صغیر احمد میرا ہمسایہ ہے، میں بھی چونکہ ’’خانہ
بدوش‘‘ قبیلے سے تعلق رکھتا ہوں، اس لئے جس گلی میں پچھلے آٹھ ماہ سے میری
رہائش ہے، دو گھر چھوڑ کر صغیر کا گھر ہے، بس کبھی گلی میں اتفاقیہ ملاقات
ہو جاتی ہے، پرانا تعارف نہیں تھا، یہ ہمسائیگی ہی وجہ تعارف بنی۔ معاملہ
گلی کی ملاقاتوں تک ہی محدود تھا، گزشتہ روز شام کے وقت گھنٹی بجی، دیکھا
تو باہر صغیر تھا۔ میں نے بھی موقع مناسب جانا کہ سلام دعا کا دائرہ کچھ
وسیع ہونا چاہیے۔ حال احوال کے دوران ہی میں نے محسوس کیا کہ وہ گپ شپ کے
موڈ میں نہیں، بلکہ اس کے چہرے کی ہوائیاں اڑی ہوئی تھیں، کرب اس کی پیشانی
سے عیاں تھا اور اس کی آنکھیں چڑھی ہوئی تھیں، گویا اس کے خون کی گردش بھی
ضرورت سے زیادہ تھی۔ جلد ہی وہ اپنی بات زبان پر لے آیا، میرے کسی سوال سے
قبل ہی اس نے اپنی ترتیب سے مجھے کہانی سنانا شروع کردی۔ ’’․․․ میں دل کے
خوش رکھنے کو خود کو ایک درمیانے درجے کے خاندان کا فرد قرار دیتا رہا، گھر
والوں نے میری تعلیم کا بھی مناسب خیال رکھا جس سے میں ایم اے کرنے میں
کامیاب ہوگیا، دودہائی قبل ایسی تعلیم کے بارے میں کم از کم یہ خوش فہمی تو
ضرور ہوا کرتی تھی کہ ملازمت مل ہی جائے گی۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد میرا
یہ خواب وقت کی دھول کے نیچے دبتا چلا گیا، دھکے دھوڑے کھانے کے بعد آخر
کار ایک چھوٹا سا کاروبار شروع کر لیا۔
کاروبار چلتا رہا، جس سے گھر بھی چلتا رہا، اگر کاروبار میں کچھ اضافہ ہوا
تو اس سے اپنی حالت کو بھی کچھ بہتر ہوتی چلی گئی، مگر اتنے عرصے میں بچت
کی ایسی کہانی نہ بنی کہ اپنے گھر کے بارے میں سوچتا۔ کبھی چند ہزار بچت ہو
بھی جاتی تو نتیجہ یہ ہوتا کہ کبھی واپڈا کا ہزاروں کا بل آجاتا ، کبھی
کوئی بیماری حملہ آور ہو جاتی، کبھی کوئی کاروباری اونچ نیچ آجاتی اور کبھی
کوئی اور مسئلہ کھڑا ہوجاتا۔ میری دونوں اہم ضرورتیں (کاروباری مقام اور
گھر) کرائے پر ہیں،جن میں سے گھر کے تبدیل ہونے سے تو خاص فرق نہیں پڑتا،
مگر کاروباری مرکز کا تبدیل کرنا آسان کام نہیں، بعض اوقات پوری ساکھ داؤ
پر لگ جاتی ہے، اس تبدیلی سے بسا اوقات کاروبار مکمل طور پر فیل بھی ہو
جایا کرتے ہیں۔ یوں سلسلہ چلتا رہا،کبھی خوشحالی تو کبھی دباؤ ، ’اِدھر
ڈوبے اُدھر نکلے، اُدھر ڈوبے اِدھر نکلے‘ کی صورت۔ کاروبار شروع کرنے کے
تین چار سال بعد سے انکم ٹیکس کے شکنجے میں آگیا، اگر میری آمدنی اتنی نہیں
تھی کہ میرے پاس اتنا مال ہوتا کہ میں اس میں سے ٹیکس دیتا، مگریہ محکمہ جس
کی گردن پر اپنا شکنجہ کس لیتا ہے، اس کی جان خلاصی ممکن نہیں رہتی، چنانچہ
میں ہر سال انکم ٹیکس کے گوشوارے جمع کرواتا رہا، گوشوارے بھرنے والا اپنے
فن کی مہارت کے ذریعے گوشوارے بھرتا، بینک سٹیٹ منٹ اور موبائل وغیرہ سے
بھی کچھ انکم ٹیکس نچوڑتا اور گوشوارے پر پڑنے والا بوجھ ہلکا کرتارہا۔
پہلے سے ادا شدہ ٹیکس کے علاوہ کچھ رقم کا چالان بنایا جاتا اور ٹیکس جمع
ہو جاتا۔
پچھلے ماہ مجھے قریبی شادی کے لئے کراچی جانا پڑا، پیچھے سے انکم ٹیکس کا
ایک خط آیا جو مجھ تک بر وقت نہ پہنچ سکا، یہ دراصل دو برس قبل انکم ٹیکس
کے گوشواروں کا انکم ٹیکس آڈٹ تھا، بروقت جواب نہ دینے کی پاداش میں دوسرا
خط آیا، جس میں میری اوقات سے بہت بڑھ کر جرمانہ تھا، میرے ہاتھ پاؤں پھول
گئے، بھاگم بھاگ گوشوارے جمع کروانے والے صاحب کے پاس پہنچا، انہوں نے
دوسرے گھر کی راہ دکھاتے ہوئے کہا یہ معاملہ میرے بس میں نہیں، اب ایک دفتر
میں گیا ، جنہوں نے پندرہ ہزار تک فیس بتائی، اور ساتھ ہی یہ خبر بھی دی کہ
’’آگے‘‘ بھی خرچہ ہوگا۔ کاغذات تیار کئے گئے، پیشی پڑی، ’’فیصلہ‘‘ آگیا،
بیس ہزار ’’آگے‘‘ دینے کی خبر ملی، جب یہ پینتیس ہزار ادا ہوگئے ، تو معلوم
ہوا کہ فیصلے کے مطابق ایک عدد چالان ملے گا، جس کے ذریعے دس ہزار روپے
قومی خزانے میں جمع کرانے ہوں گے․․‘‘۔ صغیر کی کہانی ختم ہوئی تو اس کی
آنکھوں میں آنسو نہیں، انگارے تھے، مگر وہ مکمل طور پر بے بس تھا، اس کے
پاس اتنے پیسے نہیں تھے، اس نے اپنے موبائل سے مجھے ’’نیب‘‘ کا پیغام
دکھایا، جس پر لکھا تھا ، Say No to corruption۔ وہ ہاتھ بھینچتا، دانت
پیستا ، کھولتے خون کے ساتھ مجھ سے رخصت ہوگیا، میں ایسے محکموں کی بے حسی
، منافقت اورظلم وستم پر سوچتا رہ گیا۔ |