کہتے ہیں راجہ داہر کے دور میں ڈاکوؤں نے ایک مسلمان لڑکی
کو اغوا کیا تو اس کی پکار پر عرب محمد بن قاسم اپنے حکمران حجاج بن یوسف
کی ہدایت پر اس لڑکی کی مدد کو پہنچا، راجہ دہر سے نبٹنے کے بعد لڑکی کو
واگزار کرالیا گیا، کہا جاتا ہے کہ تب سے سندھ میں دین اسلام کے پھیلاؤ کا
آغاز ہوا، پھر محمد بن قاسم یہیں کا ہوکر رہ گیا، سندھ کے لوگ اس کی پوجا
کرنے لگے اسے دیوتا ماننے لگے، کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ محمد بن قاسم کا
سسر اس کی سرگرمیوں سے خائف رہتا تھا اس لیے اس نے اس سے گلوخلاصی کرانے کے
لیے اسے سندھ کے دور دراز کے سفر پر روانہ کیا سچ کیا ہے ؟ اس سے کم از کم
میں لاعلم ہوں۔
آج میانمار جس کا پرانا نام برما ہے، کی ایک غریب ترین ریاست رخائن جہاں
روہنگیا مسلمانوں کی اکثریت آباد ہے، بعض لوگ رخائن کو بھوک افلاس کے حصار
میں گری ہوئی ریاست بھی کہتے ہیں، یہاں کے مسلمان ماہرین کے مطابق متحدہ
ہندوستان پر جب برطانوی راج مسلط تھا اس کے دور میں یہ لوگ ہندوستان سے
ہجرت کرکے یہاں آباد ہوئے تھے، اس وقت یہ علاقہ بھی تحت برطانیہ کے زیر
تسلط تھا،لیکن یہاں کے مقامی بدھ مت عقیدے کے پیروکاروں نے ان مسلمانوں کو
قبول نہ کیا،اس وقت سے دونوں ( مسلمانوں اور بدھ متو)کے درمیان تناؤ اور
کھچاؤ کا سلسلہ چل رہا ہے،میانمار نے برطانوی راج سے آزادی کے بعد مختلف
علاقوں اور ملکوں سے نقل مکانی کرکے برما میں آبا د لوگوں کو حقوق شہریت
دیئے مگر روہنگیا مسلمانوں کو برما کی شہریت دینے سے انکار کردیا گیا، پھر
کچھ عرصے بعد انہیں شہریت دینے کے لیے یہ شرط عاد کردی کہ جولوگ دو
پیڑیوں(نسلوں ) سے یہاں آباد ہیں انہیں برما کا شہری تسلیم کرلیا جائے گا۔
میانمار یا برما کی حکومت کا موقف ہے کہ رخائن کے مسلمانوں میں عسکریت پسند
گروپ برما کی خود مختاری کے خلاف کام کررہے ہیں اور سرکاری ا املاک کے ساتھ
فوجیوں کو بھی نشانہ بناتے ہیں،میانمار حکومت کا اشارہ غالبا دو ہزار سولہ
کے اس سرحدی واقعہ کی جانب ہے جس میں بقول میانمار حکومت نو سرحدی سکیورٹی
اہلکاروں کو روہنگیا مسلمانوں کے عسکری گروپ نے قتل کیا تھا۔ اس وقت سے اب
تک رخائن کے روہنگیا زبان بولنے والے مسلمان میانمار کی فوج کے آپریشنز کی
زد میں ہیں ، جس میں تمام انسانی حقوق کو فوجی بوٹوں کی نوک پر رکھا جاتا
ہے ، ظلم و بریت کی تمام حدود عبور کرنے والی آنگ سان سوچی کو لگام ڈالنے
کے لیے اقوام متحدہ سمیت تمام بڑی طاقتوں کی زبانیں گنگ ہیں۔
اس وقت تک مختلف ذرائع سے آنے والی خبروں کے مطابق اب تک ایک لاکھ ارسٹھ
ہزار سے زائد روہنگیا مسلمان نقل مکانی کرکے تھائی لینڈ اور بنگلہ دیش سمیت
دیگر ہمسایہ ممالک میں پہنچ چکے ہیں، جب کہ پچھلے ایک ہفتہ کے دوران تین
ہزار روہنگیا مسلمان بنگلہ دیش ہجرت کرگئے ہیں، جنہوں نے وہاں پہنچ کر
بتایا ہے کہ وہ میانمار کی فوج سے بڑی مشکل جانیں بچاکر یہاں پہنچنے میں
کامیاب ہوئے ہیں، روہنگیاسے نقل مکانی کرنے والوں کی تعداد تیزی سے برھتی
جا رہی ہے۔
امریکہ ،روس، چین یا پھر اقوام متحدہ سے میانماری حکومت کے خلاف کسی اقدام
کی توقع رکھنا ہی فضول ہے، عراق اور افغانستان سمیت دنیا بھر میں بنیادی
انسانی حقوق کے ان علمبرداروں نے کیا کیا ہے، اس سے کوئی باشعور غافل نہیں،
لیکن خیرت اس بات پر ہے کہ پاکستان سمیت تمام اسلامی ممالک کی(ترکی اور
ایران کو چھوڑ کر) بھی غیرت دینی سوئی ہوئی ہے، حتی کہ اسلامی ممالک میں
اندرونی یا بیرونی دہشتگردی کے سدباب کے لیے معرض وجود میں آنے والے 39یا
چالیس ملکی اسلامی عسکری اتحاد بھی خاموش تماشائی بنا ہوا ہے۔ اس کی وجوہات
کیا ہیں اس راز سے پردہ اس اسلامی عسکری اتحاد کے سربراہ جنرل راحیل شریف
یا سعودی عرب کے شاہ اٹھا سکتے ہیں ،کیونکہ شاہ سلمان اس اتحاد کے روح رواں
ہیں۔
امید تو کی جا رہی تھی اور شائد اب بھی کچھ حلقے اس کی آس لگائے بیٹھے ہیں
کہ جنرل راحیل شریف یا شاہ سلمان روہنگیا کے مسلمانوں کے لیے محمد بن قاسم
بن کر ان کی مدد و نصرت کے لیے میانمار پہنچیں گے،اور جیسے امریکہ ،روس اور
دیگر ممالک اپنی سلامتی،خود مختاری اور مذہبی شناخت اور عقیدے کے تحفظ کے
لیے تمام رکاوٹوں کو اپنے پاؤں تلے روندتے ہوئے جس ملک میں چاہتے ہیں گھس
جاتے ہیں ،ایسے ہی اسلامی فوجی اتحاد کی فوجیں بھی میانماری حکومت کو راہ
راست پر لانے کے لیے میانمار کی سرحدیں عبور کرکے مظلوم مسلمانوں کو ان کے
مظالم سے نجات دلائیں گے، لیکن ایسا ابھی تک نہیں ہوا، اور نہ ہی اسلامی
فوجی اتحاد کے سربراہ کی جانب سے میانمار کی فوج کے سربراہ سے کوئی مطالبہ
سامنے آیا ہے۔ جس سے اس خیال کو تقویت حاصل ہو رہی ہے کہ یہ اتحاد محض
سعودی بادہشت کے تحفظ کے لیے تشکیل دیا گیا ہے۔
آنگ سان سوچی جب پس دیوار زنداں تھی تو ہر ملک ،ہر قوم ،ہر نسل اور ہر مذہب
کے افراد نے بلاامتیاز ان کے لیے آواز بلند کی، ان کی رہائی کے لیے مطالبات
کیے، ان کی جمہوری اور آزادی شہریوں کے حوالے سے ان کی خدمات کے پیش نظر ہی
انہیں نوبل انعام کا حقدار ٹھہرا گیا، لیکن کسیعلم تھا کہ رہائی کے بعد یہی
آنگ سان سوچی فرعون و نمرو د جیسے سفاک ظالموں کو کئی درجے پیچھے چھوڑ جائے
گی۔
حیرانی مذید بڑھ جاتی ہے جب انسانی بنیادی حقوق کی علمبردار تنظیمیں واچ
ڈاگ اور ایمنسٹی انٹرنیشنل کو بھی سانپ سونگھ جاتا ہے، کم از کم میری نطروں
سے ان کی جانب سے میانمار یا برما حکومت کے مظالم کے خلاف کوئی بیان نہیں
گزرا، بی بی سی کو میانمار حکومت سے شکایت تو ہے لیکن وہ بھی موثر انداز
میں برمی مظلوم عوام کا مقدمہ دنیا کے سامنے رکھنے میں کامیاب نہیں ہوسکی۔
اسلامی ممالک کس منہ سے برمی حکومت کو لعن طعن کریں جب کہ ان ممالک میں بھی
عوام پر مظالم ڈھائے جا رہے ہیں سعودی عرب میں صوبہ قطیف مصر میں اخوان
المسلمون، پاکستان میں بلوچستان اور دیگر علاقوں میں آپریشن جاری ہیں،
انہیں خدشات لاحق ہوں گے کہ اگر انہوں نے برمی مسلمانوں کے حق میں برمی
حکومت کی مذمت کی تو وہ انہیں ان کے اپنے حالات دکھا کر خاموش کر دے گی۔
مسلم حکمرانوں کی اس بربریت پر خاموشی پر عام عوام کی یہی رائے ہے۔
ترکی کے حکمرانوں کی جانب سے روہنگیا مسلمانوں کی حمایت میں موثر کردار
سامنے آ رہا ہے، ترکی نے روہنگیا مسلمانوں کے اخرجات برداشت کرنے کا اعلان
بھی کیا ہے، ادھر ایران کی وزارت خارجہ کے ذمہ دار افسر نے روہنگیا
مسلمانوں کے خلاف میانمار حکومت کی پرتشدد کاروائیوں پر احتجاج کیا ہے، اور
کہا ہے کہ میانمار حکومت اقوام متحدہ کے چارٹر کے مطابق روہنگیا مسلمانوں
کے حقوق دے اور ان کے خلاف مظالم بند کرے، ایرانی حکومت نے میانمار حکومتکو
روہنگیا مسلمانوں کے خلاف مظالم پر اپنی تشویش سے آگاہ کیا ہے۔ عالمی میڈیا
ایران کے بیان کو میانمار کے خلاف اعلان جنگ قرار دے رہاہے جب کہ پاکستان
حکومت کی جانب سے سرکاری طور پر مسلسل خاموشی ہے جس پر پاکستانی قوم میں
غصے کی لہر موجزن ہے۔
روہنگیا مسلمان کسی محمد بن قاسم کے منتظر ہیں، دیکھنا یہ ہے کہ یہ محمد بن
قاسم بھی کسی عرب سرزمین سے نمودار ہوتا ہے یا اسی خطے سے اﷲ تعالی کی جانب
سے کسی کو توفیق بخشی جاتی ہے، عرب ممالک سمیت دنیا کے نقشے پر موجود مسلم
حکمرانوں کی غیرت ملی مرچکی ہے، اور عالمی ضمیر بھی مرد ہونے کے قریب تر
ہے، کیونکہ جو مغرب اپنے جانوروں کے لیے حقوق اور قوانین بناتا ہے وہ مغرب
روہنگیا کے مسلمانوں کی نس کشی پر کیونکر خاموش ہے، ایک دن اسے اپنی خاموشی
تورنا پڑے گی، اور ایسا ہوتا ہم بھی دیکھیں گے اور تم بھی دیکھوں گے، وقت
قریب ہے،کیونکہ ظلم پھر ظلم ہے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے، خون پھر خون ہے
گرتا ہے تو جم جاتا ہے۔
اسلامی ممالک کے فوجی اتحاد کے سربراہ اور اس اتحاد کے روح رواں سعودی عرب
کے شاہ سلمان کے کمزور کاندھوں پر بڑی بھاری زمہ دار آن پڑی ہے، لیکن ابھی
تک فوجی اتحاد کے کمانڈر انچیف اور سعودی شاہ میانمار کی فوج کے مظالم پر
چپ سادھے ہوئے ہیں، انہیں خاموشی کا روزہ افطار کرکے اپنا ملی فریضہ ادا
کرنے کی زمہ داریوں کا احساس کرنا چاہیے، ورنہ مسلم امہ ان خدشات کو حقیقت
پر مبنی مان لے گی کہ یہ فوجی اتحاد سعودی بادشاہت کو تحفط دینے کی لیے
قائم کیا گیا ہے۔ |