سیاسی قیادت کی غلطیوں کا فائدہ اٹھاتے اٹھاتے غیر سیاسی
قوتیں فیصلہ کن برتری پانے میں کامیاب ہوچکیں۔مگر بد قسمتی دیکھیے کہ سیاسی
قیادت اب بھی ہوش کے ناخن لینے پر آمادہ نہیں۔ٹکڑوں میں بٹی اس مخلوق کو جس
مشترکہ دشمن کا سامنا ہے۔اس سے دودو ہاتھ کرنے کی بجائے جانے کیوں ایک
دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے کا سلسلہ ختم نہیں کیا جارہا۔نفاق کے سبب انہیں
اختیارات سے دستبردار ہونا پڑا۔ان کی بالادستی گئی۔مگر یہ ہیں کہ اپنی
غلطیوں کی اصلاح کی ضرور ت محسوس نہیں کررہے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کی حکومت
گری تب ان کے سب سے بڑے حریف نوازشریف تھے۔ ان کی جانب سے بڑی خوشیاں منائی
گئی۔نوازشریف کے ذہن میں تب پی پی سے متعلق انتہائی منفی پراپیگنڈا گھر
کرچکا تھا۔بھٹو کو ایک مستند بر احکمران تصور کرنے والے نوازشریف نے تب کے
صدر غلام اسحاق کی طرف سے بے نظیر حکومت پر لگائے گئے تمام الزامات کو من
وعن درست تسلیم کرلیا۔اینٹی پی پی سوچ رکھنے کے سبب انہوں نے اس چارج شیٹ
کا مکمل دفاع کیا۔ان کی الیکشن کمپئین میں بھی محترمہ کے دور کی کرپشن اور
لوٹ مار کی تشہر کی گئی۔قوم کو بتایا گیا۔کہ ان کی جان بمشکل تمام چوروں
اور ڈاکوؤں سے چھوٹی ہے۔اب ان کو کبھی متنخب نہ کیا جائے۔جب نوازشریف کو
پہلی بار مرکز میں حکومت بنانے کا موقع ملا تو اس کامیابی کے دیگر اسباب کے
ساتھ ساتھ پی پی کے خلاف بھرپور پراپیگنڈا مہم ؎چلانا بھی تھا۔اوپر والوں
نے بھی پی پی کو دوبارہ حکومت بنانے سے روکنے کے لیے ہرحربہ
آزمایا۔نوازشریف کے لیے وہ لمحہ کسی دھچکے سے کم نہ تھا۔جب دوسال بعد انہیں
بھی قریبا ایسے ہی الزاما ت کے تحت گھر بھجوادیا گیا۔اس بار مٹھائی بانٹنے
والی پیپلز پارٹی تھی۔رونے کاکام اس بار نواز شریف کے حصے آیا۔پھر یہ تماشہ
مسلسل جاری رہا۔ایک دوسرے کی تباہی پر جمہوری جماعتیں مٹھائیاں بانٹنی رہیں۔
وزیر اعلیٰ پنجاب شہبازشریف نے پریس کانفرنس میں اے آروائی او راعتزز احسن
کے حوالے سے کی جانے والی الزام تراشی کو سختی سے مستر دکیا تھا۔انہوں
ملتان میٹر وبس پروجیکٹ کے حوالے سے اربوں کی کرپشن کے الزامات کو من گھڑت
قرار دیا ہے۔انہوں نے اس ضمن میں ایک تو مذکورہ کمپنی کے پاکستان میں وجود
نہ رکھنے کا ذکر کیا۔دوجے الزامات سے منسوب ایک لیٹر سے متعلق یہ وضاحت کی
کہ یہ لیٹر جعلی ہے۔اس کی عبار ت کیپیٹل لیٹر ز میں ہے۔اور انہوں نے آج تک
کوئی لیٹر کیپیٹل لیٹرزمیں نہیں لکھا۔شہباز شریف نے الزام لگانے والوں کو
دودن کی مہلت دیتے ہوئے کہا کہ اگر یہ الزامات ثابت کردیے جائیں تو وہ گردن
کٹوانے کو تیارہیں۔ورنہ وہ انہیں قانونی نوٹس بھجوائیں گے۔وزیر اعلی پنجاب
کی اس پریس کانفرنس کی وجہ میڈیا میں ہونے والی وہ بحث تھی۔جو ملتان میٹرو
بس پروجیکٹ میں ہونے والی مبینہ خوردبر سے متعلق تھی۔عمران خاں اور دیگر
رہنماؤں نے اس مبینہ کرپشن پر آسمان سر پر اٹھا رکھا تھا۔خاں صاحب کا کہنا
تھاکہ اب تو چین کی طرف سے بھی شہبازشریف کی کرپشن کی گواہی آگئی
ہے۔اپوزیشن کے اس شور کے نتیجہ میں ہی وزیر اعلی پنجاب میں شہبازشریف کو یہ
وضاحتی پریس کانفرنس کرنا پڑی جس سے کافی چیزیں کلیر ہوگئیں۔ پریس کانفرنس
کے اگلے ہی دن چین کی طرف سے اپنے سفیر کے توسط سے وزیر اعلی پنچاب کے موقف
کی تائید کردی گئی۔ امکان تھاکہ اب ملتان میٹر و پراجیکٹ سے متعلق یہ بحث
کتم ہوجائے گی۔مگر بد قسمتی سے ایسا نہیں ہوسکا۔بے یقینی قائم رکھنے والی
قوتیں اس بحث کے سمٹنے کی راہ میں رکاوٹ بن گئیں۔ان کے کارندے اب بھی اپنا
راگ آلاپنے میں مصروف ہیں۔جانے اس معاملے کا کونسا پہلواب پوشیدہ رہ گیا۔کہ
یہ بحث کسی انجام تک نہیں پہنچ پارہی۔چین کی طرف سے مبینہ کمپنی کو پاکستان
میں کام نہ کرنے کی تصدیق کردی۔اس کے باوجود پاکستان میں کچھ لاؤڈ سپیکر اب
بھی شہبازشریف کی اس کمپنی کے توسط سے اربوں کی کرپشن کا شور مچانے کی
ڈیوٹی دے رہے ہیں۔ان کا کام تما م تر حقائق کی موجودگی کے باوجود اپنا شور
شرابہ جاری رکھناہے۔
ٹانگیں کھنچنے کی روایت اب بھی جاری ہے۔اس روش کے مضمرات بھی نظر آرہے
ہیں۔ٹکڑیوں میں بٹی جمہوری قیادت ایک دوسرے کو کچل کر آگے بڑھنے کی روش
بدلنے پر آمادہ نہیں۔غیر جمہوری قوتیں انہیں تقسیم کرو اور حکومت کرو کے
فامولے پر عمل کررہی ہیں۔ان قوتوں کی خوش قسمتی کی جب بھی جمہوری قیادت
متحد ہونے کی طرف جانے لگتی ہے۔کوئی نہ کوئی ہونی وارد ہوجاتی ہے۔اتحاد کی
کوشش کامیاب نہیں ہوتی۔میثاق جمہوریت ایک ایسی ہی کوشش تھی۔نوازشریف صد فی
صد مائل تھے۔جبکہ محترمہ بھی نیم رضامندنظر آرہی تھی۔امکان یہی تھا۔ کہ آنے
والے کچھ برسوں بعد محترمہ بھی دو ٹوک فیصلہ کرلیں گی۔پھر ایک ایسا میثاق
جمہوریت ترتیب دیا جائے۔جس میں ہر قیمت پر جمہوریت کا دفاع ترجیح قرار پائے
گا۔جس میں جمہوری قیادت کے اختلافات کو سب سے بعد میں رکھا جائے گا۔اگر
ایسا ہوجاتاتو غیر جمہوری قوتوں کی تقسیم کرو اور حکومت کرو کی آسانی ختم
ہوجاتی۔مگر ایسا نہ ہو پایا۔ہونی وارد ہوگئی۔او رنیم رضامند محترمہ بے نظیر
کو منظر سے ہٹا کر ایسی قیادت مسلط کردی گئے۔جسے نہ جمہوریت کی پرواہ ہے۔نہ
اس کی بالادستی کی کوئی تڑپ۔نوازشریف کو جمہورت کے خاردار راستوں پر چلتے
ہوئے کئی بار زخم کھانے پڑے۔ان کی واحد کمزور ی اس دشوار گزار رستے میں کسی
مناسب ساتھ کا نہ ہوناہے۔
|