سائبر کرائم بل کیا ہے؟انسداد الیکٹرانک کرائم بل میں
کمپیوٹر اورانٹرنیٹ کے ذریعے کیے جانے والے جرائم کی روک تھام پرسزاؤں کا
تعین کیا گیا، جس کے مطابق پاکستان ٹیلی کمیو نیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے)
اسلامی اقدار، قومی تشخص، ملکی سیکیورٹی اور دفاع کے خلاف مواد بند کرنے کی
پابند ہوگی۔سائبر کرائم کی ایک عام تعریف یہ بیان کی جاتی ہے کہ ہر ایسی
سرگرمی جس میں کمپیوٹرز یا نیٹ ورکس کو ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے
ہوئے کسی کو ہدف بنایا جائے یا مجرمانہ سرگرمیاں کی جائیں یا انہیں مخصوص
فریقین کی جانب سے خلاف قانون سمجھا جائے۔عام فہم انداز میں بات کی جائے تو
مختلف سطحوں پر سائبر کرائمز میں لوگوں کی پرائیویسی کی خلاف ورزی، ہیکنگ،
سوشل نیٹ ورکس میں استحصال، معلومات انفراسٹرکچر پر سائبر حملے، سائبر
دہشتگردی، مجرمانہ رسائی، فحش پیغامات، ای میلز، دھمکی آمیز پیغامات و ای
میلز، ڈیٹا تک غیرقانونی رسائی وغیرہ شامل ہیں۔پاکستان میں سائبر کرائمز کی
روک تھام کے حوالے سے الیکٹرونک ٹرانزیکشن آرڈنینس 2002 اور پاکستانی ٹیلی
کمیونیکشن ری آرگنائزیشن ایکٹ 1996 جیسے قوانین نافذ ہیں، جبکہ 2009 میں
پریوینٹیشن آف الیکٹرونک کرائمز آرڈنینس بھی سامنا آیا مگر یہ ابھی تک فعال
نہیں ہو سکے ہیں۔ان قوانین کے تحت ہیکنگ، غیر قانونی رسائی (کسی ای میل
اکاونٹ کی ہیکنگ)، مداخلت، پرائیویسی کی خلاف ورزی، الیکٹرونک و ٹیلی کام
انفراسٹرکچر کو نقصان پہنچانے اور گرے ٹریفک سمیت دیگر کو اہم جرائم قرار
دیا گیا ہے، تاہم ان میں کئی اہم سائبر کرائمز کو شامل نہیں کیا گیا تھا۔بل
کے متن کے مطابق سائبر کرائم کی تحقیقات کے لیے ہائیکورٹ کی مشاورت سے
عدالت قائم کی جائے گی۔عدالت کی اجازت کے بغیر سائبر کرائم کی تحقیقات نہیں
ہوسکیں گی۔سائبر دہشت گردی پر 14سال قید اور 5 کروڑ روپے جرمانہ ہوگا۔نفرت
انگیز تقریر، فرقہ واریت پھیلانے اور مذہبی منافرت پر 7 سال سزا ہوگی۔دھوکہ
دہی پر 3سال قید اور 5 لاکھ روپے جرمانہ ہوگا۔بچوں کی غیر اخلاقی تصاویر
شائع کرنے یا اپ لوڈ کرنے پر 7 سال قید اور 5 لاکھ روپے جرمانہ
ہوگا۔انٹرنیٹ کے ذریعے دہشت گردوں کی فنڈنگ کرنے پر 7 سال سزا ہوگی۔انٹرنیٹ
ڈیٹا کے غلط استعمال پر 3 سال قید اور 10 لاکھ روپے جرمانہ ہوگا۔موبائل فون
کی ٹیمپرنگ پر 3 سال قید اور 10 لاکھ روپے جرمانہ ہوگا۔موبائل فون سموں کی
غیر قانونی فروخت پر 5 سال قید اور 5 لاکھ روپے جرمانہ ہوگا۔انٹرنیٹ مہیا
کرنے والوں کا ڈیٹا عدالتی حکم کے بغیر شیئر نہیں کیا جائے گا۔سائبرکرائم
قانون کا اطلاق پاکستان سے باہر کسی بھی دوسرے ملک میں بیٹھ کر خلاف ورزی
کے مرتکب افراد پر بھی ہوگا۔پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) کے
لائسنس ہولڈر کے خلاف کاروائی پی ٹی اے قانون کے مطابق ہوگی۔عالمی سطح
پرمعلومات کے تبادلے کے لیے عدالت سے اجازت لی جائی گی اور دوسرے ممالک سے
تعاون بھی طلب کیا جاسکے گا۔سائبر کرائم قانون کا اطلاق پرنٹ اورالیکٹرانک
میڈیا پر نہیں ہوگا۔سینیٹ کمیٹی سے منظور ہونے والے مذکورہ بل کو اب سینیٹ
میں پیش کیا جائے گا، جہاں سے منظوری کے بعد یہ باقاعدہ قانون کی شکل میں
نافذ العمل ہوجائے گا۔یاد رہے کہ رواں برس 14 اپریل کو قومی اسمبلی نے
الیکٹرانک کرائمز کی روک تھام کا بل 2015 منظور کیا تھا، تاہم بل کو قانونی
شکل دینے کے لیے سینیٹ سے اس کی منظوری ضروری تھی۔خیال رہے کہ انفارمیشن
ٹیکنالوجی (آئی ٹی) انڈسٹری اور سول سوسائٹی کی مخالفت اور اس پر تحفظات کو
دور کیے بغیر بل کی منظوری دی گئی تھی۔بل کے مخالفین کا کہنا تھا کہ مذکورہ
قانون انسانی حقوق کی خلاف ورزی اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو بے جا
اختیارات دینے کے مترادف ہے۔مذکورہ بل کا مسودہ آئی ٹی کی وزارت نے جون
2015 میں قومی اسمبلی میں پیش کیا تھا۔تاہم اپوزیشن اراکین کی مخالفت اور
آئی ٹی انڈسٹری کے تحفظات کو دور کرنے کے لیے اسے قومی اسمبلی کی قائمہ
کمیٹی برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی اینڈ ٹیلی کمیونیکیشن کو بھیج دیا گیا
تھا۔آئی ٹی انڈسٹری کے نمائندوں نے زور دیا تھا کہ مذکورہ بل ان کی تجارت
کے لیے نقصان کا باعث ہے بل میں کہا گیا ہے سکیورٹی ایجنسیز کی مداخلت کی
روک تھام کے حوالے سے بھی اقدامات کیے جائیں گے ٗبل میں 21 جرائم کی وضاحت
کی گئی ہے، جن پر پاکستان پینل کوڈ (پی پی سی) کی 30 دفعات لاگو ہوسکیں گی۔
بل کے مطابق متعلقہ حکام اس بل پر عملدرآمد کے حوالے سے سال میں 2 مرتبہ
پارلیمنٹ میں رپورٹ پیش کریں گے۔ اِس بل کے سیکشن تین کے مطابق کوئی بھی
شخص اگر بدنیتی کی بناء پر کسی ایس انفارمیشن یا ڈیٹا کو حاصل کرتا ہے جسے
حاصل کیے جانے کو اُسے اختیار نہ ہو تو اُسے تین ماہ قید یا پچاس ہزار روپے
تک جرمانہ یا دونوں سزائیں دی جاسکتی ہیں۔قانون کی طالب علم ہونے کے ناطے
یہ بات بہت اچھی ہے کہ کسی کو تنگ کرنے کا سلسلہ تھم سکے گا۔ لیکن بات پھر
وہی ہے کہ مسجد تو بنادی شب بھر میں ایماں کی حرارت والوں نے من اپنا
پُرانا پاپی ہے برسوں میں نمازی بن نہ سکا۔ مطلب یہ ہے کہ قانون تو پہلے
بھی بہت سے ہیں اصل معاملہ تو عمل درآمد کروانے کا ہے۔ تحقیقات کے لیے
عدالت کی اجازت کو ضروری قرار دے دیا گیا ہے۔ عدالتوں کے اندر جو کیسوں کی
بھر مار ہے اور جس طرح سے پراسیکیوشن کا عمل انتہائی سست ہے اِس سے کیا وہ
مقاصد حاصل ہو سکیں گے جن کے لیے یہ قانون بنایا گیا ہے۔پھر تحقیقاتی
ایجنسی کی جانب سے جو رکاوٹیں ہیں وہ کون دور کرئے گا۔ رشوت اور سفارش کا
کلچر ہمارئے ہاں عام ہے اِن حالات میں کیا مثبت نتائج حاصل ہو سکیں گے۔یہ
بات درست ہے کہ کسی کی پگڑی اچھالنے والی حرکتوں کا تدارک کیا گیا ہے اور
اسِ کے ساتھ ساتھ مذہبی معاملات میں مداخلت کے حوالے سے بھی یہ بات خوش
آئند ہے کہ ملک میں اِس طرح کے معاملات میں دخل اندازی کرنے والوں کو گرفت
میں لایا جائے گا۔ ملک دُشمن عناصر اور نبی پاکﷺ کی تو ہین اور اسلامی
شعائر کا مذاق اُڑانے والے بھی اب بچ نہیں سکیں گے۔اِس قانون کو کامیاب
بنانے کے لیے افسر شاہی کے روایتی ہھتکنڈوں سے بچنا ہو گا اور اِس حوالے سے
پہلے سے بدنام اداروں سے اِن جرائم کی تفتیش کروانے کی بجائے کوئی نئی فعال
اور تازہ دم اور تربیت یافتہ ایجنسی کا انتظام کرنا ہوگا۔فیس بُک ، ٹیوٹر
وغیر پر بیٹھ کر جو ایک دوسرئے کو گالیاں دینے کا سلسلہ ہے وہ یقینی طور پر
رُکے گا۔عدم برداشت کے عمل میں بھی کچھ کمی آئے گی۔ |