جب بھی کسی قومی معاملے کو اوٹ پٹانگ طریقے سے نبٹانے کی
کوشش کی گئی۔اس کے اثرات برے نکلے۔بدنیتی کے سبب اس طریقے میں ناکامی
ہوئی۔معاملہ سدھرنے کی بجائے مذید بگڑا۔مگر آفرین ہے۔ہم پر کہ ہم نے نہ تو
راہ بدلی نہ ہی طریقہ۔اس بے عملی کا ہی سبب ہے کہ دنیا میں ہم کوئی معتبر
قوم کا درجہ نہیں پاسکے۔قومی معاملات کو اوٹ پٹانگ طریقے سے حل کرنے کی ایک
حماقت این آراو کی شکل میں کی گئی۔جس کا خمیازہ قوم اب تک بھگت رہی
ہے۔سیدھے سادے الفاظ میں این آر اور سے مراد کچھ لو اور کچھ دو کا وہ
معاہدہ ہے۔جو پی پی قیادت او رفوج کے درمیا ن ہواتھا۔پرویز مشرف کی طرف سے
دہشت گردی کے خلاف ناکامی کا سامنا کرنے کے بعد اس بات کی ضرورت محسوس کی
جارہی تھی کہ اس معاملے کو سلجھانے کے لیے کوئی متبادل حل ڈھونڈا جائے۔سوچ
غلط نہ تھی۔مگر با ت تب بگڑی جب اس قومی اہمیت کے معاملے کی آر میں اپنے
اپنے الو سیدھے کرنے کی بد نیتی پیداہوئی۔اگر پی پی قیادت کے خلاف مقدمات
جھوٹے تھے۔تو انہیں این آراور کے ذریعے ختم کروانے کا راستہ چننا بد نیتی
تھا۔یہ مقدمات عدالتوں کے ذریعے فیصل ہونے چاہیں تھے۔اسی طرح اگر فوج یہ
چاہتی تھی کہ دہشت گردی کے خلاف سیاسی قیادت کی طاقت بروئے کار لائی جائے
تو پھر مشرف کو سرے سے الگ کرکے تمام تر اختیارات اور طاقت جمہوری حکومت کو
منتقل کردینے چاہیں تھے۔یہاں بھی لالچ اور خوف کے ملے جلے جزبات نے فوجی
آمر پرویز مشر ف کومیدان میں جمائے رکھنے کی راہ دکھائی۔این آر اور کے
ذریعے دہشت گردی کے خاتمے کی جو تدبیر سوچی گئی۔نیتوں کی خرابی کے باعث
ناکام ہوئی۔نہ مشرف صدر رہ سکے۔نہ بے نظیر وزیر اعظم بن پائی۔ایک بالکل الگ
سا سیٹ اپ بن کر سامنے آیا۔جومعاملات مذید بگاڑنے کا موجب بنا۔
اوٹ پٹانگ تجربوں کا سلسلہ جاری ہے۔اب بھی معاملات کو بد نیتی سے حل کرنے
کی پریکٹس جاری ہے۔ سیاسی اور فوجی قیادت کے درمیان معاملات طے ہونے نظر
آرہے ہیں۔وزیر اعظم نوازشریف کی نااہلی کے بعد اقتدار کے ایوانوں میں
بٹھانے کے لیے کوئی نیا پنچھی تیار کیا جارہاہے۔مقصد اب بھی قوم اور مملکت
کی ترقی ہے۔مگر راستہ ایک بار پھر نامناسب۔امریکہ کی جانب سے پاکستان کو
ایک بار پھر ڈور مور کی ہدایت جاری ہونا اسی نامناسب طریقے کی بدولت ہے۔ہم
اپناآپ سدھارے بنا دنیا کی نظر میں محترم بننے کی حماقت کررہے ہیں۔بھلا
دنیا کو کیا پڑی ہے کہ خواہ مخواہ ہماری ہاں میں ہاں ملائے۔امریکہ نے
برصغیر کے معاملات میں بھارت اور افغانستان کو ذمہ داران ریاستیں قرار دیا
ہے۔اور پاکستان کو غیر ذمہ دار ریاست کہاہے۔امریکہ کا پیغام تھاکہ پاکستان
کو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اروبو ں روپوں کی امداد دی گئی۔مگر پاکستان
تعاون نہیں کرپایا۔امریکہ نے دھمکی دی ہے۔کہ اگر پاکستان نے دہشت گردی کے
خلاف جنگ میں ذمہ دارانہ رول نہ نبھایا تو اس کی امداد بند کردی جائے گی۔
امریکی دھمکی نئی نہیں۔اس طرح کی صورت حال اس سے قبل بھی کئی بار
پیداہوئی۔بالخصوص مشر ف اور زرداری دور میں تو ہر دوسرے تیسرے مہینے اس طرح
کی فرمائشیں ہوتی رہی ہیں۔مگر مسئلہ تو یہ ہے کہ ہم بحیثیت قوم اپنے آپ کو
سدھارنے کی بجائے کبوتر کی طرح آنکھیں موند لینے کی راہ اپنا رہے ہیں۔اب
بھی کچھ لوگ اس طرح کا احمقانہ پراپیگنڈہ کرنے کی کوشش میں ہیں۔کہ دنیا کی
طرف سے پاکستان پر دباؤ بڑھانے کے پیچھے نوازشریف کو ریلیف دلوانا ہے۔
ریاستی کمزوریوں کو تسلیم کرنے کی بجائے اس طرح کی طفل تسلیوں کو ہم نے
اپنا وطیر ہ بنا رکھا ہے۔
پاکستان میں قحط ارلرجال کا سا سماں ہے۔یہ دھرتی بنجر نہیں۔یہاں نہ ٹیلنٹ
کم ہے۔نہ شعور کی کوئی کمی۔مگر جانے کیوں مصنوعی طور پر قحط الرجال پیدا
کردیا جاتاہے۔قومیں لیڈر شپ سے آگے بڑھتی ہیں۔مگر ہمارے ہاں لیڈر مارنے کی
بری پریکٹس پائی جاتی ہے۔یہاں ایسا ماحول بنادیا گیاہے۔جہاں صرف بے ضرر اور
کمزور۔لولے لنگڑے۔لوگ آگے آسکیں۔اس طرح کی قیادت کو پسند بھی کیا
جاتاہے۔اور اسے قبول بھی کیاجاتاہے۔جب کسی لیڈر نے سر اٹھانے کی کوشش
کی۔اسے نشان عبرت بنادیا گیا۔تب تک کسی کو برداشت کیا گیا۔جب تک وہ کمزور
اور محکوم تھا۔جوں ہی قوم کا کوئی رہنما ذرا مضبوط ہوا۔اس کے پر کاٹنے کی
منصوبہ بندی ہونے لگی۔اس پریکٹس نے ہمیں خواہ مخواہ کی قحط الرجال میں
مبتلا کررکھاہے۔قدرت ہمیں قیادت عطاکرتی ہے۔اور کچھ لوگ اس قیادت کو کمزور
اور بے کار بنانے کی کوششوں میں لگ جاتے ہیں۔آج امریکہ ہمیں ایک بارپھر
ڈومور کو حکم دے رہا ہے۔مگر ہم ہیں کہ سوائے سر جھکائے جھڑکیاں سننے کے سوا
کچھ نہیں کرسکتے۔جن لوگوں کوآنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے کا حوصلہ
تھا۔ان لوگوں کو ہم نے ناپسندیدہ او رنااہل قرار دے دیا۔جو لوگ ہمیں محبوب
اور پسند ہیں۔وہ اتنی قابلیت نہیں رکھتے کہ امریکہ کوکوئی مناسب جواب دے
سکیں۔بھٹو اور نوازشریف کو راستے کا پتھر سمجھنے والوں کے لیے امریکہ
مطالبات لمحہ فکریہ ہیں۔انہیں سوچنا ہوگا۔کہ ریاست عزیزہے۔یا ان کے مفادات
مقدم ہیں۔بھٹو صاحب تو بدقسمتی سے ہاتھ سے نکل گئے۔مگر کیا نوازشریف کو بھی
کھوناہے۔کاش اس وقت کائی بڑا رہنما پاکستان کی قیادت کرہاہوتا۔نوازشریف کے
بارے میں مضطرب قوم یہ سمجھتی ہے کہ تیر کمان سے نکل چکا۔مگر اسے یہ بھی
گمان ہے کہ اب بھی صورت حال قابل اصلاح ہے۔اب بھی معاملات سمیٹے جاسکتے
ہیں۔تیر کمان سے نکلا ضرور ہے۔مگر وار ذرا ترچھا۔ہوگیا۔ قحط الرجال کے اس
مصنوعی جال کو لپیٹ دینا زیادہ مشکل بھی نہیں۔اور اس کی ضروت بھی پائی
جارہی ہے۔ کمان سے نکلے اس تیر کو قدرت نے حطا کرکے ایک موقع دیا ہے۔کیا
سوچنے والے اس کا فائدہ نہ اٹھائیں گے۔
|