امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جنوبی ایشیا اور افغانستان کے
لیے نئی امریکی پالیسی جاری کی، جس میں بھارت کو تھپکی، جبکہ پاکستان کو
سنگین نتائج کی کھلی دھمکی دی ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے افغانستان کے لیے مزید 39
ہزار فوجی بھیجنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہماری نئی حکمت عملی کا
اگلا ستون یہ ہے کہ پاکستان سے معاملات نمٹانے کا طریقہ تبدیل کیا جائے۔
پاکستان جان لے افغانستان میں ہمارا ساتھ دینے کا فائدہ ہوگا اور دہشتگردوں
کی مدد جاری رکھنے سے بہت کچھ کھونا پڑے گا۔ پاکستان کو اربوں ڈال ردے رہے
ہیں اور وہ اپنی سرزمین پر ان دہشتگردوں کو محفوظ پناہ گاہیں دے رہا ہے جو
آئے روز ہمارے لوگوں کو مارنے کی کوششں میں ہیں۔ بھارتی کردار کی چاپلوسی
کرتے ہوئے پاکستان پر دہشت گردوں کو محفوظ ٹھکانے فراہم کرنے کا الزام
دھرتے ہوئے دھمکی آمیز لہجے میں امریکی صدر نے کہا کہ ’’ہم پاکستان میں
موجود دہشت گرد تنظیموں کی محفوظ پناہ گاہوں پر خاموش نہیں رہیں گے۔‘‘
اگرچہ پاکستان کو نئی پالیسی کے حوالے سے کسی حد تک خیر کی توقع نہیں تھی
تاہم یہ امید بھی نہ تھی کہ کم ظرف امریکا یوں پاکستان کی برس ہا برس کی
قربانیوں کا حیا نہیں کرے گا۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دھمکی آمیز بیان کے
بعد اس گمبھیر صورت حال سے نمٹنے کے لیے پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت
سرجوڑ کر بیٹھ گئی ہے۔ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کی زیرصدارت قومی سلامتی
کمیٹی کا اجلاس ہوا، جس میں چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی، تینوں
مسلح افواج کے سربراہان، قومی سلامتی کمیٹی کے ارکان، وزیر دفاع، وزیر
خارجہ، وزیر داخلہ اور وزیر خزانہ سمیت اعلیٰ حکام نے شرکت کی۔ اجلاس کے
شرکاء نے امریکی الزامات کو مسترد کرتے ہوئے قومی اتفاق رائے پیدا کرنے کا
فیصلہ کیا۔ چیئرمین سینیٹ نے دوٹوک موقف اختیار کرتے ہوئے کہا کہ امریکا
پاکستان کو ویتنام اور کمبوڈیا نہ سمجھے، اس نے کوئی غلطی کی تو پاکستان
امریکی فوجیوں کا قبرستان بن جائے گا۔ آئی ایس پی آر کے مطابق بدھ کو جی
ایچ کیو میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے امریکی سفیر ڈیوڈ ہیل سے
ملاقات کے موقع پر اپنا موقف ان پر واضح کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں امریکا سے
کسی بھی مالی یا عسکری امداد کی ضرورت نہیں، بلکہ ہم اعتماد اور قربانیوں
کا اعتراف چاہتے ہیں۔ پاکستان کی جانب سے امریکی پالیسی پر شدید ردعمل
سامنے آیا ہے۔ سیاسی اور عسکری قیادت ایک پیج پر نظر آرہی ہے۔ تمام سیاسی و
مذہبی جماعتوں نے امریکی صدر کے بیان کی کھل کر مذمت کی اور پاکستان کے
خلاف امریکا کے ناپاک عزائم کو خاک میں ملانے کا عزم کیا ہے۔ امریکی صدر
ڈونلڈ ٹرمپ کی دھمکیوں کے خلاف ملک بھر میں مذہبی و سیاسی جماعتوں نے جمعہ
25اگست کویوم مذمت کے طور پر منایا ہے۔ملک بھر کی تنظیموں کے رہنماؤں کا
کہنا تھا کہ پاکستان ایک خودمختار ملک ہے، جو اپنا دفاع کرنا جانتا ہے۔
پاکستان کی حفاظت کے لیے پوری قوم متحد ہے۔ قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں
شرکاء نے امریکی الزامات کو سختی سے مسترد کردیا اور وزیر خارجہ خواجہ
محمدآصف نے اپنا دورہ امریکا ملتوی کردیا، جس پر حکمران جماعت کی بدترین
مخالف پی ٹی آئی کی جانب سے بھی ان کے اس اقدام کی ستائش کی جارہی ہے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے پاکستان مخالف پالیسی بیان نے منتشر پاکستانی قوم
کو یکجا کر دیا ہے۔ حکومت اور اپوزیشن میں شامل جماعتیں پچھلے کافی عرصے سے
ایک دوسرے کے خلاف محاذ کھولے ہوئی تھیں، لیکن امریکا بہادر کی پاکستان
دشمنی نے ان سب کو اپنے باہمی اختلافات بھلا کر ایک قوم بننے کاموقع فراہم
کردیا۔ حکومت پاکستان کو چاہیے قومی یکجہتی کو مزید مستحکم کرنے کے لیے
فوری طور پر پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلائے اور اس میں اپنی خارجہ پالیسی
کو زیربحث لاکر اہم فیصلے کرے، تاکہ ملک کو امریکی غلامی میں جانے سے بچانے
کے لیے ساری قوم ایک پیج پر آجائے۔ خارجہ پالیسی و سلامتی کے قومی حلقوں کی
رائے ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ کی جنوبی ایشیاوافغانستان کی نئی پالیسی دنیا بھر
میں کڑی تنقید کا نشانہ بن رہی ہے اور اسے بھارت اور نیٹو کے سوا کہیں سے
اعلانیہ پذیرائی نہیں مل سکی۔ اس کے برعکس، چین اور روس،پاکستان کے اس مؤقف
سے کلی اتفاق کر رہے ہیں کہ امریکا طاقت کا استعمال کر کے افغان مسلہ نہیں
حل کر سکے گا۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے پاکستان پر الزامات کے بعد
چین اور روس نے امریکا کی نئی جنگی پالیسی مسترد کرتے ہوئے افغانستان میں
پاکستان کے کردار کو اہم قرار دیا اور افغانستان تنازع کے سیاسی حل پر بھی
زور دیا، چین کا کہنا ہے کہ امریکا پاکستان کی سالمیت اور جائز سیکورٹی
خدشات کا احترام کرے۔ اسلام آباد کے کردار کا اعتراف کیا جائے، جبکہ روسی
وزیرخارجہ سرگئی لاوروف نے کہا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی افغانستان سے متعلق نئی
عسکری حکمت عملی میں طاقت کا استعمال واشنگٹن حکومت کے لیے بند گلی ثابت ہو
گا۔ سلامتی کونسل کے دو مستقل ارکان کی یہ حمایت، افغان مسئلہ کے حل کے
حوالہ سے علاقائی اور عالمی اداروں میں نہایت معاون ثابت ہو گی۔
امریکا کی جانب سے پیش کی جانے والی نئی افغان پالیسی پر رد عمل دیتے ہوئے
پاکستان کے مختلف تجزیہ کاروں، سیاست دانوں اور سابق وزرا نے امریکا کو
تنقید کا نشانہ بنایا ہے اور زور دیا ہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا دھمکی آمیز
لہجہ معاملات کو مزید خراب کردے گا۔ عالمی ماہرین نے بھی واضح کیا ہے کہ
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا رویہ خطے کے لیے خطرناک ہے۔’’نیویارک ٹائمز‘‘ کے
مطابق ماہرین کا موقف ہے کہ صدر ٹرمپ کی جانب سے پاکستان پر لگائے جانے
والے الزامات کے منفی نتائج برآمد ہوں گے۔ ایسے الزامات پاکستان کی فوج اور
انٹیلی جنس ایجنسیوں کو دوبارہ ان جنگجو گروہوں کے قریب لانے کا باعث بنیں
گے جن کی پاکستان ماضی میں حمایت کرتا رہا ہے۔ ماہرین کے مطابق ٹرمپ کی
تنقید پاکستان اور چین کے تعلقات مزید مستحکم کرنے کا باعث بھی بنے گی،
کیونکہ دونوں ممالک بھارت کو خطے میں اپنا مخالف سمجھتے ہیں۔ ایک بین
الاقوامی پالیسی ساز ادارے سے وابستہ افغان ماہر سیتھ جونز کا کہنا ہے کہ
افغانستان میں بھارت اور پاکستان کے مابین پراکسی جنگ جاری ہے اور ایک کی
کامیابی دوسرے کے لیے بڑا نقصان تصور کیا جاتا ہے۔ صدر ٹرمپ نے بھارت کو
افغانستان میں مزید کردار ادا کرنے کی دعوت بھی دی ہے جس پر حکومتِ پاکستان
یقیناً ناخوش ہے۔ پاکستان کا دیرینہ موقف رہا ہے کہ بھارت کی انٹیلی جنس
ایجنسی ’را‘ افغانستان کی سرزمین کو بلوچستان اور پاکستان کے دیگر علاقوں
میں دہشت گردی کروانے کے لیے استعمال کر رہی ہے۔ بھارت کو افغانستان میں
اپنا کردار بڑھانے کی دعوت کے باعث پاکستان سے تعاون کی امید مزید کم ہو
جائے گی۔ امریکی افواج کی افغانستان میں موجودگی کے دوران پاکستان کو ناراض
کرنا ایک دانشمندانہ قدم نہیں ہوگا۔ اگرچہ امریکی صدر کی جانب سے پاکستان
کو بہت سخت الفاظ میں دھمکی دی گئی ہے، لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ امریکا
اسے حوالے سے ایک مخصوص حد تک ہی پاکستان پر دباؤ ڈال سکتا ہے۔ صدر اوباما
کی حکومت میں سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ سے وابستہ رہنے والے نیوریارک یونیورسٹی کے
پروفیسر بانٹ روبن اور دیگر ماہرین کا کہنا ہے کہ حالیہ برسوں میں پاکستان
کا امریکی امداد خصوصاً فوجی امداد پر انحصار بہت کم ہوا ہے جس کی وجہ چین
سے دفاعی شعبے میں بڑھتا ہوا تعاون ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے پالیسی
سازوں کے سامنے مزید راستے بھی کھلے ہیں۔ پاکستان امریکی دبا برداشت کرنے
کی صلاحیت رکھتا ہے، چین کی جانب سے ملک میں کی جانے والی بڑی سرمایہ کاری
کی وجہ سے پاکستان معاشی طور پر مستحکم ہوا ہے۔
صدر ٹرمپ پاکستان کو دیے جانے والے جن اربوں ڈالر کا احسان جتارہے ہیں، اس
سے کئی گنا زیادہ مالی نقصان افغانستان میں امریکا کی شروع کردہ جنگ میں
فرنٹ لائن اسٹیٹ کا کردار ادا کرنے کی وجہ سے ملک کے اندر بدامنی، خوں ریزی
اور دہشت گردی کی شکل میں پاکستان کو اٹھانا پڑا ہے۔ جبکہ پاک فوج اور
شہریوں کا جانی نقصان ستر ہزار سے متجاوز ہے۔امریکا کی جنگ میں کود کر
پاکستان کو 150ارب ڈالر کا نقصان اٹھانا پڑا ہے، جبکہ 2002سے اب تک امریکا
نے صرف 33ارب ڈالر پاکستان کو امداد کے نام پر دیے ہیں، جس میں 15ارب ڈالر
کے قریب تو جنگی اخراجات کی رقم تھی۔ پاکستان نے نائن الیون کے بعد اپنے
ایئر پورٹس امریکا کو دیے، فضائی حدود امریکی طیاروں کے لیے کھول دیں۔
امریکی جاسوسوں کو کھلی چھٹی دی کہ ملک میں جہاں چاہیں گھومیں پھریں، ڈرون
حملوں کی اجازت دی۔ سلالہ حملہ پرداشت کیا، ایبٹ آباد حملے پر خاموش رہا،
اس کے برخلاف امریکا نے افغانستان میں پاکستان مخالف قوتوں کو مضبوط کیا
اور بھارت کو افغان سرزمین سے پاکستان کے خلاف دہشت گردی کی سہولت دی۔جس کے
بدلے میں امریکا کو پاکستان کی قربانیوں کی داد دینی چاہیے تھی، لیکن
امریکا اب 16سال افغانستان میں طالبان کے ہاتھوں پٹنے کے بعد اپنی ناکامی
کا ملبہ پاکستان پر ڈال رہا ہے۔ امریکا کو چاہیے کہ افغانستان میں نیٹو
افواج کی مدد سے 16سال تک کارروائیوں کے باوجود بری طرح ناکام ہونے کا ملبہ
پاکستان پر نہ ڈالے۔ 16 سال تک 783 ارب ڈالرز خرچ کرکے بھی ڈیڑھ لاکھ
امریکی فوج تمام جدید ترین آلات و ہتھیاروں کے باوجود افغانستان کو دہشت
گردی سے نجات نہیں دلاسکی، بلکہ پاکستان میں دہشت گردی کے لیے بھی دہشت گرد
افغانستان سے آتے ہیں، لیکن امریکی ناکامی تسلیم کرنے کی بجائے پاکستان کو
ہی موردالزام ٹھہراتے ہیں۔ 16سال کے اتحادی کردار کے باوجود پاکستان اپنے
اتحادی امریکا کے ہاتھوں سزا اور الٹے الزامات کا حقدار قرار دیا جارہا ہے۔
اس صورتحال کی زیادہ ذمہ داری پاکستان کے اْن نااہل اور ناعاقبت اندیش
حکمرانوں اور اپوزیشن پر بھی عائد ہوتی ہے، جنہوں نے اپنے فیصلوں، اقتدار
کے لالچ اور غیروں کے ایجنڈے کی تعمیل کے لیے پاکستانی سرزمین او رعوام کو
دوسروں کے ہاتھ بیچ ڈالا۔ پاکستان کے سنجیدہ اور مذہبی حلقے برسوں سے یہ
کہتے چلے آرہے ہیں کہ امریکا کا ساتھ دینا کسی طور بھی نقصان سے خالی نہیں
ہے۔ امریکا کسی بھی ملک کو استعمال کر کے ٹشو کی طرح پھینک دیتا ہے۔ ہوا
بھی ایسا ہی ہے۔ امریکا کی جنگ میں پاکستان نے اپنا بے انتہا نقصان برداشت
کیا ہے۔ پاکستان کو ہمیشہ نقصان ہی اٹھانا پرا ہے اور اب ایک بار پھر
امریکا پاکستان کو دھمکیاں دے رہا ہے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ امریکا
پاکستان کو سفارتی طور پر تنہا کرنے کے بھارتی منصوبے کا حصہ بن گیا ہے اور
امریکی وزارت دفاع بھارت کی آلہ کار بن چکی ہے۔ ٹرمپ اس خطہ میں اپنے حلیف
بھارت کو خوش کرنے کے لیے اسی کے لب و لہجہ میں پاکستان پر دہشت گردی کا
ملبہ ڈال رہا ہے۔
اب وقت آگیا ہے کہ پاکستان کے حکمران غیرت کا مظاہرہ کریں اور امریکا کی
بھیک کے بغیر گزارہ کرنا سیکھ لیں۔ اب وقت آگیا ہے کہ امریکا کو کہہ دیا
جائے کہ اب بہت ہوگیا۔ اب امریکا افغانستان میں خود لڑے، ان کی عقل ٹھکانے
آجائے گی۔ امریکا اور درجنوں دوسرے ملکوں کی افوج کی جدید ترین ہتھیاروں
اور ٹیکنالوجی کے ساتھ افغانستان میں موجودگی کے باوجود اس ملک کے آدھے حصے
پر آج بھی طالبان کا کنٹرول ہے۔ امریکا تمام تر اسلحہ اور طاقت کے باوجود
طالبان سے افغانستان کو خالی نہیں کرواسکا ہے۔ امریکا اب افغانستان میں خود
لڑے اور خود بھگتے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ اور افغانستان کی موجودہ صورت
حال کے تناظر میں جو تصویر ابھرتی ہے، وہ اس امر کی غماز ہے کہ امریکا
افغانستان میں اپنے تمام تر وسائل اور قوت کے باوجود ناکام ہو چکا اور وہ
اپنی ان ناکامیوں کا الزام پاکستان پر لگا رہا ہے۔ اس نے افغانستان میں
مزید فوج بھیجنے کا بھی اعلان کیا ہے، لیکن اس حقیقت کو رد نہیں کیا جا
سکتا کہ 16برسوں سے جاری جنگ سے افغانستان میں امن قائم نہیں ہو سکا اور
جنگجو آج بھی امریکا اور نیٹو فورسز کے لیے چیلنج بنے ہوئے ہیں۔ اگر ٹرمپ
کو دہشت گردی کی جنگ لڑنی ہے تو وہ افغانستان میں یہ جنگ لڑیں۔بلاشبہ اب
ہمیں امریکی ’’ڈومور‘‘ کو ’’نومور‘‘ میں بدلنا ہے، جس کے لیے تمام قومی،
سیاسی، دینی اور عسکری قائدین کے یکسو ہونے کی ضرورت ہے۔ موجودہ حالات اس
امر کے متقاضی ہیں کہ حکومت اپنی قومی خارجہ پالیسی پر نظرثانی کرکے قومی
تقاضوں سے ہم آہنگ جرات مندانہ پالیسیاں وضع کرے اور پاکستان کی آزادی و
خودمختاری مضبوط ہاتھوں میں مکمل محفوظ ہونے کا متعلقین کو ٹھوس پیغام دے۔
ملکی سلامتی کے حوالے سے آج بلاشبہ ہمارے لیے کسی غلطی کی کوئی گنجائش نہیں۔
اب ہمیں قومی یکجہتی کے تحت امریکا کے اس دہرے کردار کو بے نقاب کرنے کی
ضرورت ہے۔ اس تناظر میں اب مناسب یہی ہے کہ امریکا کو افغانستان میں اپنی
جنگ خود لڑنے دی جائے جہاں طالبان آج بھی اس کی مزاحمت جاری رکھے ہوئے ہیں
اور ٹرمپ انتظامیہ کو باور کرارہے ہیں کہ اگر اس نے افغانستان سے اپنی
فوجیں نہ نکالیں تو افغانستان کو امریکی فوج کا قبرستان بنا دیا جائے گا۔
ہمیں اس پرائی آگ میں خود کو مزید جھلسانے کی کیا ضرورت ہے۔پاکستان کے لیے
لازم ہے کہ ان حالات میں امریکا سے تعلقات کے حوالے سے حقائق کی روشنی میں
نئی حکمت عملی وضع کرے۔ امریکا نے اگر خطے میں بھارت کے تمام جرائم کے
باجود اس کے ساتھ نتھی ہونے کا فیصلہ کرلیا ہے تو پاکستان کو بھی نئے افق
تلاش کرنے چاہئیں۔ چین، روس، ترکی، ایران اور شنگھائی تعاون تنظیم، سی پیک
میں شمولیت کے خواہشمند درجنوں ممالک سے قریبی تعلقات پاکستان کی نئی
پالیسی کے لیے مستحکم بنیاد فراہم کرسکتے ہیں۔ |