فردوس میں رومی سے یہ کہتا تھا
سنائی
مشرق میں ابھی تک ہے وہی کا سہ وہی آش!
حلاج کی لیکن یہ روایت ہے کہ آخر
اک مردِ قلندر نے کیا رازِ خودی فاش!
۹ نومبر ۱۸۷۷ ء ( بمطابق ۳ ذیقعد ۱۲۹۴ ھ ) سیالکوٹ کے جناب شیخ نور محمد
صاحب کے گھر ایک بچہ پیدا ہوا، ماں باپ نے نام محمد اقبال رکھا، اور تاریخ
اُسے علامہ محمد اقبال کہتی ہے ، ابتدائی تعلیم سیالکوٹ سے ہی حاصل کی ،
مرے کالج سیالکوٹ سے ایف اے کیا ، اور اِسی دوران اُنہیں ’’ مولوی میر حسن
‘‘ جیسے استاد کی شفقت میسر آئی ، مولوی میر حسن جوہر شناس شخصیت تھے ،
اپنے نوجوان شاگرد میں موجود جوہر کو پہچان گئے اوردُنیا کے اِس نایاب ترین
ہیرے کو نہایت ہی خوبصورتی احتیاط سے تراشنا شروع کیا ، ایف اے کے بعد آپ
لاہور تشریف لے گئے اور گورنمنٹ کالج لاہور سے بی اے اور ایم اے پاس کیا،
یہاں آپ کی ملاقات اپنے وقت کے ایک اور استاد ’’ پروفیسر ارنلڈ ‘‘ سے ہوئی،
پروفیسر ارنلڈ بھی جوہر شناس تھے اُنہوں نے بھی اقبال کی شخصیت اور اُس کی
چمک کو پرکھنے میں غلطی نہیں کی اور نہایت ہی شفقت سے مہربان رہے ، ۱۹۰۵ ء
میں اقبال اعلیٰ تعلیم کے لیے انگلستان چلے گئے اور کیمرج یونیورسٹی میں
داخلہ لیا ، یہاں بھی آپ کو پروفیسر براؤن کی شکل میں ایک بہترین اُستاد
ملا ، پھر فلسفہ میں پی ایچ ڈی کرنے لیے لیے جرمنی کی طرف عازم ہوئے اور
میونخ یونیورسٹی سے فلسفہ میں پی ایچ ڈی کی ، وطن وآپسی کے بعد آپ نے کچھ
عرصہ اورینٹل کالج لاہور میں تدریس کا عمل جاری رکھا مگر پھر آپ نے وکالت
کو ہی اپنا مستقل پیشہ بنایا، آپ بہترین قانون دان تھے ، بہترین سیاست دان
تھے ،۱۹۲۲ ء میں حکومت کی طرف سے آپ کو ’’ سر ‘‘ کا خطاب دیا گیا یہ مشہور
واقعہ ہمارے ادب کی کتابوں میں ہمیشہ سنہری لفظوں میں لکھا جائے گا کہ ایک
شاگرد نے حکومتِ وقت سے ایک اعلیٰ ترین اعزاز وصول کرنے کے لیے اپنے استاد
کو ’’ شمس العلماء ‘‘ کا خطاب دینے کی شرط رکھی ، ۱۹۲۶ء میں آپ پنجاب
اسمبلی کے ممبر چنے گئے ، آپ ہمیشہ سے آزادی کے حامی تھے مختلف تحریکوں کا
حصہ بھی رہے اور بل آخر آپ نے ۱۹۳۰ ء کے آلہ آباد کے جلسے میں کہ جس کی
صدارت بھی آپ ہی کر رہے تھے ، ایک قرارداد کے زریعے ایک آزاد مسلم وطن کا
نظریہ پیش کیا ، یہی وہ فکر تھی ، جو بعد میں ایک تحریک بنی اور جو آخر کار
کامیاب ہوئی ، آپ نے مسلمانوں غفلت کی نیند سے جگایا ۔
غدار وطن اس کو بتاتے ہیں برہمن
انگریز سمجھتا ہے مسلماں کو گدا گر!
پنجاب کے ازبابِ نبوت کی شریعت
کہتی ہے کہ یہ مومنِ پارینہ ہے کافر
آوازۂ حق اٹھتا ہے کب اور کدھر سے
’مسکیں دلکم ماندہ دریں کشمکش اندر‘
اقبال کو اسلام اور مسلمانوں سے شدید محبت تھی اور اِس کا اظہار وہ اپنی
پوری زندگی کرتے رہے حالانکہ شروع شروع میں اور یورپ جانے سے پہلے آپ قدرے
آزاد خیال تھے مگر یورپ میں قیام کے دوران تو جیسے اسلام آپ پر اُترا تھا ،
آپ نے ایک بار فرمایا تھا، ’’ یورپ کی آب و ہوا نے مجھے مسلمان بنا دیا‘‘
آپ جب وطن لوٹے تو بہت عرصے تک گوشہ نشین رہے حتی کے شاعری سے بھی پرہیز
کرنے لگے اور اپنی ابتدائی شاعری سے بھی برات کا اظہار کرتے رہے مگر پر
اپنے اساتزہ اور دوست احباب کی مسلسل کوششوں کے سبب ایک بار پھر شاعری کی
طرف متوجہ ہوئے اور پھر آپ کے قلم نے وہ وہ جوہر بکھیرے کہ کیا کہنے ۔
اسی قرآں میں ہے اب ترکِ جہاں کی تعلیم
جس نے مومن کو بنایا مہ و پرویں کا امیر
تن بہ تقدیر ہے آج ان کے عمل کا انداز!
تھی نہاں جن کے ارادوں میں خدا کی تقدیر
تھا جو نا خوب‘ بتدریج وہی‘ خوب‘ ہوا
کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر!
آپ نہایت ہی حساس دل و دماغ کے مالک تھے اگر چہ آپ کی بنیادی وجہ شہرت
شاعری تھی ، اردو اور فارسی شاعری ، مگر شاعر تو بہت ہوئے ہیں ، بہت سے
بلند پایہ شعراء بھی وہ مقام حاصل نہ کر سکے جو اقبال کے حصے میں آیا،
اقبال دراصل محض شاعر ہی نہ تھے بلکہ لفظوں سے تبدیلی لانے کا ہنر اُنہیں
آتا تھا ، وہ ایسے انقلابی تھے کہ جن کی شاعری انسان کا لہو تو گرماتی ہے
مگر اُسے بے سکونی اور انتشار پسندی پر ابھارتی نہیں ، وہ انسان کو اندر سے
تبدیل کرتی ہے ۔
ترا گناہ ہے اقبال مجلس آرائی
اگر چہ تو ہے مثالِ زمانہ کم پیوند!
جو کو کنار کے خوگر تھے ان غریبوں کو
تری نوا نے دیا ذوق جذبہ ہائے بلند
تڑپ رہے ہیں فضا ہائے نیلگوں کے لئے
وہ پرشکستہ کہ صحن سرا میں تھے خورسند!
تری سزا ہے نوائے سحر سے محرومی
مقام شوق و سرور و نظر سے محرومی
اُس زمانے میں پنجاب کے علاقے قادیان سے ایک شخص مرزا غلام احمد قادیانی نے
پہلے محدث اور پھر بتدریج نبوت کا دعویٰ کر دیا تھا، اُس کے مکر و ریا کا
یہ عالم تھا کہ پہلے پہل بہت سے لوگ اُس کے زیر اثر ہوئے خود علامہ اقبال
صاحب کے گھر میں بھی وہ زقند لگانے میں کامیاب ہوا ، مرزا غلام احمد
قادیانی( کذاب) نے جہاد اور بہت سے اسلامی شعائر کو منسوخ کہنا شروع کر دیا
،اور اپنے ماننے والوں پر تاج برطانیہ کی وفاداری لازمی قرار دیدی ، علامہ
اقبال نے اپنے اشعار میں کئی مقامات پر اِن عقائد کی سختی سے تردید کی تھی
۔
فتویٰ ہے شیخ کا یہ زمانہ قلم کا ہے!
دنیا میں اب رہی نہیں تلوار کارگر!
لیکن جنابِ شیخ کو معلوم کیا نہیں؟
مسجد میں اب یہ وعظ ہے بے سود و بے اثر
تیغ و تفنگ دستِ مسلماں میں ہے کہاں
ہو بھی تو دل ہیں موت کی لذت سے بے خبر!
کافر کی موت سے بھی لرزتا ہو جس کا دل
کہتا ہے کون اسے کہ مسلماں کی موت مر!
تعلیم اس کو چاہیے ترک جہاد کی!
دنیا کو جس کے پنجہ خونیں سے ہو خطر
باطل کے فال و فر کی حفاظت کے واسطے
یورپ زرہ میں ڈوب گیا دوش تا کمر
ہم پوچھتے ہیں شیخِ کلیسا نواز سے!
مشرق میں جنگ شر ہے تو مغرب میں بھی ہے شر
حق سے اگر غرض ہے تو زیبا ہے کیا یہ بات
اسلام کا محاسبہ‘ یورپ سے در گزر
علامہ اقبال نے مزید کہا ۔
سوچا بھی ہے اے مردِ مسلماں کبھی تو نے
کیا چیز ہے فولاد کی شمشیرِ جگر دار
اس بیت کا یہ مصرعہ اول ہے کہ جس میں
پوشیدہ چلے آتے ہیں توحید کے اسرار!
ہے فکر مجھے مصرعِ ثانی کی زیادہ!
اللہ کرے تجھ کو عطا فقر کی تلوار!
قبضے میں یہ تلوار بھی آ جائے تو مومن!
یا خالدِ جانباز ہے یا حیدرِ کرار
آپ کو غلام ذہنیت سے سخت نفرت تھی، اِسی لیے آپ نے اپنے اشعار کے زریعے ہر
ممکن کوشش کی کہ مسلمانانِ ہند غلامی اور خصوصاً ذہنی غلامی سے نجات حاصل
کر لیں ، اور اِسی لیے آپ نے فلسفہ خودی پیش کیا، اور پھر اپنی پوری شاعری
کو فلسفہ خودی کو عام کرنے کا زریعہ بنا لیا ،بانگ درا ، بال جبرائیل ، ضرب
کلیم اور ارمغان حجاز تو کم و بیش خودی کے فلسفے کا ہی احاطہ کرتی ہیں ،
فلسفہِ خودی کو آپ نے ہر ہر انداز میں پیش کیا۔
نہ دیر میں نہ حرم میں خودی کی بیداری!
کہ خاوراں میں ہے قوموں کی روح تریاکی!
اگر نہ سہل ہوں تجھ پر زمیں کے ہنگامے
بری ہے مستی اندیشہ ہائے افلاکی!
تری نجات غم مرگ سے نہیں ممکن
کہ تو خودی کو سمجھتا ہے پیکرِ خاکی
زمانہ اپنے خوادث چھپا نہیں سکتا!
ترا حجاب ہے قلب و نظر کی ناپاکی!
عطا ہوا خس و خاشاکِ ایشیا مجھ کو
کہ میرے شعلے میں ہے سر کشی و بے باکی
آپ کی شاعری مسلمانوں کو اپنا آپ پہچاننے کی دعوت دیتی ہے، آپ بار بار
شاندار ماضی کی یاد دلاتے ہیں اور آنے والے مستقبل کی ہولناکیاں بیان کرتے
ہیں ۔
کسے خبر کہ ہزاروں مقام رکھتا ہے
وہ فقر جس میں ہے بے پردہ روحِ قرآنی
خودی کو جب نظر آتی ہے قاہری اپنی!
یہی مقام ہے کہتے ہیں جس کو سلطانی
یہی مقام ہے مومن کی قوتوں کا عیار
اسی مقام سے آدم ہے ظلِ سبحانی
یہ جبر و قہر نہیں ہے یہ عشق و مستی ہے!
کہ جبر و قہر سے ممکن نہیں جہانبانی
کیا گیا ہے غلامی میں مبتلا تجھ کو!
کہ تجھ سے ہو نہ سکی فقر کی نگہبانی
مثال ماہ چمکتا تھا جس کا داغِ سجود
خرید لی ہے فرنگی نے وہ مسلمانی
ہوا حریفِ مہ و آفتاب تو جس سے
رہی نہ تیرے ستاروں میں وہ درخشانی!
وہ ایسے مفکر تھے کہ جنہوں نے ایک پوری قوم کو ایک بہترین نظریے پر سوچنے
پر مجبور کر دیا، اِسی لیے آپ کی شاعری کو زندہ شاعری کہا جاتا ہے ، آپ کی
شاعری ہرشخص اور ہر زمانے کے لیے ہے اور کئی زبانوں میں ترجمہ ہو چکی ہے
بلکہ کم و بیش دُنیا کے ہر حصے میں پڑھی جاتی ہے ،آپ کی شاعری ہمیشہ مشعل
راہ بنی رہے گی ، دُنیا بھر کے مسلمان علماء اور اساتذہ آپ کی شاعری اپنے
شاگردوں کو پڑھاتے ہیں ، اقبال کی ہر ہر نظم اپنی مثال آپ ہے اگر ہم محض
شکوہ اور پھر جواب شکوہ کی ہی بات کریں تو شاید ہم پوری طرح اُس کا حق بھی
ادا نہ کر سکیں ، اقبال نے اپنی نظم شکوہ ۱۹۱۱ء میں لکھی تھی اور جب آپ نے
اُسے انجمنِ حمایت اسلام کے جلسے میں پڑھا تو جلسے مین موجود لوگوں کے دل
تڑپ اُٹھے ، لوگ اقبال کو داد بھی دے رہے تھے اور اُن کے لفظوں کی کاٹ بھی
اپنے دلوں میں محسوس کر رہے تھے ، نظم ’’ شکوہ ‘‘ نے حساس دل رکھنے والے
مسلمانوں کو سوچنے پر مجبور کر دیا تھا ، یہ نظم دراصل مسلمانوں کی بے حسی
، بے عملی ، مذہب سے بیزاری اور غفلت پر طنز ہے ، کسی لمبی چوڑی تمہید اور
کسی درمیانی وسیلے کے بغیراقبال برائے راست اللہ سے ہمکلام ہوتے ہیں ، اور
کوئی لگی لپٹی رکھے بغیر ہی اپنا شکوہ اللہ کی بارگاہ میں پیش کرتے ہیں،
کیوں زیاں کار بنوں سود فراموش رہوں
فکر فرداں نہ کروں ، محو غمِ دوش رہوں
نالے بلبل کے سنو اور ہمہ تن گوش رہوں
ہم نواں، میں بھی کوئی گل ہوں کہ خاموش رہوں ؟
جرات آموز میری، تابِ سخن ہے مجھ کو
شکوہ اللہ سے ، خاکم بدہن ہے مجھ کو
اے خدا ! شکوہ اربابِ وفا بھی سن لے
خوگر حمد سے ، تھوڑا سا گلہ بھی سن لے
نظم کی ابتداء اِن اشعار سے کرکے اقبال نے باقی اشعار کے لیے زمین ہموار کی
، اِس طویل نظم کا ہر ہر شعر بے مثال ہے ،اقبال نے اپنے ’’ شکوہ ‘‘ کا
اختتام اِن اشعار پر کیا ۔
لطف مرنے میں ہے باقی ، نہ مزہ جینے میں
کچھ مزہ ہے تو یہی خونِ جگر پینے میں
کتنے بے تاب ہیں جوہر مرے آئینے میں
کس قدر جلوے تڑپتے ہیں مرے سینے میں
اِس گلستان میں مگر دیکھنے والے ہی نہیں
داغ جو سینے میں رکھتے ہیں وہ لالے ہی نہیں
چاک ، اِس بلبلِ تنہا کی نوا سے دل ہوں
جاگنے والے، اِسی بانگِ درا سے دل ہوں
یعنی پھر زندہ ، نئے عہدِ وفا سے دل ہوں
پھر اِسی بادہِ دیرینہ کے پیاسے دل ہوں
عجمی خم ہے تو کیا ، مئے تو حجازی ہے مری
نغمہ ہندی ہے تو کیا لئے تو حجازی ہے مری
اِس نظم نے مسلمانوں کو اُن اسباب پر سوچنے پرمجبور کر دیا تھا کہ جن کے
سبب وہ دُنیا میں رسوا ہو رہے تھے ، یہ نظم آج بھی اتنی ہی زندہ ہے جتنی
شاید ۱۹۱۱ء میں تھی ، دُنیا کے کئی زبانوں میں اِس کے ترجمے ہو چکے ہیں ،
لاکھوں لوگ پڑھ چکے ہیں ، اور آپ کی فکر سے فیض یاب ہوئے ہیں ، اِس نظم کی
اشاعت کے بعد کچھ حلقوں کی طرف سے ، خصوصا کٹھ ملاؤں نے اقبال کو حدفِ
تنقید بنایا جس پر اقبال نے ’’ جوابِ شکوہ بھی لکھی ، اور حجت تمام کر دی ،
اِس کے بعد تنقید کرنے والے تمام لوگ آپ کے مقام سے واقف ہو گئے ،یہ نظم
بھی اپنی مثال آپ ہے ۔
دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے
پر نہیں ، طاقتِ پرواز مگر رکھتی ہے
قدسی الاصل ہے ، رفعت پہ نظر رکھتی ہے
خاک سے اُٹھتی ہے گردوں پہ نظر رکھتی ہے
عشق تھا فتنہ گر و سرکش و چالاک مرا
آسماں چیر گیا ، نالہِ فریاد مرا
پیر گردوں نے کہا، سن کے ، کہیں ہے کوئی
بولے سیارے، سر عرشِ بریں ہے کوئی
چاند کہتا تھا ، نہیں اہل زمیں ہے کوئی
کہکشاں کہتی تھی ، پوشیدہ یہیں ہے کوئی
کچھ جو سمجھا مرے شکوے کو تو رضواں سمجھا
مجھے جنت سے نکالا ہوا انساں سمجھا
تھی فرشتوں کو بھی حیرت ، کہ یہ آواز ہے کیا؟
عرش والوں پہ بھی کھلتا نہیں ، یہ راز ہے کیا؟
تا سرِ عرش بھی ، انسان کی تگ وتاز ہے کیا ؟
آگئی خاک کی چٹکی کو بھی پرواز ہے کیا؟
غافل آداب سے مکانِ زمین کیسے ہیں ؟
شوخ و گستاخ یہ پستی کے مکیں کیسے ہیں ؟
اِس قدر شوخ کہ اللہ سے بھی برہم ہیں
تھا جو مسجود ملائک ، یہ وہی آدم ہے ؟
اور پھر اِس کے بعد ’’ جوابِ شکوہ ‘‘ باقاعدہ شروع ہوتا ہے ، اللہ تعالیٰ
کی ذات اپنے بندے کے شکوے کا جواب دیتی، اِس نظم میں اقبال نے نہایت ہی
خوبصورتی سے امت مسلمہ کو آئینہ دیکھایا ہے ، مسلمانوں کو اُن کی کوتاہیاں
دکھائی ہے اور اُن اسباب پر نہایت ہی جامعیت کے ساتھ روشی ڈالی ہے جس کے
سبب زوال مسلمانون کا مقدر بن چکا تھا ، اور اِس کا حل بھی اِس ہی نظم کے
آخیر میں بتا دیا ۔
عقل ہے تیری سپر عشق ہے شمشیر تری
میرے درویش، خلافت ہے جہانگیر تری
ماسوا اللہ کے لیے ، آگ ہے تکبیر تری
تو مسلماں ہو تو ، تقدیر ہے تدبیر تری
کی محمد سے وفا تونے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا ، لوح قلم تیرے ہیں
اُمتیں گلشن ہستی میں ثمر چیدہ بھی ہیں
اور محروم ثمر بھی ہیں خزاں دیدہ بھی ہیں
سینکڑوں نخل ہیں، کاہیدہ بھی بالیدہ بھی ہیں
سینکڑوں بطنِ چمن میں ابھی پوشیدہ بھی ہیں
نخل اسلام نمونہ ہے ، برد مندی کا
پھل ہے یہ سینکڑوں صدیوں کی چمن بندی کا
اقبال نے کہا تھا ۔
اقبال بھی اقبال سے آگاہ نہیں ہے
کچھ اِس میں تمسخر نہیں ، واللہ نہیں ہے
اور یہ درست ہے ، اقبال کی شخصیت کے تمام پہلوؤں سے کوئی بھی آگاہ نہیں ہو
سکا ، اور شاید کبھی کوئی ہو بھی نہ سکے کہ اقبال جیسے سپوت قومیں شاید
ہزاروں سالوںمیں بھی پیدا نہیں کر سکتی اور اقبال کو سمجھنے کے لیے کوئی
اقبال جیسا ہی ہونا چاہیے۔ |