لولالنگڑا اقتدار نہ لیتے۔تو لٹی پٹی آمریت کا پھن ہمیشہ ہمیشہ کے
لیے کچلنا ممکن ہوجاتا۔مگر سیاسی قیادت کی کسی بھی قیمت پر اقتدارپانے کی
سوچ نے ایسا نہ ہونے دیا۔
سیاسی قیادت میں لیفٹ اور رائٹ کے دو گروہ اب بھی پائے جاتے ہیں۔ایک دھڑا
آمریت کو جڑسے مٹانے کی خواہش رکھتاہے۔او ر دوسرا دھڑا ہر حال میں اسے مضبو
ط بنانے کی کوشش میں ہے۔سابق وزیر داخلہ چوہدری نثار نے کہا ہے کہ ہمیں
ایسا طرز عمل اختیار نہیں کرنا چاہیے۔جس سے اداروں کو خلاف کرلیں۔موجودہ
حالات میں تحمل سے کام لیناچاہیے۔آخری حد تک نہیں جانا چاہیے۔بھٹو صاحب
انتہائی لیول تک گئے اور انہیں اس کا نقصان ہوا۔مجھے متنازعہ بنایا جارہا
ہے۔کبھی نہیں کہا کہ نوازشریف کی گاڑی چلا کر لاہور جاؤں گا۔نوازشریف کی
ریلی میں فیصد ٹاپ لیڈر شپ شریک نہیں ہے۔پھر مجھی پر ہی تنقید کیوں کی جاتی
ہے۔
چوہدری صاحب غالبابھٹو کا حوالہ دینے میں غلطی کرگئے۔بھٹو صاحب نے تو فوج
کی طرف سے دیا گیا۔مشروط اقتدار قبول کرلیا تھا۔انہیں واحد ٹاسک یہ ملا
تھاکہ عوام کے دلوں سے سقوط ڈھاکہ کا غصہ نکالا جائے۔بھٹوصاحب نے اپنی
خداداد صلاحیتوں کو اس ٹاسک پوراکرنے میں صرف کیا۔قوم کو ایسے شغل میلے میں
لگادیاکہ کہاں سقوط ڈھاکہ کہاں یحیی خاں اور کہاں فوج۔قوم سب کچھ بھول
گئی۔اگر چوہدری نثار بھٹو کی پھانسی کی بات کرتے ہیں تو یاد رکھین۔اس کے
پیچھے بھی بھٹو کی ناک کی سیدھ میں چلنے کی کوتاہی تھی۔انہوں نے آمریت کے
مضمرات کوتوجہ ہی نہیں دی۔وہ اپنے کارناموں پر ہی اس قدر نازاں اور مطمئن
تھے۔کہ قوم اور ریاست کو لاحق ناسور انہیں نظر ہی نہ آیا۔بھٹو نے اپنے دور
اقتدار میں جو کامیابیاں سمیٹیں۔وہ سراب کی طرح نکلیں۔بھٹو نے اپنی طاقت کا
غلط اندازہ لگانے کی غلطی کا خمیازہ بھگتا۔وہ اپنے تئیں جمہوریت کو مضبوط
کیے بیٹھے تھے۔مگر درحقیقت آمریت کو آکسیجن مل رہی تھی۔صرف سات سال بعدہی
قائد عوام او ر ان کی مضبوط جمہوریت کو نگل لیاگیا۔چوہدری صاحب بھٹو کی
انتہائی لیول تک پہنچنے کی بات کرکے بھول کررہے ہیں۔بھٹو کے انتہائی لیول
کی بات تو تب ہوتی جب وہ اپنے دور میں سقوط ڈھاکہ کی پڑتال کرواتے۔اس پڑتا
ل کے نتائج کے مطابق ذمہ داران کو پھانسی پر لٹکایا جاتا۔ایسا نہیں
ہوا۔بھٹو نے انتہائی لیول تک جانے کی بجائے مٹی پاؤ پالیسی برتی۔اپنی حکومت
بنانے او راسے جاری رکھنے کو ترجیح بنائے رکھا۔اگر انتہائی لیول کی بات وہ
نوازشریف کی تحریک سے متعلق کررہے ہیں تو درست تصور کیا جاسکتاہے۔جو براہ
راست آمریت کے لیے مصیبت بنے ہوئے ہیں۔نواز شریف کے تینوں ادوار فوج اور
اسٹیبلشمنٹ کے دیگر ساجھے داران کے ساتھ نوکا جھوکی میں گزرے۔اس زور آمائی
کا مقصد صرف اور صرف آمریت کے ہڑپ کیے گئے۔جمہوریت کے وجود کو بحال
کرناتھا۔اپنے حالیہ چارسالہ دور میں ایک آمر کی ساری اکڑفوں نکال کر
نوازشریف نے جمہورت کی بالادستی قائم کئے جانے کے امکان کا اشارہ دیا۔
نوازشریف انتہائی لیول کی سیاست کررہے ہیں۔وہ عوام میں یہ شعورپیدا کرنے
میں کامیاب رہے۔کہ دھکے شاہی سے جب چاہے عوامی نمائندوں کو گھر بھیجنا درست
نہیں ۔ عوامی مینڈیٹ کی قدر ہونی چاہیے۔عوام آج ا ن قوتوں سے متنفرہیں۔جو
اس مینڈیٹ کو روندتی ہیں۔نوازشریف نے پہلی بار ان قوتوں کو نہیں للکارہ وہ
اس سے قبل صدر غلام اسحاق ۔جنہانگیر کرامت اور سجادعلی شاہ کے مقابلے میں
عوامی قوت کی مضبوطی کا ثبوت دے چکے۔اب چارسال تک انہوں نے پرویز مشرف کے
بارے میں سفارشی پرچیوں کو مستردکرکے عوامی مینڈیٹ کی طاقت دکھائی۔آج کچھ
لوگ میاں صاحب کو اتنہائی لیول سے ہٹنے کی رائے دے رہے ہیں۔مگران لوگوں کی
ساکھ اس قدر اچھی نہیں کہ قووم ان کی رائے مان لے۔ خوشحالی اور ترقی کی راہ
میں حائل یہ مصیبت نظرانداز کرنا قوم کے لیے ناممکن ہورہاہے۔میاں صاحب یہ
سوچے بیٹھے ہیں کہ ملک کی آدھی پریشانیوں کا سبب غیر جمہوری قوتیں ہیں۔اب
کوئی اسے انتہائی لیول کی سیاست کہے یا کچھ اور ریاست اور عوام کو درپیش اس
آدھی خرابی کو نوازشریف کسی صورت نظر اندازنہ کرنے کافیصلہ کرچکے ہیں۔ |