سونے دے اگر وہ سو رہا ہے غلامی
کی نیند
ہو سکتا ہے وہ خواب آزادی کے دیکھ رہا ہوں
آج یہ شعر بہت شدت سے یاد آ رہا ہے یہ شعر شاید علامہ اقبالؒ نے اس وقت
انگریزوں کی غلامی کی وجہ سے لکھا ہو گا جس کا واضح مقصد مسلمانوں کو ،ان
کے ضمیر کو جھنجھوڑنا تھا ۔ ان کو ایک راہ دیکھا نی مقصود تھی ان کو وہ
میراث یاد دلانا مقصود تھا جو 14سو سال پہلے ان کی تھی وہ وقت یاد کر انا
تھا جو انگریزوں کے آ نے سے قبل کا مسلمانوں کا تھا ان کو وہ عزت دلانا
مقصود تھی جو انگریز کے آنے سے قبل تھی اس شعر کا مقصد یہ بھی تھا کہ
مسلمان خواب غفلت سے اٹھ کھڑے ہوں اور اپنی کھوئی ہو ئی میراث واپس حاصل کر
یں خدا خدا کر کے 1947ءمیں یہ مملکت خداداد پاکستان معرض وجود میں آ گئی ۔جو
کہ مسلمانو ں کے خواب غفلت سے جا گنے اور مسلسل جدوجہد سے وجود میں آیا آج
یہ ملک 63سال کا ایک تناور درخت بن چکا ہے اس کی 18کروڑ شا خیں اس کی
خوبصورتی میں اضافہ کر رہی ہیں یہ شا خیں عوام کے لئے سایہ دار درخت کی
مانند بن چکی ہیں مگر اس کے باوجود عوام کی تقدیر ابھی تک غلاموں سے بھی بد
تر ہے عوام صرف شخصی اور سر حدی طور پر آ زاد ہو ئے ہیں ذہنی طور پر ہم میں
سے کو ئی بھی آ زاد نہیں ہوا کیو نکہ پہلے یہ عوام انگریزوں اور ہندﺅوں کے
زیر سایہ اور غلامی میں رہی اور 1947ء کے بعد سے آ ج تک اپنوں کی سا زشوں،
ان کی شر انگیزیوں ، اور غلامی میں ہے ہماری عوام اب بھی بھٹو ابن
بھٹو،شریف ابن شریف، چوہدری ابن چو ہدری ، وڈیرے ابن وڈیرے ، جا گیردار ابن
جا گیردار کے گرداب سے ہی نہیں نکل پا ئی ۔ یہی نہیں بلکہ عوام کا اب بھی
یہ حا ل ہے کہ جو سیا ستدان نہ صرف عوام کا بلکہ ہمارے ملک کا بھی خیر خواہ
نہیں یہ پھر بھی اسی کی طرف دوڑے جا رہے ہیں اور جھو ٹے(جعلی سیاستدان) نما
ئندوں کو اپنے سر کا تاج بنانے میں خوشی محسوس کر تی ہے جبکہ ایسے سیا
ستدانوں کے پاس عوامی مسا ئل حل کر نے کا نہ کو ئی ایجنڈا ہے اور نہ ہی
ملکی ترقی کے لئے کو ئی نیا لا ئحہ عمل انہیں تو کر پشن کر نے میں ذہنی
خوشی محسوس ہو تی ہے۔ یہ نمائندے ہر وہ کام کر تے ہیں جو ان کی دولت کو
بڑھا وہ دے کو ئی بھی حکومتی عہدار/لیڈر کو ئی کام اپنے ووٹروں کے لئے نہیں
کر واتا بلکہ اس پیسے سے عیش و عشرت کی زندگی گزارنا اور اپنے ووٹروں کو
اپنے غلام سمجھنا اپنے حق سمجھتا ہے۔
بات ہو رہی تھی عوام کی تو یہ عوام اب بتا دے کہ اس کی اس حالت تک پہنچنے
کا ذمہ دار کون ہے؟یہ کیو ں ان وڈیروں، جا گیراروں، چوہدریوں، نوابوں،
شریفوں ، بھٹوﺅوں سے بار بار ذلیل ہو رہی ہے ۔ ان کے ہی پا ﺅں دھو دھو کے
پینے میں کیوں فخر محسوس کر تی ہے۔ اور یہ سمجھتی ہے کہ ان کے ”عوامی نما
ئندے“ ان کے مسا ئل حل کر یں گے ۔حقیقت اس کے بر عکس ہے بحران در بحران یہ
ان کے ”عوامی نمائندے “ہی ملک میں لا تے ہیں کو ن نہیں جا نتا کہ شوگر ملیں
اور آ ٹے کی ملیں کس کس کی ہیں اور یہی نما ئندے ان کو ایک زد خرید غلام سے
زیادہ اہمیت نہیں دیتے اور عوام ان کی چیڑی چپٹی باتوں میں آنا اپنا فر ض
سمجھتی ہے اور نما ئندوں کو لوگوں کو اپنی باتوں میں لا نے کا ہنر آ تا ہے۔
عوام 63ءسال پہلے بھی غلام تھی آ ج بھی اسی طرح غلام ہے بس پہلے یہ غلامی
کی زنجیریں انگریزوں کی تھیں ان سے آ زادی درکا ر تھی اب عوام کو کس سے آ
زادی لینی ہے ؟اس کا جواب شا ید کبھی نہ مل سکے کیو نکہ اب عوام پر اپنو ں
کی زنجیریں لگا دی گئی ہیں جن سے نکلنا عوام کے لئے بہت مشکل ہی نہیں بلکہ
نا ممکن بات لگتی ہے اس عوام کو اپنے ہی ذلیل و رسوا کر رہے ۔ اس کے باوجود
عوام اپنی حالت سنوارنا چا ہے تو سنوار سکتی ہے اس کے لئے اس بے حس عوام کو
جا گنا ہو گا ۔جو اپنے دیئے ہو ئے ٹیکسزز پر حکومتی عہدادرو ں کو کرپشن کر
کے عیاشی کر نے کا موقع فراہم کر تی ہے ۔ابن بن ابن کی سیا ست سے نکلنا ہو
گا۔ اپنے ووٹ کا حق صحیح جگہ استعمال کر نا ہو گااسے جا گنا ہو گا اسے جا
گنا ہو گا۔
کیو نکہ ہمارے صدوراور وزیراعظموں کے لئے، ان کی ضروریات کے لئے ، ان کے
بیرونی دوروں کے لئے سالہ سال سے خزانے کا منہ کھلا رہتا ہے مگر اس عوام کی
خون پسینے کی کمائی ان پر لگا نے میں کرپشن کا سہارا لیا جا تا ہے نام کی
عوام کی خدمت کی جا تی ہے اسے صرف جھوٹے وعدوں سے ٹرخا دیا جا تا ہے عوام
کو اب جا گنا ہو گا اپنی آ نے والی نسلوں سے اگر بچنا ہے تو اسے ایسے محب
وطن لیڈر چننا ہو نگے جو عوام کی ضروریات وبنیادی مسائل کو نہ ڈرف سمجھیں
بلکہ انہیں حل کر نے کی بھی صلا حیت رکھتے ہوں یہی نہیں بلکہ انٹر نیشنل
لیول پر پاکستان کا وقار بلند کر سکیں ۔ قرضوں کی لت سے پاکستان کو نجات
دلا سکیں وہ امریکہ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کر سکیں جو امریکی
”لونڈی“کا کردار ادا نہ کر یں بلکہ مملکت خداداد پاکستان کو ایک باوقار اور
عظیم مسلم ریاست بنا سکیں جس کے عوام خوشحال ہوں اور امن و امان کی زندگی
بسر کر سکیں |