عوام کو ہمیشہ حقیقت سے دور رکھنے کی کوشش کی جاتی رہی آج
کی سب سے بڑی بحث اس مبینہ سازش اور اس کے پیچھے چھپنے والوں سے متعلق جاری
ہے۔جونوازشریف کو وزارت عظمی سے بے دخل کرنے سے متعلق کئی گئی۔کے یہ سوالات
اسی کوشش کا ایک حصہ ہیں۔اس بحث کے دوران جب کچھ لوگ بھولپن کا اظہار کرتے
ہیں۔تو حیر ت ہوتی ہے۔نہ گلہ کرنے والے کچھ بتانے کی زحمت کررہے ہیں۔نہ
سننے والے اپنا چسکہ پروگرام ترک کرکے سنجیدگی اپنانے پر آ؎مادہ
ہیں۔بدقسمتی سے یہ غیرسنجیدہ اور لاابالی پن کا سلسلہ نیا نہیں۔بڑا پرانا
ہے۔اس کی ایک مثال میر ظفر اللہ جمالی صاحب ہیں۔کیا انہیں ندازہ نہ تھا۔کہ
انہیں پارلیمنٹ میں حمایت حاصل نہیں ہے۔اگر وہ ایمانداری سے کام لیتے تو ان
کے پاس دو ہی راستے تھے۔یا تو ایسی حکومت سے منہ موڑ لیتے جو مانگی تانگی
ہو۔جہاں کسی اور کے اشارے پر ممبران انہیں اعتماد کا ووٹ دینے آئیں۔انہوں
نے منہ نہیں موڑا۔اب دوسرا راستہ یہ تھا۔کہ وہ اپنا ضمیر او رانا فراموش
کردیتے۔کولہوکے بیل کی طرح رواں دواں رہتے۔مت دیکھتے کہ دائیں بائیں کیا
ہوارہاہے۔کون کھڑا ہے۔کون کیا کررہاہے۔جمالی صاحب سے یہ بھی نہ ہوسکا۔جب وہ
رخصت ہوئے تو ایک سو بہتر ممبر ان اسمبلی میں سے ایک آدمی بھی انہیں الوداع
کرنے نہیں آیا جن کی طرف سے انہیں اعتماد کا ووٹ ملا تھا۔انہوں نے خود اپنا
بیگ اٹھایا۔گاڑی میں بیٹھے او رایوان وزیر اعظم سے رخصت ہوگئے۔یہ میر
ظفرللہ جمالی صاحب آج تک اپنے خلاف سازشیں ہونے کا رونا رورہے ہیں۔مگر نہ
سازشی ملا۔نہ سازش کے تانے بانوں کی کچھ خبر ہوسکی۔
جمہوریت کے خلاف سازشوں کا مسلم لیگ ن کی قیادت مسلسل ذکر کررہی ہے۔بالخصوص
میاں صاحب کی نااہلی کا فیصلہ آنے کے بعد اس موضوع پر بہت زیادہ بولا جارہا
ہے۔اعلی سطحی قیادت اپنے ہر خطاب میں کسی ایسی سازش کاحوالہ ضرور دیتی
ہے۔جو ا س پارٹی کے وزیر اعظم کی نااہلی کا سبب بنی۔اپوزیشن مسلسل لیگی
قیادت سے اس سازش کی تفصیل معلوم کرنا چاہ رہی ہے۔مگر نہ لیگی قیادت کھل کر
کچھ بتانا چاہ رہی ہے۔او رنہ ہی اپوزیشن والے از خود کچھ سمجھنا چاہ رہے
ہیں۔چئیرمین پی پی بلاول بھٹو زرداری نے بھی ایک پریس کانفرنس میں اس سازش
کے متعلق بھولپن کا اظہارکیا۔فرماتے ہیں کہ میاں صاحب خطرہ جمہوریت کو نہیں
آپ کو ہے۔اب مذاکرات تو کیا آپ کا فون بھی نہیں سنیں گے۔ہر تقریر میں توہین
عدالت کرتے ہیں۔ان کے خلاف کیس کیوں نہیں بنتا۔نوازشریف کو بھٹو کی مظلومیت
کے پیچھے نہیں چھپنے دیں گے۔بلاول بھٹو زرداری صاحب نے غالبا حالات سے
سمجھوتہ کرنے کا ذہن بنالیاہے۔پارٹی کے اندر ایک واضح اکثریت طرز کہن پر
اڑی ہوئی ہے۔بلاول بھٹو زرداری نے اپنے تئیں تطہیر کی بڑی کوشش کی۔مگر یہ
طرز کہن کی تمنا رکھنے والے لوگ زرداری باوا کی شہ پر ڈٹے رہے۔اور بالاخر
بلاول کو ہی پسپائی اختیار کرناپڑی۔اب وہ یہی بولی بول رہے ہیں۔جو آج کی پی
پی کی بولی ہے۔طرز کہن اختیار کرنے والون کا فلسفہ یہی ہے کہ ہم نے
پرفارمنس سے نہین۔ٹھگ بازیوں سے میدان مارناہے۔گفتارکے غازی بنناہے۔دوسروں
کے کارناموں کو ہیچ ثابت کرنا اور اپنے کوتاہیوں کو کارنامے تسلیم کرواناہے۔
بلاول صاحب جمہوریت کے خلاف سازشوں کو مستردکرکے حقیقت کو جھٹلانے کی غلطی
کررہے ہیں۔مگر شاید ان کے پاس کوئی اور آپشن بچاہی نہیں۔وہ بھلے ہی میاں
صاحب کی بات نہ کریں مگر کیا وہ دل پر ہاتھ رکھ کر یہ بات تسلیم کرلیں
گے۔کہ ان کی پارٹی کی پچھلے پانچ سال کی پرفارمنس قابل رشک ہے۔کیا یہ ایسی
پرفارمنس ہے کہ اس کی بنیادپر آنے والے الیکشن میں سینا تان کر اترا
جاسکے۔آپ نوازشریف سے مذاکرات تو کیا فون نہ سننے کا عزم کیے بیٹھے ہیں۔مگر
کیا اس طرح آپ اپنے لیے ہی کانٹے نہیں بورہے۔نوازشریف کی موجودہ جدوجہد کا
سنگل ایجنڈہ جمہوریت کو مضبوط کرنا ہے۔وہ ایسی جمہوریت کا وجود چاہتے
ہیں۔جہاں عوامی نمائندہ مکمل بااختیارہو۔جہاں کسی طرف سے یہ پرچی نہ آئے کہ
فلاں بندہ آپ کا وزیرخاجہ ہوگا۔اور فلاں وزیر دفاع۔ اس جمہوریت میں عوام کی
بالادستی ہوگیا۔اور اس کے چنے لوگ سپریم۔بلاول صاحب کہ رہے ہیں کہ خطرہ
جمہوریت کو نہیں نوازشریف کوہے۔ایسی بات نہیں نوازشریف شاید ایک آدھ ٹرم
اور سیاست کرلیں۔اصل مسائل ان جمہوری نمائندوں کودرپیش آئیں گے۔جو اگلی
حکومتیں بنائیں گے۔ پی پی باربار سازشیں کون کررہاہے۔سازش کیا ہے۔کی گردان
رٹ رہی ہے۔آنکھوں دیکھابھی نہ ماننا۔سیدھی سادی بات کو گھما پھراکر کرنے کی
شعبدے بازیوں کو طرزکہن والے ترک نہیں کرنا چاہتے۔ان کی سوچ صحیح
نہیں۔بلاول کی پارٹی خوب سمجھتی ہے کہ معاملات کیا ہے۔کیا ہورہاہے۔کیوں
ہورہاہے۔مگرپی پی کلچر میں سمائی رنگ بازی انہیں سچ او رحقیقت کا اعتراف
کرنے سے باز رکھ رہی ہے۔سازشیں کیا ہیں۔کون کررہاہے۔یہ ایک ایسا اوپن سیکرٹ
ہے۔جسے سب جانتے ہیں۔اور خاموش ہیں۔نوازشریف یہ خاموشی توڑنے کی کوشش میں
ہیں۔مگر کوئی ترتیب نہیں بن پارہی۔بلاول یاد رکھیں جس دن خاموشی ٹوٹ گئی۔ا
س دن کے بعد یہ سیکرٹ رہے گانہ سیکرٹ کے پیچھے چھپنے والے۔ |