کوئی بولے یا نہ بولے،کشمیری تو بولے گا!

کہا جاتا ہے کہ عوام کا معیار اور ان کو حاصل حقوق کی صورتحال کو دیکھنا ہو تو ان کی اسمبلی کے ارکان کو دیکھ لو،اصل صورتحال واضح ہو جائے گی۔آزاد کشمیر اسمبلی کے ارکان کشمیر کاز آزاد کشمیر کے عوام اورخطے کے لئے جو شاندار کردار ادا کرتے چلے آ رہے ہیں ،وہ ہمارا سرکاری مورخ سرکاری تاریخ میں سنہری حروف سے لکھ رہا ہے۔یہ الگ بات ہے کہ مورخ سے تاریخ سنہری حروف میں لکھوائی تو جا رہی ہے لیکن مورخ کو سرکار کی طرف سے سنہری حروف کے گراں اخراجات ادا کرنے کے بجائے کالی سیاہی کے استعمال کا ہی خرچہ دیا جا رہا ہے۔اب یہ مورخ کا کمال ہے کہ وہ ارکان اسمبلی ،سیاست دانوں کے کالی سیاہی میں لکھے جانے کے قابل کردار کو تاریخ میں سنہری حروف سے لکھتے ہوئے ان سیاسی کرداروں کو تاریخ میںامر کر رہا ہے۔سیاسی کردار ہی کیا ،ان سیاسی کرداروں کی آئندہ نسلیںہی نہیں بلکہ ان کے قبائل بھی نظام باقی رہنے تک اس سنہری کردار پر فخر کرتے رہیں گے اور اپنے استحقاق کے حصول کے لئے ثبوت کے طور پر پیش کرتے رہیں گے۔آزاد کشمیر اسمبلی کے ارکان جس کسمپرسی کے عالم میں آزاد کشمیر کے مقامی کاز اور مقبوضہ کشمیر کے کاز کے لئے دلیرانہ اور پرفخر کردار ادا کرتے چلے آ رہے ہیں،اس بے بسی اور لاچارگی پر مہاجر کیمپ میں بیٹھا فاقہ کش بھی آنسو بہانے پر مجبور ہو جاتا ہے۔

بھلاہو آزاد کشمیر کے ایک سابق حکمران کا کہ انہوں نے21ویں صدی کے پہلے عشرے میں ہی نئی صدی کے تقاضوں کو ملحوظ خاص رکھتے ہوئے سابق ارکان اسمبلی کے لئے تاحیات مالی وظائف مقرر کر دیئے۔جو لوگ اپنے ان نمائندوں کا خیال نہیں کرتے جو اپنا آج عوام کے کل کے لئے قربان کر دیتے ہیں،وہ لوگ پھر خراب اور خوار ہی ہوتے ہیں اور ایسے لوگوں کو عوامی نمائندوں کی '' جلی کٹی'' سننے پر بھی مجبور ہونا پڑتا ہے۔مسئلہ کشمیر ،آزاد کشمیر اور پاکستان کی نازک ترین صورتحال کو عالمی تناظر میں دیکھتے ہوئے ،چند ہی ماہ قبل آزاد کشمیر میں ایسا فیصلہ کیا گیا جس سے آزاد کشمیر کے وقار میں شرح فیصدی کے حساب سے ایسا زبردست اضافہ ہوا ہے کہ جس نے حساب کتاب کے عالمی ماہرین کو بھی حیران اور پریشان کر دیا ہے۔بقول آزاد کشمیر کے ایک لیڈر کے کہ '' جو لوگ اپنے سیاسی لیڈر کے شکر گزار نہیں ہوتے ،وہ خدا کے بھی شکر گزار نہیں ہو سکتے''، کے مصداق،بقول شاعر '' روک سکو تو پہلی بارش کی بوندوں کو تم روکو،کچی مٹی تو مہکے گی اس کی اپنی مجبور ی ہے'' ، کے مصداق آزاد کشمیر کے بلند عزم لیڈروں کے کارہائے نمایاں دیکھتے ہوئے عوام کی طرف سے تعریف و توصیف کا ''ٹین تو کھڑکے'' گا ہی۔ایسا کون بد بخت ہو گا کہ جو اپنے لیڈروں کے بلند کردار اور قربانیوں کے اعتراف میں عوامی ٹین کھڑکنے پر اعتراض کرنے کی جسارت کر سکے۔

چند ہفتے قبل ہی آزاد کشمیر اسمبلی کے ارکان،وزرائ،وزیر اعظم ،سپیکر اسمبلی اور صدر کی ماہانہ مالی مراعات میں اضافہ کیا گیا ہے۔اس اضافے کے بعد ایک اطلاع کے مطابق اب ہر رکن اسمبلی کو ماہانہ ایک لاکھ چالیس ہزار روپے ملیں گے باقیوں کا تو سٹیٹس ارکان اسمبلی سے ویسے بھی بہت بلند و بالا ہے۔آزاد کشمیر کے عوام میں شدت سے یہ احساس پایا جا رہا ہے کہ آزاد کشمیر کے صدر ،وزیر اعظم،سپیکر،ڈپٹی سپیکر ،ورزاء اور ارکان اسمبلی کی تنخواہوں،مالی مراعات میں اضافہ حالات و واقعات کے تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں ہے۔ عوام تو یہ سوچ سوچ کر پریشان ہی نہیں بلکہ ہلکان بھی ہو رہے ہیں کہ کسر نفسی سے کام لیتے ہوئے اس معمولی اضافے سے عوامی نمائندے مقامی مسائل و امور پر مبنی سنگین مسئلہ کشمیر سے کس طرح نبرد آزما ہو سکتے ہیں؟عوام کو معلوم ہے کہ جب ارکان اسمبلی سے ان کے ووٹر ملنے جاتے ہیں تو ارکان اسمبلی کو اپنے ووٹروں کے مالی مطالبات کو بھی دیکھنا پرتا ہے۔ان میں کئی ظالم تو ایسے بھی ہوتے ہیں کہ اپنے رکن اسمبلی سے آنے اور جانے کا کرایہ بھی طلب کر تے ہوئے یہ دھمکی بھی دیتے ہیں کہ اگر وہ ناراض ہو گیا توپھر راضی ہونے کی کوئی صورت نہ ہو گی اور یہ بھی کہ انصاف کے نعرے والے تو اچھے سیاسی کارکنوں کی تلاش کے لئے گراں سرمایہ کاری بھی کر رہے ہیں۔کوئی بھی ذی شعور انسان یہ دیکھ سکتا ہے کہ ہمارے پیارے ارکان اسمبلی کوووٹروں کے نخروں کو پورا کرنے کے لئے کتنے پاپر بیلنے پڑتے ہیں۔ووٹر کی خاطر مدارت ہو،اس کے گھر خوشی غمی کا معاملہ ہو یا متفرق خرچے،عوامی نمائندے کو ہر بات کا احساس و ادراک کرنا پڑتا ہے ۔اگر بیچارہ عوامی نمائندہ ایسا نہ کرے تو ووٹر ایس طوطا ثابت ہو جاتا ہے جو پنجرے میں تو مالک کے سر میں سر ملاتا ہے لیکن پنجرے سے باہر آتے ہی '' طوطا چشم'' بن کر پوچھتا ہے کہ '' میاں جی،تم کون؟''۔ارکان اسمبلی حکومتی عہدیداران تو اپنی مشکلات،بے بسی ،کسمپرسی کا حال ووٹر /عوام پہ ظاہر کرنے کے لئے یہ ضرور سوچتے ہوں گے،'' کبھی میرے ساتھ ،کوئی رات گزار''۔

مقامی کشمیر کاز کے انہی اسرار و رموز اور نشیب و فراز کو دیکھتے ہوئے آزاد کشمیر کے ارکان اسمبلی ،صدر ،وزیر اعظم،سپیکر اور وزراء کی مالی مراعات میں کیا جانے والا اضافہ نہایت معمولی اور ناکافی معلوم ہوتا ہے۔میں تو یہ سوچ رہا ہوں کہ آزاد کشمیر میں عوامی امور پر '' رولا '' ڈالنے والے افراد اور اعلی رابطے رکھنے والے سول ساسائٹی کے ارکان کے ساتھ مل کر آزاد کشمیر اسمبلی کے سامنے دھرنا دے کر بیٹھ جائیں کہ جب تک ارکان اسمبلی،صدر ،وزیر اعظم ،سپیکر اور وزراء کی تنخواہوں ،مالی مراعات کو جج صاحبان کو ملنے والی مالی مراعات کے مساوی نہیں کیا جاتا،اس وقت تک دھرنا جاری رہے گا۔قانون کی طالب علموں کو یہ سبق بھی دیا جاتا ہے کہ ججز کی تنخواہیں اتنی زیادہ ہونی چاہئیں کہ وہ کرپشن کا سوچ بھی نہ سکے اور پوری توجہ،لگن اور ایمانداری سے سہولت کے ساتھ انصاف کے تقاضے پورے کر سکے۔اگرجج صاحبان کو انصاف کے تقاضے با آسانی پورے کرنے کے لئے اچھی مالی مراعات د ینا لازم ہیں تو کیا ہمارے پیارے،مظلوم اور مسکین ارکان اسمبلی آسمان سے اترے ہوئے فرشتے ہیں کہ جو معمولی یا درمیانے درجے کی مالی مراعات پر اعلی درجے کے کردار کا مظاہرہ کریں گے؟چناچہ یہ ناگزیر ہے کہ ارکان اسمبلی کی مالی مراعات بھی جج صاحبان کے مساوی ہی نہیں بلکہ ان سے بھی زیادہ کی جائیں تاکہ ان کے ذہن میں کرپشن کا خیال بھی نہ آ سکے اور وہ پوری یکسوئی اور دلجمعی سے ،بے باکی کے ساتھ عوامی نمائندگی کا بار گراں اٹھانے کے قابل ہو سکیں۔ہمارے ارکان اسمبلی،حکومتی ،سرکاری عہدیداران کو معاشی حوالے سے اتنا کمتر نہ سمجھا جائے کہ روز قیامت اپنا حساب کتاب دینے کے بجائے ووٹر ھضرات اللہ تعالی سے سوال کرنے پر مجبور ہو جائیں کہ '' اے اللہ باقی تو سب ٹھیک ہے لیکن ہمارے عوامی نمائندوں کے دل کی مرادیں پوری کرنے میں کیا امر مانع تھا؟''

اسی تناظر میںکشمیر کاز کے حوالے سے ایک عوامی التجاء یہ بھی ہے کہ حریت کانفرنس آزاد کشمیر/پاکستان میں شامل تنظیموں کے نمائندگان کو سالہا سال پہلے کی آخری اطلاعات تک ، چالیس ہزار ماہانہ دیئے جاتے تھے۔آزاد کشمیر اسمبلی کے ارکان کی ماہانہ مالی مراعات میں اس '' ہینڈسم'' اضافے کی طرح حریت کانفرنس آزاد کشمیر /پاکستان کے نمائندگان کی مالی مراعات میں بھی اسی کے برابر اضافہ کیا جانا چاہئے۔یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ کنونیئر ز اور سنیئر رہنمائوں کی مالی مراعت آزاد کشمیر کے وزراء کے برابر کیا جانا مبنی بر انصاف اور احسن اقدام ہو گا۔ ان تاریخ ساز اقدامات سے کشمیر کاز اتنا اجاگر ہو گا کہ قطب شمالی و جنوبی ہی نہیں بلکہ امریکہ، بھارت، اسرائیل اور یورپ والے بھی کشمیر کاز سے متعلق اپنی سابقہ سوچ پہ پشیماں ہو ںگے۔باقی آپ زیادہ سمجھدار ہیں، کیونکہ '' جو چپ رہے گی زبان خنجر ،لہو پکارے گا آستیں گا''۔

Athar Massood Wani
About the Author: Athar Massood Wani Read More Articles by Athar Massood Wani: 768 Articles with 609856 views ATHAR MASSOOD WANI ,
S/o KH. ABDUL SAMAD WANI

Journalist, Editor, Columnist,writer,Researcher , Programmer, human/public rights & environmental
.. View More