اگرامت مسلمہ 2012 میں اپنے ہونے کا احساس دلاتی تو
آج شائد اراکان کے مظلوم و مجبور مسلمانوں کو یہ دن نا دیکھنا پڑتے۔اگر
مسلم حکمران اس وقت اراکان کے سرحدی قصبے مانلگ کھیالی میں موجود اس چالیس
فٹ لمبی قبر کہ جس میں مانلگ کھیالی قصبے کے تمام باشندے بشمول خواتین ،بوڑھے
اور بچے جلائے جانے کے بعد ڈال دیے گئے تھے ،کے بارے میں برما کے صدر تھین
سین سے باز پرس کرتے تو شائد آج ــ’’نوبل انعام یافتہ،،آنگ سان سوچی کو
اتنی ہمت نہ ہوتی کہ مسلمانوں کے پورے کے پورے دیہات ہی ملیامیٹ کردتیں۔ اس
وقت اگر مسلمانوں کے کٹے ہوئے بازوؤں اور ٹانگوں کے ہڈیوں سے بنائے گئے
ڈھائی فٹ اونچے ڈھیر کے بارے میں اگر کسی طاقت ور اسلامی ملک کے کسی سر
براہ کو برمی حکومت سے پوچھنے کی توفیق نصیب ہوتی تو شائد آج صرف پانچ سال
کے قلیل عرصے کے بعد روہنگیائی مسلمانوں کے گردن اتنی بے دردی سے بدھ مت کے
ماننے والوں کے ہاتھوں نہ کٹ تھے۔یہ ہم سب کی بدقسمتی ہے کہ آج کے مسلم
دنیا میں سوائے ترک صدر رجب طیب اردگان کے ،ایسا کوئی رہنماء موجود نہیں کہ
جس کے دل میں مظلوم مسلمانوں کے لیے دکھ درد ہو۔اس وقت اگر کوئی برما کے
ظالم حکمرانوں سے یہ پوچھنے کی جسارت کرتا کہ آخر کس جرم میں تم نے پینسٹھ
ہزار مسلمانوں کو شہید کردیا ہے تو آج شائد روہنگیا کے حالات مختلف ہوتے
لیکن آفسوس اور صد آفسوس کہ اس وقت بھی سوائے ترکی کے مسلم دنیا پر سکوت
مرگ طاری ترہا او ر قریب قریب آج بھی وہی صوت حال ہمارے سامنے ہیں۔
قارئین کرام! مندرجہ بالا سطور میں آپ نے جو جھلکیاں ملاحظہ فرمائی وہ دو
ہزار بارہ کے واقعات کے بارے میں ہے۔ اس وقت بھی برما کے فوج اور بدھ دہشت
گردوں نے منظم طور پر مسلمانوں کا قتل عام کیا تھا ۔تشدد کے ان واقعات میں
مسلمانوں کے ہاتھ پیر کاٹ کر زندہ جلانااور مسلم خواتین کو ان کے بچوں کے
سامنے ریپ کا نشانہ بناکر بچوں سمیت قتل کرنا بدھ بدہشت گردوں اور وہاں کے
فورسز کا پسندیدہ’’ مشغلہ‘‘ بن چکا تھا۔ اس وقت بھی کئی روہنگیائی مسلمان
پناہ ڈھونڈنے کی تلاش میں دریائے ناف میں غرقاب ہوکر شہید ہوگئے تھے ۔بعد
میں ان شہداء میں سے بعض کی لاشیں مچھلی پکڑنے والے مچھیروں کے جال میں بھی
آئے اور یہ سب کچھ ریکارڈ کا حصہ بن چکا ہے۔
آج دو ہزار سترہ میں بھی مظلوم روہنگیائی باشندوں کے حالات نہیں بدلے۔ اگست
کے اخری ہفتے سے شروع منظم قتل عام میں اب تک ہزاروں افراد کو شہید کیا جا
چکا ہے جبکہ تین لاکھ سے زائدافراد بنگلہ دیش میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے۔
جہاں ان کو بنگلہ حکومت کی جانب سے بے رخی کا سامنا ہے۔UNHCR کے مطابق
اراکان میں ہر طرف ہلاک شدگان کے دھڑ، بازو اور سر نظر آتے ہیں۔دوسری طرف
غیر ملکی میڈیا کے رپورٹس کے مطابق ایک خاتون کے آنکھوں کے سامنے ان کے
شوہر اور سات بیٹوں کے ٹکڑے کردیے گئے جبکہ خاتون کو رونے کی اجازت بھی
نہیں تھی۔اس کے علاوہ کئی دیگر خواتین کے سامنے ان کی بیٹیوں کوبرمی فوجیوں
اور بدھ دہشت گردوں نے ریپ کرکے شہید کردیا۔ برطانوی اخبار ٹیلیگراف نے
عینی شاہدین کے حوالے سے رپورٹ کیا ہے کہ وہاں پر مسلمان بچوں کے سر قلم
اور لوگوں کو زندہ جلایا جارہا ہے۔ اس کے علاوہ تھائی لینڈ کے ایک انسانی
حقوق گروپ کوجوراتھیڈونگ ٹاؤن شپ کے گاؤں چیوٹ پین سے جان بچاکر نکلنے والے
عینی شاہدین نے بتایا کہ فوجی اہلکاروں نے مردوں کے ایک بڑے گروپ کو گرفتار
کرکے ایک جھونپڑی میں بند کرکے اسے آگ لگادی اور یوں ان مسلمانوں کو زندہ
جلادیا گیا۔ عالمی میڈیا ،حقوق انسانی کے عالمی تنظیموں اور خود اقوام
متحدہ نے بھی یہ تسلیم کیا ہے کہ برما کی حکومت، وہاں کی فوج اور عوام
مسلمانوں کی منظم نسل کشی میں مصروف ہے۔دنیا کہ کئی ممالک، انسانی حقوق کے
لیے سرگرم تنظیمیں اور خود اقوام متحدہ کو اب اس بات میں کوئی شبہ نہیں رہا
کہ روہنگیائی مسلمانوں سے زیادہ بے بس اور مجبور و مقہور قوم دنیا میں کوئی
نہیں۔
آفسوس ناک صورت حال یہ ہے کہ روہنگیائی مسلمانوں کی مظلومیت اور برمی حکومت
کی فرعونیت کو عالمی سطح پر تسلیم کیے جانے کے باوجود بھی دنیا مسلمانوں کا
خون ں ناحق روکنے میں ناکام ہے۔حالانکہ سچ یہ ہے کہ دنیا کے کسی بھی ایک
طاقت ورملک کی جانب سے برمی حکومت کے نام ایک سخت پیغام مسلمانوں کے دکھوں
کا مداوا کرسکتا ہے کیونکہ یہ ایک حقیقت ہے کہ برما ایک کمزور ملک ہے اور
ان میں اتنی سکت بہر حال نہیں کہ وہ دنیا کی مخالفت کا سامنا کرسکے لیکن
یہاں پر ہمیں یہ تلخ حقیقت تسلیم کرناہوگی کہ دنیا ایسا کبھی نہیں کرے
گی۔کیونکہ آج جو قوم ظلم کی چکی میں پِس رہی ہے وہ مسلمان ہیں، البتہ
روہنگیا کے باشندے اگر عیسائی ہوتے تو پھر ان کے بارے میں سوچا جاسکتا تھا۔
دوسری طرف ترکی کو چھوڑ کر مسلم دنیا غفلت اور لاپرواہی کی لمبی چادر تان
کر سورہی ہے۔چند ایک بیانات اور او آئی سی کے پلیٹ فارم سے ایک کھوکھلا
بیان دے کر مسلم امہ سمجھ رہی ہے کہ انہوں نے حق ادا کردیا۔ حالانکہ ایسے
کھوکھلے بیانات روہنگیاؤں کے دکھوں کا مداوا نہیں ہوسکتے ۔بلکہ ایسے بیانات
ان مظلوموں کے زخموں پر نمک چھڑکنے کا مترادف ہے۔ وہ اس لیے کہ مسلم امہ کے
اندر یہ صلاحیت اور اتنی قوت موجود ہے کہ وہ اگر چاہے تو فوری طور پر
اراکان کے روہنگیا مسلمانوں کو ان کے اپنے وطن یعنی ارض اراکان پر باعزت
اور محفوظ طریقے سے بساسکتے ہیں لیکن آفسوس کہ ایسا کرنے کے لیے مسلم دنیا
میں کوئی نڈر اور باصلاحیت قیادت موجود نہیں سوائے ترکی کے رجب طیب اردگان
کے۔اﷲ رب العزت سے دعا ہے کہ وہ ترکی کے علاوہ باقی مسلم دنیا بالخصوص
سعودی عرب اور پاکستان کو بھی نیک اور صالح قیادت عطاء فرمائے جو روہنگیائی
اور دنیا کے دیگر خطوں کے مظلوم مسلمانوں کے دکھ درد کو اپنا دکھ درد سمجھے
اور اسے اپنے دل میں محسوس کریں۔اﷲ تعٰلی ہم سب مسلمانوں کو حفظ وامان میں
رکھیں اور مسلم دنیا کو امن کا گہوارہ بنائے۔ آمین۔ |