NA-120ن لیگ کی مضبوط انتخابی مہم! تحریک انصاف کیلئے پریشانی کا باعث

این اے120کا ضمنی الیکشن آج کل میڈیا کی شہ سرخی ہے اور 17ستمبر2017ء تک یہ عنوان بطور عنوان میڈیا کی شہ سرخی بنا رہے گا ۔این اے120کا میڈیا کی شہ سرخیوں میں جگہ پانے کا مقصد دراصل سابق وزیراعظم میاں محمد نوازشریف کی عدالت کی جانب سے نا اہلی ہے تاہم اس حلقے میں ہونے والے گزشتہ انتخابات کی تاریخ کچھ اس طرح سے ہے کہ اس حلقے سے مسلم لیگ(ن)،تحریک انصاف کے امیدواروں میں ہی مقابلہ ہوا تھا اگرچہ اس مقابلے کو کانٹے دار مقابلہ نہیں کہا جا سکتا کیونکہ ان انتخابات میں مسلم لیگ(ن) کے امیدوار میاں محمد نوازشریف نے91ہزار666ووٹ لئے تھے جبکہ تحریک انصاف کی امیدوار یاسمین راشد نے52ہزار321ووٹ لے کردوسری پوزیشن حاصل کی تھی تاہم میاں محمد نوازشریف نے بھاری اکثریت سے اس حلقے سے کامیابی حاصل کی تھی تاہم اگر اس حلقے میں ہونے والے حالیہ بلدیاتی انتخابات پر نظر دوڑائی جائے تو NA-120کا حلقہ22یونین کونسلوں پر مشتمل ہے گزشتہ ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں مسلم لیگ(ن) نے تمام یونین کونسلوں میں اپنے چیئرمین اور وائس چیئرمین منتخب کروائے جبکہ تحریک انصاف کے صرف12کونسلرز ان 22یونین کونسلوں میں منتخب ہو پائے یوں اگر دیکھا جائے تو بلدیاتی انتخابات میں تحریک انصاف رنر اپ کے طور پر ہی رہی اور مسلم لیگ(ن) نے عام انتخابات کے بعد بلدیاتی انتخابات میں بھی بھر پور کامیابی حاصل کی ۔

میاں محمد نوازشریف کی نا اہلی کے بعد 17ستمبر کو ہونیوالے انتخابات میں اس وقت متعدد امیدوار میدان میں نظر آرہے ہیں ان میں مسلم لیگ(ن)،تحریک انصاف ، جماعت اسلامی ،پیپلزپارٹی،ملی مسلم لیگ سمیت متعدد سیاسی جماعتوں نے اپنے امیدواروں کو میدان میں اتارا ہے تاہم یہ انتخابی مہم کے آخری ایام ہیں اور شاید کچھ سیاسی جماعتیں اپنے امیدواروں کو دستبردار کر کے تحریک انصاف یا مسلم لیگ(ن) کے پلڑے میں اپنا وزن ڈال کر اسکی جیت میں کردارادا کرنے کی کوشش کریں تاہم اس وقت مقابلہ مسلم لیگ(ن) اور تحریک انصاف کے درمیان ہی ہوتا نظر آرہا ہے پیپلز پارٹی کم بیک کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے اور اپنے ووٹرز تحریک انصاف سے واپس لانے کیلئے متحرک ہے جبکہ جماعت اسلامی بھی اس وقت اپنے تئیں انتخابات میں بھر پور کردار اداکر نے کی کوشش کر رہی ہے اور ایک منظم مہم چلانے میں کامیاب بھی نظر آتی ہے ۔

اس وقت اس حلقے میں ہونے والے انتخاب میں صرف حلقے کے ووٹر سپورٹر ہی نہیں بلکہ ملک بھر سے تمام سیاسی جماعتوں کے سپورٹرز موجود ہیں بڑے بڑے قد آور نام اس وقت وارڈ اور یونین کونسل کی حد تک انتخابی مہم میں کردار ادا کرتے نظر آرہے ہیں حالانکہ انتخابات کے بعد شاید ہی یہ کسی عام آدمی کو اپنے آفس میں ہی وقت دے پائیں مگر یہاں قیادت کی خوشنودی کیلئے انہیں یہ دن بھی دیکھنا پڑتے ہیں دوسری جانب سیاسی جماعتوں کے سپورٹران اس موقع کو غنیمت جانتے ہوئے سلفیاں لینے کی کوششوں میں مصروف ہیں تاکہ ان قد آور شخصیات کے ساتھ سلفیاں بنوا کر اپنا قد کاٹھ اونچا کر سکیں۔ن لیگ کی نسبت تحریک انصاف میں سلفیوں کو رواج عام ہے کارکن سلفیاں لیتے اور سیاسی ریکارڈ درست کرتے نظر آتے ہیں مگر انتخابی حلقے میں تحریک انصاف کے کارکنان کی کاکردگی کوئی متاثر کن نظر نہیں آتی جبکہ دوسری جانب ن لیگ کے کارکن دن رات ایک کئے ہوئے نظر آتے ہیں ۔ اس وقت حلقے میں بھر پور انتخابی مہم جاری ہے اور اب تو ووٹروں کے کوائف کی تفصیلات بھی بھر پور طریقے سے لکھے جا رہے ہیں تاکہ الیکشن سے ایک روز قبل تمام ووٹروں کو انکے کوائف گھر کی دہلیز پر پہنچا دیئے جائیں اور وہ اپنے بیلٹ کا استعمال کر سکیں ۔

اس وقت اگر انتخابی تیاریوں کی بات کی جائے تو مسلم لیگ(ن) کی جانب سے انتہائی کامیابی کے ساتھ الیکشن کے دن کے تمام انتظامات پایہ تکمیل تک پہنچائے جا چکے ہیں ہر یونین کونسل کے چیئرمین ،وائس چیئرمین ،کونسلرز کے ذمہ کام لگا دیئے گئے ہیں اور کوشش کی جائے گی کہ 17ستمبر کو صبح صادق پر ہی ووٹرز کو گھر سے پولنگ اسٹیشن تک پہنچایا جائے اورپولنگ بوتھ تک پہنچانے اور ووٹ حاصل کرنے کے بعد ہی کوئی اور کام کیا جائے۔دوسری جانب تحریک انصاف کی جانب سے بھی بھر پور تیاریاں کی گئی ہیں تاہم مسلم لیگ(ن)کی نسبت تحریک انصاف اس بار اس الیکشن میں زیادہ منظم دکھائی نہیں دیتی مسلم لیگ(ن) کے ضلعی ،صوبائی اور مرکزی عہدیداران نے جس طرح سے گلی گلی محلہ محلہ جا کر اس انتخابی مہم کو چلایا ہے تحریک انصاف اس انداز میں اس مہم کو نہیں چلا سکی اندرون ایں حالات کا تو اﷲ کو علم ہے کہ ووٹر کیا سوچتا ہے مگر بظاہر اس وقت تحریک انصاف مسلم لیگ(ن) سے انتخابی تیاریوں کے معاملے پر کوسوں دور ہے کیونکہ تحریک انصاف اس طرح سے ہر یونین کونسل میں اپنے انتخابی دفاتر کو بھی فعال نہیں کر سکی جس طرح مسلم لیگ(ن) کے دفاتر فعال ہیں ۔مسلم لیگ(ن) کی جانب سے مریم نواز،کیپٹن صفدر سمیت جس طرح منظم جلسے اور ریلیاں نکالی گئیں وہ اپنی مثال آپ ہیں مریم نواز کی جانب سے انتخابی مہم کاآغاز ہوتے ہی حلقے میں انتخابی مہم کا نقشہ ہی بدل گیا مریم نواز کی شب و روز محنت کے باعث اب مسلم لیگ(ن)کے ووٹ بینک پر بھی بہت بڑا فرق پڑے گا اور مسلم لیگ(ن) کو مزید ووٹ حاصل ہونے کا عندیہ دیا جا سکتا ہے ۔مسلم لیگ(ن) کی انتخابی مہم اور تحریک انصاف کی انتخابی مہم میں ایک فرق یہ بھی واضح ہے کہ مسلم لیگ(ن) کا کارکن اور سپورٹر وسیع انتخابی تجربہ رکھتا ہے وہ جوش کی نسبت ہوش سے کام لے رہا ہے جبکہ تحریک انصاف کے کارکن جوش میں ہی ا س مہم کو چلا رہے ہیں جو انہیں کامیابی سے روکنے میں فعال کردار کا حامل ہو سکتا ہے ۔

مسلم لیگ(ن) کی انتخابی مہم کی کامیابی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ تحریک انصاف کے قائد عمران خان کو حلقے میں اپنے امیدوار کی کمزور پوزیشن دیکھتے ہوئے خود نکلنا پڑا اور یوں عمران خان نے ایک بار جلسہ کیا جس میں انہیں کوئی خاص کامیابی حاصل نہ ہو سکی تو دوسری بار ’’داتار دربار حاضری ‘‘ ریلی نکال کر اس حلقے کے ووٹرز کو مزید متاثر کرنے کی کوشش کی تاہم ریلی بھی کوئی متاثر کن ثابت نہیں ہو سکی ۔اب انتخابات آخری مرحلے میں داخل ہو چکے ہیں اگر مسلم لیگ(ن) واقعی واضح برتری سے کامیابی حاصل کر لیتی ہے تو یقینا یہ تحریک انصاف کیلئے لمحہ فکریہ ہوگا کیونکہ ایک جانب نوازشریف کی نا اہلی تو دوسری جانب ن لیگ کی قیادت کا حلقے میں نہ ہونا اور ملک سے باہر مصروف رہنا یقینا یہ تحریک انصاف کیلئے اذیت ناک صورتحال ہوگی جو آئندہ عام انتخابات میں تحریک انصاف کی پوزیشن پر بہت زیادہ اثر اندازہوگی دوسری جانب مسلم لیگ (ن) کا اس معرکے میں سرخرو ہونا یقینا کارکنان اور مسلم لیگ(ن) کیلئے اچھا شگون ثابت ہوگا تاہم ابھی انتظار کرنا ہوگا کہ خاموش ووٹر کس کروٹ بیٹھتا ہے کیونکہ اس حلقے میں اہم کردار خاموش ووٹر کا ہی ہوگا کہ وہ کس کو ووٹ دے کر سرخرو کرتا ہے اس حلقے کے خاموش ووٹر کی چوائس ہی اس وقت اہم ہے ۔

Sardar Asghar Ali Abbasi
About the Author: Sardar Asghar Ali Abbasi Read More Articles by Sardar Asghar Ali Abbasi: 31 Articles with 24020 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.