نئے اورمتنازعہ امریکی صدرڈونلڈٹرمپ نے جنوبی ایشیاکیلئے
نئی امریکی پالیسی کااعلان کردیاہے نظربظاہرتواس پالیسی میں نئی پالیسی
والی کوئی بات نہیں بس اسی پرانی پالیسی کامیک اپ کرکے اسے ٹرمپ پالیسی
کانام دیکرمارکیٹ میں پیش کیاگیاہے ٹرمپ سے پہلے والی انتظامیہ بھی
اکثروبیشترپاکستان سے ’’ڈومور‘‘ کے مطالبات دہراتی رہی اوروہی مطالبات ٹرمپ
نے بھی نئے رنگ ڈھنگ کے ساتھ دہرانے کی کوشش کی ہے اوبامہ انتظامیہ نے
زمینی حقائق کاادراک کرتے ہوئے افغانستان سے راہ فراراختیارکرنے کی پالیسی
اپنائی تھی اس پالیسی کے تحت امریکہ نے خودساختہ اعلان فتح کے ساتھ
افغانستان سے اپنی فوجیں نکالنے پرزوردیاتھاآٹھ دس ہزارکی معمولی
تعدادافغانستان میں رکھ کرباقی فوجیوں کوپردیس میں آوارہ بھٹکنے سے نجات
دلائی گئی تھی جبکہ ڈونلڈٹرمپ نے چارہزارمزیدفوجیوں کوامتحان میں
ڈالکردوبارہ افغانستان بھیجنے کافیصلہ کیاہے حالانکہ یہ بات کسی بچے کوبھی
معلوم ہے کہ جب امریکہ کی ایک لاکھ کے قریب فوجی افغانستان میں اپنے
مقاصدحاصل نہ کرسکے تودس بارہ ہزار کونساتیرمارلیں گے ؟ ٹرمپ نے نئی پالیسی
کے نام پرصرف پاکستان کونشانہ بناناتھا،اپنے اتحادی نریندرمودی کی خوشنودی
حاصل کرنامقصودتھا،پاکستان کودباؤمیں لاکراسے بھارت کے سامنے سرنگوں
کرناتھا،سی پیک منصوبے پرپاکستان کوبراہ راست دھمکایانہیں جاسکتا،اسے کسی
دھونس دھاندلی یادباؤکے ذریعے اس سے ہٹایانہیں جاسکتا،پاکستان کاامن وترقی
کاسفرمودی کی برداشت سے باہرہے مگروہ خوداس سفرمیں روڑے اٹکانے کی پوزیشن
میں نہیں لہٰذااپنے خبث باطن کااظہارٹرمپ کے ذریعے کرایاگیا،ٹرمپ کی باتیں
سنکرایسامحسوس ہورہاتھاجیسے اسکے گلے میں ’’بھگوان ‘‘بول رہاہے اسنے
جوپالیسی بیان کی ہے یہ بھارت کی خواہشات پرمبنی پالیسی ہے ڈونلڈٹرمپ کے
الیکشن جیتنے پرمیں اپنے کالم میں عرض کرچکاہوں کہ ٹرمپ اورمودی ایک ہی سکے
کے دورخ ہیں دونوں انتہاپسندہیں ،دونوں کی مسلم دشمنی اظہرمن الشمس
ہے،دونوں کے خیالات ملتے جلتے ہیں اوردونوں کواقتدارمیں مصنوعی طریقوں سے
لایاگیاہے آج ٹرمپ کے منہ میں بھارتی زبان آٹھ ماہ پہلے کی میری بات کودرست
ثابت کررہی ہے پوری دنیامیں سوائے افغانستان کے کٹھ پتلی اشرف غنی
اوربھارتی نریندرمودی کے ٹرمپ کی جنوبی ایشیاکیلئے نئی پالیسی کوسراہنے
والااوراس کاساتھ دینے والاکوئی نہیں اشرف غنی کی کسی بات کودنیامیں اہمیت
حاصل نہیں کیونکہ ساری دنیاکومعلوم ہے کہ اسکی اپنی کوئی پالیسی نہیں ،کوئی
وژن نہیں ،کوئی سوچ نہیں ،فکرنہیں اورسمجھنے کی صلاحیت نہیں بھارت نے کچھ
روپے خرچ کرکے اسکی زبان بندی کرارکھی ہے اورانکی آنکھوں پرایسی پٹی باندھی
گئی ہے جس سے انہیں مودی کے سواکچھ نظرہی نہیں آرہاناہی اسے اپنی قوم کی
پرواہے ،ناہی ملک اورمذہب کاخیال ہے اورناہی پاکستانی عوام کی دی گئی
قربانیاں اورمہمان نوازی انکے پیش نظرہیں زمینی حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کی
افغانستان کیلئے دی گئی قربانیاں رائیگاں جاچکی ہیں لہٰذااب پاکستان کوبھی
اپنی پالیسیاں ازسرنوترتیب دیکرافغانستان کواسکے حال پرچھوڑکراپنے ملک
پرتوجہ دینی ضروری ہے افغانستان جانے ،نریندرمودی جانے اورڈونلڈٹرمپ جانے
پاکستانی عوام کوٹرمپ یاانکے چمچوں کھڑچوں سے کوئی غرض نہیں پاکستانی عوام
نے افغان عوام کی مدداسلامی اخوت کے جذبے کے تحت کی تھی اب جبکہ افغان
قیادت اس اخوت کوفراموش کرچکی ہے تو پاکستان کوبھی گزرے سانپ کی لکیرپیٹنے
سے اجتناب برتناہوگااس وقت دنیامیں پاکستان کے صرف چاردشمن ہیں جن کاآپس
میں گٹھ جوڑ اورتعاون کسی سے پوشیدہ نہیں امریکہ ، اسرائیل ،بھارت
اورافغانستان وہ ممالک ہیں جوکھل کرپاکستان دشمنی کاکوئی موقع ضائع نہیں
جانے دے رہے پاکستان ملک میں موٹروے بناتاہے توبھارتی پیٹ میں مروڑ،بجلی کے
منصوبے لگتے ہیں توبھارت کوبخار،سی پیک بنتاہے توبھارت کے سینے پرمونگ
اوردفاعی طاقت میں اضافے سے بھارتی قیادت کوجلاب ہونے لگتے ہیں اب پاکستانی
قیادت کونوشتہ دیوارپڑھ لیناچاہئے کہ مذکورہ ممالک کسی صورت پاکستان
کوپھلتاپھولتانہیں دیکھ سکتے پاکستان کامستقبل سی پیک سے وابستہ ہے امریکہ
کی کسی جنگ سے نہیں امریکی جنگوں نے پاکستان کاکباڑاکرنے میں کوئی کسرنہیں
چھوڑی ’’مونگ پھلی ‘‘ کے برابرامداددیکراسے بازاری طرزتخاطب سے جتاناٹرمپ
جیسے لوگوں کاپراناشیوہ ہے پاکستان کواب امریکہ سے دوٹوک بات کرنے کی ضرورت
ہے پاکستانی عوام کسی کے جنگوں کامزیدایندھن بننے کیلئے تیارنہیں امریکہ
اپنی جنگ خودلڑے اسمیں اسے بھارت مدددے یاافغانستان، پاکستان کواس جنگ سے
باہرنکلناہوگاپاکستانی عوام اپنے ملک کودہشت گردوں سے پاک کرنے کیلئے کسی
بھی قسم کی قربانی دے سکتے ہیں (یہ قربانیاں پہلے بھی دی جاچکی ہیں )مگردوسروں
کی جنگوں کامزیدایندھن بننے سے توبہ ہی بھلی،امریکہ اگرآئے روزنئی پالیسیوں
کااعلان کرتارہتاہے توپاکستان بھی اپنی پالیسیاں بنانے میں آزادہے پاکستان
کی نئی پالیسی پرائی جنگوں سے بازآنے کی ہونی چاہئے ،کشمیرپاکستان کی شہہ
رگ ہے بھارت اگراسے ستربرسوں میں بھی نہ اپناسکاتواسے یادرکھناچاہئے کہ اب
سرسے پانی اونچاہوچکاہے آزادی کی تحریک کودباناہندوبنئے کے بس کی بات نہیں
آج یاکل جلدیابدیربھارت کواس مسئلے کاکوئی پائیداراورقابل عمل حل
نکالناہوگاآزادی کے متوالوں کودہشت گردقراردلانے سے یہ تحریک دبنے والی
نہیں ہاں البتہ ٹرمپ ،مودی گٹھ جوڑسے پوراخطہ آگ وبارودکی لپیٹ میں آسکتاہے
جس کے شعلے اگر اسلام آبادکوراکھ کاڈھیربناسکتے ہیں تو دہلی اورممبئی کے
ہنستے بستے شہربھی ملبے میں تبدیل ہوسکتے ہیں پاکستان کوچھیڑنے ، اسے
دیوارسے لگانے اوراسے دنیامیں تنہاکرنے کاشوق ہندوستان کوکہیں کانہیں چھوڑے
گا بلکہ پاکستان میں لگنے والی آگ کی تپش واشنگٹن اورنیویارک بھی برداشت
نہیں کرپائینگے ڈونلڈٹرمپ اگرتاریخ میں خودکوامرکرناچاہتے ہیں توانہیں ذمے
داری کااحساس کرناہوگابچگانہ حرکات سے پہلے بھی امریکہ کوکوئی فیض حاصل نہ
ہوسکااورآئندہ بھی ایساہونے کاکوئی امکان نہیں ٹرمپ پاکستان کوالزامات
اورجھگڑالوعورتوں کی طرح طعنے دینے کی بجائے زمینی حقائق کاادراک کریں
انصاف پرمبنی مدبرانہ پالیسیاں اپنائیں کشمیرجوکہ اقوام متحدہ کے روسٹرم
پرسب سے پرانا حل طلب مسئلہ ہے اسے انصاف پرمبنی اقدامات سے ہی حل
کیاجاسکتاہے اس سلسلے میں امریکہ پربھاری ذمے داری عائدہوتی ہے کہ وہ خطے
میں اپنے مفادات کوزک پہنچانے والے روئیوں سے اجتناب برتیں آزادی کے
متوالوں کودہشت گردقراردینے سے مودی کووقتی خوشی توحاصل ہوسکتی ہے مگراس سے
مسئلے کوہمیشہ کیلئے پس پشت ڈالنے یانظراندازکرنے میں کوئی مددنہیں مل سکتی
دنیامیں آج تک کسی قوم کوتاابدبزوربازوغلام نہیں بنایاجاسکاجس راج میں سورج
غروب ہی نہیں ہوتاتھاوہاں آج لوگ سورج کادیدارکرنے کوترس جاتے ہیں بھارت تو
اس راج کے سامنے کوئی حیثیت نہیں رکھتاٹرمپ کی نئی پالیسی میڈیاکیلئے
موادفراہم کرنے کاباعث توبن سکتی ہے مگراس نام نہاد پالیسی کے خطے پرکسی
قسم کے اثرات مرتب ہونے کے چانسزبہت کم ہیں ۔ |