پانامہ کا ہنگامہ اور پرامن انتقال اقتدار

پانامہ کے ہنگامہ جب سے شروع ہوا تھا تب سے یہی امید کی جا رہی تھی کہ جس تیز رفتاری کے ساتھ پانامہ کیس کو اچھالہ جا ررتھا اس کو کسی نہ کسی انجام تک پہنچایا جائے گا نتیجہ توقعات کے مطابق ہی سامنے آیا اور پاکستان کی سپریم کورٹ نے وزیرااعظم پاکستان کو نااہل کر دیا پہلے تو یہ تاثر تھا کہ شاہد اداروں کے درمیان بہت بڑا ٹکراؤ ہونے جا رہا ہے کیونکہ حکومتی نمایندوں کی طرف سے ایک جارہانہ رویہ ظاہر کیا جا رہا تھا جس طرح جے ائی ٹی کو روزانہ کی بنیاد پر محتلف قسم کی باتیں اور دھمکیاں سننے کو مل رہی تھی اور اس دوران نہال ہاشمی کی دبنگ انٹری نے تو سارے پاکستان کو سوچ میں ڈال دیا کہ پتہ نہیں کیا ہونے جا رہا ہے ہر طرف چہ مگوئیاں کی جاری تھی اور ایک خوف کی ٖفضاء اور غیر یقینی کی صورتحال تھی کیونکہ پانامہ کیس نے انجام کی طرف جانے کے لیے لمبے سفر کاسامناکیا اور محتلف مراہل طے کرنے کے بعد اپنے انجام کو پہنچا اگرچے مانامہ نے بہت بڑا سفر طے کیا لیکن نواز شریف کے محالفین کے لیے بہت بڑی سیاسی فتح قرار دیا جا رہے کیونکہ جس طرح نواز شریف عوام کے دلوں میں اپنی جگہ پکی کرچکے ہیں انکو سیاسی میدان میں شکست دینا ناممکن ہو چکا تھا اس وقت 188سیٹوں کے ساتھ مسلم لیگ نواز پارلیمنٹ کی سب سے بڑی سیاسی پارٹی ہے جبکہ پاکستان پیپلز پارٹی 47سیٹوں کے ساتھ دوسرے نمبر پر اور نوجوانوں کی سب سے مقبول جماعت تحریک انصاف 33سیٹوں کے ساتھ تیسرے نمبر پر ہے انتحابی میدان میں پاکستان مسلم لیگ نواز کو شکست دینا کس ڈرونے خواب سے کم نہیں ہے اگرچے پاکستان تحریک انصاف بہترین اپوزیشن کا کردار ادا کررہی ہے اور ہرسطع پر پاکستان مسلم لیگ نون کو ٹف ٹائم دے رہی ہے لیکن اس سب کے باوجود بھی مسلم لیگ کو اتنانی اسانی سے اقتدار کے ایوانوں سے الگ نہیں کیا جاسکتا ماضی کو اگر ہم سامنے رکھیں تو یہ بات واضع ہو جاتی ہے کہ ماضی میں مسلم لیگ کو حتم کرنے کی بہت کوشش ہوئی اور یہاں تک مشرف کے دور میں اس کو اس کے محالفین اس کو تقسیم کرنے میں کچھ حد تک کامیاب بھی ہوئے لیکن وہ کامیابی عارضی تھی کوئی نہیں جانتا تھا کہ 2013کے انتحابات میں نواز شریف پھر سے اس ملک کے وزیرااعظم بنے گے اور اتنی بھاری اکثریت کے ساتھ کہ کسی اتحادی کی ضرورت نہیں رہے گی جہاں تک میرا خیال ہے 2008میں ہی مسلم لیگ اقتدار تک پہنچ سکتی تھی لیکن اس وقت زرداری کا بینظر بھٹو فارمولہ کام کر گیا اور پی پی پی اقتدار تک پہنچ گئی نواز شریف کے بارے میں ایک خیال جو اہم عوامی حلقوں میں پایا جاتا ہے کہ وہ اکثر اسٹبلیشمنٹ کے ساتھ الجھن میں رہتے ہیں یہی وجہ ہے کہ بعد میں مار کھا جاتے ہیں اور گھر کی راہ لینے پڑتی ہے جیسا کہ اب ہوا نواز شریف پتا نہیں کیوں بھول جاتے ہیں کہ اگرچے بھاری عوامی مینڈٹ حاصل کرنے کے بعد اصل طاقت کا سر چشمہ نوازشریف کو ہونا چاہیے لیکن پاکستان میں الٹی گنگا بہہتی ہے یہاں اصل طاقت فوج اپنے ہاتھوں رکھنا پسند کرتی ہے اس لیے جو جب تک انکی ہاں میں ہاں میں ملاتا رہے گا وہ نمائیشی وزیرااعظم کو طور پر کام کرتا رہے گا لیکن جیسے ہی وہ نہ بولے گا گھر جائے گا بحرحال بات ہو رہی تھی پانامہ کے ہنگامے کی کہ کس طرح یہ نواز شریف کے لیے بجلی بن کے گرا اور بہا کہ لے گیا اگرچے نواز شریف حکومت کے کے خلاف محالفین نے ابتدامیں ہی دھرنوں کی صورت میں کام شروع کردیا تھا لیکن اسوقت انکو ناکامی کا سامنہ کرنا پڑا پہلے تو چار ہ حلقوں میں دھاندلی کو لے کر شورشرابا کیا گیا لیکن بعد میں اخرکار پشاور میں آرمی پبلک سکول کے واقعے کے بعد اپوزیشن کو دھرنا ختم کرنا پڑا اور بغیر کچھ حاصل ہوئے دھرنے والوں کو گھر لوٹنا پڑا لیکن پانامہ لیکس کے بعد تو جیسے بریک تھرو ہوا نواز شریف کے محالفوں کے لیے اور انہوں نے اس پر انتھک محنت کی یہاں تک کہ اسلام آباد کو بھی لاک ڈون کرنے کی باتیں ہوئیں تو سپریم کورٹ آف پاکستان میں معاملے کو لے جایا گیا پہلے تو سابق چیف جسٹس انور طہیر جمالی کی عدالت میں معاملہ چلتا رہا لیکن جب رحصت ہوگے تو جسٹس کھوسہ کی قیادت میں نیا بینچ تشکیل دیا اور فریقین کے دلائل سننے کے بعد 20 اپریل کو فیصلہ سنایااس پہ مزید انوسٹی گیشن کے لیے جے ائی ٹی بنانے کا فیصلہ کیا گیا جس میں واجد ضیاء کی قیادت میں ایف ائی اے سٹیٹ بنک اف ایس ای سی پی نیب میلٹر ی انٹلیجنس اور ائی ایس ائی کے نمانئدوں پر مبنی ٹیم نے دس اپریل کو اپنے فائنل روپورٹ جمع کرائی جس میں شریف خاندان کو گیلٹی قرار دیا گیا جس کی بنیاد پر سپریم کورٹ اف پاکستان نے وزیرااعظم پاکستان کو نااہل کردیا گیا جس کے بعد حکمران جماعت نے بغیر کسی ہچکچاہٹ کے فیصلے کو قبول کیا اور جو سیاسی عدم استحکام کے اندشے ظاہر کیے جا رہے تھے وہ اپنی موت خود مرگے اور ایک خاقان عباسی کی قیادت میں نئی حکومت بنادی گی جس کے بعد دشمنوں کی امیدوں پر پانی پھر گیا جو پاکستان میں شام اور لیبیا جیسی صورتحال پیدا ہونے کی امیدیں لگائے بٹھے تھے اس بات میں کوئی شک نہیں مسلم لیگ نون نے فیصلہ تسلم کر کے ناصرف دشمنوں کی شازشوں ناکام بنایا بلکہ اس سے اداروں کو مظبوط بنانے میں بھی مدد ملے گی جس سے قانون کی حکمرانی کا خواب پورا ہوگا اور ہاں احتساب کا یہ عمل کسی ایک خاندان تک محدود نہیں رہنا چاہیے بلکہ بلاامتیاز جس نے بھی ملک کو لوٹا اسکو اس کی زد میں لانا چاہیے تبھی میں کہوں گا پاکستان تحریک انصاف جماعت اسلامی عوامی مسلم لیگ کی جنگ کرپشن کے خلاف تھی ورنہ یہ تاثر عام ہو گا یہ لوگ بھی اقتدار کی جنگ لڑ رہے تھے -

Usman Haider
About the Author: Usman Haider Read More Articles by Usman Haider: 14 Articles with 11774 views (M.com) Studying in Msc in Mass communication from University of Gujrat Sialkot campus.. View More