حصے دار

ہمارے ہاں میں پائے جانے والی بے ترتیبی او رخلفشار وسائل کے ضیاع کا سبب بن رہاہے۔حکومتیں بدلتی رہیں مگر حالات نہ بدل سکے۔ہر حکمران ناکام قرار پایا۔ناکامی کی دلیل بگڑتے حالات ہیں۔جو ہرآنے والے برس پہلے سے بد ترہوتے چلے گئے۔فوجی حکومتیں بھی دیکھ لیں۔جمہوری لیڈر شپ بھی کمال نہ دکھا پائی۔اڑھائی اڑھائی سال کی حکومتیں ناکام رہیں۔اور دس دس گیارہ گیارہ سال کی حکومتیں بھی اس ناکامی کالیبل نہ اتارپائیں۔بھٹو کوپاکستانی تاریخ میں سب سے بڑا جمہوری لیڈر تسلیم کیا جاتاہے۔مگر وہ بھی اپنے دور میں ایسے اقدامات اٹھانے پر مجبورہوگئے۔جن کے سبب ان کی اپنی پارٹی میں دراڑیں پڑ گئیں۔ان کے کچھ فیصلوں نے پارٹی کے دیرینہ ساجھیوں کو علیحدگی کا راستہ دکھایا۔یہ حالات اور زمینی حقائق تھے جن کے باعث بھٹو کو اپنے سچے وفاداران کو خیر باد کہنا پڑا۔اگر بات صرف علیحدگی تک محدود رہتی تو شاید زیادہ بڑی بات نہ تھی۔مگر تاریخ نے دیکھا کہ ان جانثاران کو جیلوں میں ڈالا گیا۔کئی جانثاران وزیر اعظم کو ان کے انتخابی نعرے یادکرواتے۔بھٹو کا عموما جواب ہوتا۔اس بار ہم ایفورڈ نہیں کرسکتے۔اگلی حکومت بنائیں گے۔تب ان امور کو سامنے رکھیں گے۔رفقاء بھٹو کے پھر کبھی۔اگلی بار کی تکرار سے دق آگئے۔مگر بے بسی دونوں طرف سے ہاتھ باندھے ہوئے تھی۔بھٹو کے لیے موجودہ حالات یکسر مختلف تھے۔نہ اتنے عہدے نہ اتنے محکمے۔بھٹو کے چاہنے والے لاکھوں۔اور دینے کے لیے بندوبست ناکافی۔ اس لیے مجبوریاں بھٹو کو وہ سب کچھ کرنے پر مجبورکرتی رہیں۔جو وہ نہ کرنا چاہتے تھے۔محدود بندوبست بھٹو کو انکار پر مجبور کرتا۔اور بے جا خود اعتمادی ان مخالفین کو کڑا سبق سکھانے پر اکساتی رہی۔اختلاف رائے نے پی پی کے اندر مضبوط دراڑیں بنادیں جو بعد میں پر نہ کی جاسکیں۔

ایوان اقتدار کی فتنہ پردازیاں جاری ہیں۔نوازشریف کو نااہل کروادیا گیا۔اب آنے والے دنوں کے لیے پلاننگ ہورہی ہے۔یہاں بھی سب سے بڑا مسئلہ بے یقینی اور بے ترتیبی بنی ہوئی ہے۔نہ مسلم لیگ ن کی پارٹی کے مستقبل کا کچھ انداز ہ ہے۔نہ عمران خاں کی قیادت میں اکٹھے لوگوں کے دلوں کا بھید کوئی ؎جانتاہے۔اس انتشار کی ایک جھلک چوہدری نثار کی دونوں پریس کانفرنسیں ہیں۔دونوں بار وہ سننے والوں کو غیر مطئمین کرگئے۔نہ وہ اپنا مدعا بیان کرسکے۔یا پھر ان کی نیت کو سننے والے سمجھنے سے قاصر رہے۔ان کا کہنا تھا۔کہ پارٹی قیادت پر مشکل وقت ہے۔اس لیے گلے شکوے کا وقت نہیں۔البتہ وزارت داخلہ کے تحت کیے گئے فیصلوں پر وضاحت ضروری تھی۔سو کردی۔ان کی پریس کانفرنس پر تبصرہ کرتے ہوئے شیخ رشید کا کہناتھا۔کہ چوہدری نثار ہ بہت کچھ کہنا چاہتے ہیں مگر کچھ کہہ نہیں پارہے۔ان کا تبصر ہ بالکل درست ہے۔چوہدری نثار وہ سب کچھ نہیں کہہ پارہے۔جن کا انتظار شیخ صاحب کو ہے۔مگر اس کا سبب چوہدری صاحب کو نظر آنے والے وہ زمینی حقائق ہیں جو انہیں انتہائی اقدام اٹھانے سے بازرکھ رہے ہیں۔وہ اس وقت بالکل ایسی جگہ کھڑے ہیں جہاں معمولی غلطی انہیں منزل سے کوسوں دور کرسکتی ہے۔سیاست کی خودغرضیاں انہیں کسی واضح اصول اپنانے کی بجائے۔جمع تفریق پر مجبور کررہی ہیں۔وہ اس وقت نوازشریف اور عمران کو ایک ہی نظر سے دیکھ رہے ہیں۔جب تک وہ کھل کر کوئی فیصلہ نہیں کر پاتے ان کی پوزیشن اسی طرح مشکوک رہے گی۔مگر ان کے پاس وقت زیادہ نہیں ہے۔آدھا ادھراور آدھا ادھر والی صورتحال ان کی سیاست کو کھوکھلا کررہی ہے۔

سیاست میں حصے داری کا مسئلہ بھٹو کو درپیش رہا۔ان کو اپنے دوستوں کی نئی فہرست ترتیب دینا پڑی کچھ لوگ ایسے چھوڑنا پڑے جن کی ڈیمانڈز ان کے بس سے باہر تھیں۔میاں نوازشریف بھی حصے دار ی کے معاملے پر مشکلات کے شکار ہیں۔چوہدری نثار کی آئے دن کی پریس کانفرنسوں کی گونج اسی حصے داری کے معاملے کے سبب ہے۔بھٹو صاحب تو ا س جھنجٹ سے نکل چکے میاں صاحب کے پاس اب شاید گنوانے کو کچھ نہیں بچا ان کی مثال اس میمنے جیسی ہے جسے بھیڑیا کھانے لگا تو میمنے نے کہا تھاکہ اگر مجھے کھایا تو قیامت آجائے گی۔بھیڑیے نے چھوڑدیا۔قیامت کی تفصیل پوچھی تو میمنے کا کہنا تھا۔کہ دنیا کا تو پتہ نہیں اگر میں تمہاراشکار بن جاتاتو میرے لیے تو قیامت آہی چکی ہوتی۔میاں نوازشریف کے پا س اقتدار نہیں بچا۔بے آبروئی الگ ہاتھ آئی۔اب وہ بے نیازی میں ہیں۔حصے داری کا اصل اب عمران خاں کو درپیش ہوگا۔آنے والے دنوں میں تحریک انصاف کی قیادت کو کڑے فیصلے کرنا پڑیں گے۔انہوں نے الیکٹ ایبلز کا ایک ایسا جھمگٹا لگارکھاہے۔جس میں ہر کوئی اپنے آپ کو اس ہجوم کا سردار تصور کررہا ہے۔خوش کن خوابوں نے اس ہجوم کو وجود دیا۔اب جب خواب حقیقت کا روپ دھار رہاہے۔تو زبردست دھینگا مشتی کا امکان بن چکا۔کسی قسم کے عہدو پیمان سے آزاد اس ہجوم کے شرکاء اب اپنی اپنی مراد کیسے پائیں گے۔اس کا اندازہ لگانے سے بندہ فکرمند ہوسکتاہے۔بظاہر یہ معاملہ بندر بانٹ سے مختلف ہوگا۔یہ کوئی مال غنیمت کی تقسیم کا ایشو بھی نہ ہوگا۔بندر بانٹ اور مال غنیمت کی تقسیم کے لیے حتمی فیصلہ کرنے والا موجودہے۔تحریک انصاف میں فائنل اتھارٹی کی کوئی آسامی موجودنہیں۔حصے داری کے مسئلے پر بھٹو او رنوازشریف ناکام رہے۔دیکھیں عمران خان کی جماعت آنئدہ کچھ ہفتوں بعد کیا نام او رکیا روپ اپناتی ہے۔

Amjad Siddique
About the Author: Amjad Siddique Read More Articles by Amjad Siddique: 222 Articles with 141034 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.