این اے 120میں کسی بھی قسم کا کوئی اپ سیٹ نظر نہیں آتا ۔
یہ راقم کی خواہش نہیں ہے بلکہ حقائق سے چشم پوشی کے مترادف ہوگا کہ لاہور
میں مریم نواز سے عوام الناس کی والہانہ محبت و عقیدت کو نظر انداز کیا
جائے۔ حلقہ این اے 120آجکل ہر ٹی وی ٹاک شو کی رونق ہے۔ جہاں سے مسلم لیگ ن
کی طرف سے بیگم کلثوم نواز، پی ٹی آئی کی طرف سے یاسمین راشد ، پیپلزپارٹی
کی طرف سے فیصل میر اور جماعت اسلامی کی طرف سے ضیاء الدین انصاری اکھاڑے
میں اتر چکے ہیں۔ جے یو آئی ف اور جمعیت علمائے پاکستان کے پیر اعجاز ہاشمی
نے مسلم لیگ ن جبکہ مسلم لیگ قائد اعظم اورطاہر القادری نے پی ٹی آئی کی
برملا حمایت کا اعلان کیا ہے۔این اے 120 لاہور 1985 سے مسلم لیگ ن کا گڑھ
رہا ہے۔1990 میں نواز شریف نے اسی حلقے سے پی ڈی اے کے امیدوار اور بزرگ
سیاست دان ائیر مارشل اصغر خان کو مات دی تھی۔2002 میں ن لیگ کے پرویز ملک
نے 33 ہزار 741 ووٹ لیکر پی پی پی کے الطاف قریشی کو شکست دی تھی۔2008 کے
انتخابات میں بیگم کلثوم نواز کے قریبی عزیز بلال یاسین نے 65 ہزار 946
ووٹوں سے پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما جہانگیر بدر کو شکست دی تھی۔ جہانگیر
بدر صرف 24 ہزار ووٹ حاصل کر سکے تھے۔2013کے انتخابات میں ڈاکٹر یاسمین
راشد نے52 ہزار 354 ووٹ حاصل کئے تھے، جبکہ ان کے مقابلے میں نواز شریف نے
91 ہزار 683 ووٹوں سے کامیابی حاصل کی۔ دوسری جانب، پی پی پی کے زبیر
کاردار نے 2605 اور جماعت اسلامی کے حافظ سلمان بٹ نے 953 ووٹ حاصل کیے تھے۔
حالیہ ضمنی دنگل ،جنرل الیکشن میں نااہل وزیر اعظم اور فیملی، شہاز شریف
اور پنجاب اور پھر پاکستان کی سیاست کا رخ متعین کرنے میں اہم کردار ادا
کرے گا۔ اس وقت بیگم کلثوم نواز کی بیٹی مریم نواز نہ صرف سرکاری مشینری کا
دھڑا دھڑ استعمال کر رہی ہیں بلکہ مسلم لیگ ن کے وزراء ، ایم این ایز ، ایم
پی ایزاور اداروں کے اثر ورسوخ کا بھی بھرپور فائدہ اٹھار رہی ہے۔ چشم کشا
حالات یہ ہیں کہ عوام الناس کا سمندر ہے جو لیگی ریلیوں کو کامیاب بنانے
اور بیگم کلثوم نواز کو جتوانے کے لیے سر توڑ کوششیں کر رہا ہے ۔ایک بات
روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ پاکستانی قوم مال و اسباب کی محبت میں اس قدر
گرفتار ہے کہ کسی بھی Caliberکاامیدوار ہو بس وہ پیسوں والا ہو، اسے ووٹ
دیتے ہیں ۔ اور ہاں! اس بار بھی ووٹ اسی کو ملے گا جس نے الیکشن کے دنوں
میں دن رات ایک کر کے گلیاں پکی کرائیں ، نوکریاں دلوائیں اور الیکشن جیتنے
کے لیے ہر قسم کے ہتھکنڈے استعمال کیے۔بدقسمتی سے عوا م اب بھی مادی سوچ پر
ووٹ دیں گے اور مسلم لیگ ن ہی ضمنی الیکشن جیتے گی ۔ لیکن یہ بات پی ٹی آئی
کے لیے کسی حیرانی کا باعث نہیں ہونی چاہیے کیوں کہ کے پی کے حکومت میں بھی
ضمنی انتخابات میں جیتنے کے لئے ناجائز ذرائع کااندھا دھند استعمال کرچکی
ہے۔ اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق اور پی ٹی آئی رہنما علیم خان کے درمیان
ضمنی اتخابات کے موقع پر معرکہ حق و باطل میں اطراف سے کروڑوں روپے بانٹے
گئے ۔
مسلم لیگ ن، پی ٹی آئی اور پی پی پی تینوں جماعتیں ہی اشرافیہ کی جماعتیں
ہیں ۔باالترتیب ترقیاتی کام اور اسلام پسندی ، انصاف اور ریاست مدینہ اور
روٹی کپڑا مکان کا نعرہ لگانے والی جماعتیں ہی اصلاعوام کا مقدر ہیں ۔
اسٹیبلشمنٹ چاہ کر بھی اگلے دو عشروں تک ان جماعتوں کے مدمقابل کسی کو کھڑا
نہیں کرسکتی اور نہ ہی ان کے متبادل میں کوئی تیسرا آپشن زیر غور لاسکتی
ہے۔ لہذا عوام نے اب خود فیصلہ کرنا ہے کہ ووٹ کا صحیح حقدار کون ہے ؟ جو
فرق نواز شریف اور یاسمین راشد کے ووٹوں میں پہلے تھا وہ شاید کچھ کم
ہوجائے، یعنی یاسمین کچھ اضافی ووٹ لے سکتی ہیں۔ یاسمین راشد زیادہ ووٹوں
سے ہاریں یا کم ووٹوں سے ہاریں وہ جنرل الیکشن میں اس معرکہ آرائی سے
پاکستان تحریک انصاف کو مستقبل میں کوئی سیاسی سپورٹ فراہم نہیں کر پائیں
گی۔
|