■ مولوی نذر محمد بابا سیف محمد کے چوتھے چراغِ چشم
تهے آپ نہایت برگزیدہ انسان تهے آپ کو صوم و صلوٰۃ اور نعت خوانی سے خاص
شغف تها . اکثر امامت اور موذن کے فرائض بهی آپ ہی انجام دیتے نہایت ہی
تزکیہ نفس بزرگ تهے گفتگو میں حلیمی چال میں میانہ روی لباس میں نفاست آپ
کا وصف تها . بھائیوں میں کیا بلکہ خاندان بهر میں آپ سا خوبصورت بزرگ کوئی
دوسرا نہ تها . سفید رنگت پتلے نقش و نگار درمیانہ قد و قامت آپ کی
خوبصورتی کو چار چاند لگاتے تهے ریشم سی سفید داڑھی سفید سر کے بال آنکھوں
پر گول شیشوں والی نازک سی بصری عنیک حفاظتی تدابیر کے تحت فریم کے ساتھ
اسودی ڈوری ہاتھ میں ہمہ وقت جسم ہی کی طرح کا نازک سا عصا پاوں میں برون
چمڑے کا پلین کهوسہ جسم پر کبهی بادامی شلوار کڑتا کبهی لنگی اور سفید قمیض
بعض اوقات سلکی دهوتی جس کی کناری پر نیلی لائینیں ہوتی اور بوسکی کی قمیض
جس کا گلا سفید دهاگے سے کڑهائی کیا ہوا سلیٹی واسکٹ جسے آپ کوٹی یا بسکاٹ
بهی کہتے تهے سر پر اکثر نماز والی ٹوپی رکهتے اور کبهی کبهار محمد علی
جوہر والی گول ٹوپی رکهتے (جس دن گول ٹوپی رکهتے اس دن محسوس ہو جاتا کہ آج
آپ کو کہیں جانا ہے) کاندھے پہ سفید ہی پرنہ رکهتے گلابی ہونٹ ہونٹوں کے
اندر موتیوں جیسے دانت ہر وقت مسواک کیے ہوئے ہونٹوں کے اوپر پتلی سی
مونچھوں کی لائین داڑھی خط کی ہوئی گویا آپ ہر وقت یوں رہتے جیسے کسی بارات
کے ساتھ آپ کو جانا ہے. یا آپ کو یہ علم تها کہ صفائی نصف ایمان ہے. آپ کا
زیادہ وقت یاد الہی میں گزرتا تاہم دنیاداری بهی خوب نبهانا جانتے تهے .
■ آپ کی عادت مبارکہ تهی کہ آپ آذان کے اول و آخر درود پاک پڑهتے ایک بار
میرپور(لفظ میرپور سے یاد آیا کہ آپ میرپور کو دو حصوں میں بولا کرتے تھے
یعنی میر.......پور اور اسی طرح لائلپور کو لائل .....پور کہتے تهے . یوں
کہتے ہوئے آپ بہت پیارے لگتے تهے اور ہمیں یہ تجسّس پیدا ہوتا تها کہ یہ
شہر ہم بڑے ہو کر ضرور دیکھیں گے). سٹاف کالونی کی مسجد میں آذان دینے لگے
تو آپ نے حسب عادت دورد شریف پڑها وہاں کچھ لوگ ایسے تهے جن کو دودر شریف
سے عادتاً الرجی تهی یا یوں کہہ لیں جن کے نصیب میں سننا نہیں تها انہوں نے
اعتراض کیا تو آپ نے کہا میرا کام پڑهنا ہے میں پڑھوں گا اگر آپ کو کوئی
مشکل ہے تو نہ سنا کریں آپ کے اس جواب سے ان لوگوں کو اور تکلیف ہوئی لیکن
کچھ کہہ نہ سکے.
آپ دورد پاک چلتے پهرتے پڑهتے رہتے تهے فرض نماز کے بعد کلمہ طیبہ بلند
آواز میں پڑهتے ،اس پر بهی بہت سوں کو تکلیف ہوتی لیکن آپ اپنے انداز میں
چلتے رہتے.
■ آپ بچوں کے ساتھ بڑی شفقت کے ساتھ پیش آتے تهے یہی وجہ تهی کہ بچوں کی
تعداد آپ کی جماعت میں زیادہ ہوتی تهی اگر کسی سے کوئی غلطی سرزد ہو جاتی
تو آپ پہلے اپنے چہرے پر تبسم لاتے پهر اس کو پاس بلا کر کہتے ایسا ہو ہی
جاتا ہے لیکن اچها کرنے کی کوشش کرنی چاہیے . مصنف کو آپ کی جماعت میں نماز
پڑھنے کا شرف حاصل رہا اکیلے مقتدی کا امام کے دائیں کهڑا ہونا دوسرا مقتدی
کے آ جانے کی صورت میں مقتدی کے ساتھ مل جانا انہی سے سیکھا ہوا ہے . کبهی
کبهار نمازیوں کی کم تعداد پہ آپ کا دل کڑتا لیکن اس کے سوا اور کیا ہو
سکتا . بعد نماز آپ کا قبرستان میں جانا روز کا معمول تها خاص کر بعد نماز
فجر اہل قبور کی بخشش کی خوب دعائیں مانگتے کبھی اپنے لیے دعا مانگتے تو
آنکھیں اشکبار ہو جاتی کاندھے پر رکهے پرنے سے سرخ ہوتی ناک کو پونچھتے
آنکھوں کی پتلیاں صاف کرتے کسی گہری سوچ کے بعد لمبا سا ہوکا بهرتے آخر پر
توبہ استغفار کرتے ہوئے گهر چلے جاتے جہاں بیٹی رضیہ کو اپنا منتظر پاتے .
پتہ ہوتا کہ دیر سے آنے پہ بیٹی کا گلہ سننا پڑے گا پہلے ہی کہہ دیتے سوچیا
سی اشراق پڑهی تے جولاں فیر یاد آئی ریضیہ(رضیہ) رہ تکنی ہوسی . ہمیشہ کی
فرمانبردار بیٹی ہنستے ہوئے کہتی پہاپا جی میں تے اس ماریاں رہ تکنی ساں کہ
اچهو تے تساں کی نہاری کراں ، آلہ کینی آنو نالے آپوں وی کری کینو . بیٹی
باپ کو ناشتہ کرتے اتنے غور سے دیکهتی کے جیسے آنکھوں میں فوٹو اتار رہی
ہے. ناشتہ ختم ہی ہوتا تو گرم گرم چائے کی پیالی تهماتے ہوئے کہتی پہاپا جی
آج یہ کوٹی اتار دیں وہ کیا ہوا بیٹی ، بس ذرا میلی جئ لغنی اے اج باناں
جاساں تے اسکی وی تهوئی آنساں. آخو تساں باناں لغے جاسو تے میں کلہہ(اکیلا)
کہہ کرساں ، تساں سوئی جائے میں کیڑا دیاڑ لاساں چہٹ مڑی اچهساں ، باپ بیٹی
کی میٹھی میٹھی باتیں سن کر بےجی بجیر سوچتیں کاش میرے پہاپا بهی زندہ
ہوتے. مولوی جی کے گهر اور مسجد کے درمیان بس ایک قبرستان ہی کا حاطہ تها
یا صوفی فقیر محمد ہوراں کا گھر تها جہاں آپ کی بھتیجی فاطمہ رہتی تھی وہ
بھی بہت زور دیتی کے چاچا جی ناشتہ کر لیں لیکن چچا جی اپنی بیٹی کا عذر
پیش کرتے ہوئے کہہ دیتے ایکہ گل اے بس تساں کرو .
■ مولوی جی کو مولوی جی منڈی والے بھی کہا جاتا تها وہ اس لیے کے جہاں ان
کا گهر تها وہ جگہ ایک دندا (کلف) نما تهی نیچے سے ایک گلی گزرتی جسے منڈی
آلیے نی گہل کہتے ، گہل کے اوپر خط استوا پر بنے گهروں کو منڈی کہتے تهے،
ان کے گھر سے لے کر باوا شیر کنی والوں کے گهر تک کے تمام گهروں کو منڈی
کہا جاتا تها . یہ دو بهائی اسی منڈی پر رہتے تهے اس لیے ایک کو لالہ منڈی
والے اور دوسرے کو چاچا منڈی والے کہا جاتا تها. اتفاق کی بات ہے کہ صوفی
فقیر محمد جن کا گهر ان گهروں کے ساتھ جڑا ہوا تها اس گهر کو کبھی منڈی
والے گهروں میں شامل نہیں کیا جاتا تها شاید وہ سطح مرتفع پر واقع تھا .
■ مولوی جی اکثر سفر کیا کرتے تهے میرپور اور لائلپور(فیصل آباد) ان کے
بیٹے اور ایک بیٹی رہتی تهی ان سے ملنے جایا کرتے تھے . آپ کے جانے سے ان
کے گھروں میں رونق آ جاتی . وہ بهی بہت آو بهگت کرتے مولوی جی کے تین چار
ماہ نہ نہ کرتے بهی گزر جاتے واپس آتے تو ایک ایک پوتے پوتی کا نام لے کر
زکر کرتے بڑا مزا تب آتا جب آپ پنجابی میں کہہ دیتے پپا ( نواسہ ذوالفقار)
وی آندا ہوے گا . ان کے ساتھ بولتے بولتے کچھ الفاظ ایسے ازبر ہو جاتے کے
پهر دیر تک وہی بولتے رہتے .
■ ایک بار آپ نے صبح کی نماز گول ٹوپی پہن کر پڑهائی تو مقتدیوں کو شک ہو
گیا کہ آج مولوی جی کہیں جانے والے ہیں. ماسٹر مہندی جی اور صوفی بیرو جی
نے پوچھا کہ ہج کدرے تیاری تے نئیں ،کہنے لگے ہاں آج میں بچوں کے پاس جا
رہا ہوں کچھ دن میرپور رہ کر لائلپور چلا جاوں گا . آپ نماز کے بعد سب
مقتدیوں سے ملے جو نہیں آئے تھے ان کے لیے سلام چهوڑا اور قبرستان تشریف لے
گے دیر تک فاتحہ خوانی کرنے کے بعد گهر گے اتنی دیر تک کافی محلے دار اور
برادری والے جمع ہو چکے تهے فرداً فرداً سب سے ملے اور عازم سفر ہوئے ؛ پتہ
نہیں اس وقت ایسا کیا تها کہ گهر سے کہیں جانے والے کے ساتھ لوگ دور تک
چلتے تھے اور جانے والا بهی کیا کیا باتیں کرتا کہ سارے سانسیں کهنیچ کر اس
کو سنتے! صدیق پڑوسی نے بیگ اٹهایا اور دوسروں سے کچھ تیز چلتے ہوئے سڑک
کنارے کهڑا ہو گیا کہ گاڑی بھی روکنی ہے
■ مہینوں کو ہفتوں اور ہفتوں کو دنوں میں سمٹتے چلے گے فیصل آباد اپنے بیٹے
محمد خان کے پاس تهے کہ گردوں کے ارضہ لاحق ہوا. ایک دو ماہ تک علاج کروایا
کچھ آفاقہ ہوا تو رخت سفر واپسی کے لیے باندھ لیے. گهر آئے تهوڑے چلتے
پھرتے لیکن کمزوری بڑه چکی تھی اس لیے بس منڈی سے ہی سیری کا نظارہ کرتے .
کچھ دنوں کے بعد ہی آپ کے مثانے خراب ہو گئے تو اس بیماری کے باعث آپ کو
پیشاب پر بھی کنٹرول نہ رہا علاج کے لئے ڈی ایچ کیو کوٹلی ایڈمٹ کرائے تمام
دهیاں پتر دوہتر پوتر چوبیس گھنٹے ہسپتال رہتے ایک اشارے پر سب دوڑ کر حاضر
ہوتے لیکن لکهے کو کون ٹال سکتا ہے آخر آپ کا وہ وقت آ ہی گیا جب آپ سب کو
آہیں سسکیاں اور ہنجوں سونپ کر خود اللہ کی رضا پہ لبیک کہہ گئے.
آپ کی موت کی خبر چار چوفیرے آناً فاناً پهیل گئی ہر کوئی جہاں تها جیسا
تها فوراً بهاگا لیکن جانے والے کب لوٹ آتے ہیں. جیسا ہوتا آیا ہے کہ مٹی
کا پہلا بیلچہ وہی ڈالتا ہے جو سب سے قریبی ہوتا ہے بہت ہی پیارے بیٹوں نے
ایک ایک بیلچہ ہی ڈالا تها کہ چار بیلچے بن گئے تهے جہاں اپنے مٹی ڈال دیں
پهر دوسرے کب کسر چهوڑتے ہیں دیکهتے ہی دیکهتے مٹی کا اک ڈهیر سا بن گیا
جسے بعد میں سارے پہاپے جی نی قبر کہنے لگے. مسجد سے آپ کو خاص محبت تهی
اللہ تعالیٰ نے آپ دونوں میاں بیوی کو بلکل مسجد کے ساتھ مسکن عطا فرمایا.
■ مولوی جی نے بڑے بھائیوں کی ریت توڑتے ہوئے صرف ایک ہی شادی پر اکتفا کیا
اور انہی سے آپ کے چار بیٹے اور چار ہی بیٹیاں ہوئیں سب اولاد ایک دوسرے پر
سبقت لے جانے والی ثابت ہوئی، ایک نور چشم(خادم حسین ) سرکاری افسر ہوئے
باقی تینوں اپنے اپنے اکتساب پر رہے . ساری اولاد خوبصورت اچهے اخلاق
شائستہ گفتگو اور اعلیٰ اوصاف کی عامل رہی . مولوی جی کے ایک نواسے(وقار
حسین) کو پبلک ریلیشن آفیسر دوسرے(قیصر مسعود) کو لائن سپریڈنٹ اور دو
پوتوں کو حافظ قرآن ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے . مولوی جی کے بعد پھر کسی
نے ویسی آذان نہ دی آج بهی جب مسجد کا لوڈ اسپیکر ان ( on) ہوتا ہے تو آپ
کی یاد ایسے ہی آ جاتی ہے جیسے بس اسی بٹن کے ساتھ ہی کنکشن تها.
|