پرویز الطاف کیانی کی غُبار وقت
زمانہ ہوا کہ اردو غزل نے روایتی موضوعات سے منہ موڑ کر ضدید تر مضامین اور
موضوعات اختیار کر لیے۔ میر اور غالب اور بعد میں اقبال، فیض اور منیر نے
اس صنف کو کچھ اس طرح وسعت دی کہ یہ عروسہ شاعری محبوبہ خاص ہو گئی۔ آج اس
میں عاشقانہ اور روایتی سے بڑھ کر کلاسیکی، رومانی، مارکسی اور معاشرتی
موضوعات تک وسعت آگئی ہے۔ اس صورت حال میں اگر یوں کہیں کہ غزل نے کئی
اصناف کی خصوصیات اپنے اندر سمو لی ہیں تو غلط نہ ہوگا۔ پرویز الطاف کیانی
شعر کی دُنیا میں ایک نیا نام ہیں۔ لیکن اُن کے مشاہدہ فطرت، مطالعہ عمومی
اور تجزیہ بے لاگ نے انہیں فکر و خیال پر وہ قدرت عطا کی جن کی بنا پر اُن
کو اپنے احباب میں نمایاں مقام حاصل ہے۔ یہاں میں اُن کی ایک نظم پیش کر
رہا ہوں جو :پیر سید نصیر الدین نصیر صاحب کے لیے ہے
کمال فکر و نظر چل بسا ہے
آگاہِ علم و ہنر چل بسا ہے
ظلبِ شب میں اشکبار ہوں
میرا مہتابِ سفر جل بسا ہے
دُور تک تھی چھاؤں جس کی
وہ شجرِ تناور چل بسا ہے
کیوں نہ افسردہ ہوں یہ فضائیں
اِک مداح پیغمبر چل بسا ہے
شناسائے فکر و حرف و معانی
آگاہِ عصرِ حاضر چل بسا ہے
وہ درویش با صفا جو رکھتا تھا
ہم پہ گہری نظر چل بسا ہے
خونِ جگر دے کر فن و شعر کو
ادیبِ عظیم تر چل بسا ہے
دل تک جاتی تھی جس کی نگاہ
وہ دیدہ ور چل بسا ہے
منقسم کرتا تھا جو لوگوں میں
خلوص و مہر چل بسا ہے
بھر کر اپنے افکار میں نصیر
الماس و گہر چل بسا ہے
رموزِ فن تک تھی رسائی جس کی
ایسا بھلا سخنور چل بسا ہے
جس پہ نثار تھے ہمارے دل و جاں
وہ وقارِ معتبر چل بسا ہے
دے کر ستاروں کو ضو اپنی
اک چاند نگر چل بسا ہے
دے کر پھولوں کو شبنمی آنسو
اور مجھے چشمِ تر چل بسا ہے
اک دلنواز، اک شگفتہ روح
اک شائستہ نظر چل بسا ہے
ہجر کا غم اور درد سینے میں
ہمیں وہ دے کر چل بسا ہے
اب ترسیں گی آنکھیں گلابوں کو
کہ حسِن بہار گر چل بسا ہے
کر کے و ہراں بڑی حویلی اور
وہ دیوار و در، چل بسا ہے
اپنے اوصاف حمیدہ میں تھا جو
خوشبو کا سمندر چل بسا ہے
دل کہتا ہے اس د ھوپ میں ہوگا
وہ جو بظاہر چل بسا ہے
بخش کر کتنے لمحوں کو پرویز وہ
نیا عنوانِ سحر چل بسا ہے
ایک آخری غزل عرض ہے
حدتِ مہر سے یہ کام نہیں نکلے گا
جل تو جائے گا یہ پتھر، نہ مگر ٹوٹے گا
پیڑ یہ ایسا ہے جو تیز ہوا کے ہاتھوں
ٹوٹ تو جائے گا پر جڑ سے نہیں اکھڑے گا
جس قدر چاہو اسے جتنا بھی جامد کر دو
برف میں دیر تلک آب نہیں ٹھہرے گا
ٹوٹ کر آنکھ سے اک بار ستارا جو گرا
وہ ستارا نہ کبھی اوج پر پھر چمکے گا
ترجماں ایک یہی پھول تو تھا جذبوں کا
جو دوبارہ نہ کبھی پلکوں پہ اب مہکے گا
پھر کسی راہ کے پتھر سے ہے ٹھوکر کھائی
دیکھ کر آنکھ سے چلنا نہ کبھی آئے گا
دیپ ہی کوئی جلا دیجیے سر راہ گزر
راستہ کیسے اندھیرے میں دکھائی دے گا
شب گزرنے کو ہے پرویز ابھی سو جاؤ
جاگتے میں تو کوئی خواب نہیں اترے گا |