تازیانہ

قوموں کی زندگی میں اصول وضوابط اور ادرش ہی کسی قوم کی ترقی، استحکام اور عروج میں بنیادی کردار ادا کرتے ہیں۔جب قومیں اپنے اصولوں سے صر فِ نظر کر تی ہیں تو انھیں زوال پذیری سے کو ئی نہیں بچا سکتا، روک نہیں سکتا اور اسکی تنزلی پر بندھ نہیں با ندھ سکتا۔ تنزلی ایسے بے رحم ریلے کی صورت اختیار کر جا تی ہے جس میں ہر چیز بہتی چلی جاتی ہے۔تخلیقِ پاکستان کے وقت قائدِ اعظمِ محمد علی جناح نے اتحاد تنظیم اور ایمان کا روح پرور، پر کشش اور خو بصورت نعرہ دیا تھا لیکن اس نعرے کا جو حشر پاکستانی قوم نے کیا وہ کسی سے پو شیدہ نہیں ہے۔ دنیا کی سب سے بڑی اسلام مملکت کو کمزور کرنے کے لئے سب سے پہلے اسے ۱۷۹۱ میں دو لخت کیا گیا اور پھر پاقی ماندہ پاکستان میں لو ٹ کھسوٹ کا وہ بازار گرم کیا گیا جو بیان سے با ہر ہے۔ ہر آنے والا دن پچھلے دن کی نسبت پاکستانی قوم کے لئے نئے مصائب لے کر نمو دار ہوا ۔ رشوت ستا نی، چور بازاری، منافقت، ملاوٹ، جھوٹ، دھو کہ دہی اور کرپشن موجود ہ معاشرے کا طرہِ امتیاز بنا ہوا ہے جس میں پوری کی پو ری قوم غرق ہو تی جارہی ہے اور اس سے نکلنے کی کو ئی راہ سجھا ئی نہیں دے رہی۔ ہماری اسی روش نے ہماری صلا حیتوں کو زنگ آلود کر کے ہمیں پسماندہ اقوام میں شامل کر رکھا ہے اور ہم سے وہ گوہرِ نایاب چھین لیا گیا ہے جسکی طاقت کا مظاہرہ ہم نے تحریکِ پاکستان کے دوران کیا تھا۔

تیرے محیط میں کہیں گوہرِ زندگی نہیں ۔ ڈھونڈ چکا میں موج موج دیکھ چکا صدف صدف
مثلِ کلیم ہو اگر معرکہ آزما کو ئی۔۔۔اب بھی درختِ طور سے آتی ہے بانگِ لا تخف (ڈا کٹر علامہ محمد اقبال)

پاکستان میں ارتکازِ دولت کی ہوس نے اصولوں اور ا در شو ں کو بھک سے ا ڑا دیا ہے اور ہر دل میں حصولِ دولت کا ایسا شعلہ روشن کر دیا ہے جس نے ساری اقدار کو جلا کر خا کستر بنا دیا ہے۔ دولت الہ کی مسند پر فائز ہو چکی ہے اور قوم اسکی پوجا میں پو ری شد و مد سے مشغول ہے۔ حقائق کے بارے میں میرا اندازِ بیان شا ئد کچھ لو گوں کو نا گوار گزرے لیکن نا گواری سے حقیقت تو نہیں بد ل سکتی۔ حقیقت تو یہی ہے کہ دولت الہ کا روپ اختیار کر چکی ہے جسکی پوجا ہر شخص کئے جا رہا ہے یہ سوچے بغیر کہ اس سے اسکی اپنی ذات پر کتنے منفی اثرات مرتب ہو ر ہے ہیں۔ دولت جب بھی الو ہیت کا روپ اختیار کر تی ہے معاشرہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جاتا ہے اور اسکی ساری معا شرتی قدریں دم توڑ جا تی ہیں ۔ انسان حلا ل و حرام جائز و نا جا ئز کی تمیز سے عاری ہو کر حصولِ دولت کی کوششوں میں جٹ جا تا ہے لیکن پھر بھی یہ تسلیم کر نے کو تیار نہیں ہو تا کہ دو لت کے حصول میں وہ انسا نی قدرو ں کا خون کر رہا ہے اور انسا نیت کو ایک ایسے پیکر میں بدل رہا ہے جسکی روح قتل ہو جاتی ہے اور وہ ایک زندہ لاش کی مانند باقی رہ جاتی ہے اگر ہم اصول پرست قوم رہتے ، سچا ئی ، برابری اور انصاف ہما را مطمعِ نظر رہتا تو آج ہم سر بلندی کے ایسے مقام پر فا ئز ہو تے جہاں پر قوامِ عالم را ہنما ئی کے لئے ہما ری جانب دیکھ رہی ہو تیں لیکن ایسا ہو نہیں سکا بلکہ ہماری حالت تو یہ ہے کہ ہم حصولِ اقتدار کے لئے با ہمی سر پھٹول اور رسہ کشی میں مصر وف ہیں اور ذاتی مفا دات کی خا طر ایک دوسرے کو نیچا دکھا نے میں جٹے ہو ئے ہیں جسنے پاکستان کی ترقی اسکی فلا ح اور اسکی بہبود کو بھولا بسرا خواب بنا دیا ہے۔

قائدِ اعظم نے کہا تھا کہ کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے لیکن آج وہی شہ رگ دشمن کے ہاتھ میں ہے اور ہم نے اس جانب سے آنکھیں بند کر رکھی ہیں۔ کشمیر ی پچھلے ۳۶ سالوں سے بھارتی ظلم و جبر کا مقابلہ کر رہے ہیں اور اپنے لہو سے حر یت و جا نبا زی کی نئی تاریخ رقم کر رہے ہیں۔ انکی نگا ہیں ہما ری جانب اٹھ رہی ہیں لیکن ہم تو اپنے اقتدار کی جنگ میں الجھے ہو ئے ہیں لہٰذا انکی دل جو ئی اور مدد سے معذور ہیں اور وہ ا کیلے آزادی کی شمع اٹھا ئے اپنے لہو سے حریت کی راہوں کو روشن کئے جا رہے ہیں۔ حالیہ دنوں میں کشمیریوں نے آزادی کی جنگ میں شدت پیدا کر کے انسا نی ضمیر کو جنجھوڑ دیا ہے ۔ انھوں نے بھارتی قید سے آزادی کا جو عزم کر رکھا ہے۔دنیا کی کو ئی طا قت انھیں آزادی کی اس نعمت سے محروم نہیں رکھ سکتی۔ انکی آزادی ایک ایسی سچا ئی ہے جس سے انسا نیت کے چہرے کو روشن ہو کر رہنا ہے ۔ سنگینوں کے سائے اس تحریک کو دبا نہیں سکتے کچل نہیں سکتے لیکن ہم ایک خا موش تما شا ئی بن کر سب کچھ دیکھ رہے ہیں ۔ ہاتھ میں کشکول ہو اور بھیک کی عادت پڑ جا ئے تو خودی مر جا تی ہے ، خوداری ہوا ہو جاتی ہے جرات عنقا ہو جاتی ہے سچا ئی کا خون ہو جاتا ہے اور اظہارِ خیال کی نعمت چھین لی جا تی ہے ۔ بھکا ریوں کا مقدر یہی ہوا کرتا ہے کہ ان سے شجا عت اور اظہار کی قوت سلب کر لی جا تی ہے ۔ بھکا ریوں کی آنکھوں کے سامنے سچائی کا خون ہو رہا ہوتا ہے لیکن انھیں جنبشِ لب کا ا ذ ن نہیں ہو تا لہذا وہ ساغر و مینا میں ہر شہ کو غرق کر کے ضمیر کے تازیا نوں سے خود کو بچا نے کے لئے خود فریبی میں پناہ ڈھونڈ لیتے ہیں لیکن موت ان کا تعا قب جا ری رکھتی ہے۔

تقدیر کے قاضی کا یہ فتوی ہے ازل سے۔۔ہے جرمِ ضعیفی کی سزا مرگِ مفا جات (ڈا کٹر علامہ محمد اقبال)

آج کل ا مریکی صدر بارک حسین ا بامہ بھارت کا سرکا ری دورہ کر رہے ہیں اور اپنے اس دورے کے دوران انھوں نے بھا رت کو سیکو رٹی کو نسل میں مستقل ممبر کی نشست دینے کا اعلان کیا ہے جس نے انصاف پسند حلقوں کو تشویش میں مبتلا کر دیا ہے۔ ساری دنیا کو علم ہے کہ بھارت پاکستان کے ساتھ پانی کے معاملے میں ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کر رہا ہے۔ سندھ طاس کے منصوبے پر عمل پیرا ہونے سے گریزاں ہے اور پاکستان کے دریا ﺅں پر بند باندھ کر اسکی معشیت کو تبا ہ و برباد کرنے اور اس کی زمینوں کو بنجر بنا نے کا مکرو ہ کھیل کھیل رہا ہے۔ سات لاکھ بے رحم اور سفاک بھارتی فوج کشمیر میں معصوم کشمیریوں کا خون کر رہی ہے اور اپنی بے رحم سنگینوں کی نوک پر کشمیریوں کی جراتوں کو للکار ر ہی ہے۔ کشمیر کی بیٹیو ں کی بے حر متی روزمرہ کا معمول ہے۔ نوجوانوں کو انکے والدین کے سامنے ذبح کر رہی ہے لیکن پھر بھی آزادی کی لہر کو دبا نا اور اسکے علم کو سرنگوں کرنا بھارتی افواج کے بس میں نہیں ہے کیو نکہ جب لوگ موت سے محبت کرنے اور اسے گلے لگا نے کا عزم کر لیں تو پھر انھیں غلامی کی زنجیر وں میں جکڑنا کسی کے بس میں نہیں ہو تا۔

۸۴۹۱ میں بھارت کے پہلے وزیرِ اعظم پنڈت جوا ہر لال نہرو نے سلامتی کو نسل کے سامنے اقرار کیا تھا کہ کشمیر کے مقدر کا فیصلہ کشمیریوں کی منشاء کے مطابق ہو گا۔ سلامتی کونسل کی قراردادیں آج بھا رت کی بے حسی کی داستان سنا رہی ہیں۔ بھارت نے اپنے عہد کو کبھی پورا نہیں کیا۔ سلامتی کونسل کی قرار دادوں سے بے اعتنائی بھارت کی ہٹ دھرمی کی کھلی مثا لیں ہیں بھارت سلامتی کونسل کی قرار دادوں کو ردی کے کاغذ سے زیادہ اہمیت نہیں دے رہا لیکن آج اسی وعدہ شکن بھارت کو امریکی صدر بارک حسین ابا مہ سلا متی کو نسل کا مستقل ممبر بنا نے کی نوید سنا رہا ہے ا گر یہ انصاف کا خون نہیں تو پھر کیا ہے کہ وہ بھارت جو سلا متی کو نسل کی قرار دادوں کی تذلیل میں کو ئی دقیقہ فر و گز اشت نہیں کرتا آج امریکی صدر اسی بھارت کو سلا متی کو نسل کا مستقل ممبر بنانے کا جھنڈا اٹھا ئے ہوئے ہیں ۔اس میں کسی کو کوئی شک و شبہ نہیں ہو نا چا ئیے کہ بھارت سلا متی کو نسل کا مستقل ممبر بن کر انصاف کا جسطرح خون کرے گا امن پسند قوموں کے وہم و گمان سے ماورا ہے۔ ھندو بنیے کی سفاکیت کو برِ صغیر پاک و ہند کے مسلمان ہی سمجھ سکتے ہیں باقی اقوام خوش فہمی میں مبتلا ہیں۔

امتِ مسلمہ کو یکجا ہو کر بھارت کی اس مکروہ چال کو بے نقاب کرنا ہو گا اور اسکا اصلی چہرہ دنیا کو دکھا نا ہو گا اسلامی مما لک اقوامِ متحدہ کا تقریباً ¾ تیس فیصد ہیں لہذا انکی مرضی کے بغیر بھارت کا مستقل ممبر بننے کا خواب کبھی پو را نہیں ہو سکتا لہٰذا انھیں متحد ہو کر بھارت کے اس خواب کو چکنا چور کرنا ہو گا کیو نکہ اسکا مستقل ممبر بننا اسلامی دنیا کے خلاف ایک گہری سازش ہے ۔بھارت اسرا ئیل اور امریکہ کا ایک نیا اتحاد وجود میں آرہا ہے جسکا واحد مقصد مسلمانو ں کو نیست و نا بو د کرنا ہے یہ اتحاد مسلما نوں کی ترقی، استحکام اور خوشحا لی کے خلاف ہے لہٰذا اس سازش کو ہر حال میں نا کام بنانا ہو گا کیو نکہ اسی میں اسلا می دنیا کی بقا کا راز مضمر ہے۔

ا مریکہ انسانی حقوق کا علمبردار ہے جمہو ری قدروں کی پاسداری کا دعو ی دار ہے آئین و قانون کی حکمرانی کا پر چا رک ہے کیونکہ اسکا ا پنا ریا ستی ڈھا نچی انہی اصو لوں پر قائم ہے۔ بارک حسین ابا مہ ایک سیا ہ فام صدر ہیں جو قصرِ صدارت تک جمہوری قوت کے بل بو تے پر پہنچے ہیں یہ جمہو ریت کا کمال ہی تو ہے جس نے بارک حسین ابا میہ جیسے شخص کو امریکی صدارت پر فا ئز کیا ہے لیکن مقامِ حیرت ہے کہ وہی بارک حسین ابامہ ایک ایسے ملک کو سلا متی کو نسل کا مستقل ممبر بنا نے کا اعلان کر رہا ہے جو امن پسند کشمیریوں کا قاتل ہے ، وعدہ شکنی میں طاق ہے اور جمہو ری روایات کو اپنے پا ﺅں تلے روندھ رہا ہے۔صدرِ امریکہ کو اپنے فیصلے پر نظر ثا نی کرنی چا ہئیے کیو نکہ سلامتی کو نسل کی قراردادوں کی خلاف ورزی کرنے کی وجہ سے بھارت سلامتی کو نسل کا مستقل ممبر بننے کا اہل نہیں ہے۔امریکہ میں تو کسی شخص کو وزیر بنانے کےلئے سینٹ کی ایک سٹینڈ نگ کمیٹی بنی ہو ئی ہے اور جب تک وہ کمیٹی مطلوبہ شخص کو کلیرنس نہیں دیتی وہ وزارت کا قلمدان نہیں سنبھال سکتا لیکن یہاں تو ایک ایسے ملک کو سلامتی کونسل کا مستقل ممبر بنا نے کی کوششیں کی جا رہی ہیں جسکا ماضی بڑا داغدار ہے لہذا بھارت کو سلامتی کو نسل کا ممبر بنا نے سے قبل اس کی کرتوتوں کی چھان پھٹک ضروری ہے کیو نکہ بھارت اپنی غیر انسانی حرکات کی وجہ سے کسی بھی پہلو سے مستقل ممبر کے عزاز کا مستحق نہیں ہے۔

امریکہ میں ایک ایسا مجسمہ (لبرٹی سٹیچو ) ہے جو امریکہ کی جنگِ آزادی کی یاد گار ہے اور انسانی حقوق کی علمبر دار ی کی علامت ہے۔ میری صدرِ امریکہ بارک حسین ابامہ سے التماس ہے کہ جب وہ امریکہ واپس لو ٹیں تو ایک دن آزادی کے اس مجسمے کے سامنے کھڑے ہو کر اس سے ہمکلام ہونے کی کوشش کریں ۔ مجھے یقینِ کا مل ہے کہ جب وہ ایسا کریں گے تو وہ آزادی کے اس مجسمے کو پژمردہ پائینگے اسکی آنکھیں آنسوؤں سے تر دیکھیں گے مجسمے سے درد بھری سسلکیوں کی آوازیں سنیں گے ۔ مجسمہ رو رو کر د ہا ئی دے رہا ہو گا کہ اے صدرِ امریکہ آپ نے ایک ایسے ملک کو جسکے ہاتھ بے گنا ہوں کے خون سے رنگے ہو ئے ہیں اسے سلامتی کو نسل کا مستقل ممبر بنا نے کا اعلان کر کے آزادی کی علامت (لبرٹی سٹیچو ) کی تذلیل کی ہے۔ کاش آپ کو کو ئی سمجھا پا تا کہ بھارت سلامتی کونسل کا مستقل ممبر بننے کا اہل نہیں ہے کیو نکہ وہ انسانی حقوق، امن پسند شہریوں ، معصوم اور نہتے کشمیریوں کا قاتل ہے۔ وہ ایک ایسا ملک ہے جس نے سلامتی کونسل کی قراردادوں کو اپنے جوتے کی نوک پر رکھا ہوا ہے جو سلامتی کونسل کی قراردادوں اور اتھا رٹی کا منکر ہے لیکن آپ ہیں کہ اس پر وارے نیا رے ہو کر اسے سلا متی کو نسل کا مستقل ممبر بنا نے کی مہم زورو شور سے چلا ر ہے ہیں جو انسانی حقوق کے علمبرداروں کے لئے کسی تاز یا نے اور سزا سے کم نہیں ۔۔
Tariq Hussain Butt
About the Author: Tariq Hussain Butt Read More Articles by Tariq Hussain Butt: 629 Articles with 515930 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.