ایک نو عمر بچے کے چند سوال، دہشت گردوں سے

میں ایک سرکاری ہسپتال میں اپنے ایک عزیز کی تیمار داری کے لئے گیا، واپسی پر انتظار گاہ میں چند نو عمر بچے جو کسی سکول کی یونیفارم پہنے ہوئے تھے کو دیکھ کر تجسس سے رک گیا، ان میں سے ایک بچے کو پوچھا، بیٹا آپ لوگ یہاں کیا کر رہے ہیں؟ اس نے بتایا کہ وہ لوگ یہاں اپنے ایک کلاس فیلو جو ڈینگی وائرس میں مبتلا ہوگیا تھا اس کی خیریت دریافت کرنے آئے ہیں کہ اسی دوران کراچی میں ہونے والے دھماکے کی خبریں ٹی وی پر نشر ہونا شروع ہوگئیں۔ چند ساعتوں میں ہی وہاں لوگوں کا ایک جم غفیر جمع ہوگیا اور سب لوگ معصوم لوگوں کی شہادتوں پر تاسف کا اظہار کرنے لگے۔ وہ بچے چونکہ میرے بالکل قریب کھڑے تھے اس لئے ان میں سے ایک بہت پیارے بچے کی بات نے مجھے چونکنے پر مجبور کردیا۔ وہ اپنے ایک ساتھی سے کہہ رہا تھا کہ کیا میرا رابطہ کسی دہشت گرد سے ہوسکتا ہے؟ یہ سن کر میں نے اس سے پوچھا کہ آپ اس سے کیا کہنا چاہتے ہیں۔ وہ کہنے لگا انکل میں اس سے اپنے ذہن میں پیدا ہونے والے کچھ سوالات کے جواب حاصل کرنا چاہتا ہوں۔ میں نے استفسار کیا کہ آپ اس سے کیا سوال کریں گے اور وہ کیونکر آپ کے سوالات سنے گا اور ان کے جواب دے گا۔ ویسے آپ کے سوال کیا ہیں؟ میں نے اس سے پوچھا، اس نے کہا ”میں پوچھنا چاہتا ہوں کہ آپ خود کو طالبان کہتے ہیں اور وہ بھی پاکستانی طالبان، تو کیا آپ پاکستان میں معصوم اور بے گناہ لوگوں کا خون بہا کر اسلام یا پاکستان کی کوئی خدمت کررہے ہیں یا غیروں اور پاکستان کے دشمنوں کی“ پھر خود ہی کہنے لگا کہ جہاں تک میں نے اسلامیات پڑھی ہے، ہمارے پیارے نبی ﷺ نے تو جنگ کے اصول بھی ہمیں بتا دئے تھے جن کے مطابق جہاد کرتے ہوئے بھی کسی نہتے کو، کسے بوڑھے کو، کسی خاتون کو اور کسی بچے کو ہرگز کوئی تکلیف نہیں پہنچائی جاسکتی، وہ لوگ جو اپنے ہتھیار پھینک دیں، وہ لوگ جو اپنی عبادتگاہوں، اپنے گھروں میں ہوں چاہے وہ کافر ہوں، اللہ کا انکار کرنے والے ہوں،ان کو امان مل جاتی ہے، تو انکل یہ کیسے مجاہد ہیں، کیسے طالبان ہیں جو اپنے ہم مذہبوں اور اپنے ہم وطنوں، معصوم اور بے گناہ لوگوں کو مارتے ہیں، یہ کس طرح کے انسان ہیں جو یہ بھی نہیں دیکھتے کہ مرنے والا کلمہ گو ہونے کے ساتھ ساتھ ایک عورت ہے، بوڑھا ہے یا بچہ ہے۔ کہنے لگا کہ میں تو پوری ایمانداری سے یہ سمجھتا ہوں کہ طالبان ہم میں سے قدرے بہتر مسلمان ہیں جو افغانستان میں غیر ملکی اور غیر مسلم طاقتوں کے خلاف برسر پیکار ہیں، لیکن ان ”تحریک طالبان پاکستان“ کی تو کوئی سمجھ نہیں آتی کہ یہ کہاں سے ٹپک پڑے اور یہ کس اسلام پر عمل پیرا ہیں؟ ہمارے پیارے نبی ﷺ نے تو ایسے اسلام کی تبلیغ نہیں کی تھی، پھر کہنے لگا کہ اگر مجھے کوئی دہشت گرد مل جائے تو میں یہ بھی ضرور پوچھوں کہ کیا آپ کے کوئی بہن بھائی، ماں باپ، بیوی اور بچے ہیں، اگر ہیں تو اگر کوئی ان کے ساتھ یہی سلوک کرے تو آپ کا رد عمل کیا ہوگا؟ میں یہ بھی پوچھنا چاہتا ہوں کہ اگر آپ خود کش دھماکہ کریں گے تو ذرا تصور کریں کہ آپکی والدہ کہ جس کی محبت کی مثال اللہ نے بھی دی ہے، وہ کیسے آپکو Miss کریں گی، کس طرح آپ کو یاد کر کے ہر وقت روتی رہیں گی، میری والدہ تو مجھ سے بہت پیار کرتی ہیں، یقیناً آپکی والدہ بھی آپ سے پیار کرتی ہوں گی، ان کے نزدیک آپ اس دنیا کے سب سے پیارے بچے ہوں گے لیکن آپ کیا کررہے ہیں؟ میں ضرور پوچھوں گا کہ کیا آپ جانتے ہیں کہ اس طرح کی دہشت گردی کی کاروائیوں سے اسلام کا تصور کتنا مجروح ہوتا ہے اور پوری دنیا کا میڈیا کس طرح اسلام کے خلاف پراپیگنڈہ شروع کردیتا ہے؟ میں یہ بھی پوچھنا چاہتا ہوں کہ آپ کو کلمہ بھی آتا ہے یا نہیں؟ صرف داڑھی رکھ لینے سے تو کوئی صحیح العقیدہ مسلمان نہیں بن جاتا، داڑھی تو یہودی اور سکھ بھی مذہبی طور پر رکھتے ہیں، اصل بات تو یہ ہے کہ آپ کے اندر ایمان کتنا ہے اور اگر آپ کے اندر ایمان کی طاقت ہے تو آپ اسے اچھے مقاصد کے لئے کیوں استعمال نہیں کرتے، بگاڑ پیدا کرنے کے لئے کیوں؟ ایک بچے نے لقمہ دیا، اگر اس طرح کے سوال پوچھے گا تو وہ فوراً تجھے گولی مار دے گا، تو پہلے بچے نے جواب دیا کہ یار زندگی تو اللہ کے ہاتھ میں ہے، ایک دن مرنا تو ہے۔ مگر اگر میں اس دہشت گرد سے یہ سوال پوچھوں گا تو شائد وہ حق تک پہنچ ہی جائے، شائد اسے اپنے پیارے یاد آجائیں، شائد اس کو اللہ کا خوف آجائے!

سانس لے کر جب وہ بچہ دوبارہ بولا تو اس کی آنکھوں میں آنسو تھے اور اس کی آواز رندھ چکی تھی، کہنے لگا کہ جب ہم لوگ ٹی وی پر اس طرح کے دھماکے دیکھتے ہیں اور دھماکے کے چند لمحوں بعد ہی ٹی وی پر یہ بھی دیکھتے ہیں کہ اس کی ذمہ داری تحریک طالبان پاکستان نے قبول کرلی ہے تو ہمیں شک گزرتا ہے کہ دال میں کچھ کالا ضرور ہے، اب تو سائنس نے اتنی ترقی کر لی ہے کہ اگر میڈیا کو یا کسی حکومتی ایجنسی کو کہیں سے کوئی فون کال آئے، ایس ایم ایس آئے یا ای میل آئے تو فوراً اس جگہ کا پتہ چلایا جاسکتا ہے، موبائل فون کو بھی ٹریک کیا جاسکتا ہے اور آئی پی ایڈریس سے آپ اس کمپیوٹر تک بھی پہنچ سکتے ہیں جہاں سے انٹرنیٹ کے ذریعہ ای میل کی جاتی ہے تو کیوں یہ تحریک طالبان پاکستان والے کسی پکڑ میں نہیں آتے، کیوں ان کا پتہ نہیں چلایا جاتا، اس کا مطلب ہے کہ امریکہ اور ہماری حکومت سمیت کوئی ان کو پکڑنا ہی نہیں چاہتا۔ کہنے لگا انکل! کافی عرصہ سے میڈیا میں یہ خبریں آرہی ہیں کہ پاکستان میں امریکی دہشت گرد ایجنسی ”بلیک واٹر“ ایک نئے نام سے دہشت گردی کی کاروائیوں میں ملوث ہے تو ہماری فوج کیوں خاموش ہے؟ کیا فوج کی انٹیلی جنس ایجنسیوں کو بھی کچھ پتہ نہیں چل رہا کہ یہ سب کچھ کون کررہا ہے؟کہنے لگا، انکل! کیا مسجدوں، غیر مسلم عبادت گاہوں، پارکوں، بازاروں، ہوٹلوں وغیرہ پر دھماکے کرنے والا کوئی مسلمان ہوسکتا ہے، کیا اس کا اسلام کے ساتھ دور کا بھی تعلق ہوسکتا ہے؟ پھر خود ہی جواب بھی دیدیا کہ ہمارے اسلاف تو ایسے تھے کہ ان کے اعمال کو دیکھ کر غیر مسلم، اسلام قبول کرلیا کرتے تھے، ایسے کام کرنے والے ہرگز مسلمان نہیں ہوسکتے، بلکہ مجھے پکا یقین ہے کہ ایسے کام وہ لوگ کرتے ہیں جو اسلام کو بدنام اور اس ملک کو ختم کرنا چاہتے ہیں لیکن میں ان دہشت گردوں سے کہنا چاہتا ہوں کہ تم لوگ بزدل ہو جو اپنے چہرے چھپا کر، مسلمانوں کا لبادہ اوڑھ کر مسلمانوں پر پیچھے سے وار کر رہے ہو، اگر ہمت ہے تو اپنے اصلی ناموں اور اصلی شکلوں کے ساتھ سامنے آﺅ، اس ملک کا ہر ایک بچہ ننھے مجاہد کے روپ میں ملے گا اور تمہیں دندان شکن جواب دے گا۔ میرے پاس اس بچے سے اتفاق کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہ تھا....!
Mudassar Faizi
About the Author: Mudassar Faizi Read More Articles by Mudassar Faizi: 212 Articles with 222497 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.