۶ ستمبر ۱۹۶۵ء کی صبح ہندوستان کی فوجوں نے پاکستان کی
سرحد عبور کی اور ایک اور ایک بھر پور حملے کی نیت سے لاہور کی طرف پیش
قدمی شروع کی۔ہندوستانی فوج کے افسران اس زعم میں تھے کہ وہ ۶ ستمبر کی شام
تک بی آر بی نہر کو عبور کر کے لاہور شہر پر اپنی گرفت مضبوط کریں گے اور
شام کو جمخانہ کلب لاہور میں جشن فتح منائیں گے۔تاہم پاکستانی فوج کے شیر
دل جوانوں اور زندہ دلانِ لاہور نے دشمن کے اس منصوبے کو خاک میں ملا
دیا۔ہندوستانی فوج کی راہ میں دیوار بننے والا پہلا مجاہد میجر عزیز بھٹی
تھا جس نے بی آر بی نہر پر ہندوستانی فوج کو ناکوں چنے چبوائے۔اگلے دن ۷ستمبرکو
سکوارڈن لیڈر ایم ایم عالم نے رہی سہی کسر نکال دی۔سکوارڈن لیڈر ایم ایم
عالم نے سرگودھا ایئر بیس پر حملہ آور ہونے والے دس ہندوستانی طیاروں میں
سے پانچ کو صرف ۳۰ سیکنڈز میں تباہ کر کے عالمی ریکارڈ قائم کر دیا۔۷ ستمبر
کو پاک فضائیہ نے دشمن کے ۵۳ طیارے تباہ کر کے ناقابلِ شکست فضائی برتری
حاصل کر لی تھی۔اہلِ لاہور نے اس مشکل گھڑی میں اپنی فوج کا ساتھ دیا اور
ان کے شانہ بشانہ لڑتے رہے۔ ۱۹۷۱ء میں ایک دفعہ پھر دشمن نے پاکستان پر
وار کیا اور ہمارا ملک دو لخت ہوگیا۔ہندوستان کے خلاف لڑی جانے والی دونوں
جنگوں میں پوری پاکستانی قوم نے بے مثال اتحاد و یگانگت کا مظاہرہ کیا۔ہر
طبقے کے افراد اپنی افواج کے حوصلے بڑھانے میں پیش پیش تھے۔ادبی محاذ پر
شعراء وادباء نے اپنے اپنے مورچے سنبھال لئے اور ان کے قلم دشمن کے لئے
تلوار بن گئے۔ایسے میں عساکرِ پاکستان سے تعلق رکھنے والے اہلِ قلم کو
دوہری ذمہ داریاں نبھانا پڑیں۔ایک طرف وہ محاذِ جنگ پر مصروف ِ عمل تھے اور
دو سری طرف قلمی جہاد جاری رکھے ہوئے تھے۔نظم ونثر میں عساکرِ پاکستان کے
اہلِ قلم نے اپنے جذبات کا بھر پور اظہار کیا تاہم فی الوقت ہم جنگِ
ستمبر۱۹۶۵ء اور سقوطِ ڈھاکہ کے تناظر میں لکھی گئی عسکری شعراء کی رزمیہ
شاعری کا جائزہ لیتے ہیں۔اس قلمی محاذ پر جو شاعر پیش پیش تھے ان میں ایک
نام جعفر طاہر کا ہے۔جعفر طاہر نامور شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ عساکرِ
پاکستان میں ایک طویل عرصہ خدمات انجام دیتے رہے۔آپ۳۱ مارچ ۱۹۴۳ء کو فوج
میں بھرتی ہوئے اور ترقی کرتے کرتے کپتان(اعزازی)کے عہدے تک پہنچے۔جنگ ِ
ستمبرکے دوران آپ ملازمت میں تھے۔آپ نے ایک طرف عملی طور پر جنگ میں حصہ
لیااورد وسری طرف اپنے ساتھیوں کے جذبات کو اُبھارنے میں مصروف رہے۔لاہور
کی حفاظت کے حوالے سے آپ کی نظم کا ایک بند ملاحظہ ہو:
لاہور کی حفاظت مولا علی ؓکرے گا
دشمن کرے برائی داتا بھلی کرے گا
یہ صر صرِ اجل ہے یہ گردِ خانقاہی
یہ ایک سو سپاہی،یہ شیر دل الہیٰ
سراج الدین ظفر اپنے جدا گانہ اسلوبِ بیان کی وجہ سے اردو شاعری میں ایک
منفرد مقام کے حامل ہیں۔آپ پاک فضائیہ میں فلائیٹ لیفٹیننٹ کے عہدے پر فائز
تھے۔سراج الدین ظفرنے برطانوی فضائی فوج میں کمیشن حاصل کیااور ۱۹۵۰ء تک
فضائیہ سے وابستہ رہے۔ دوسری جنگ عظیم میں برما کے محاذ پر بڑی بہادری سے
لڑے اور کار ہائے نمایاں سر انجام دیئے ۔اگرچہ آپ جنگِ ستمبر کے دوران
ملازمت میں نہیں تھے لیکن آپ نے اس کٹھن دور میں اپنے ساتھیوں کے حوصلے
بڑھائے۔آپ کی ایک طویل نظم ’’شہیدانِ وطن‘‘ کا ایک ٹکڑا ملاحظہ ہو:
دبے ہیں جو تیرے سینے میں اے زمینِ وطن
تجھے بھی یاد ہیں وہ غازیانِ شعلہ نوا
وہ تیرے درد کشانِ شراب ِآزادی
وہ تیرے خلوتیانِ نگار خانہ زاد
وہ جن کے خون سے سینچے گئے ترے ذرّے
وہ جن کے ہوش سے کانپے ترے نشیب وفراز
وہ جن کی موت نے کی پیش شہرت ابدی
وہ جن کو عشق کی درگاہ سے ملا اعزاز
سیدعبد العلی شوکت پاک فضائیہ میں سکوارڈن لیڈر کے عہدے پر فائزتھے اور
عمدہ شعری ذوق رکھتے تھے۔آپ نے مئی ۱۹۴۸ ء میں پاک فضائیہ کے شعبۂ تعلیم
میں بحیثیت انسٹرکٹربھرتی ہو کر اپنی ملازمت کا آغاز کیا اور ترقی کرتے
کرتے ۱۹۵۹ء میں کمیشنڈ افسر بن گئے۔جنگ ستمبر کے دوران آپ انٹر سروسز
سلیکشن بورڈ میں بطور ماہر نفسیات تعینات تھے۔آپ جنوری ۱۹۸۴ء میں سکوارڈن
لیڈر کی حیثیت سے ریٹائر ہوئے۔آپ نے پاک فضائیہ کے شاہینوں کو اپنی نظم
’’مجاہدین پرفشاں‘‘ میں یوں خراج تحسین پیش کیا:
مجاہدین پر فشاں، بلندیوں کے شہسوار
بعزم جزم و بالیقیں، ہیں عظمتوں کے شاہکار
دیارِ پاک پر بقلب وجان وجسم ہیں نثار
ہیں وسعتیں ہی وسعتیں مکاں سے لا مکان تک
اُڑے چلو اُڑے چلو زمیں سے آسمان تک
منیرنیازی کو بحیثیت شاعر کون نہیں جانتا لیکن یہ بات بہت کم لوگ جانتے ہیں
کہ منیر نیازی قیام ِ پاکستان سے قبل رائل نیوی میں سیلر بھرتی ہوئے
تھے۔اگرچہ آپ نے بہت کم عرصہ نیوی میں گزارا تاہم آپ کا نام عساکرِ پاکستان
کے اہل قلم میں شامل ہے۔ منیر نیازی نے بھی دیگر شعراء کی طرح جنگِ ستمبر
کا گہرا اثر قبول کیا۔آپ نے پاکستان کے شہروں کو جنگ کی ہولناکیوں سے محفوظ
رکھنے کی دعائیں مانگیں۔وہ اپنی نظم’’اپنے شہریوں کے لئے دعا‘‘ میں یوں رقم
طراز ہیں۔
پاکستان کے سارے شہرو زندہ رہو پائندہ رہو
روشنوں رنگوں کی لہروزندہ رہو پائندہ رہو
عظمت وہیبت کی دیواروزندہ رہو پائندہ رہو
ارضِ خدا پر مہکتے باغوزندہ رہو پائندہ رہو
حق کی رضا ہے ساتھ تمہارے زندہ رہو پائندہ رہو
میری وفا ہے ساتھ تمہارے زندہ رہو پائندہ رہو
سید ضمیر جعفری عساکرِ پاکستان کے نمائندہ شعراء میں سے تھے۔آپ نے فوج میں
ملازمت اختیار کی اور میجر کے عہدے تک ترقی پاکر ۱۹۶۶ء میں ریٹائرہوئے۔جنگ
ستمبر ۱۹۶۵ء کے حالات و واقعات کو آپ نے اپنی آنکھوں سے دیکھا اور محسوس
کیا۔۱۹۷۱ء میں بھی آپ نے دورانِ جنگ نہ صرف اپنے جوانوں کے حوصلے بڑھائے
بلکہ دشمن کی بھر پور طریقے سے ہجو نگاری بھی کی۔۱۲،جون ۱۹۷۱ء کوکمال
پور(مشرقی پاکستان) میں قائم پاکستانی فوج کے کیمپ پر مکتی باہنی نے حملہ
کر دیا۔اس سیکٹر پر ہونے والی لڑائی میں ضمیر جعفری شجاعت و بہادری کا
مظاہرہ کرنے والے جوانوں کو کیسے خراجِ تحسین پیش کرتے ہیں ملاحظہ ہو:
کمال پور کا دلیر دستہ وہ شیر لشکر کا شیر دستہ
غنیم کی در کشادہ توپوں کے سر پہ تلوار بن گئے تھے
زمیں کی شمعو،گواہ رہنا،فلک کے تارو گواہ رہنا
وفا کے بیدار منزلوں میں،غنیم کے سرد مقتلوں میں
ہماری تاریخ کی شفق رنگ یاد گارو گواہ رہنا
ہمیشہ روشن ہمیشہ زندہ،کمال پور کا دلیر دستہ
۱۹۷۱ء کی جنگ میں سلیمانکی سیکٹر پر گھمسان کا رن پڑا۔ میجر شبیر
شریف(نشانِ حیدر)نے ۳۰ فٹ چوڑی اور ۱۰ فٹ گہری نہر کو دشمن سے لڑتے ہوئے
عبور کیا اور دشمن کے علاقے میں بچھی بارودی سرنگوں سے ہوتے ہوئے دشمن کو
جالیا۔ بھارتی فوج کے میجر نارائن سنگھ کو دست بدست لڑائی میں واصلِ جہنم
کرنے کے بعد اس کے قبضے سے اہم دستاویزات حاصل کرکے اس سیکٹر کی جنگ کا
نقشہ بدل ڈالا۔اس سیکٹر پر ہونے والی لڑائی پر صوبیدار افضل تحسین نے ایک
خوبصورت نظم تخلیق کی۔صوبیدار افضل تحسین اُ ردو زبان کے ایک
ممتازشاعر،ادیب،مزاح نگار ،مترجم اور صحافی تھے۔آپ کی نظم کا عنوان ’’معرکۂ
سلیمانکی‘‘ ہے۔ اس نظم کا کچھ حصہ ملاحظہ ہو:
مرے ندیمو مرے رفیقو
یہ پاک کشور کے سرفروشوں کی جرأت انگیز داستاں ہے
جہاں تھی مضبوط قلعہ بندی جہاں پہ مٹی کے تودوں کی تھی کھڑی بلندی
جہاں مزاحم رکاوٹیں زیرِ آب بھی تھیں
یہیں پہ راجہ نے اور عدالت نے اپنی دکھلائی تھی شجاعت
بنائی توپوں کی خوب دُرگت،دلاوری کا عجیب منظر جہاں نے دیکھا
یہیں پہ شبیر کو ملی نعمتِ شہادت،بنا جہاں وہ عظیم تر مظہرِ قیادت
ونگ کمانڈر رحمان کیانی کی رزمیہ نظموں نے ۱۹۶۵ء کی جنگ میں عالم گیر شہرت
حاصل کی۔آپ اعلی پائے کے شاعرہونے کے ساتھ ساتھ پاک فضائیہ میں افسر بھی
تھے۔آپ نے ۱۹۴۳ء کو برطانوی فوج میں ملازمت اختیار کی اورقیام پاکستان کے
بعد پاک فضائیہ کا حصہ بنے۔۱۹۶۵ء کی جنگ میں آپ نے اپنی افواج کے حوصلے
بڑھانے کے لئے خوبصورت نظمیں تخلیق کیں۔آپ کا اندازِ بیاں جو نہایت پُر اثر
تھا ملاحظہ ہو:
خوش بیاں شاعرو خوش نوا مطربو
تم بھی شامل ہماری دعا میں رہو
حق و انصاف کی ہر لڑائی میں ہم
بحر وبر اور فضا کے سپاہی بہم
ملت پاک کی سرزمیں کے لئے
دین فطرت کی فتح مبیں کے لئے
جان دیتے رہیں سر کٹاتے رہیں
ہم شہادت کے انعام پاتے رہیں
اور تم شاعرو مطربو دوستو
کارنامے ہمارے سناتے رہو
گیت لکھتے رہو گیت گاتے رہو
عساکرِ پاکستان کے شعراء نے ایک طرف عملی طور پر جنگ میں حصہ لیا اور دوسری
طرف انہوں نے پاکستان کی جغرافیائی سرحدوں کی بھی نہایت احسن طریقے سے
حفاظت کی۔بقول پروفیسر کلیم احسان بٹ’’قیام پاکستان کے بعد جب اردو ہماری
قومی زبان قرار پائی تو یہ ذمہ داری بھی ہماری سرحدوں میں داخل ہوگئی۔افواج
پاکستان جہاں جغرافیائی سرحدوں کی پاسبانی کا فریضہ انجام دیتی ہیں وہاں
نظریاتی سرحدوں کے تحفظ میں بھی ہمارے برابر کی شریک ہیں۔‘‘عساکرِ پاکستان
کے اہلِ قلم ماضی میں بھی یہ فریضہ انجام دیتے رہے ہیں اور آج بھی دہشت
گردی کے خلاف جنگ میں ان کی تلواریں اور قلم یکساں طورپرمحوِ حرکت ہیں۔
یوں تو ہم لوگ بلانے پہ بھی کم بولتے ہیں
پر جہاں کوئی نہیں بولتا ہم بولتے ہیں
گُنگ ہو جاتے ہیں جب شعلہ نوا بھی خالدؔ
اُس کڑے وقت میں ہم اہلِ قلم بولتے ہیں
|