بھارتی آبی جارحیت پاکستان کی پانی کی سلامتی، خوراک کی
سلامتی اور عملاً قومی سلامتی کے لئے ایک حقیقی خطرہ اور چیلنج بن چکی ہے۔
مستقبل میں سلامتی کے ماحول کو درپیش چیلنجز کی پیچیدگی اور تعاون کے حوالے
سے عالمی سطح پر دفاعی ماہرین میں احساس و ادراک پایا جاتا ہے۔ اسی ضمن میں
چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی جنرل زبیر محمود حیات نے وکٹوریہ (کینیڈا)
میں 2017 پیسفک چیفس آف ڈیفنس کانفرنس میں شرکت کی۔ جمعرات کو آئی ایس پی
آر کی طرف سے جاری ایک بیان کے مطابق کانفرنس کا موضوع دی فیوچر سیکیورٹی
انوائرمنٹ چیلنجز کمپلیکسٹی اینڈ کوآپریشن تھا۔ کانفرنس 4 سے 6 ستمبر تک
جاری رہی۔کانفرنس میں دنیا بھر سے 25 ممالک کے چیفس آف ڈیفنس سٹاف نے شرکت
کی۔ کانفرنس میں انڈوایشیا پیسفک دہشتگردی سے تحفظ اور اس سے نمٹنے امن کے
قیام کے لئے آپریشن جیسے معاملات زیر بحث لائے گئے۔ مباحثے کے دوران انڈو
ایشیا پیسفک سے متعلقہ تین معاملات پر تشویش ظاہر کی گئی جس میں ڈیموگرافی
واٹر سیکیورٹی اور کلائمیٹ چینج شامل ہیں۔ چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف
کمیٹی نے سندھ طاس معاہدے پر زور دیتے ہوئے کہا کہ پانی کے ایشوز کے حل کے
حوالے سے موجودہ میکنزم ایک چیلنج کی حیثیت رکھتا ہے جس کا حل نکلنا چاہیے۔
کانفرنس کی سائیڈلائن ملاقاتوں میں انہوں نے سات مختلف ممالک کے چیفس آف
ڈیفنس سٹاف سے ملاقاتیں کیں۔
پاکستان کے خلاف قیام پاکستان کی فوراً بعد بڑے پیمانے پر بھارتی آبی
جارحیت کے بعد طے پانے والے سندھ طاس معاہدے میں مرکزی کردار عالمی بنک کا
تھا جو کہ اس معاہدے کا دستخطی بھی ہے۔ تاہم پاکستان کے خلاف بھارتی آبی
جارحیت مسلسل جاری ہے۔ عالمی بنک نے کہا ہے پاکستان اور بھارت نے آبی تنازع
پر مذاکرات کے تازہ دور میں خیرسگالی کے جذبے اور باہمی تعاون کا مظاہرہ
کیا اور آئندہ ماہ اس حوالے سے ملاقات کے لیے رضا مند ہوگئے۔امریکی دار
الحکومت واشنگٹن میں واقع عالمی بینک کے ہیڈ کوارٹر میں دو روزہ مذاکرات
منعقد ہوئے جبکہ آئندہ ماہ ہونے والے مذاکرات بھی یہیں منعقد کیے جائیں
گے۔مذاکرات کے بعد عالمی بینک کی جانب سے جاری کردہ اعلامیے کے مطابق
پاکستان اور بھارت کے درمیان سندھ طاس معاہدے کے تکنیکی معاملات پر
خیرسگالی اور باہمی تعاون کے جذبے کے ساتھ سیکریٹری سطح کے مذاکرات منعقد
ہوئے۔
اعلامیے میں یہ بھی بتایا گیا کہ دونوں فریقین بات چیت کے عمل کو جاری
رکھنے پر رضا مند ہیں ۔ مذاکرات کا عمل ستمبر میں دوبارہ شروع ہونے کا
امکان ہے۔عالمی بینک نے پاکستان اور بھارت کے درمیان پانی کے تنازع پر 1960
میں ہونے والے سندھ طاس معاہدے کا پس منظر اور اس کو حل کرنے کی کوششوں کا
ایک مختصر منظر نامہ بھی جاری کیا۔پاکستان اور بھارت کشن گنگا ڈیم اور رتلے
ہائیڈرو الیکٹرک پاور پلانٹ کی تعمیر پر رضامند نہیں ہوئے جبکہ عالمی بینک
نے واضح کیا کہ وہ کسی بھی قسم کے متنازع منصوبے پر سرمایہ کاری نہیں کر
رہا۔مذکورہ منصوبوں کے ڈیزائن کی تکنیکی خصوصیات پر اتفاق رائے نہیں ہوسکا
کیونکہ ان منصوبوں کے بارے میں خیال کیا جارہا ہے کہ ان کی تعمیر سے سندھ
طاس معاہدوں کی خلاف ورزی ہوگی۔یہ دونوں منصوبے بھارت کی جانب سے دریائے
جہلم اور دریائے چناب پر تعمیر کیے جارہے ہیں۔عالمی بینک نے دریائے چناب
اور دریائے جہلم کے ساتھ ساتھ دریائے سندھ کے استعمال کو بھی پاکستان کے
لیے لا محدود کردیا تاہم بینک نے یہ اشارہ بھی دیا کہ بھارت کو ان دریاں پر
ہائیڈرو الیکٹرک پاور پلانٹ بنانے کی اجازت ہے۔پاکستان نے عالمی بینک سے
درخواست کی تھی کہ ہائیڈرو پاور بروجیکٹ کے حوالے سے اس کے خدشات پر ایک
ثالثی عدالت قائم کی جائے جبکہ بھارت کا اس معاملے میں کہنا تھا کہ ان
منصوبوں کی جانچ کے لیے غیر جانبدار ماہرین کا تقرر کیا جائے۔دونوں ممالک
کی ان درخواستوں کے بعد سلسلہ وار دو طرفہ مذاکرات ہوئے جو بے نتیجہ ختم
ہوئے۔
اس حوالے سے عالمی بینک کا کہنا تھا کہ وہ اپنی ذمہ داری نبھاتے ہوئے دونوں
فریقین کی درخواست کو پوری کرنے کی کوشش کرے گا تاہم یہ معاہدہ عالمی بینک
کو کسی ایک فریق کی خواہش کے مطابق فیصلہ کرنے کا اختیار نہیں دیتا۔اعلامیے
میں کہا گیا کہ اس وقت عالمی بینک نے دونوں ممالک پر معاملے کو حل کرنے کے
طریقہ کار کے حوالے سے خوش اسلوبی کے ساتھ رضامند ہونے پر زور دیا ہے۔گذشتہ
برس 12 دسمبر کو عالمی بینک کے صدر جم یونگ کم نے اعلان کیا تھا کہ بینک
دونوں فریقین کی جانب سے سامنے آنے والی درخواست پر مزید اقدامات کو مخر کر
دے گا۔گذشتہ 7 ماہ کے دوران عالمی بینک خوش اسلوبی کے ساتھ معاملے کو حل
کرنے اور سندھ طاس معاہدے کی حفاظت کے لیے کام کر رہا تھا جس کے لیے عالمی
بینک کے صدر نے دونوں ممالک کے وزریر خزانہ سے بھی بات چیت کی۔
عالمی بینک نے وضاحت کی کہ انہوں نے مقامی سطح پر دونوں ممالک کے ساتھ
درجنوں ملاقاتیں کیں جن میں مختلف تجاویز بھی زیر بحث آئیں۔
پاکستان میں تو بھارتی آبی جارحیت کی وجہ سے زراعت اور انسانی صحت دونوں کی
سلامتی کو نئے چیلنجز اور خطرات کا سامنا ہے۔ ویسے تو دنیا بھر میں ایک
اعشاریہ پانچ بلین افراد پانی سے متعلقہ سیکٹرز اور زراعت سے منسلک ہیں جو
کہ دنیا بھر کے ورکروں کا تقریباً نصف بنتے ہیں۔ اس کے باوجود کروڑوں افراد
جن کا پانی سے روزگار وابستہ ہے ان کو بنیادی لیبر رائٹس حاصل نہیں۔ جب سے
پاکستان ایٹمی ریاست بنا ہے پاکستان کا ازلی دشمن بھارت جانتا ہے کہ اب
پاکستان کو روایتی یا ایٹمی جنگ سے زیر نہیں کرسکتا لیکن پاکستان کے وجود
کو آج تک تسلیم نہ کرنے والے بھارت نے پاکستان کیخلاف گزشتہ کئی برسوں سے
آبی جارحیت شروع کررکھی ہے۔ اس مقصد کے لئے دریائے چناب اور جہلم کے پانی
کی بندش کے کئی واقعات سامنے آ چکے ہیں۔ بھارتی آبی جارحیت کا اصل ہدف
پاکستان کو صحرا میں تبدیل کرکے خوراک کی خودمختاری سے محروم کرکے ایتھوپیا
جیسی صورتحال سے دو چار کرنا ہے۔ بھارت پہلے ہی دریائے چناب سے پاکستان کے
حصے کا 2 ہزار کیوسک پانی چوری کرچکا ہے اور اب دریائے چناب سے پمپس کے
ذریعے پانی کی مزید چوری کا سلسلہ جاری و ساری ہے۔ بھارتی آبی جارحیت اور
پانی چوری روکنے کے لئے بروقت ٹھوس اور مطلوبہ اقدامات نہ کئے گئے اور حکمت
عملی نہ اپنائی گئی تو بھارت سے پاکستان کی طرف دریائے چناب کے پانی کے
بہاؤ میں ساڑھے تین لاکھ ایکڑ فٹ مزیدکمی واقع ہوسکتی ہے۔ برصغیر میں کئی
ممالک کے پانی کے وسائل بہت حد تک آپس میں جڑے ہوئے ہیں۔ بہت سے دریاؤں کا
رخ یا تو بھارت سے نکل رہا ہے یا بھارت سے ہوکر بنگلہ دیش اور پاکستان میں
آرہا ہے۔ نیپال اور بھارت کے درمیان پانی کا رابطہ ہے اور پھر بھارت سے جو
دریا نکلتے ہیں وہ پاکستان اور بنگلہ دیش میں آرہے ہیں۔ بھارت نے پانی کے
مستقبل کو بھانپتے ہوئے کئی منصوبے بنائے ہیں جن میں سے ایک گریٹر واٹر لنک
ہے جو کئی دریاؤں کو آپس میں کینال کے ذریعے ملا کر ان کی سمت اور بہاؤ کو
تبدیل کرنے کا منصوبہ ہے۔ اس منصوبے کا سب سے زیادہ بُرا اثر بنگلہ دیش پر
پڑتا ہے۔ بھارت کا دوسرا منصوبہ 2014 تک 40 سے زیادہ ڈیم بنا کر پانی کو
کنٹرول کرنے کا منصوبہ ہے جو مختلف مقامات پر بنائے جائیں گے۔ اس میں بھارت
ان دریاؤں کے پانیوں پر بھی ڈیم بنا رہا ہے جن پر بین الاقوامی معاہدوں کے
لحاظ سے اس کے پاس حق نہیں ہے متذکرہ چالیس ڈیموں کی تعمیر مکمل ہونے کے
بعد بھارت کا غیر قانونی طور پر دریائے چناب اور جہلم کے 90فیصد پانی پر
قبضہ ہو جائیگا جو کہ سندھ طاس معاہدے کی دھجیاں بکھیرنے کے مترادف
ہوگا۔کشن گنگا ڈیم کی تعمیر بھی تیزی سے کی جارہی ہے جس کے تحت تو دریائے
جہلم کا رخ ہی موڑا جارہا ہے حالانکہ سندھ طاس اور بین الاقوامی معاہدوں کے
تحت دریا کا اس طرح رخ موڑنے کا کوئی قانونی یا اخلاقی جواز موجود
نہیں۔ویسے تو بین الاقوامی معاہدوں کی پاسداری کرناہر مہذب ملک کے لئے
لازمی ہوتا ہے اور ان کی پاسداری نہ کرنا ایک غیر اخلاقی و غیر مہذب اقدام
ہے۔ ان معاہدوں کی ضمانت ورلڈ بینک نے دی تھی جس نے پاکستان کو سرمایہ بطور
قرض اس لئے فراہم کیا تھا کہ معاہدے کے اثرات کو کم کیا جاسکے کیونکہ
معاہدے کے تحت بھارت کو دیئے جانے والے دریاؤں کی وجہ سے پاکستان پانی کی
کمی کا شکار ہوسکتا تھا اس لئے اسے قرض دیا گیا تاکہ وہ اپنا نہری نظام
بہتر کرسکے اور یہ ایک ضمانت تھی۔ باقی کے دریاؤں پر پاکستان کا حق بھارت
نے تسلیم کیا تھا اور یہ وعدہ کیا تھا کہ ان کے بہاؤ کو کم کرنے کی کوشش
نہیں کریگا۔ یہ حکومت پاکستان کی ایک بہت بڑی سیاسی اور سفارتی ناکامی ہے
کہ بھارت بین الاقوامی معاہدوں اور قوانین کی مخالفت کررہا ہے جن معاہدوں
کے گواہ ورلڈ بینک اور دیگر بڑے ممالک ہیں مگر پاکستان ان معاہدوں کو موثر
بنانے میں اور بھارت کو روکنے میں ناکام ہے۔ بھارت کی مختلف حکومتوں نے
پانی کے وسائل پر قبضہ کرنے کیلئے یا تو ان دریاؤں کا راستہ بدلنے کی کوشش
کی ہے یا پھر اس نے ایسے منصوبے بنانے کی کوشش کی ہے جس سے پاکستان بنجر بن
جائیگا۔ |