ماں یہ لفظ بہت وسیع معنی اور کل کائنات اپنے اندر سموئے
ہوئے ہے۔ماں کی عظمت اور بڑائی کا ثبوت اس سے بڑھ کر اور کیا ہو گا کہ اﷲ
رب العزت جب انسان سے اپنی محبت کا دعوی کرتا ہے تو اس کے لیئے ماں کو مثال
بناتا ہے۔ماں ایک ایسی ہستی ہے جس کی آغوش میں دنیا بھر کا سکون،الفاظ میں
محبت اور پیروں تلے جنت ہے۔ماں کو ایک نظر پیار سے دیکھ لینے سے ہی ایک حج
کا ثواب مل جاتا ہے۔ مامتا ایک آسمانی جذبہ ہے جو ماؤں کو ودیعت کر دیا گیا
ہے۔ماں کی عظمت کا اندازہ اس بات سے ہی کر لینا چاہیئے کہ اسلام کے سب سے
اہم رکن ''نماز'' میں بھی والدین کی مغفرت کی دعا کا حکم دیا گیا ہے۔ اﷲ رب
العزت نے قران کریم میں حکم دیا ہے کہ ماں باپ یا دونوں میں سے کوئی ایک
اگر بڑھاپے کی حالت میں تمہیں میسر ہوں تو ان کو اف تک نہ کہو۔ان احکامات
کی روشنی میں ہمیں اپنا محاسبہ کرنا چاہیئے کہ آیا ہم والدین کے ساتھ قرآنی
احکامات کے مطابق سلوک کرتے ہیں۔محبت و پیار،سچائی، خلوص،محبت، تکالیف سے
نجات، مٹھاس غرض ہر خوبی ماں کی ذات میں سموئی ہوئی ہے۔اﷲ رب العزت کی طرف
سے انسانوں کے لیئے ماں سے بڑا اور کوئی تحفہ نہیں ہے۔ ماں خود تکالیف
برداشت کر لیتی ہے مگر اپنی اولاد پر آنچ نہیں آنے دیتی۔اپنی خواہشات کو
ختم کر کے اولاد کی خواہشات کی تکمیل کرتی ہے۔ ماں کی اولاد سے محبت کا
اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ بچہ اگر منجمند کر دینے والی سردی
میں پیشاب کر دے تو ماں اس گیلی جگہ پر خود لیٹ جاتی ہے۔تاکہ اس کا لخت جگر
سوکھی جگہ پر سو سکے۔حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کے پاس ایک صحابی رضی اﷲ
عنہ آئے اور پوچھا کہ میں نے اپنی معذور ماں کو کندھوں پر بٹھا کر حج
کروایا ہے۔ کیا میرا حق ادا ہو گیا؟ ارشاد فرمایا: ابھی تو اس ایک رات کا
حق ادا نہیں ہوا جس رات تو نے بستر گیلا کر دیا تھا۔ اور تیری ماں نے تجھے
خشک جگہ پر سلایا اور خود گیلے میں سوئی۔ ماں کی اہمیت کا اندازہ اس دوسری
حدیث شریف سے بھی لگایا جا سکتا ہے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ عنہ کہتے ہیں کہ
ایک شخص نے عرض کیا یا رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم حسن سلوک کا سب سے زیادہ
مستحق کون شخص ہے۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا تیری والدہ۔ اس نے عرض
کیا کہ پھر کون۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا تیری والدہ۔ اس نے عرض کیا
کہ پھر کون۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا تیری والدہ۔ اس نے عرض کیا کہ
پھر کون۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا تیرا والد۔ ماں ایک ایسا سایہ دار
درخت ہے جس کی گھنی چھاؤں کبھی کم نہیں ہوتی۔ اور نہ ہی اس پر کبھی خزاں
آتی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ماں کی گود دنیا کا سب سے بڑا مکتب ہے۔ اور
یہ تہذیب و شائستگی کا گہوارہ اور کائنات کا انمول رشتہ ہے۔ بچپن میں ایک
ہی بات چاہے ہزار بار ماں سے پوچھو ماں بیزار نہیں ہوتی۔ البتہ ماں باپ
سمجھانے کے انداز میں ہی کوئی بات دہرا دیں تو اولاد کو ناگوار گزرتی ہے۔
والدین کے ساتھ بات کرنے سے پہلے سوچنا چاہیئے کہ یہ وہ ہستیاں ہیں جن کی
نافرمانی شرک کے بعد گناہ کبیرہ ہے۔ انسان دنیا کا بڑے سے بڑا غم سہہ سکتا
ہے مگر اولاد کی چھوٹی سی تکلیف اس سے برداشت نہیں ہو سکتی۔ ماں باپ دنیا
سے چلے جائیں تو بھی ان کا رشتہ اپنی اولاد کے ساتھ جڑا رہتا ہے۔ ماں باپ
کے دنیا سے چلے جانے کے بعد ہم ان کے نام سے خیراتی ادارے قائم کرتے ہیں کہ
شاید ھماری بھٹکی ہوئی روحوں کو سکون مل سکے۔ یہی خیراتی ادارے ہم ان کی
زندگی میں بھی قائم کر سکتے ہیں۔ تا کہ وہ اپنی آنکھوں سے دیکھ سکیں کہ ان
کی اولاد ان سے کتنی محبت کرتی ہے۔ کیوں ہم ماں باپ کے نام پر نیک کام کرنے
کے لیئے ان کے مرنے کا انتظار کرتے ہیں۔اﷲ سے دعا ہے کہ اے اﷲ: ہمیں والدین
کی قدر نصیب عطا فرما۔ اور ان کے لیئے اطاعت، خدمت اور حسن سلوک کا جذبہ
عطا فرما۔ اور ان کی بہترین اولاد میں شمار عطا فرما۔ آمین |