عید کے معنی ہی خوشی کے ہیں مسلمانوں کے لیے دو عیدین کے
تہوار انتہائی انبساط اور خوشیوں کا باعث ہوتے ہیں مگر گراں فروشوں نے تو
امسال عید الاضحی کی خوشیوں کو اپنے تئیں ختم کرڈالنے کی مذموم کوششیں کیں
کیونکہ گوشت پکانے کے لوازمات سبزیاں مصالحہ جات و دیگر عید کے آئٹم چاول
چینی وغیرہ ضروری تھے ان کو اتنا مہنگا کرڈالا کہ الامان و الحفیظ ۔مہنگائی
کا جن عید کے تینوں دن ننگا ناچ ناچتا اور عوام کا منہ چڑاتا رہاعید قربان
کیا آئی کہ گراں فروشوں کی چاندی ہی ہوگئی اور سبزی اور فروٹ فروشوں کا
یہاں ہی دبئی بنا رہا ۔حکومت بدستور ٹھن ٹھن گوپال اور بھیگی بلی بنی صرف
تماشا دیکھتی رہی کہ مارکیٹ کمیٹیوں کے ذمہ داران جو کہ حکمرانوں کے ہی
نامزد کردہ ہوتے ہیں نے پہلے ہی فروٹ اور سبزی فروشوں سے ڈھیر سارا مال
اینٹھ لیا تھا تاکہ پھر مہنگی ترین اشیاء بیچنے والوں کو کوئی رکاوٹ نہ آئے
آخری انتظامی رکاوٹ پولیس ہوتی ہے اور یہ توسبھی جانتے ہیں کہ اس بازار کے
کوٹھے پر"شہزادی " اسی کی ہوتی ہے جو بڑھ چڑھ کر زیادہ مال لگائے اور یہاں
پر بھی پولیس رویہ بیعنہہ ایسا ہی رہتا ہے کہ زیادہ سے زیادہ مال لگاؤ اور
پھر اپنی من مرضیاں جس طرح چاہو کرتے رہو۔گراں فروشوں کا عید پر عمل
سراسرڈکیتیوں کے مترادف تھا اور چوری ڈکیتی تو ہو ہی نہیں سکتی۔
جب تک اس میں متعلقہ تھانیدارکا حصہ نہ ہو۔عید پر ادرک425روپے لہسن 390روپے
،ٹماٹردو سے اڑھائی سو روپے، لیموں اڑھائی سے تین سو روپے ،سبز مرچ ساڑھے
تین سو روپے فی کلو تک فروخت ہوتی رہی دھنیا اور پودینہ کی چار پانچ ڈنڈیاں
جن کے پتے بھی گلے سڑے تھے وہ پچاس روپے تک فروخت ہوئیں کیونکہ عید تو سبھی
مسلمان مناتے ہیں اس لیے ایک وجہ تو ان اشیاء کی ترسیل میں رکاوٹیں بھی
رہیں اسی لیے عید کے دوسرے تیسرے روز انہی اشیاء کا ریٹ مزید مہنگا ہوتا
گیااب بھلا کوئی بتائے تو سہی کہ سبھی غیر مذاہب کے لوگ اپنے قومی دنوں اور
تہواروں پر ضروری اشیاء کی قیمتیں تقریباً نصف کرڈالتے ہیں تاکہ سبھی ان سے
فائدہ اٹھا سکیں مگر ہم مسلمانوں کے ہاں ہی ان مواقع پر الٹی گنگا بہنے
لگتی ہے اور اشیائے ضروریہ کی قیمتیں آسمانوں سے باتیں کرنے لگ جاتی ہیں
دراصل دنیا کے غلیظ ترین اور کافرانہ نظام سود نے معیشت کو کسی بڑے سانپ یا
اژدھے کی طرح جکڑ لیا ہے مہنگائی ہر صورت بڑھتی ہی رہے گی کہ جس سرزمین پر
خدا اور اس کے رسولﷺ کے خلاف دشمنی کا نظام چل رہا ہو وہاں خدا کی زحمتیں
ہی نازل ہوتی رہتی ہیں اور رحمتیں تو کیا اتریں گی کہ سودی کاروبار کرنے
والے لین دین اور اس میں گواہ بننے والے سبھی خدا اوراس کے رسولﷺ کے خلاف
جنگ میں ملوث ہوتے ہیں اور یہ بھی کہ ایسا عمل کرنے والے اگر69دفعہ اپنی
سگی ماں سے زنا کرلیں تو سود اس بد ترین عمل سے بھی بڑا گنا ہ ہے سود کی
ممانعت پر قران اور حدیث واضح ہیں اس سے جان چھڑوانا اور اسلامی نظام معیشت
کواپنانا ہماری اولین ترجیح ہونی چاہیے تاکہ ہم مہنگائی سے جان چھڑوا
سکیں۔مگر کیا کریں کہ وفاقی شریعت کورٹ کے فیصلے کے بعد حکمرانوں نے سپریم
کورٹ سے سٹے آرڈر جاری کروارکھاہے ۔
عید پر تو چاول بھی200روپے کلو سے بڑھ کر بکتا رہا کہ لوگ گوشت چاول ہی نہ
پکاسکیں ویسے بھی عید قربان پر سود خور سرمایہ دار طبقات کے فریج اور ڈیپ
فریزر بھر جاتے ہیں اور غریبوں کو بمشکل ہی کوئی چھیچڑا ہڈی پہنچ پاتی ہے
گراں فروشی بالخصوص تہواروں کے موقع پر بدترین اور انتہائی قابل مذمت عمل
ہے در اصل تو بڑے بڑے پیٹو سود خور سرمایہ داروں نے ہی ان دنوں گرانی کی
ہوتی ہے کہ جس منڈی میں بھی ٹرکوں کے ذریعے سامان خوردونوش سبزیاں اور فروٹ
پہنچاتے ہیں وہاں اپنی مرضی کا دام لگاتے ہیں اس لیے ہی ان مخصوص دنوں میں
مہنگی اشیاء فروٹ ریڑھیوں سبزی فروشوں و دیگر دوکانداروں تک پہنچ پاتی ہیں
اب ان کی بھی مجبوری ہے کہ وہ منافع وصول کرکے انہیں آگے فروخت کریں ۔اعلیٰ
قسم کے آم چونکہ زیادہ باہر مہنگے داموں سود خوروں نے بیچ ڈالے ہیں اس لیے
یہاں عید پر تین چار سو روپے کلو ہی بکتے رہے دیگر فروٹ انگور گرما میٹھے
مالٹے پپیتاانار وغیرہ بھی دگنی تگنی قیمت پر بکنا حکمرانوں کے منہ پر ایک
تمانچہ کی حیثیت رکھتا ہے کہ ہم سود خور سرمایہ دار طبقات کو نتھ نہیں ڈال
سکے کہ خود اسی طبقہ سے تعلق رکھنے والے اقتداری کرسیوں پر براجمان ہیں
۔کسی ایک آدھ گراں فروش و زخیرہ اندوز کو کسی بڑے شہر کے چوک پر لٹکا کر
نشان عبرت بنا ڈالا جاتا تو ہر طرف یہ بات جنگل کی آگ کی طرح پھیل جاتی اور
دیگر سب "بندے کے پتر" بن کر اشیائے ضروریہ کو مہنگی بیچنے سے باز رہ جاتے
اسلامی سزاؤں کی یہی خصوصیت سب سے بہتر ہے کہ اگر کسی ایک چور کا ہاتھ کاٹا
جائے یا کسی ایک زانی کو سنگسار کرڈالا جائے تو پھر کئی سالوں تک سکون رہتا
ہے اور کوئی بھی شخص چوری یا زنا کی سزا سے خوف زدہ ہو کر ایسے عمل سے باز
رہتا ہے اور تو اور حکومت خود بھی باز نہیں رہ سکی پٹرول دو روپے لیٹر مزید
مہنگا کرڈالا ادویات خصوصاً جان بچانے والی اور کینسر و عارضۂ قلب کی
دوائیاں دس فیصد مزید سے بھی مہنگی ہوکر عوام کی پہنچ سے باہر ہوگئی ہیں
۔گھریلو گیس بھی مہنگی کرڈالی ۔نام نہاد پرائس کنٹرول کمیٹیاں ویسے ہی مال
ڈکارو اور سفید ہاتھی بن کر ملک کے لیے ایک لعنت بن چکی ہیں وما علینا
الاالبلاغ۔ |