اللہ تبارک و تعالیٰ نے بنی النوع انسان کی زندگی کو پانچ
حواسوں میں بنایا ہے، یہ پانچ حواس سننا، دیکھنا، چکھنا، چھونا اور سونگھنا
ہیں اور اللہ نے ان پانچ حواس کو متوازن مقداروں میں پیدا کیا ہے،آج میں
اپنے معزز قائرین کیلئے جس عنوان کو اپنے کالم کا حصہ بنا رہا ہوں وہ
پاکستان کی سیاست اور پاکستانی عوام کیلئے بہت اہم ہے، دور حاضر میں جس طرح
پاکستانی سیاستدانوں اور بلخصوص حکمرانوں نے عوام کی جانب منہ موڑ کر اپنے
خواہشات کی تکمیل کیلئے جس بے دردی سے قومی خذانے کی لوٹ مار کا بازار جاری
کیا ہوا ہے وہ دنیا کی کسی بھی ریاست میں اس کی کوئی مثال نہیں
ملتی،پاکستانی عوام کو قرضوں تلے جہاں دبوچ دیا گیا ہے وہیں معاشی قتل کا
لا متناہی سلسلہ بھی جاری کیا ہوا ہے،لوگوں کا ذریعہ معاش نہ ہونے کے برابر
ہے، ایک وقت کا کھانا ببھی بہت مشکل بنا دیا گیا ہے یہی وجہ ہے کہ جہاں
گداگری میں اضافہ ہوا ہے وہیں محنت و مشقت بھی بڑھ گئی ہے، کئی کئی گھنٹوں
کام کرنے کے باوجود بنیادی حقوق حاصل کرنا ایک جان جونکھوں کا حصہ بن گئی
ہے، عزت و آبرو کو محفوظ بنانا بڑا مشکل ہوگیا ہے ، زندگی گویا موت سے بھی
زیادہ مشکل بنادی گئی ہے،دنیا بھر میں کسی بھی ملک کی تباہی کیلئے آج کے
جدید دور میں جو آلہ کار سمجھا جاتا ہے وہ معاشی قتل کہلاتا ہے ، ملک کی
معاش کو تباہ کردیں تو وہ ملک خود با خودکمزور اور بے سود ہوکر رہ جاتا ہے،
پاکستان اُن بد قسمت ملکوں میں سے ایک ہے جہاں کے حکمرانوں نے عوام کی جان
و مال کو برباد کرنے کیلئے کوئی کسر نہیں چھوڑی، ان کے نذدیک عوام ان کی وہ
رعایا ہیں جوغلامی کی انتہائی حد پر قائم ہیں ، عوام الناس کو آپس
میںلڑاکر حکومت کرنا ان کا شیوہ رہا ہے ، خاص کر مورثی سیاست کا اس قدر
دباؤ رہا ہے کہ اپنی سیاسی و اقتداری طاقت کو کسی اور کی جانب جانے نہیں
دیتے اسی لیئے بد قسمتی سے ہمارے ہاں لایکشن نہیں سلیکشن ہوتے رہے ہیں ،
گاؤں گوٹھ کے دیہاتی اس قدر اپنے وڈیروں، چوہدریوں اور خان سے خوف زدہ
ہوتے ہیں کہ کہیں ان کے خاندان کو جانی نقصان سے دوچار نہ ہونا پڑے ،دوسری
جانب ان با اثر شخصیات کی نجی جیلیں بھی ہیں جن میں وہ اپنے ووٹروں کو
جانوروں سے بد تر حالات میں قید کرڈالتے ہیں ، یہ وہ ملک ہے جہاں پولیس اور
عدالتیں ثبوت در ثبوت طلب کرتے ہیں مگر یہ با اثر تمام ثبوت اپنی دولت اور
طاقت سے مٹادیتے ہیں ، ایسے غلام ملک میں سوائے چند شخصیات کے تمام لوگ
مصیبت زدہ زندگی گزارنے پر مجبور ہیں ۔۔۔معزز قائرین !! پاکستانی عوام جہاں
زندگی کی مختلف ضروریات کے حصول سے محروم ہیں وہاں زندہ رہنے والی قدرتی
نعمت پانی کیلئے سالوں سے پریشان حال ہے ، کراچی ،لاہور، پشاور، کوئٹہ،
فیصل آباد، سکھر، حیدرآباد سمیت ملک بھر کے ہر چھوٹے بڑے شہر صاف و شفاف
پانی کیلئے ترستے ہی ہیں ، فیکٹریوں میں بننے والے منرل واٹر پر زندگی
گزاری جارہی ہے جبکہ کھربوں نہیں نربوں کا بجٹ ہر سال نئے بجٹ میں پانی کی
سپلائی اور بہتری کیلئے منظور کیا جاتا ہے لیکن نجانے کون سے ہوا اسے اڑا
کے لے جاتی ہے، قومی خذانے اس مد میں خالی ہوتی ہیں مگر زمینی حقائق ان
معامالات پر خاموشی اختیار کرلیتے ہیں کیونکہ عملی اقدام کچھ نہیں ہوتا۔
پاکستانی تحقیقی اداروں کیساتھ بین الاقومی تحقیقی ادارے نے پاکستان کو
بآور کرادیا ہے کہ پاکستان میں پینے والا پانی مضر صحت ہی نہیں بلکہ جان
لیوا بن چکا ہے جس کی وجہ سے لاکھوں نہیں کڑوروں انسانوں کی جان خطرے میں
ہے۔کسی بھی پانی میں ایک زہریلا مادہ شامل ہوتا ہے جسے سنکھیا کہتے ہیں ،
ڈبلیو ایچ او کے مطابق دنیا بھر میں پندرہ کروڑ افراد کا انحصار زیر زمین
اس پانی پر ہے جس میں سنکھیا پایا جاتا ہے،ڈبلیو ایچ او کے معیار کے مطابق
ایک لیٹر پانی میں سنکھیا کی زیادہ سے زیادہ مقدار دس مائیکرو گرام ہونی
چاہیے جبکہ حکومت پاکستان کی جانب سے مقرر کردہ معیار کے مطابق یہ شرح پچاس
مائیکروگرام تک قابل قبول ہے۔۔۔تحقیق کے مطابق پاکستان کے مشرقی علاقوں یا
دریائے سندھ کے ساتھ میدانی علاقوں میں رہائش پذیر پانچ سے چھ کروڑ افراد
پینے کے لیے وہ پانی استعمال کر رہے ہیں جس میں حکومت کی مقرر کردہ مقدار
سے زیادہ سنکھیا ہو سکتا ہے۔۔سائنس دانوں نے ملک بھر میں مختلف مقامات سے
پینے کا صاف پانی نکلوں اور کنوؤں سے بارہ سو نمونے حاصل کیے اور شماریات
کا طریقۂ کار استعمال کرتے ہوئے نقشے مرتب کیے اور ان کی مدد سے اندازہ
لگایا کہ اس خطرے سے کتنی آبادی متاثر ہو سکتی ہے۔سنکھیا یا آرسنک دراصل
ایک معدن ہے، یہ بے ذائقہ ہوتا ہے اور گرم پانی میں حل ہوجاتا ہے اور ہلاک
کرنے کے لیے اس کے ایک اونس کا سوواں حصہ بھی کافی ہوتا ہے،طویل عرصے تک
سنکھیا ملا پانی استعمال کرنے کے نتیجے میں خطرناک بیماریاں لاحق ہو سکتی
ہیں،ان میں جلد کی بیماریاں، پیپھڑوں اور مثانے کا سرطان اور دل کے امراض
لاحق ہو سکتے ہیں۔۔محققین اور سائنسدانوں کے مطابق اس پانی سے تیار کی جانے
والی فصلیں اور پھل و سبزیاں بھی غیر موثر ہوجاتی ہیں جن سے بیماری کا
اندیشہ بڑھ جاتا ہے ،اب دیکھنا یہ ہے کہ حکومت وقت ،عوام کی جان و مال پر
صرف کرتی نظر آتی ہے یا پھر سابق نا اہل وزیر اعظم کی بحالی کیلئے جلسے و
جلوس پر اربوں روپے خرچ کرتی ہے، کراچی سمیت سندھ کے ہر بڑے شہر اس وقت
پاکستان کے پسماندہ ترین علاقہ کی عکاسی کرتے نظر آرہے ہیں ، سندھ بھر میں
سیاسی عدم استحکام پایا جاتا ہے ، سیاسی جماعتیں محدود ہو کر رہ گئیں ہیں ،
سندھ حکومت کسی ایک پیج پر نہیں ویسے بھی سندھ حکومت کے حکمراں و وزرا اپنی
بدعنوانیاں، کرپشن اور لوٹ مار کو چھپانے کیلئے مختلف حربے استعمال کر رہے
ہیں ، ایماندار اور سچے بیورو کریٹس ہوں یا عدل و انصاف پر قائم چیف جسٹس
انہیں کسی طور ایک آنکھ نہیں بنا رہے اس کی سب سے بڑی مثال آئی جی سندھ
اے ڈی خواجہ اورصوبائی وزیر داخلہ سہیل انور سیال کے مابین مسلسل اختلاف
جاری ہے ، آئی جی سندھ مکمل آئین و قانون کے مطابق کام کرنا چاہتے ہیں
جبکہ وزیر داخلہ سندھ اپنے خواہشات اور پارٹی کے احکامات کو سب سے زیادہ
مقدم سمجھتے ہیں جو نہ صرف سندھ بلکہ پاکستان کی سلاتی کیلئے شدید نقصان کا
باعث بن رہا ہے ! معزز قائرین! افسوس کا مقام تو یہ ہے کہ پاکستان کو بنے
ہوےت ستر سال سے زائد کا عرصہ بیت گیا لیکن فلاح کی جانب کوئی کام نظر نہ
آیا جو کام کیا ان میں یا تو کرپشن کا عنصر پہنا تھا یا پھر کمیشن کا جبکہ
ہونا تو یہ چاہیئے کہ پاکستان کو آگے لانے کیلئے قانون پر عملدآمد میں
کسی کو بھی استثنیٰ نہیں دینا چاہیئے ،یہاں تو آئین بنانے والے ہی آئین
کی دجھیاں بکھیرتے نظر آتے ہیں، یہاں تو قانون کے رکھوالے ہی قانون شکنی
پر اترے ہوئے ہیں تو پھر عوام کا کیا حال ہوگا۔۔۔معزز قائرین!! پی ایم ایل
این، پی پی پی، پی ٹی آئی، اے این پی، جے یو آئی ف،ایم کیو ایم سمیت کون
سی ایسی سیاسی جماعت ہیں جن کو عوام کہ سکیں کہ انہوں نے اپنا حقیقی حق ادا
کیا لیکن افسوس انہیں اپنے اقتدار کی ہوس نے اس قدر اندھا کیا ہوا ہے کہ
بار ہا بار جھوٹ، فریب، دھوکہ دیتے رہے ہیں ، صوبائی سطح ہو یا وفاق کسی
طور قومی خزانے کو بے دردی سے لوٹا جاتا رہا ہے ، کمزور اپنے حق سے محروم
جبکہ طاقتور ظلم کرنے سے باز نہیں۔!معزز قائرین!! اللہ نے اس وطن عزیز کو
ہر نعمت سے نواز ہے مگر ہمیں بے ایمان اور جھوٹے سیاستدان و حکمران ملے ہیں
، کاش کہ کوئی ایسا ایماندار پاکستانی حق و چس کیلئے اٹھ کھڑا ہو جسے واقعی
اس سر زمین پاکستان سے لگاؤ ہو اور اپنی قوم کیلئے بغیر کسی اقتدار اور
ہوس کے خالصتاً خدمت کا جذبہ ہو تاکہ وہ اپنے قلم اور حکم سے بگڑتے ہوئے
نظام کو سدھار سکے ، یاد رکھنے کی بات ہے کہ بڑی سے بڑی مشکل، بڑا سا بڑا
امتحان بھی ایمانداری و سچائی و خلوص سے حل ہوجاتا ہے لیکن بے ایمانی سے
زرہ برابر بھی پہاڑ بن کر رہ جاتے ہیں ، اسلامی جمہوریہ پاکستان کی سلامتی
و ترقی کیلئے لازم و ملزوم ہے کہ سیاستدانوں کی اسکروٹنی کرنی چاہیئے، ان
کا سخت سے سخت ترین احتساب کیا جانا چاہیئے، سابق صدر آصف زرداری اور سابق
وزیراعظم میاں نواز شریف ،ایم کیو ایم سمیت تمام وزرا سے لوٹی ہوئی قومی
دولت واپس لینی چاہیئے، تب کہیں جاکر ہم ہر مشکل و پریشانی سے چھٹکارہ حاصل
کرسکیں گے کیونکہ ایک اندازے کے مطابق سیاسی جماعتوں کے سربراہوں، اراکین
اور وزرا کی دولت بیرون ملک غیر قانونی طریقہ کار سے منتقل کی گئی ہے اگر
یہ قومی دولت واپس لائی جائے تو ہر پاکستانی بغیر روزگار کے ہر ماہ ڈھائی
لاکھ گھر بیٹھے حکومت سے حاصل کرسکتا ہے لیکن ان مکاروں نے اس عوام کو ننگا
بھوکا رہ دیا ہے اور خود عیش و تعائش کررہے ہیں اب وقت آگیا ہے کہ عوام ان
سب کا کڑا احتساب کریں بصورت یہ جھوٹے سیاسی رہنما ہمیشہ کی طرح عوام کو
اپنا غلام بنائے رکھیں گے ۔۔۔ اللہ پاکستان کی حفاظت فرمائے، پاکستان زندہ
باد، پاکستان پائندہ باد۔۔۔۔۔!! |