مقبوضہ کشمیر میں حریت قیادت سید علی گیلانی، میر واعظ
عمر فاروق اور محمد یاسین ملک سمیت دیگر حریت قیادت نے کشمیری عوام کیخلاف
بھارتی تحقیقاتی ادارے این آئی اے کی ظالمانہ کارروائیوں کیخلاف نئی دہلی
میں ادارے کے ہیڈ کوارٹرز کے باہر گرفتاریاں پیش کرنے کا اعلان کیا -
حریت رہنماؤں نے جامع مسجد سرینگر میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے
کہا کہ این آئی اے کشمیریوں کو دہشت گردی کا نشانہ بنارہا ہے اور کشمیری
عوام نے اس کی تحریک دشمن ور حریت مخالف پالیسیوں کو مسترد کردیا ہے۔
سید علی گیلانی نے پریس کانفرنس سے ٹیلی فونک خطاب میں کہا کہ وہ این آئی
اے کے چھاپوں کیخلاف احتجاج کیلئے نئی دہلی جارہے ہیں۔
میر واعظ عمر فاروق کا کہنا ہے کہ بھارت کشمیر میں بنیادی مسئلے کو حل کرنے
کے بجائے ظلم و بربریت اور ہراساں کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔
محمد یاسین ملک نے بھارتی حکومت سے مطالبہ کیا کہ ’’وہ تہاڑ جیل کے دروازے
کھلے رکھے، ہم آرہے ہیں‘‘۔ حریت رہنماؤں نے اس موقع پر احتجاجی دھرنا بھی
دیا۔ حریت رہنماوں کا کہنا تھا کہ چونکہ مین ایجنٹ وہ ہے اس لیے انکو
گرفتار کیا جائے حریت رہنماوں کے اس اعلان کے فوری بعد بھارتی جمہوریت پسند
حرکت میں آئے اور کٹھ پتلی انتظامیہ نے سینئر حریت رہنماؤں سید علی گیلانی،
میر واعظ عمر فاروق اور محمد یاسین ملک کو نئی دلی میں بھارتی تحقیقاتی
ادارے نیشنل انویسٹی گیشن ایجنسی کے ہیڈکوارٹرز کی طرف مارچ سے روکنے کیلئے
نظر بند کر دیا۔
بھارتی پولیس نے محمد یاسین ملک کو سرینگر میں انکی رہائش گاہ سے گرفتار کر
کے سینٹرل جیل سرینگر منتقل کردیا جبکہ سید علی گیلانی اور میرواعظ عمر
فاروق پہلے سے گھروں میں نظر بند ہیں۔ کٹھ پتلی انتظامیہ نے حریت رہنماؤں
کی گرفتاری اور این آئی اے کی طرف سے کشمیرمیں خوف و دہشت پھیلانے کے خلاف
مظاہرے روکنے کیلئے سرینگر میں پابندیاں نافذ کر دیں۔ مشترکہ مزاحمتی قیادت
نے ایک بیان میں محمد یاسین ملک کی گرفتاری اور سید علی گیلانی اور میرواعظ
عمر فاروق کی گھروں میں نظر بندی کی شدید مذمت کی۔
بیان میں نئی دہلی پولیس کی طرف سے انسانی حقوق کے کارکن سید عبدالرحمان
گیلانی کی گھر میں نظر بندی کی بھی مذمت کی گئی جو پولیس کے مطابق مزاحمتی
رہنماؤں کے استقبال کے لیے ائر پورٹ آنے والے تھے۔میر واعظ عمر فاروق نے
اپنے ایک ٹویٹ پیغام میں کہا کہ کٹھ پتلی انتظامیہ نے مزاحمتی رہنماؤں کو
این آئی اے کے ڈرامے کو بے نقاب کرنے سے روکنے کیلئے نظر بند کیا۔ جموں
وکشمیر لبریشن فرنٹ کے بیسیوں رہنماؤں اور کارکنوں نے مشترکہ مزاحمتی قیادت
کی نظر بندی کے خلاف سرینگر کے علاقے آبی گزر میں ایک احتجاجی مظاہرہ کیا۔
بھارتی ایجنسی این آئی اے نے مقبوضہ کشمیر میں کشمیریوں کی نسل کشی کا
پروگرام شروع کر رکھا ہے کئی بیگناہ افراد کو گرفتار کرکے بھارت لے جایا جا
رہا ہے جہاں انکی زندگیوں کو شدید خطرات لاحق ہیں مقبوضہ کشمیر کی تحریک
آزادی کی دنیا بھر میں پہنچتی آواز پر بھارتی بوکھلاہٹ کا شکار ہیں چند دن
قبل دنیا تک مظلوم کشمیر کی آواز تصویر کشی کرکے پہنچانے والے فوٹو جرنلسٹ
کامران یوسف کو پلوامہ سے گرفتار کر لیا گیا جبکہ اسی روز ایک اور صحافی
جاوید بھٹ کو بھی گرفتار کیا گیا جن کے خلاف بغیر کسی مقدمے کے دس روزہ
ریمانڈ لے کر جیل میں ڈال دیا گیا دنیا بھر میں آزادی صحافت کے لیے آواز
اٹھائی جاتی ہے مگر بھارتی جو دنیا کے سب سے بڑے جمہوریت پسند ہونے کا دعوی
کرتے ہیں انکا یہ حال ہے کہ وہ کسی صحافی کو مقبوضہ کشمیر میں اپنے مظالم
دنیا تک پہنچانے کے جرم میں گرفتار کرکے نامعلوم ٹارچر سیل میں منتقل کر
چکے ہیں جہاں انکی زندگی موت میں تبدیل ہو سکتی ہے لاکھوں کشمیریوں کو
بھارتی دہشت گردوں نے اسی طرح بغیر کسی کے گھروں سے اٹھایا اور کئی سالوں
کے بعد آج بھی انکی اپنے گھروں کو واپسی نہیں ہوئی بھارتی ایجنسی این آئی
اے نے اس قبل کئی تاجر طلبا ڈاکٹر اور پڑھے لکھے ایسے افراد مقبوضہ کشمیر
سے گرفتار کیے ہیں جو سوشل میڈیا کے زریعے اپنی آزادی کی تحریک چلا سکتے
ہیں بھارتی قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈوول کشمیریوں کی نسل کشی کا منصوبہ
چلا رہے ہیں اجیت ڈوول سے بڑا دہشت گرد نریندر مودء وزیر اعظم جس کے ہاتھ
مسلمانوں کے خون سے پہلے ہی رنگے ہیں مودی نے اجیت ڈوول کو مقبوضہ کشمیر
میں بیگناہ انسانوں کا خون بہانے کی کھلی چھوٹ دے رکھی ہے اجیت ڈوول کے اس
خوفناک منصوبے کو بھارتی ایجنسی این آئی اے کے زریعے پورا کیا جا رہا ہے
کئی ہفتوں پہلے کئی حریت رہنماوں کو پہلے ہی گرفتار کرکے بھارت لے جایا جا
گیا تھا جن پر غیر قانونی ہٹھکنڈے استعمال کرتے ہوئے تحریک آزادی کے لیے
زرا برابر کام کرنے والے ہر فرد کا پتا لگا کر یا تو اسے جھوٹے مقابلے بنا
کر شہید کر دیا جاتا یا اس کا مقدر بھارتی بدنام زمانہ ٹارچر سیل بن رہے
ہیں
عام شہریوں کے بعد صحافتی افراد کی گرفتاریوں سے مقبوضہ وادی میں شدید
تشویش کی لہر دور گئی ہے مقبوضہ کشمیر میں صحافتی تنظیموں نے بھارتی
تحقیقاتی دارے’این آئی اے‘ سے کہا ہے کہ وہ فوٹو جرنلسٹ کامران یوسف پر
لگائے جانے والے الزامات سامنے لائے۔ کشمیر ٹی وی جرنلسٹس گلڈ، کشمیر
جرنلسٹ کارپس، کشمیر ویڈیو جرنلسٹس ایسوسی ایشن اور کشمیر پریس فوٹو گرافرس
ایسوسی ایشن نے این آئی اے کی طرف سے کامران یوسف کی حالیہ گرفتاری کے
حوالے سے سرینگر میں ایک مشترکہ اجلاس کا انعقاد کیا۔بعد میں جاری ایک
مشترکہ بیان میں اجلاس کے شرکا ء نے متفقہ طور پر کہا کہ کامران یوسف جنوبی
کشمیر میں ایک فری لائنسس صحافی ہیں اور انکی گرفتاری اظہار رائے کی آزادی
کے حق پر حملہ ہے لہٰذا این آئی اے ان پر لگائے جانے والے الزامات سامنے
لائے۔
مگر بھارتی ایجنسی این آئی اے نے سینکڑوں گرفتار کیے جانے والے کشمریوں میں
سے کسی ایک پر بھی کوئی الزام ثابت نہیں کیا دختران ملت کی سربراہ آسیہ
اندرابی کو جموں جیل میں بند کیا گیا ہے جہاں انکی تشویشناک حالت کے باوجود
انکو ڈاکٹر کی سہولت ہے نہ ادویات فراہم کی جا رہی ہیں بلکہ ان کی بیماری
کے باوجود ان پر تشدد کیا جا رہا ہے جس سے انکی زندگی کو شدید خطرہ ہے اور
عدالتی حکم کے باوجود انکو رہا نہیں کیا جا رہا حریت رہنما شبیر شاہ کو بھی
بھارتی جیل میں بڑھاپے میں تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا ہے ساری زندگی آزادی
کی کی خاطر جیلوں میں گزارنے والے مسرت عالم بھٹ کا کوئی پتا نہیں کہاں ان
پر غیر قانونی قید کے دوران تشدد کیا جا رہا ہے آخری اطلاعات کے مطابق انکو
مقبوضہ جموں کے دور دراز علاقے میں قائم جیل میں لے جایا جا گیا تھا مقبوضہ
کشمیر کی تحریک آزادی کے ہر فرد کی گرفتاری جہاں انکے اہلخانہ کے لیے دکھ
کا سبب ہے وہیں ہر کشمیری بھی اپنی سینکڑوں سال سے آزادی کی تحریک کے خلاف
بھارتی سازشوں کو دیکھ کر پریشان ہے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کا حالیہ
میانمار کا دورہ اسی بات کی علامت ہے کہ وہ بھی میانمار کی طرح کشمیریوں کے
قتل عام کے لیے دن بہ دن مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کی تعداد میں اضافہ
کر رہے ہیں اسی پلان کے تحت ہر اس شخص کو گرفتار یا شہید کی جا رہا ہے جو
بھارتی دہشت گردی کو دنیا کے سامنے لاسکتا ہے پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر
جاوید باجوہ کا گزشتہ دنوں بیان جہاں کشمیریوں کے لیے حوصلے کا سبب بنا
وہیں کشمیری اب پاکستانی آرمی چیف کی طرف امید بھری نظروں سے دیکھ رہے ہیں
وہ آئیں اور انکو بھارتی درندوں سے آزاد کروائیں |