اکیسویں صدی کی دوسری دہائی کے اس ما بعد جدید تناظر
میں پروفیسر رتن لعل ہانگلو ایک قابلِ ذکر و فکر دانشور نظم نگار ہیں۔انھوں
نے زندگی کے نِت نئے نئے تجربات و مشاہدات اور
جذبات و احساسات کو نظمیہ شاعری کے پیکر میں ڈھال کر نہایت ہی فنّی بصیرت
اور فنّی ذہانت کے ساتھ بہت ہی سادہ ،سلیس اور آسان زبان میں ہمارے سامنے
پیش کیا ہے۔ آپ بیتی کو جگ بیتی بنا کر پیش کرنے کا ہنر پروفیسر رتن لعل
ہانگلو بخوبی جانتے ہیں۔ ان کی نظمیہ شاعری میں غیر معمولی مُورِّ خانہ
سماجیاتی بصیرت، گمبھیر سنبھلی ہوئی شعریت اور نازک ترین دردمندانہ انسانی
حِسیت روشن ، منّور اور فروزاں ہے۔
’’رحمتِ باراں‘‘ اگر آئے تو پھر نکھرے چمن
’’کوئی پَو پھوٹے کہیں سے، ہے تتلیوں کو انتظار
(میرا ہندوستان)
ان کی نظمیہ شاعری رحمتِ خُدا وندی، فطرت کی چمن پسندی اور انسان دوستی کی
حسین و زرّیں سازینہ ہے۔ سِمفُنی ہے جو ہمہ جہت نا اُمیدی کے بجائے اُمید
پسندی، ہمہ رُخی نفرت کے بجائے دِلنواز محبّت آفرینی، ہمہ پہلو بے یقینی کے
بجائے غیر معمولی یقین آفرینی اور ایمان افروزی کی زمزمہ سنج ہے۔
’’سازِ نغمہ‘‘ لے کے اب محفل میں گاؤں غزل
’’داستانِ گلستاں‘‘ ہے چشمِ نم اب زار زار
پھر سے پر پھیلا کے ٹِہنی کا سہارا لے کے سب
شوق سے اب چہچہائے، گنگنائے بار بار
پو پھوٹنا ،’تتلیوں کا انتظار کرنا، شاعرِ خُوش نوا کا ساز نغمہ لے کر
گلستاں میں گانا اور بُوستاں کے چشم نم کو پونچھنا اور پرندوں کو ذوق و شوق
سے چہچہانے اور گنگنانے کی دعوتِ تخلیق، تشکیل اور تعمیر میں غیر معمولی
تصوّرِ حسن، تصوّرِ صداقت اور تصوّرِ نور کار فرما ہے۔ اس نظم میں دانشور
شاعر کی غیر معمولی دردمندانہ وطن دوستی ہی نہیں، انسان دوستی اور آفاق
دوستی پوشیدہ ہے۔
پروفیسر رتن لعل ہانگلو کی بیک وقت دانشورانہ شاعرانہ ’’حسرتیں‘‘ میں ہر
جگہ خوابناک، تعمیر پسند ، مستقبل بیں اور مُستقبل جُویا ’’دوسری دُنیا‘‘
کا دیدہ ورانہ رُویا (VISION) حُسن آرا اور معنی آرا ہے۔ ہانگلو اپنے سماج،
تہذیب، ثقافت اور تواریخ کی اس ٹھوس مادّی دُنیا کے عام آدمیوں کے مانند
آنکھیں موندے سرسری نہیں گزرتے ہیں جیسا کہ خُدائے سُخن میرؔ نے فرمایا ہے:
سرسری ہم جہان سے گزرے
ورنہ ہر جا ’’جہانِ دیگر‘‘ تھا
وہ محض تواریخ داں، تہذیب داںِ ، ثقافت داں ہی نہیں بلکہ ایک مسلسل تبدیلی
پسند، مستقبل بیں، مستقبل شناس اور مستقبل سنج دانشور سخنور بھی ہیں۔ ان کی
نظم نگاری میں اعلیٰ سنجیدگی، تہذیبی کیف و کم اور غیر معمولی فکریاتی
وِقار و وزن ہے۔ ان کی رمزیاتی نظمیہ شاعری کی رَینج نہایت وسیع اور رفیع
تر ہے۔ وہ مُقامیت، علاقائیت سے گزر کر بے اِختیارانہ آفاقیت سے ہمکنار ہو
جاتے ہیں۔ ان کا وسیع اور رفیع تر دانشورانہ شاعرانہ خوابِ عرفان (VISION)
ان کے بیکراں ذاتی غم و الم کا اِرتفاع کر اس کو نہایت حَسّاس درد مندانہ
سطح پر آفاقی(UNIVERSAL) بنا دیتا ہے۔ ان کی ذاتی کہانی رام کہانی بن جاتی
ہے۔ ’’رُودادِ جہاں‘‘ بن جاتی ہے :
میں بڑا ساگر نہیں، ’’ندی کی پیاس‘‘ ہوں
ایک گرتے اشک کے پیچھے ، بُنا احساس ہوں
’’ندی کی پیاس‘‘ اور ’’ایک گرتے اشک ‘‘کے پیچھے کار فرما شدید احساس کی
بُناوٹ (TEXTURE)اور َبناوٹ (STRUCTURE)کے باعث ان کی غیر معمولی
ہمدِلی(EMPATHY) ، ہم روحی، ہم جانی اور ہم قلبی شِراکت اور رِفاقت کی
توفیق (GRACE) کو خاطر نشیں کیجئے:۔
دوستو ! مذہب بھی ہے اپنی جگہ
انسانیت کو بھی جگہ اب دیجئے
ہے بڑی تہذیب گنگا کی،اِدھر
دیش کا ہی آبِ زم زم پیجئے
اس مُثبت(POSITIVE) ذہنی رواداری، کشادہ دلی اور زندگی باری کے انسان نواز
رویّہ اور انسانیت پرور برتاؤ کا امین ان کا نظمیہ حسن پارہ ’’یہ زندگی‘‘
کا اولین بے ساختہ غَنائیت آفریں مصرعہ ہی حسّاس اور صاحبِ دل قاری کو بیک
وقت ذہنی اور قلبی کیف سرمدی عطا کرتا ہے۔
ــ’’لے پکڑ اب جام اور اب تھام لے یہ زندگی‘‘
’’یہ زندگی‘‘ کے مزید معنی آگیں اور چشم کُشا دو بند آپ بھی خاطر نشان
فرمائیے اور خصوصی طور پر آزاد نظم کی ہِئیتی اور ساختیاتی نُدرت آفرینی سے
لطف اندوز ہوئیے۔ وہ تخلیقیت آفریں، تخلیقیت پرور اورتخلیقیت افروز تجربہ
پسند شاعر ہیں جو ہزار شکستِ خواب کے باوجود ایک اور خواب دیکھنے کا حوصلہ
رکھتے ہیں۔
لے پکڑ اب جام اور اب تھام لے یہ زندگی
کون سی جنّت میں جائیں، کیسے دوزخ میں مریں
یہ خیالوں کی وراثت لے کے ہم کب تک جیئں
کس کو سمجھاتے پھریں، بدنام ہے یہ زندگی
لے پکڑ اب جام اور اب تھام لے یہ زندگی
کیوں کوئی مر جائے اس عالم میں اے عالم پناہ
بے گناہ بیزار ہے، بے عار کیوں ہوتے فنا
تیری دُنیا میں صرف قِمام ہے یہ زندگی
لے پکڑ اب جام اور تھام لے یہ زندگی
اُن کی نظم ’’دُنیا‘‘ کا یہ بر جستہ بے پناہ حسین و زرّیں مصرعہ بے اختیار
حَسّاس روح کا زندہ اور دھڑکتا ہوا حصّہ بن جاتا ہے اور صرف دُنیا ہی نہیں
بلکہ ماورائے دُنیا کے جحابات کو اُٹھا دیتا ہے:
’’یہ دُنیا صرف ایک محض رقص گھر ہے‘‘
ہانگلوصاحب کی نظمیہ شعریات محض کشمیر یات اور جمالیات کو ہی برافگنئدۂ
نقاب نہیں کرتی ہے بلکہ قدریات(AXIOLOGY)، علمیات (EPESTIMOLOGY)،
وجودیات(EXISTENCE) اور عرفانیات(ONTOLOGY) کا اشارہ کُنندہ ہے۔ اس ضمن میں
’’وقت‘‘، ’’اے روشنی‘‘،’’احساس‘‘،’’سُراب‘‘،’’پیلا رنگ‘‘ اور ’’کیوں ؟
قابلِ قدر اور قابلِ مُطالعہ منظومات ہیں۔
وہ تھکے بازار اور بے انتہا دشت کار
وہ علم و ہنر اور وہ قومی صلاح کار
وہ آزاد سوچ اور نو جوانِ ہمت دار
وہ صلاحیتیں اور وہ بلند کردار
کیا ہوا !
بس سب کے سب دب گئے ایک پیلے رنگ کے تلے
(پیلا رنگ)
خاک تو خاک ہے لیکن ہے مُیسّر سب کو
اس لئے ہم کو موتیوں کی مالا بنانا کیوں ہے؟
کیا کہیں بِکتا ہے ’’برداشت‘‘ دلاؤ ہم کو
ورنہ ہم کو بھی بتاؤ، خود کو بھلانا کیوں ہے
(کیوں؟ )
آشنا ہو تم میرے جلوؤں کے بعد اے روشنی
تو کہاں تھی اور کہاں ڈھونڈھا تجھے اے روشنی
تم اندھیروں کو سمیٹو اپنے دامن میں کبھی
پھر نظر آ جائیں گے ابھرے دبے اے روشنی
ویسے تو کالی گھٹائیں دہر میں چھائی رہیں
کر گئی مجھ کو منور بس خیالِ روشنی
جب پڑی اس پری پیکر پہ میری ایک نظر
سبز رنگی کر گئی صحرا کو تو اے روشنی
(اے روشنی)
اُن کی ’’فریب شکستگی‘‘ کی حامل نظمیہ صداقت پارہ ’’میرا جشنِ وفات‘‘
وجودیات اور عرفانیات کا مکاشفہ ہے۔ بند نلاحظہ فرمائیں:
کوئی نہیں تھا میرے سوا میرے کفن کے ساتھ
سب لوگ کیوں منا رہے ہیں میرا جشنِ وفات
کچھ لوگ رو پڑیں گے ممکن ہے یہ ضرور
کچھ خواب سی دُنیا کا لائیں گے پھر شعور
کچھ غم بھلانے کے سبب میں مبتلا رہیں
ٰؒلیکن وہ دہرائیں گے پھر ساری وہ روایات
کوئی نہیں تھا میرے سوا میرے کفن کے ساتھ
سب لوگ کیوں منا رہے ہیں میرا جشنِ وفات
حیرانیوں کا مجھ کو اکیلے پتا چلے
جب خون اور جسم کے ریشے اس آگ میں جلے
وہ دھواں وہ شعلے وہ راکھ اور وہ سونا پن
لے کر چلوں گا میں اکیلا اس وفات کی رات
کوئی نہیں تھا میرے سوا میرے کفن کے ساتھ
سب لوگ کیوں منا رہے ہیں میرا جشنِ وفات
ان کی شاہدانہ ہوش و آگہی (ساکچھی) آتش کدہ میں بھی قائم و دائم ہے۔ اس طرح
ہم دیکھتے ہیں کہ پروفیسر رتن لعل ہانگلو کی غیر معمولی فکر انگیز، معنی
خیز اور بصیرت افروز نظمیہ مجموعہ کلام ’’حسرتیں‘‘ کی تمام نظمیہ شاعری
لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرتی ہے اور قاری کو بہت کچھ سوچنے، سمجھنے ا ور
غور و فکر کرنے کے لیے مجبور کرتی ہیں۔ آج اکیسویں صدی کی دوسری دہائی کے
اس ما بعد جدید دور میں ہانگلو صاحب کی غیر معمولی نظمیہ شاعری معنویت اور
اہمیت کی حامل ہے۔ تاہم ان کا نظمیہ مجموعہ ’’حسرتیں‘‘ بد ترین پروف ریڈنگ
کا المیہ ہے۔ ’’تعارف نامہ‘‘ کِل کِل کانٹا ہے۔ |