حج اسلام کا پانچواں رکن ہے۔ حکم خداوندی کے سامنے
سرتسلیم خم کرتے ہوئے ہر سال دنیا بھر سے مسلمان جوق در جوق بیت اﷲ کا رخ
کرتے ہیں۔ حج دنیا کا سب سے بڑا اجتماع ہے۔ حج سیکورٹی، حفاظت، صحت و علاج،
نقل و حمل، رہائش اور کھانے پینے کی چیزوں کی فراہمی کے حوالے سے سعودی
حکام کے لیے ایک بہت بڑا چیلنج بھی ہے۔ ہر سال عازمین حج کی اتنی بڑی تعداد
کے لیے خوراک، رہائش، نکاسی آب اور ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کے لیے سعودی
حکومت کو تیار رہنا پڑتا ہے اور سعودی حکومت عازمین کے لیے غیر معمولی
انتظامات کرتی ہے۔ دنیا بھر سے فریضہ حج کی ادائی کے لیے عازمین حج حجاز
مقدس میں موجود ہیں۔ مسجد حرام میں مقامی نمازیوں اور اندرون اور بیرون ملک
سے آئے عازمین حج کے رش میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ سعودی حکام کا کہنا ہے
کہ اس بار حج کے موقع پر گزشتہ برس کی نسبت عازمین کی تعداد میں 30 فیصد
اضافہ متوقع ہے۔ عازمین حج کے لیے سکیورٹی کے فول پروف انتظامات کیے گئے
ہیں۔ حج کی سیکورٹی پر مامور ادارے چوبیس گھنٹے مکہ مکرمہ میں حجاج کرام کی
سیکورٹی پر کام کررہے ہیں۔ عازمین حج کی فضائی نگرانی بھی جاری ہے۔ فضائی
نگرانی کا مقصد مشاعر مقدسہ کی طرف آنے والے عازمین کے راستوں میں رش کی
نشاندہی کرتے ہوئے ٹریفک کی روانی کو برقرار رکھنے میں دوسرے اداروں کے
ساتھ تعاون کرنا ہے۔ سیکورٹی اداروں کے ہیلی کاپٹر وقفے وقفے سے مکہ مکرمہ
میں مختلف مقامات بالخصوص شاہرات کی فضائی نگرانی کررہے ہیں۔ سعودی عرب کے
داخلی راستوں، بڑی شاہراؤں، مکہ، مدینہ منورہ اور جدہ کو باہم ملانے والی
شاہرات، چوکوں اور دیگر رش والے مقامات کی منظم انداز میں فضائی نگرانی کی
جا رہی ہے، تاکہ عازمین حج کو اپنی منزل مقصود تک پہنچنے میں کسی قسم کی
رکاوٹ اور دشواری کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ حکام نے کہا ہے کہ بیرون ملک سے
عازمین حج کے مملکت میں داخلے کے لیے بری، بحری اور فضائی راستے کھلے ہیں۔
عازمین حج کے لیے تمام انتظامات بالخصوص سیکورٹی کے تمام اقدامات مکمل
کرلیے گئے۔ حج کی سیکورٹی پر مامور ادارے چوبیس گھنٹے مکہ مکرمہ میں حجاج
کرام کی سیکورٹی پر کام کررہے ہیں۔ اس بار عازمین حج کی سیکورٹی پر پہلی
مرتبہ خواتین اہلکاروں کو بھی شامل کیا گیا ہے۔ حجاج سے براہ راست رابطے کے
لیے چھ زبانوں کے ماہرین بھی مقررکیے گئے ہیں۔
18 لاکھ سے زاید غیر ملکی عازمین حج حجاز مقدس پہنچ چکے ہیں۔ سعودی حکومت
کے ذرایع کے مطابق 31 اگست 2017 کو 25لاکھ عازمین حج وقوف عرفات کریں گے۔
آج 30 اگست بدھ کو دو ملین سے زاید عازمین حج مکہ مکرمہ سے منیٰ منتقل
ہوجائیں گے، جہاں رات خیمہ بستیوں اور کھلے آسمان تلے عبادات میں بسر کرنے
کے بعد 31 اگست کو منیٰ سے عرفات کے میدان منتقل ہوجائیں گے، جہاں حج کا
رکن اعظم وقوف عرفات کریں گے۔ اس دوران مسجد نمرہ میں ظہر اور عصر کی
نمازیں امام صاحب کی اقتداء میں ادا کرکے غروب آفتاب سے قبل میدان عرفات سے
مزدلفہ روانہ ہوجائیں گے۔ مزدلفہ میں مغرب اور عشاء کی نمازیں ملا کر ادا
کریں گے۔ رات مزدلفہ گزارنے کے بعد طلوع آفتاب کے فوراً بعد واپس منیٰ
روانہ ہوجائیں گے۔ امسال حج کے لیے اسلامی ممالک کی وی وی آئی پی شخصیات
بھی آرہی ہیں۔ سعودی حکومت اور خادم الحرمین شریفین شاہ سلمان بن
عبدالعزیزکی طرف سے شاندار انتظامات کیے گئے ہیں اور بے مثال سہولتیں فراہم
کی گئی ہیں، جس کا دنیا بھر سے آیا ہر حاجی معترف ہے۔ ہر جگہ ترتیب، مہمان
نوازی کاجذبہ نظر آتا ہے، جس سے دنیا بھر سے آئے عازمین حج نہ صرف متاثر
ہیں، بلکہ اسے سراہ بھی رہے ہیں۔ سعودی فرمانروا شاہ سلمان بن عبدالعزیز
السعود کی طرف سے اس سال گزشتہ 20 سال سے جاری پروگرام برنامج ضیوف خادم
الحرمین شریفین کو نہ صرف جاری رکھا گیا ہے، بلکہ وسعت بھی دی گئی ہے۔ اس
سال اس پروگرام کے تحت پاکستان، انڈونیشیا، انڈیا، ترکی، ملائیشیا،
نائجیریا سمیت43 ممالک سے 2400 مسلمانوں کو خصوصی طور پر حج کے لیے بلایا
گیا ہے۔ سعودی شاہ سلمان بن عبدالعزیز السعودان افرادکی میزبانی کر رہے ہیں
اور تمام اخراجات اپنی ذاتی جیب سے کر رہے ہیں۔
پاکستان کا حج آپریشن مکمل ہوگیا ہے اور مجموعی طور پر 179,006 عازمین حج
مکہ مکرمہ پہنچ گئے ہیں۔ سرکاری سکیم کے تحت 107,337 اور نجی سکیم کے تحت
71669 عازمین حج سعودی عرب پہنچ گئے ہیں۔ پی آئی اے کے مطابق 32 دن پر محیط
قبل از حج آپریشن کے دوران 230 خصوصی اور شیڈول پروازوں کے ذریعے تقریباً
57 ہزار عازمین حج کو پاکستان کے سات بڑے شہروں سے مدینہ اور جدہ پہنچا دیا
گیا ہے۔ ترجمان پی آئی اے کے مطابق اس دوران پروازوں کی بروقت روانگی کی
شرح 92 فیصد رہی۔ پی آئی اے نے کراچی سے 17ہزار 615، اسلام آباد سے 10ہزار
882، لاہور سے 10ہزار 610، پشاور سے 7ہزار 601، ملتان سے 5ہزار 956،
سیالکوٹ سے 3ہزار 923 اور فیصل آباد سے 445عازمین کو حجاز مقدس پہنچایا۔
حجاج کو سہولیات بہم پہنچانے کے لیے پی آئی اے انتظامیہ نے خصوصی حج ٹیم
جدہ حج ٹرمینل اور مدینہ ائرپورٹ پر تعینات کر دی ہے، تاکہ حجاج کے وطن
واپسی کے سفر میں ان کو ہرممکن خدمات فراہم کی جا سکیں۔ پی آئی اے کا بعداز
حج آپریشن 7ستمبر کو شروع ہوگا، جسے 8 اکتوبر تک مکمل کر لیا جائے گا۔
سعودی عرب میں اس وقت مقامی اور پاکستان سے آئے ہوئے 2406معاونین مختلف
شعبہ جات میں خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔ شعبہ گمشدگی و بازیابی نے 923
عازمین کا گم شدہ سامان ڈھونڈ کر ان کے حوالے کر دیا، جبکہ راستہ بھولنے
والے 232عازمین حج کو ان کی رہائش گاہ تک پہنچایا گیا۔ حرم گائیڈز نے حرم
سے نکلنے والے 20903عازمین کی رہنمائی کی۔ مانیٹرنگ ٹیموں نے اب تک 543
HGOs اور 131 سرکاری رہائشوں کی مانیٹرنگ کی گئی ہے۔ کال سینٹر کی ہیلپ
لائن پر موصول ہونے والی 1157 شکایات میں سے 923 کا ازالہ کر دیا گیا۔
پاکستان حج میڈیکل مشن سے 149,632 عازمین نے استفادہ کیا۔ اب تک 1291
عازمینِ حج کو ویل چیئرز کا اجرا کیا جا چکا ہے۔
دوسری جانب حج کوٹے میں اضافے کے باوجود وزارت نے ٹرانسپورٹ رہائش، کھانے
اور میڈیکل سہولیات میں کسی قسم کا اضافہ نہیں کیا ہے۔ مکہ مکرمہ میں حج
میڈیکل مشن پر روزانہ لمبی قطاریں، ناقص کھانے اور ٹرانسپورٹ کے مسائل
پاکستانی عازمین کے لیے وبال جان بن گئی ہیں۔ حجاج کے لیے وزارت مذہبی امور
کی جانب سے میڈیکل کے ناقص انتظامات کیے گئے ہیں۔ ذرایع کے مطابق امسال کل
1 لاکھ 79 ہزار 210 پاکستانی فریضہ حج کی ادائیگی کے لیے سعودی عرب گئے
ہیں، جس کے لیے میڈیکل کا صرف 560 افراد پر مشتمل عملہ موجود ہے۔ جس کا
آدھا اسٹاف وی آئی پیز کی خدمات پر مامور کیا گیا ہے۔ ذرایع کے مطابق عام
حجاج کرام فریضہ حج کے دوران بھی صحت کی سہولیات حاصل کرنے کے لیے دربدر
ہیں۔ ذرایع کے مطابق وزارت مذہبی امور کے اعلی حکام قریبی عزیزوں کو حج
کرانے کے لیے میڈیکل اسٹاف کے کوٹہ میں سرکاری خرچ پر سعودی عرب لے گئے۔ اس
وقت مکہ مکرمہ میں لاکھوں حجاج کے لیے مردوں کے میڈیکل کیمپ میں صرف 17 بیڈ
پر مشتمل یونٹ قائم کیا گیا ہے۔ ذرایع کے مطابق میڈیکل سٹاف نہ ہونے سے
ہزاروں مریض بغیر چیک اپ کے واپس جانے پر مجبور ہیں، جبکہ میڈیکل سٹور پر
بیمار عازمین کی لمبی قطاریں لگ گئی ہیں۔ ذرایع کے مطابق وفاقی وزرا اور
اعلی حکام کے لیے میڈیکل کی بھی وی آئی پی سہولیات کا بندوبست کیا گیا، مگر
عام حجاج کے لیے قائم میڈیکل کیمپ میں ہر وقت نہ ختم ہونے والی قطار موجود
ہوتی ہے۔ ذرایع کے مطابق امسال وزارت نے سرکاری حج سکیم کے کوٹے میں 10
فیصد اضافہ کیا ہے اور سرکاری طور پر 36 ہزار سے زاید افراد سرکاری حج سکیم
کے تحت سعودی عرب بھجوائے گئے ہیں، مگر ان عازمین کے لیے سعودی عرب میں کسی
قسم کے انتظامات نہیں کیے گئے ہیں۔ ذرایع کے مطابق آخری فلائیٹس میں سعودی
عرب پہنچنے والے عازمین کو مکہ مکرمہ میں رہائش گاہیں بھی حرم پاک سے بہت
دور فراہم کی گئی ہیں اور انہیں ٹرانسپورٹ کے مسائل کا بھی سامنا ہے۔ اسی
طرح وزات کی جانب سے عازمین کو فراہم کیے جانے والے تین وقت کے کھانے سے
متعلق بھی بہت زیادہ شکایات موصول ہو رہی ہیں۔ جبکہ وزارتِ مذہبی امور کے
زیر اہتمام حج انتظامات کا جائزہ لینے کے لیے حج ایڈوائزری کمیٹی کے ارکان
مدینہ منورہ اور جدہ ایئر پورٹس کے ذریعے سعودی عرب پہنچ گئے ہیں۔ ڈائریکٹر
جنرل ڈاکٹر ساجد یوسفانی کمیٹی ارکان کو دفتر امور حجاج پاکستان میں حج
انتظامات پر بریفنگ دیں گے۔ کمیٹی اراکین کی مختلف سعودی محکموں سے بھی
ملاقاتیں متوقع ہیں۔ اس کے علاوہ کمیٹی ارکان حج مشن کے تحت قائم مختلف
شعبہ جات سمیت عازمینِ حج سے بھی ملاقاتیں کریں گے۔
دوسری طرف ایک اور انتہائی افسوسناک خبر بھی آئی ہے کہ حج آپریشن 2016ء میں
اربوں روپے کا غبن، کرپشن اور بے ضابطگیاں بھی سامنے آئی ہیں۔ میڈیا رپورٹس
کے مطابق آڈیٹرز نے وزارت مذہبی امور کے ایک اقدام کو طشت ازبام کیا ہے، جس
میں انہوں نے بینکوں کو غیر قانونی طور پر نوازا اور انہوں نے درخواست
گزاروں سے حج فیس اکٹھی کی۔ مذکورہ وزارت بارے آڈیٹر جنرل آف پاکستان کی
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ نان ایڈجسٹمنٹ رولز کی خلاف ورزی کا الزام تھا اور
یہ بے ضابطگی کے زمرے میں آتا ہے۔ زیادہ سنجیدہ اعتراض وزارت کی اس ناکامی
سے متعلق ہے۔ ایک آڈٹ اعتراض بینکوں کو نوازنے کے لیے مفاہمتی یاداشت میں
غیر قانونی تبدیلی ہے، جس کے ذریعے ناکام رہ جانے والے درخواست گزاروں کی
فیس پر بینکوں کو منافع رکھنے کی اجازت دینا تھا۔ وزارت نے اس تبدیلی کے
مالیاتی اثرات کا تعین کرنے میں بھی آڈیٹرز کو بھی کوئی سپورٹ فراہم نہیں
کی۔ اس کے علاوہ اس وزارت سے بینک اکاؤنٹس کا ریکارڈ بھی فراہم نہیں کیا،
جہاں پر درخواست گزاروں نے حج فیس جمع کروائی تھی۔ ایک دوسرے اعتراض میں
کہا گیا ہے کہ وزارت فیس ڈیپازٹ سے منافع کی مد میں بینکوں سے 83.49 ملین
روپے بھی ریکور کرنے میں ناکام ہوگئی ہے۔ آڈٹ میں ایک دفتر عمارت کے کرائے
کے لیے 38.91 ملین روپے کی غیر ضروری خرچ پر بھی روشنی ڈالی ہے۔ اس طرح اس
وزارت سے دیگر حکومتی اداروں کو بھی 27.7 ملین روپے کا ٹیکہ لگایا۔ جس کے
ذریعے انہیں 4.94 ارب روپے کا دستاویزی ثبوت پیش کرنا تھا۔ جس کو حج اکاؤنٹ
حجاج کے بہبودی فنڈز سے ڈائریکٹر جنرل حج کو ادا کیا گیا۔ تاہم انتہائی
قابل افسوس انکشاف ہے کہ وزارت مذہبی امور بین المذاہب ہم آہنگی کو آڈٹ
ضروریات 2016 ء بارے آگاہ کیا گیا، تاہم وزارت نے کوئی جواب داخل نہیں
کروایا۔ حج اخراجات کے بارے میں کوئی واؤچرز اور دیگر دستاویزی ثبوت بھی
نہیں فراہم کیا گیا۔ اس وزارت کے خلاف بدانتطامی کی دیگر سنجیدہ بھی ہیں،
جو زیادہ تر حج آپریشن سے متعلق ہیں۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ کس طرح وزارت
مذہبی امور نے رواں سال حج کے لیے اپنے 192 ملازمین کی تقرری کی اس طرح
دیگر وزارتوں کے 99 ملازمین کی تقرری کی گئی۔ بہت ہی افسوس کی بات ہے کہ حج
سے جیسے مقدس عمل میں بھی ذمہ دار لوگ عازمین حج سے دھوکا دے کر مال لوٹتے
ہیں۔ حجاج کرام اﷲ تعالیٰ کے مہمان ہوتے ہیں، جن کی جتنی زیادہ خدمت کی
جائے، اتنا ہی اجر عظیم ہے، اس کے ساتھ عازمین حج کو سہولیات فراہم کرنا
حکومت کی ذمہ داری بھی ہے، کیونکہ عازمین مفت میں حج کرنے نہیں جاتے، پورے
واجبات ادا کرتے ہیں، لیکن افسوس کی بات ہے کہ متعلقہ شعبہ پیسے تو پورے لے
لیتا ہے، لیکن سہولیات مکمل فراہم نہیں کرتا۔ گزشتہ سالوں میں پاکستان سے
گئے عازمین حج کے مسائل میں کسی حد تک کمی واقع ہوئی تھی، لیکن اب وبارہ یہ
سلسلہ شروع ہوگیا ہے جو بہت ہی افسوسناک ہے۔ حکومت کے لیے شرم کا مقام ہے،
اگر ان میں شرم نام کی کوئی چیز ہو۔ ان کو سوچنا چاہیے کہ جو لوگ اﷲ کے
مہمان ہیں، جن کا احترام اﷲ تعالیٰ کرتا ہے، حکومت ان لوگوں کو ہی دھوکا
دینے پر تل گئی ہے۔ اس سے بھی تکلیف دہ خبر یہ ہے کہ حجاج کرام کے ساتھ
دھوکا کیا جاتا ہے اور حج آپریشن میں اربوں روپے کی کرپشن کی گئی ہے۔ گزشتہ
سالوں میں بھی ایسا ہوتا آیا ہے۔ یہ سب اس لیے ہوتا ہے کہ کرپٹ افراد کو
سزائیں نہیں دی جاتیں۔ جو لوگ ملوث ہوتے ہیں، وہ بچ نکلتے ہیں، جبکہ ایسے
افراد کو تو اتنی سخت سزائیں دینی چاہیے کہ آئندہ سب کے لیے عبرت کا نشان
بن جائیں۔ |