پاکستان سے زندہ بھاگ

نائجیریا کے سیاستدانوں کی کرپشن کا بڑا واویلا سنا پھر کرپشن کے اس بخار کا اثر دنیا کے تمام ممالک پہ نہ صرف نظر آیا بلکہ بڑی بڑی عوامی تحریکوں نے ان حکومتوں کے تختے بھی الٹے . ظالم کسی بھی انداز میں عوام کا استحصال کرے وہ ظلم ہی کہلاتا ہے . گولہ باری میں مرنے والے اور دھماکوں کی نظر ہونے والے ہی صرف ظلم کا شکار نہیں ہوتے ہیں بلکہ عصمت دری اور تشدد بھی ظلم ہے ، عوام کو لوٹنا اور ان کی زبو حالی پہ ہنسنا اور انکا مذاق اڑانا بھی ظلم ہے . جسقدر ظلم پاکستان میں ہو رہا ہے اسکی نظیر نہیں ملتی . پاکستان کے حکمران خواہ وہ حکومت سے ہوں یا اپوزیشن سے ان سب کے کرتوت ایک جیسے ہیں .

نوحے، مرثیے اور غم کی تحریریں. بس یہی ہے جو اب نظر آتا ہے اور جس کا بیان اخبارات اور نشریاتی ادارے کر رہے ہیں . بڑے دنوں سے پاکستان سے آنے والی خبریں ہولناکیوں سے بھرپور ہیں اور لگتا ایسے ہے کہ جیسے یہ سب کچھ ایک سوچی سمجھی سازش ہے .اگر ہم نشریاتی اداروں سے شروع کریں تو آپ کو ہمیشہ ایک جیسے لوگ بلکہ وہی لوگ بار بار نظر آئیں گے جو اس تباہی کے ذمےدار ہیں . آمر کی حکومت کے جانے پہ جو سیاستدان میدان میں آئے وہ تاریخ کے سب سے زیادہ لالچی اور مکار حکمران ثابت ہوئے .

کسی دور میں برطانیہ کا بادشاہ آرتھر تھا ، آرتھر کا دور محققین کے مطابق پانچویں صدی کے آخر یا چھٹی صدی کے آغاز میں تھا کہتے ہیں اس کے دور میں برطانیہ بہت سی داخلی اور خارجی سازشوں کا شکار تھا . اس دور میں شر اور خیر کی طاقتیں اس مملکت پہ حملہ آور تھیں اور تاریخ میں آرتھر ایک ایسے عظیم حکمران کے طور یاد کیا جاتا ہے جس نے اس سلطنت کو ان دونوں حملہ آور قوتوں سے محفوظ رکھا . اس نے اپنی سلطنت کے قبائل کو یک جان کیا اور تمام بیرونی حملہ آوروں کے خلاف استعمال کیا. اس دور میں طلسماتی اور شیطانی طاقتوں کے خطرے کے پیش نظر اس نے اپنی ریاست کے دفاع کے لیے ان طاقتوں کے خلاف بھی جنگ لڑی . آرتھر کا دور مورخین کے مطابق نہ صرف سنہرے حروف میں لکھا گیا بلکہ اسکے دور کی داستانیں ، قصے، کردار ، وارداتیں اور کہاوتیں برطانوی تاریخ کا حصہ ہیں اور انہی کہانیوں پر کئی فلمیں بنیں اور کتابیں لکھی گئیں.

میں آرتھر کا بہت بڑا مداح نہیں بس بات کا آغاز چونکہ کرپشن اور ظلم سے ہوا اور کرپٹ حکمرانوں کی چیرہ دستیوں کی داستان بیان کرنا شروع کی تو آرتھر کی سلطنت یاد آ گئی . آج کا پاکستان آرتھر کی سلطنت نہیں مگر آج کے پاکستان میں یہ طلسماتی کردار ضرور موجود ہیں . عوام جس چکی میں پس رہے ہیں اس چکی کو چلانے والے اتنے ظالم ہیں کہ ان کا ذکر کرتے ہوئے بھی شرم آتی ہے . آصف زرداری سے لیکر ایک چھوٹے سے تھانیدار تک سب پہ اتنی کرپشن کے الزامات ہیں اور ان الزامات میں اتنی سچائی ہے کہ اس کا بیان ہی شرمندہ کر دیتا ہے . آصف زرداری اس صف کے اولین مجاہد نہیں ان سے پہلے بھی جتنے شیر دلیر حکمران پاکستان کو ملے سوائے چند کے باقی کے کرتوتوں کا ثمر آج پاکستان کے حکومتی ایوانوں میں نظر آتا ہے .

یہ کبھی بھی ممکن نہ ہو گا کہ تاریخ میں آصف زرداری اور ان کے ہم خیال دوستوں کو خدا ترس لکھا جائے گا . حکمرانوں کا کردار اب عوام میں منعکس ہے ، چھوٹے چھوٹے تاجروں سے لیکر عام دوکان دار ظلم کرنے لگ گئے ہیں . اخباری خبروں کے مطابق بلوچستان کے معدنیات اور پاکستان کے سونے کے زخائر کا کسی خفیہ سمجھوتے کے تحت سستے داموں بیرونی ممالک کو بیچے جانے کی اطلاع سامنے آنے کے بعد یہ تو صاف ظاہر ہو گیا ہے کہ کون کس لیے حکومت میں شامل ہوا. مگر کسی کو ان خبروں کی کیا فکر ہے جس ڈھٹائی سے یہ حکمران نظریہ پاکستان کی تذلیل کرتے نظر آتے ہیں اس سے تو کسی بھی سودے بازی کی امید کی جا سکتی ہے .

اگر میرے پڑھنے والے کبھی فوزیہ وہاب کو کسی ٹی وی شو میں بیٹھا دیکھیں تو اس بات پر ضرور غور کریں کہ اس خاتون کے چہرے پر ایک عجیب سی مسکراہٹ ہوتی ہے جب ان کے سامنے عوام کے دکھ اور حکمرانوں کے ستم پیش کیے جاتے ہیں تو یہ اس بات کا مذاق اڑاتی ہیں بلکہ کبھی کبھی تو غصے سے آگ بگولا ہو جاتی ہیں . جو کوئی بھی ان حکمرانوں کے خلاف لکھتا ہے ، بولتا ہے ، متحرک ہوتا ہے یا پھر اپنے غم کا اظہار انکی جانب اپنی جوتی اچھال کر کرتا ہے تو یہ اس کا ماضی کسی دہشت گرد گرو سے جوڑ دیتے ہیں اور اس شخص کو اپنے مخصوص انداز میں شرمندہ کرتے ہیں . آج کا یہ مضمون لکھنے سے پہلے میں نے اپنے گریباں میں جھانک کر دیکھا کہ کیا میں اس قابل ہوں کہ میں بھی اپنی آواز بلند کر سکوں میں نے بھی یہ دیکھنا چاہا کہ کہیں میری بنیادوں میں کوئی گرو تو نہیں جسے بے نقاب کیا جائے گا . جواب میں میرا ضمیر مطمین تھا مجھے جنگ آزادی سے کارگل کی جنگ تک اپنے خاندان اور قبیلے کے شہدا کی ایک فوج نظر آئی جنہوں نے سالمیت پاکستان کی جنگ لڑی اور جو عظمت کی موت مرے. لہٰذا مجھے لفظوں کے جوتے مارتے ہوئے یہ ڈر نہیں کہ فیصل رضا عابدی مجھے ڈاکو کہنے کا استحقاق رکھتے ہیں.

میں اس بات پہ یقین رکھتا ہوں کہ موت اور رزق اللہ نے دینا ہے مگر جتنا لالچ آج کی پاکستانی حکومت میں ہے اس سے تو بس یہی لگتا ہے کہ ان کو عذاب الہی کا خوف نہیں ہے . نہ جانے کیوں فوزیہ وہاب عوام کا کرب سن کر ہنستی ہیں انھیں احساس نہیں کہ وقت بدل سکتا ہے جو رب سیلاب کی صورت اپنے غصے کا اظہار کر سکتا ہے وہی رب اسلام آباد کو بھی آفت کا شکار کر سکتا ہے . اس رب کی گرفت میں سندھ کے حاکم، خیبر کے خان، بلوچستان کے نواب اور پنجاب کے بیر اور وڈیرے بھی آ سکتے ہیں . صدر کی بیٹی کے کتے کے بسکٹ لندن سے وزیر اعظم کے بچوں کی آسائش کا سامان یورپ سے اور وزیروں کی راحت کے فرمان امریکہ سے اگر آ رہے ہیں تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہمیشہ یہی ہو گا .

دستور اور دستار کبھی بھی شخصی نہیں ہوتے اور پھر اب جبکہ پاکستان کی عوام نے پاکستان زندہ باد کے بجائے پاکستان سے زندہ بھاگ کے نعرے بلند کرنا شروع کر دیے ہیں تو حکمرانوں کو یہ سوچ لینا چاہیے کہ انکی بکتر بند گاڑیاں انھیں زیادہ دن محفوظ نہ رکھ پائیں گی .

ایک اچھا حکمران ایک غم گسار دوست بھی ہوتا ہے . اگر میرا یہ پیغام فوزیہ وہاب تک پہنچ جائے تو میں ان سے گزارش کروں گا کہ تاریخ میں عوامی غم و غصے کی کہانیوں کو ضرور پڑھیں پھر آپکی یہ مسکراہٹ شاید تھوڑے فکر میں بدل جائے. یہ نہ ہو کہ کوئی اور آمر اپنی وردی سلوا رہا ہو اور آپ جیسے کوئی اور لوگ اس کا اقبال بلند کرنے اور سلوٹ مارنے کی تیاری کر رہے ہوں. میں مسلم لیگ کی بگڑی ہوئی تمام شکلوں سے اختلاف کرتا ہوں مگر ان کے اس موقف سے انکار نہیں کرتا کہ آج کی پیپلز پارٹی وہ نہیں جس کی رہنما بینظیر بھٹو تھیں . آج کی تحریر میں غصہ ہے اور دکھ کا اظہار بھی کیونکہ ذہن میں بس یہی بات آتی ہے کہ

مقید کر دیا سانپوں کو یہ کہہ کر سپیروں نے
کہ یہ انسانوں کو انسانوں سے ڈسوانے کا موسم ہے
Anwaar Raja
About the Author: Anwaar Raja Read More Articles by Anwaar Raja: 71 Articles with 76370 views Anwaar Ayub Raja is a professional Broadcaster, voice over artist and linguist for Urdu and Mirpuri languages. Soon after graduating from University o.. View More